رات خواب میں دیکھا
لاش اک اٹھائے میں
جا رہا تھا دنیا سے
اور اس کے سینے پر
تشنہ سی، ادھوری سی
ایک نظم لکھی تھی
رات خواب میں دیکھا
لاش اک اٹھائے میں
جا رہا تھا دنیا سے
اور اس کے سینے پر
تشنہ سی، ادھوری سی
ایک نظم لکھی تھی
میرے پہلو سے درد لپٹے ہیں
اور مری روح ہے بہ نوک خار
جس طرف جاؤں روک لے مجھ کو
ایک بے در، مہیب سی دیوار
دِل کے صحرا سے کر گئے ہجرت
خواب کے سب پرند افق کے پار
دِل کے ارمان ہیں سبھی گھائل
جاں بہ لب ہیں جو تشنۂ اظہار
’’اے شہنشاہِ آسماں اورنگ
اے جہاندارِ آفتاب آثار‘‘
تیری آزاد ان فضاؤں میں
گھٹ گئی روح خون میں ہے فشار
اے شہنشاہ، بانیِ تقدیر
اے جہاندار، مالک و مختار
گر تری ہو رضا جو تو چاہے
جلتے صحراؤں میں کھلیں گلزار
ہو نگاہِ کرم ادھر بھی ایک
ہو عطا مجھ کو ایک تختۂ دار
میں غرقِ مئے خواب رہا اور کئی غم
پلتے رہے آنگن میں پنپتے رہے پیہم
خواہش تھی اجالوں کی مگر تلخیِ حالات
دامن میں اتر آئی فقط رات! فقط رات
پروردۂ آغوشِ گماں ایک یقیں ہے
دنیا مرے ہر خواب کی دنیا میں کہیں ہے
بھٹک چکا ہوں میں رستے سے بےخیالی میں
غزال جیسے کسی دشتِ خشک سالی میں
میں رہ کی دھول ہوں بس ٹھوکریں ہیں قسمت میں
مرے چمن میں خزاں کی رتیں ہیں قسمت میں
کٹھن سفر ہے تو تشنہ مری امیدیں ہیں
بس ایک سر ہے مقابل کئی چٹانیں ہیں
بھٹک چکا ہوں مرا ہر قدم ہے بے معنی
مجھ ایسے رند پہ تیرا کرم ہے بے معنی
اس اپنے سائے کو مجھ پر سمٹنے سے روکو
ہُما!۔۔۔ مجھے نہ تمنا کی آنکھ سے دیکھو
بس ایک نقطہ
بس ایک محور
بس ایک گردِش
غُلام پیکر،
اُداس عالم میں شش جہت پر محیط دھڑکن
بس ایک مرکز
اور ایک مرکز گُریز قوّت۔۔۔۔۔
غُلام گردش کبھی جو چھوٹے
حصارِ خواہش کبھی جو ٹُوٹے
تلاشِ منزل جو پر سمیٹے
تو سائے محور کے بڑھتے بڑھتے
نئے سرابوں کو ڈھونڈتے ہیں
وہ دیکھتے ہیں
اک اور گردش۔۔۔۔۔
اک اور مرکز۔۔۔۔۔
پھر ایک مرکز گریز قو ت
دیکھ اے دِل!
زندگی کے آئینہ خانے میں جتنے عکس ہیں
سب ہی محو رقص ہیں!
اور تو مایوسیوں کے بحر میں کیوں غرق ہے
دیکھ اے دِل!
چرخِ نیلی فام پر یہ رقص کرتی بدلیاں
کتنے ارمانوں کا رس چھلکا رہی ہیں
ٹولیاں چڑیوں کی اڑتی آ رہی ہیں
دور تک کوہِ تمنا پر ہرے اشجار ہیں
اور تجھ کو کس قدر آزار ہیں
بول اے نخچیرِ ظلمت!!
ہر طرف ہی نور ہے
تو بکھرتی روشنی سے دور ہے!
کس قدر مجبور ہے!!
