کسی کے ساتھ رہو، دل میں ہو مکیں کوئی اور
عذاب ایسا کسی روح پر نہیں، کوئی اور
تجھے ہی بانہوں میں بھر کر تجھی کو ڈھونڈتا ہوں
کہاں ملے گا بھلا مجھ سا بے یقیں کوئی اور
خبر تو تھی، کوئی مجھ میں مرے سِوا ہے سو اب
نظر بھی آنے لگا ہے کہیں کہیں، کوئی اور
کوئی جو ایسا رسیلا سخن بھی کرتا ہو
مری نظر میں تو ایسا نہیں حسیں کوئی اور
اسی سے عشق حرارت کشید کرتا ہے
نہیں ہے تجھ سا کہیں لمسِ آتشیں کوئی اور
سنبھال رکھو یہ تم اپنے سب عذاب و ثواب
تمہارا اور ہے مذہب، ہمارا دیں کوئی اور
ہے کچھ تو مجھ میں جو ہے سخت نادرست میاں
کہ ایک چپ ہو تو ہوتا ہے نکتہ چیں کوئی اور
سبھی سے پوچھ چکا تو سمجھ میں آئی یہ بات
کہ مجھ پہ کھولے گا یہ رمزِ آخریں کوئی اور
جو دیکھتا تھا اُسے رنگ کی سمجھ ہی نہ تھی
سو زخم ڈھونڈ رہے ہیں تماش بیں کوئی اور
انیس و غالب و اقبال سب مجھے ہیں پسند
یہ بات سچ ہے مگر، میر سا نہیں کوئی اور
خدا کرے کہ مری آنکھ جب کھلے عرفان
تو آسمان کوئی اور ہو، زمیں کوئی اور
عرفان ستار