ٹیگ کے محفوظات: آبشار

اگر ہو اہلِ نگاہ یارو‘ چٹان کے آرپار دیکھو

ملا نہیں اِذنِ رقص جن کو‘ کبھی تو وہ بھی شرار دیکھو
اگر ہو اہلِ نگاہ یارو‘ چٹان کے آرپار دیکھو
یہ جان لینا‘ وہاں بھی کوئی کسی کی آمد کا منتظر تھا
کسی مکاں کے جو بام و در پر بجھے دِیوں کی قطار دیکھو
اگرچہ بے خانماں ہیں لیکن ہمارا ملنا نہیں ہے مشکل
ادھر ہی صحرا میں دوڑ پڑنا‘ جدھر سے اٹھتا غبار دیکھو
عجب نہیں ہے پہاڑیوں پر شَفَق کا سونا پگھل رہا ہو
مکانِ تیرہ کے رَوزنوں میں یہ نور کے آبشار دیکھو
جو اَبرِ رحمت سے ہو نہ پایا‘ کیا ہے وہ کام آندھیوں نے
نہیں ہے خار و گیاہ باقی‘ چمک اُٹھا رہ گزار‘ دیکھو
وہ راگ خاموش ہو چکا ہے‘ سنانے والا بھی سوچکا ہے
لرز رہے ہیں مگر ابھی تک شکستہ بَربط کے تار‘ دیکھو
اک آہ بھرنا شکیبؔ‘ ہم سے خزاں نصیبوں کو یاد کر کے
کلائیوں میں جو ٹہنیوں کی‘ مہکتی کلیوں کے ہار دیکھو
شکیب جلالی

پستی سے ہم کنار ملے کوہ سار بھی

آیا ہے ہر چڑھائی کے بعد اک اُتار بھی
پستی سے ہم کنار ملے کوہ سار بھی
آخر کو تھک کے بیٹھ گئی اِک مقام پر
کچھ دور میرے ساتھ چلی رہ گزار بھی
دل کیوں دھڑکنے لگتا ہے ابھرے جو کوئی چاپ
اب تو نہیں کسی کا مجھے انتظار بھی
جب بھی سُکوتِ شام میں آیا ترا خیال
کچھ دیر کو ٹھہر سا گیا آبشار بھی
کچھ ہو گیا ہے دھوپ سے خاکستری بدن
کچھ جم گیا ہے راہ کا مجھ پر غبار بھی
اس فاصلوں کے دشت میں رہبر وہی بنے
جس کی نگاہ دیکھ لے صدیوں کے پار بھی
اے دوست‘ پہلے قرب کا نشّہ عجیب تھا
میں سُن سکا نہ اپنے بدن کی پکار بھی
رستہ بھی واپسی کا کہیں بن میں کھو گیا
اوجھل ہوئی نگاہ سے ہرنوں کی ڈار بھی
کیوں رو رہے ہو راہ کے اندھے چراغ کو!
کیا بجھ گیا ہوا سے لہو کا شرار بھی؟
کچھ عقل بھی ہے باعثِ توقیر‘ اے شکیبؔ
کچھ آ گئے ہیں بالوں میں چاندی کے تار بھی
شکیب جلالی

چاند بھی دل پہ اپنے، بار لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
غیر جب سے وُہ اپنا یار لگا
چاند بھی دل پہ اپنے، بار لگا
کھو گیا آنکھ سے دھنک جیسا
جو بھی ماحول، سازگار لگا
بڑھتی دیکھی جو رحمتِ یزداں
ابر بھی مجھ کو، آبشار لگا
کر کے وا چشمِ اِنبساط مری
آشنا، پھر نہ وُہ نگار لگا
آنکھ جب سے کھُلی،دل و جاں پر
شش جہت جبر کا حصار لگا
تھا جو ماجدؔ پسِ نگاہ تری
بھید سب پر وُہ، آشکار لگا
ماجد صدیقی

رنگِ رخسار کی پھوہار گری

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 21
صبح پھوٹی تو آسماں پہ ترے
رنگِ رخسار کی پھوہار گری
رات چھائی تو روئے عالم پر
تیری زلفوں کی آبشار گری
قطعہ
فیض احمد فیض