ابھی ابھی جو دھواں سا فضا میں بکھرا ہے
ابھی ابھی جو صدائیں اٹھی ہیں ماتم کی
جلی ہے کیا کوئی خواہش، کوئی خیال جلا
کسی کے لب پہ نہ پہنچا، کوئی سوال جلا
نجانے کتنی تمنائیں جل کے زندہ ہیں
بدل کے جسم ہواؤں میں ڈھل کے زندہ ہیں
ان گنت بار ایسا ہوا
درد کا کوئی جھونکا مجھے اپنے قدموں کی جاگیر سے
عاق سا کر گیا
گرتے گرتے مجھے اک حسیں لمس نے اپنے ہاتھوں میں لے کر
بڑے پیار سے
تھام کر
چوم کر
اپنی آغوش میں لے لیا
تمھارا کہنا تھا
یوں نہ ہو گا
کہ تم بھی آخر سبھی کے مانند اسی روش پر نکل پڑو گے
کہ جس پہ چلتے تمام دنیا کی عمر بیتی
جو اک ندی تھی
وہ ایک دریا میں ضم ہوئی ہے
تمھاری پہچان گُم گئی ہے
تمھارا کہنا تھا
تم ہو خوشبو!
اِک ایسی خوشبو جو تا قیامت ہوا کے کندھوں پہ
اور انا کے گھنے گھنیرے سے گلستانوں میں ہی رہے گی
کہو ناں!
تم ہی تو کہہ رہے تھے
کہ کوئی سمجھوتا تم کبھی بھی نہیں کرو گے!
مگر ہوا کے بس اِک تھپیڑے سے
اور زمانے کے اِک طمانچے سے تھک گئے ہو!
تم اپنی محفل سے آخرِ شب سرک گئے ہو!
نئے مکاں کی حدود بندی قبول کر لو!
میں کب جانتا تھا کہ ساعت کی دھڑکن اٹل ہے،
یہ لمحہ ابھی جو گزرنے کو ہے
جانے کب کا گزر بھی چکا اور،
گزر بھی رہا ہے
نجانے یہ کتنے زمانوں میں جا کر کہیں ختم ہو گا۔۔
خبر کیا کہ لمحوں کی یہ آبشار،
آبشارِ بقا ہے،
فنا ہے، کہ کیا ہے؟
یہ لمحہ جو جانے کہاں سے مرے قدموں میں آ پڑا ہے
مجھے کیا خبر اس کے پاتال میں کیا گڑا ہے
خبر کیا یہیں سے مجھے خود تلک آ پہنچنے کا رستہ ملے؟
فضا میں گرد ہے اور آسماں پر زرد چادر ہے
صدا اندر صدا اِک خوف بستا ہے
تخیّل در تخیّل سہم سے سمٹی ہوئی سوچیں
حرارت کا حوالہ ڈھونڈنے کو ہر شکم کی آگ رقصاں ہے
سمندر سے اٹھے طوفان ساحل بستیوں کو کھا رہے ہیں
ہوا کے سنسنانے کی صدا کا ساز بھی نوحے سنانے لگ پڑا ہے
ہوس اور حرص کی بڑھتی نمی نے ہر نِجَس پیکر نفس کو
جو یہ زنگ آلود سا اِک رنگ بخشا ہے
وہ ہر چہرے سے ظاہر ہے!
مرے پنچھی!
تمھارے ان پروں پر یہ سفیدی دودھ جیسی ہے
اسے میلا نہ ہونے دو!
کہیں خوشبوؤں میں بستے گلابی گلستاں کی راہ کو جاؤ
خدا کے دہر کو دیکھو!
نہ تم اس شہر کو دیکھو!
یہ ویراں چپ چاپ سڑک جس سمت چلی ہے
کیا معلوم اس رستے پر
اس ویراں سنساں رستے پر
کیسی کیسی بپتاؤں کے نقش گھڑے ہیں
اس پر جو پتے ہیں سارے زرد پڑے ہیں
کیا معلوم ان سوکھی سوکھی شاخوں پر
کتنے پرندے اڑتے تھے
اور کتنے گلہری رہتے تھے
جانے ایسے تنہا رستوں پر چلنے کا کیا حاصل ہے
اس ویراں چپ چاپ سڑک کی
جانے کون سی منزل ہے
زخمی آوازیں، وہی الفاظ دہرائے ہوئے
پھر وہی سوچوں کے گھاؤ، شور زخمائے ہوئے
مسخ کر دیتے ہیں انساں کا شعور!
