ٹیگ کے محفوظات: آتشیں

عذاب ایسا کسی روح پر نہیں، کوئی اور

کسی کے ساتھ رہو، دل میں ہو مکیں کوئی اور
عذاب ایسا کسی روح پر نہیں، کوئی اور
تجھے ہی بانہوں میں بھر کر تجھی کو ڈھونڈتا ہوں
کہاں ملے گا بھلا مجھ سا بے یقیں کوئی اور
خبر تو تھی، کوئی مجھ میں مرے سِوا ہے سو اب
نظر بھی آنے لگا ہے کہیں کہیں، کوئی اور
کوئی جو ایسا رسیلا سخن بھی کرتا ہو
مری نظر میں تو ایسا نہیں حسیں کوئی اور
اسی سے عشق حرارت کشید کرتا ہے
نہیں ہے تجھ سا کہیں لمسِ آتشیں کوئی اور
سنبھال رکھو یہ تم اپنے سب عذاب و ثواب
تمہارا اور ہے مذہب، ہمارا دیں کوئی اور
ہے کچھ تو مجھ میں جو ہے سخت نادرست میاں
کہ ایک چپ ہو تو ہوتا ہے نکتہ چیں کوئی اور
سبھی سے پوچھ چکا تو سمجھ میں آئی یہ بات
کہ مجھ پہ کھولے گا یہ رمزِ آخریں کوئی اور
جو دیکھتا تھا اُسے رنگ کی سمجھ ہی نہ تھی
سو زخم ڈھونڈ رہے ہیں تماش بیں کوئی اور
انیس و غالب و اقبال سب مجھے ہیں پسند
یہ بات سچ ہے مگر، میر سا نہیں کوئی اور
خدا کرے کہ مری آنکھ جب کھلے عرفان
تو آسمان کوئی اور ہو، زمیں کوئی اور
عرفان ستار

تھاموں قلم تو سادہ ورق بھی حسیں لگے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
ہر حرف تُجھ بدن کا نظر کے قریں لگے
تھاموں قلم تو سادہ ورق بھی حسیں لگے
آتا ہو چھُو کے جیسے ترے ہی جمال کو
اب کے تو ہر خیال مجھے شبنمیں لگے
چھایا ہے وُہ خمار تری صبحِ یاد کا
جو موجۂ صبا ہے مے و انگبیں لگے
شعلے تمام اس میں تری دید ہی کے ہیں
میری نگاہ کیوں نہ بھلا آتشیں لگے
انوار اور بھی تو پہنچ میں ہیں اب مری
کیوں کریہ ایک چاند ہی تیری جبیں لگے
میرے لُہو کا حسُن بھی جھلکے بہ حرف و صوت
ہاں اپنے ہاتھ تُجھ سا اگر نازنیں لگے
خوشبُو ہے اس میں رنگ ہیں، ندرت ہے تہ بہ تہ
ماجدؔ کا شعر تیرے بدن کی زمیں لگے
ماجد صدیقی

چھب جو بھی ہے اُس کی آتشیں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
زہر اب ہے، مے ہے، انگبیں ہے
چھب جو بھی ہے اُس کی آتشیں ہے
انوار ہی پھُوٹتے ہیں اُس سے
زرخیز بڑی وُہ سرزمیں ہے
جو ناز کرے اُسے روا ہے
وُہ شوخ ہے، شنگ ہے، حسیں ہے
ہالہ ہے کہ اُس کا ہے گریباں
مطلع ہے کہ اُس کی آستیں ہے
کیا ذکر ہو اُس کے آستاں کا
جو لطف ہے جانئے وہیں ہے
نسبت ہے یہی اب اُس سے اپنی
ہم خاتمِ چشم، وہ نگیں ہے
حرفوں سے جو منعکس ہے ماجدؔ
یہ بھی تو جمالِ ہم نشیں ہے
ماجد صدیقی

شمع ساں مجبورِ خوئے آتشیں تو کب نہ تھا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 22
آج ہی کیا آگ ہے، سرگرمِ کیں تو کب نہ تھا
شمع ساں مجبورِ خوئے آتشیں تو کب نہ تھا
آج ہی دعویٰ ہے کیا تجھ کو بتانِ دہر سے
غیرتِ غلمان و رشکِ حورِ عیں تو کب نہ تھا
آج ہی ہر بات پر بے وجہ کیا رکتا ہے تو
اے ستم گر! برسرِ پرخاش و کیں تو کب نہ تھا
آج ہی تیری جگہ کچھ سینہ و دل میں نہیں
مثلِ تیرِ غمزہ ظالم! دل نشیں تو کب نہ تھا
آج ہی کیا شرم و شوخی کو ملایا ہے بہم
غیر سے بے باک، مجھ سے شرمگیں تو کب نہ تھا
آج ہی کیا ہے فلک پر شکوۂ فریادِ خلق
اے ستم گر! آفتِ روئے زمیں تو کب نہ تھا
آج ہی کیا دشمنوں سے قتل کی تدبیر ہے
اے جفا جو! در پئے جانِ حزیں تو کب نہ تھا
آج ہی باتیں بنانی یاں کے آنے میں نہیں
حیلہ گر تو کب نہ تھا، عذر آفریں تو کب نہ تھا
آج ہی اٹھ کر یہاں سے کیا عدو کے گھر گیا
مہر وش شب کو کہیں، دن کو کہیں تو کب نہ تھا
آج ہی ٹیکہ لگانے سے لگے کیا چار چاند
بے تکلف، بے تکلف مہ جبیں تو کب نہ تھا
آج ہی کچھ سوزِ ہجراں سے نہیں پروانہ وار
شیفتہ بے تابِ روئے آتشیں تو کب نہ تھا
مصطفٰی خان شیفتہ

آشنا شکل ہر حسیں کی ہے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 36
تیری صورت جو دلنشیں کی ہے
آشنا شکل ہر حسیں کی ہے
حسن سے دل لگا کے ہستی کی
ہرگھڑی ہم نے آتشیں کی ہے
صبحِ گل ہو کہ شامِ مے خانہ
مدح اس روئے نازنیں کی ہے
شیخ سے بے ہراس ملتے ہیں
ہم نے توبہ ابھی نہیں کی ہے
ذکر دوزخ، بیانِ حور و قصور
بات گویا یہیں کہیں کی ہے
اشک تو کچھ بھی رنگ لا نہ سکے
خوں سے تر آج آستیں کی ہے
کیسے مانیں حرم کے سہل پسند
رسم جو عاشقوں کے دیں کی ہے
فیض اوجِ خیال سے ہم نے
آسماں سندھ کی زمیں کی ہے
فیض احمد فیض