رحمت یزداں ملے جو انتہائے شوق سے
جگمگا اٹھتی ہے قسمت بن کے نورِ کوہِ طور
تتلیاں خوابوں کی، مٹھی میں اگر آ جائیں تو
رنگ پھیلیں سوچ کے روزن سے آتی دھوپ میں
لیکن ایسی انتہائے شوق بھی،
دسترس نا دسترس کے درد سے
دِل کو تڑپاتی رہے
سلسلے ٹوٹیں تو پھر کب جڑ سکیں
جاتے پنچھی کب گھروں کو مڑ سکیں
یاد کا ققنس مگر زندہ رہے
آگ میں جل کر ملے پھر زِندگی
خاک میں مل کر جلے پھر زِندگی
منجمد ہو جائیں سب برفیلے طوفانوں کے بیچ
اور لمحے میں بدل جائے کبھی سارا سماں
فرطِ قحطِ نم کبھی جنگل کے جنگل دے اجاڑ
اور کبھی بارش نہ تھم پائے اجڑ جائے جہاں!
وقت کی چکّی میں زندہ بے یقینی ہی رہے
یہ تسلسل خواب کا جاری رہے
پلکوں پر چنچل چنچل سپنے آ جاتے ہیں
جب آکاش پہ کالے کالے بادل چھاتے ہیں
سپنوں کی بارش میں ترا آنچل لہراتا ہے
اور بادل کی اوٹ میں چندا بھی شرماتا ہے
دل کے آنگن میں جب آ کر پنچھی گاتے ہیں
تیری میٹھی یاد کے سارے سُر بندھ جاتے ہیں
شام ڈھلے جب شہر کنارے سورج سوتا ہے
اک جادُو سا شہرِ طرب میں سب پر ہوتا ہے
اور مرا دل تنہا تنہا بیٹھا روتا ہے
اسے کہنا۔۔۔۔
کہ پھر سے گلستاں میں
بہار آنے لگی ہے۔۔۔۔۔
اسے کہنا۔۔۔۔۔
کہ برسوں سے اِس اُجڑے آشیاں میں
صبا نے جھانک کر دیکھا،
چٹکنے لگ پڑے غنچے
اسے کہنا۔۔
کہ پھر سے راہ پیما ہیں نگاہیں
اور اِک اقرار کو ترسی ہوئی آنکھیں
تصور میں اسی کو۔۔۔
بس اسی کو دیکھتی ہیں
یہی سحر تھی
یہی پرندے،
انہی درختوں
پہ بیٹھے نغمے۔۔ سنا رہے تھے
یہی وہ دُھن تھی
جو گا رہے تھے
صبا سے اٹھکیلیوں میں مصروف
نرم پتے مری ہی غزلیں سنا رہے تھے
وہی سحر ہے
وہی پرندے
انہی درختوں پہ بیٹھے
کل والی دھن ابھی بھی سنا رہے ہیں
وہی شجر ہیں
وہی ہیں پتے
وہی ہیں اٹھکیلیاں صبا کی
مگر!!
یہ سب کچھ ہی کل کی صبح سے مختلف ہے
کہ آج تیری حسین دھڑکن کا ایک نغمہ
مری سماعت پہ منکشف ہے
یہ کیا ہے؟
کوئی سبزی ہے؟ خود کو کہتی ہے پھل؟
کیا کہا؟۔۔۔ سیب ہے؟
آؤ اس کو ذرا اپنی تنقید کی بھٹی میں ڈال کر دیکھ لیں
ذرا دیکھتے ہیں یہ پھل ہے یا سبزی یا آلو کہ پیاز
بڑے رنگ ہیں واہ۔۔
لیکن ہر اک مستند پھل تو پیلا ہی دیکھا ہے
مثلاً دُسہری، یا چونسہ، یا سندھڑی
یہ سبزی، یا بُوٹی یا جو شے بھی ہے، گول ہے۔۔۔
مستند پھل مگر بیضوی ہوتے ہیں
کیا دُسہری یا سندھڑی کبھی گول دیکھے گئے؟
کاٹ کر دیکھتے ہیں کہ اندر ہے کیا
اس میں تو کوئی گٹھلی نہیں، اس میں تو ڈھیر سے بیج ہیں
اور بیجوں پہ داڑھی نہیں
جیسے چونسہ، دُسہری یا سندھڑی کی گٹھلی پہ نورانی داڑھی بھلی لگتی ہے
اس کے بیجوں میں یہ اک کمی لگتی ہے
اب بھی یہ سیب کہتا ہے پھل ہے؟ ؟
سنو بھائی! سچ پوچھو تو میری تنقید میں اس کو پھل کہنا جائز نہیں۔
یہ ابھی ارتقا کے مراحل میں ہے
۔۔۔۔۔ گو کہ مستقبل اس کا خوش آئند ہے
24 جولائی 2008
اُداس چہرے
نڈھال بانہیں
تھکن میں لپٹی ہوئی نگاہیں
یہ پیلے پیلے فلک سے ہر دم
برستے شعلے
ہر ایک چہرے سے دیکھو ہر دم
عجب اُداسی برس رہی ہے
شکستہ دِل ہے
شکستہ پا ہے
ہر ایک دھڑکن
ہر اک قدم بھی
خدائے برتر
خدائے عالم۔۔۔
اب اس تڑپتے ہوئے جہاں پر
ذرا سا ہو جائے کچھ کرم بھی
—
کرخت چہرے
لپکتی بانہیں
ہوس میں لتھڑی ہوئی نگاہیں
یہ دھول مٹی میں لپٹی سڑکیں
شکار گاہیں
ہر ایک چہرے سے دیکھو کیسی
عجیب وحشت برس رہی ہے
حریص دِل ہیں
رئیس زادے
یہ گرگ سارے
یہاں کے جم بھی
خدائے برتر
خدائے عالم۔۔۔
اب اس پنپتی شکار گہ میں
کوئی تو بازو کرو قلم بھی
ہوا چلتی ہے
گرتے پات گہرے پانیوں میں
ناؤ کے جیسے کہیں ہجرت کو جاتے ہیں
شجر نوحے سناتے ہیں
ہوا دھیرے سے چلتی ہے
ستارے ٹمٹماتے ہیں
کہیں سے چاند کا پرتو
کہیں سے روشنی کی لو
کبھی پانی پہ پڑتی ہے
تو گویا آسماں کی جھلملاتی بے بدل تصویر بنتی ہے
مگر جب بھی کوئی پتا ہوا میں اڑتے اڑتے
پانیوں میں گر کے اپنی آخری ہجرت پہ جاتا ہے
تو سارے عکس بھی گویا فلک سے گر کے آئینے کے جیسے ٹوٹ جاتے ہیں
کنارے پر کھڑا جگنو اداسی سے
خموشی سے
یہ سب کچھ دیکھتا جاتا ہے
کر کچھ بھی نہیں سکتا
اچانک ہی جھٹکے سے میرے بدن کی ہر اک پور میں جیسے کہرام اٹھا
کچھ ایسا لگا جیسے میں اک گڑھے میں کفن اوڑھ کر سو رہا تھا
مگر دھیرے دھیرے پھسلنے لگا ہوں۔۔۔
میں گرنے لگا ہوں
میں گرتا چلا جا رہا ہوں
میں گرتا ہی
گرتا ہی
گرتا چلا جا رہا ہوں
میں گرتے ہوئے اور تیزی سے گرتا چلا جا رہا ہوں
مرے ہاتھ شل ہیں
مرے پاؤں؟
وہ تو یہ سمجھو کہ ہیں ہی نہیں ہیں
مرے بازوؤں میں ذرا دم نہیں ہے
بدن سن ہے،
اور کانوں میں سائیں سائیں
اور اک خوف سا ہے
جو خوں بن کے میری رگوں میں رواں ہے
توازن بھی گویا کوئی چیز ہو گی؟؟
کہاں ہے؟
اور اک کالا سایہ مرے پیچھے پیچھے گرا آ رہا ہے
اور اس کالے سائے کے چہرے پہ آنکھیں
بٹن جیسی آنکھیں
مجھے گھورتی ہیں
اور اس کا دَہَن۔۔۔۔
اس کا خونی دَہَن
چیختا آ رہا ہے
مرے جسم میں، میری پوروں میں جتنی بھی طاقت بچی ہے
اسے جمع کر کے
میں کوشش میں ہوں۔۔ چیخ ماروں۔۔
میں اس کالے سائے کو جو میرے سر چڑھ گیا ہے
اتاروں۔۔
مگر میری آواز ہی گم ہوئی ہے
اچانک کسی کھائی سے ٹن ٹنن ٹن ٹنن کی بہت تیز آواز
کانوں تو کیا
روح تک چھید کرنے لگی ہے
میں کیا دیکھتا ہوں
میں بستر پہ چادر کو مضبوطی سے تھام کر
پیٹ کے بل پڑا ٹن ٹنن ٹن سے بجتے الارم کو دیکھے چلا جا رہا ہوں
گرا جا رہا ہوں
کُرسیوں پر
میز کے چاروں طرف
بیٹھے ہوئے بالِشتیے
سگرٹیں سُلگائے
اپنی عینکوں کے
ملگجے شیشوں سے
اِک دُوجے کو تکتے
چائے کی چینک سے
کپ میں چُسکیاں بھرتے ہوئے
اور چھلکتی چائے کپ سے چاٹ کر
ڈونگرے برسا رہے ہیں داد کے اک بات پر
اور زیرِ لب
سرگوشیوں میں گالیاں بھی بڑبڑاتے جا رہے ہیں
اِن کے اک اک حرف، اک اک بات میں ایقان ہے
۔۔۔۔اور اک اندھا اعتماد
جیسے دُنیاؤں کے خالق نے
انہی کے مشورے سے
زندگی ترتیب دی
گالیوں کے، داد کے اور قہقہوں کے دور میں
چائے کے کپ میں اٹھے طوفاں کے بڑھتے شور میں
پنڈلیوں سے بانس باندھے
اپنا اپنا قد چھپا کر
سب کی پَستہ قامتی کو ماپتے بالِشتیے
اونچی آوازوں میں پورے زور سے
بات ہر اک دوسرے کی کاٹتے بالِشتیے
چائے کے کپ چاٹتے بالِشتیے
ہزار راتوں کی بات چھوڑو
کہ ہم تو صدیوں سے اِک تصوّر کو جسم دینے کو رو رہے ہیں!
ہمارے دِل میں جو بے نہایت سی آرزو ہے
یہ جستجو ہے
جسے ابھی تک نجانے کتنی ہی حسرتیں ہیں
مگر وہ لمحہ!
کہ جب سبھی خواہشیں سنور کر،
بس ایک حسرت کے برف پیکر
میں ڈھل کے ماتم کا رنگ اوڑھیں!
تو ایک عالم پہ زنگ چھوڑیں!
بہار خوابوں کے گلستاں سے ہمیں بلائے!
خزاں نہ جائے!
وہی ہیں فاصلے اور قافلے پھر بھی رواں ہیں
انہی میں گم کہیں لمحوں کے، برسوں اور صدیوں کے گماں ہیں
یہ ہم جو ایک بوسیدہ عمارت کے کھنڈر سے پھول چننے جا رہے تھے
ہمارا خواب تھا!
ہم دہر کو خوشبو سے بھرنا چاہتے تھے!
مگر ہم ہڈیوں کی راکھ لے آئے
یہ ہم جو خواب کے دریا سے اِک جھرنا۔۔۔۔۔
بس اِک چھوٹا سا جھرنا چاہتے تھے
جو ہمارے دشت کی بے آب مٹی کو ذرا نم آشنا کر دے
مگر جانے کہاں سے لُو کا ہم طوفان لے آئے
کبھی بھی ہم نے لمبے فاصلوں سے سرخیاں دیکھیں
تو ہم اس سمت کو لپکے
مگر رستوں کے پیچ و خم میں ہی اتنا سمے بیتا
کہ ہم چہرے پہ زردی اور پیلاہٹ لپیٹے لوٹ آئے
وہی ہیں فاصلے قدموں کے منزل سے
وہی ہے راکھ چہرے پر،
وہی لُو کے تھپیڑے ہیں
وہی زردی میں لپٹی نیم وا آنکھیں
شکستہ دِل میں تھوڑا اور جی لینے کی خواہش بھی
مگر عمرِ معین کی بچی پونجی تو بس چند ایک لمحے ہے
یہ سچ ہے ہم کبھی بھی عشق کے معیار پر پورے نہیں اترے
مگر ایسا نہیں کرنا
ہمیں مجرم نہیں کہنا
کہ ہم کوہ مصائب پار کرنے سے کبھی منکر نہیں ٹھیرے
خدایا!!
ہم کو اب تیری گواہی کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔
ہمیں پھر سے تباہی کی ضرورت ہے
یہ میں ہوں
پاتال میں گڑا ہوں
وہ تُو ہے
ہر دم فلک کی جانب رواں دواں ہے
یہ میں ہوں
جس نے تجھے نکھارا
تجھے سنوارا
ترے لیے سب نشیلی راتوں کی نیند چھوڑی
ترے لیے سارے خواب چھوڑے
وہ خواب جن میں
تمام دنیا کی روشنی تھی
ہر ایک جنت کی تازگی تھی
بہار جن میں رچی بسی تھی
یہ میری آنکھیں
یہ زرد آنکھیں
یہ آنکھیں جن میں
ہزار راتوں کی تیرگی ہے
یہ میں ہوں
تیرے عظیم دولت سرا کو
اپنے مہین کندھوں پہ جانے کب سے لیے کھڑا ہوں
یہ میں
جو پاتال میں گڑا ہوں
اپنے پیارے والد جناب ماجد صدیقی اور اپنے جگر گوشوں ماہین اور ذیشان کے نام، زندگی میں جو کچھ سیکھا انہی سے سیکھا۔
طے کیا تھا سفر جو ماجدؔ نے
کیا کبھی ہو سکے گا یاؔور سے؟
ندی بہتی ہے تو اتنے مدھر گیت کیوں گاتی ہے؟ بہاریں پژمردہ زمین کو زندگی بانٹتے ہوئے سرخیاں کیوں پرونے لگ جاتی ہیں؟ برگد کے درخت بادِ صبا کے بوسے پاتے ہی لہلہانے کیوں لگتے ہیں؟ دریاؤں کو ایسی کیا دھن پڑی ہے کہ اتنی تیزی سے سمندر کی طرف بھاگتے ہوئے خوبصورت ترانے گاتے چلے جاتے ہیں؟ زندگی کی خاموشیاں بڑھ جائیں تو چلتی ہوا نوحے کیوں سنانے لگتی ہے؟ بادل برستے ہیں تو دھرتی کے سینے سے میٹھی میٹھی خوشبو کیوں نکلنے لگتی ہے، سورج صبح دم جلوہ دینے سے پہلے اور شام کے الوداعی لمحات کے بعد آسمان میں اتنے خوبصورت رنگ کیوں بھرتا ہے، بادل سورج کی کرنوں سے کیوں کھیلتے ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔ میں جب بھی اداس ہوتا ہوں تو قلم کیوں اٹھا لیتا ہوں؟
سورج کی روشنی بارش کے کروڑوں قطروں پر پڑتی ہے اور وہ اس کو منعکس کر ڈالتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی ایک ہی قطرہ ایسا ہوتا ہے جو روشنی کے باطن سے پیارے پیارے رنگوں کو خوبصورتی سے قوسِ قزح کی شکل دے دیتا ہے، شاید میں اپنے آپ کو وہی قطرہ سمجھتا ہوں جو گزرتے لمحات کو، اور اپنے ساتھ پیش آنے والے حالات کو اُچٹتی نظر سے دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا، جب تک میں روشنی کی کرن کو چیر کر نہ رکھ دوں، مجھے اپنے اندر کچھ کمی کا سا احساس رہتا ہے۔ لفظوں کی حیثیت میرے لیے وہی ہے جو پانی کی ندی کے لیے ہے، سرخیوں کی بہاروں کے لیے، بادِ صبا کے بوسوں کی برگد کے لیے، گونجتے نوحوں کی زندگی کی خاموشیوں کے لیے، زمین کی بھینی بھینی خوشبو کی بارش کے لیے اور افق اور شفق کے رنگوں کی ابھرتے اور ڈوبتے سورج کے لیے۔
احساس کی شدت کی ڈوریوں سے بنا ہوا لباس میری خلعت ہے اور مجھے اس پر فخر ہے۔ میں اپنے آپ کو قدرت کے ودیعت کردہ ترنم کا امانت دار سمجھتا ہوں اور زمانے کو وہی کچھ لوٹانے کی سعی میں مصروف ہوں جو صبح کے وقت پرندے اپنے نغموں سے لوٹاتے ہیں۔ ایک رنگ ہے، ایک ترنگ ہے، ایک توازن ہے جو اس زندگی کے حسن اور بدصورتی نے صدیوں سے بہر طور قائم کر رکھا ہے، میں اپنے آپ کو اور اپنی تخلیقات کو اسی توازن کے تسلسل کا ایک انتہائی معمولی سا نقش سمجھتا ہوں۔
کیا پھول اس لیے کھلتا ہے کہ اس کی خوشبو ساری دنیا کو معطّر کر دے، کیا بارش اس لیے ہوتی ہے کہ اپنی چھن چھن اور جھن جھن سے تمام ارواحِ عالم کو تھرکنے پر مجبور کر دے؟ کیا جگنو اس لیے اڑتے اڑتے جھلملاتا ہے کہ ساری کائنات کے اندھیروں کو ختم کر ڈالے، کیا قوسِ قزح تمام کائنات کو اپنے رنگوں سے بھرنے کے لیے بارش کے قطروں کے بطن سے نمودار ہو جاتی ہے؟ نہیں۔۔ یقیناً نہیں، لیکن کسی ایک پھول کا کھلنا دنیا کے ایک بہت ہی حقیر حصے کو تو ضرور معطّر کرتا ہے، ایک بارش تمام صحراؤں کی پیاس کہاں بجھا سکتی ہے، لیکن اس کائنات کے ایک بے انتہا چھوٹے سے حصے کو تو نئی زندگی بخشتی ہے، ایک جگنو کی ہلکی سی جھلملاہٹ کائنات بھر کے اندھیروں کا منہ چڑانے کے لیے کیا کم ہے؟ قوسِ قزح کی چند لمحوں کی زندگی کتنی ہی بے رنگ آنکھوں کو اپنے حسن کا دان دے جاتی ہے، چاہے باقی تمام کائنات بے رنگی کی کیفیت میں نوحہ خوانی میں مصروف رہے۔ میرے شعر اور میری نظمیں چاہے میری خود کلامی ہی کیوں نہ کہلائیں، زندگی کے وسیع تر تناظر میں کسی بھی طور سے پھول کی خوشبو، جگنو کی روشنی، بارش کی چھم چھم یا قوسِ قزح کے رنگوں بھرے منظر سے کم نہیں۔
کبھی سوچتا ہوں کہ اس دنیا میں کتنی آنکھیں ہوں گی جو ڈوبتے سورج کو دیکھ کر میری آنکھوں ہی کی طرح نم ہو جاتی ہوں گی، کتنی سماعتیں ہوں گی جو بادلوں کی کڑک سن کر یا چلتی ہوا سے ٹوٹتے ہوئے سکوت کو سن کر میری سماعت ہی کی طرح بے چین ہو جاتی ہوں گی، کتنے لب ہوں گے جو برستی بوندوں کی ٹھنڈک محسوس کرتے ہی میرے لبوں کی طرح سلگ اٹھتے ہوں گے، کتنے دل ہوں گے جو کسی درخت پر ایک معصوم پرندے کو دیکھ کر مچل اٹھتے ہوں گے۔ کتنی روحیں ہوں گی جو اپنی اداسی کی چادر اوڑھے میری ہی طرح خوشیوں سے بھاگتی پھر رہی ہوں گی۔
مجھے علم نہیں کہ میری زندگی کی متاعِ کُل پڑھتے ہوئے آپ پر کیا بِیتے گی، ان سادہ لفظوں کے پیچھے کہیں انتہائے محبت سے سرشار زندگی کانپتی ملے گی تو کہیں نفرتوں میں ڈوبی ہوئی ٹوٹتی سانسیں، کہیں اپنی کم مائیگی کا ماتم کرتا ہوا وجدان، تو کہیں اپنی اونچی اڑانوں پر فخر کرتا ہوا ایک پرندہ، کہیں اپنے بڑھاپے کے نوحے سناتا ہوا ایک چھوٹا سا بچہ، تو کہیں بچوں سی معصوم خواہشوں کا اظہار کرتا ہوا ایک بوڑھا، کہیں نہ ختم ہوتے ہوئے دائروں کی رسی پر توازن سے چلتا ہوا ایک بازیگر۔ تو کہیں گرتا سنبھلتا ایک شعلہ جو کسی بھی لمحے بجھنے کے ڈر سے کبھی زمین کو سجدہ کرتا ہے تو کبھی فلک کی طرف گلے بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے۔
کہیں کسی ناکردہ جرم کی سزا بھگتتا ہوا ایک قیدی، تو کہیں ایک آزاد ہرن جو زندگی کی خوبصورت وادیوں میں چوکڑیاں بھرتا ہی چلا جاتا ہے۔ کہیں خود سوزی کے نشے میں ڈوبا ہوا ایک نیم جان جسم۔ کہیں فطرت کو اپنی محبوبہ سمجھ کر اس کے عشق میں مبتلا ایک پاگل دیوانہ تو کہیں آنسوؤں سے بھری آنکھیں لیے ہوئے منظروں کی دھندلاہٹ کا شکوہ کرنے والا ایک شخص۔
دیوانگی کی ایسی ہی دھند میں لپٹا ہوا وہ حساس شخص بھی شاید نظر آئے جو معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں پر تڑپ اٹھتا ہے، معاشرتی مساوات کی عدم موجودگی پر کراہتا ہے، ظلم اور ناانصافی سے بھرے ملک سے نکل کر ایک ترقی یافتہ معاشرے کا شہری ہونے کے ناطے اپنے وطن کا درد دل میں لیے کڑھتا ہے اور ان مسائل پر انتہائی دھیمے انداز میں تبصرہ نگاری بھی کرتا ہے۔ ہیجان بھرے معاشرے میں بیٹھے ان شاطر لوگوں سے، کبھی براہِ راست اور کبھی بالواسطہ مکالمہ بھی کرتا ہے اور ان کو آئینے میں ان کا اصل مکروہ چہرہ بھی دکھاتا ہے۔
اگر میری نظمیں اور غزلیں پڑھتے ہوئے آپ کو اپنے دل کی آواز لگیں تو اس کو میں اپنی کامیابی سمجھوں گا۔
یاؔور ماجد – 2012
https://yawarmaajed۔wordpress۔com
https://www۔facebook۔com/YawarMaajedAuthor/
ندی بہتی ہے تو اتنے مدھر گیت کیوں گاتی ہے؟ بہاریں پژمردہ زمین کو زندگی بانٹتے ہوئے سرخیاں کیوں پرونے لگ جاتی ہیں؟ برگد کے درخت بادِ صبا کے بوسے پاتے ہی لہلہانے کیوں لگتے ہیں؟ دریاؤں کو ایسی کیا دھن پڑی ہے کہ اتنی تیزی سے سمندر کی طرف بھاگتے ہوئے خوبصورت ترانے گاتے چلے جاتے ہیں؟ زندگی کی خاموشیاں بڑھ جائیں تو چلتی ہوا نوحے کیوں سنانے لگتی ہے؟ بادل برستے ہیں تو دھرتی کے سینے سے میٹھی میٹھی خوشبو کیوں نکلنے لگتی ہے، سورج صبح دم جلوہ دینے سے پہلے اور شام کے الوداعی لمحات کے بعد آسمان میں اتنے خوبصورت رنگ کیوں بھرتا ہے، بادل سورج کی کرنوں سے کیوں کھیلتے ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔ میں جب بھی اداس ہوتا ہوں تو قلم کیوں اٹھا لیتا ہوں؟
سورج کی روشنی بارش کے کروڑوں قطروں پر پڑتی ہے اور وہ اس کو منعکس کر ڈالتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی ایک ہی قطرہ ایسا ہوتا ہے جو روشنی کے باطن سے پیارے پیارے رنگوں کو خوبصورتی سے قوسِ قزح کی شکل دے دیتا ہے، شاید میں اپنے آپ کو وہی قطرہ سمجھتا ہوں جو گزرتے لمحات کو، اور اپنے ساتھ پیش آنے والے حالات کو اُچٹتی نظر سے دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا، جب تک میں روشنی کی کرن کو چیر کر نہ رکھ دوں، مجھے اپنے اندر کچھ کمی کا سا احساس رہتا ہے۔ لفظوں کی حیثیت میرے لیے وہی ہے جو پانی کی ندی کے لیے ہے، سرخیوں کی بہاروں کے لیے، بادِ صبا کے بوسوں کی برگد کے لیے، گونجتے نوحوں کی زندگی کی خاموشیوں کے لیے، زمین کی بھینی بھینی خوشبو کی بارش کے لیے اور افق اور شفق کے رنگوں کی ابھرتے اور ڈوبتے سورج کے لیے۔
احساس کی شدت کی ڈوریوں سے بنا ہوا لباس میری خلعت ہے اور مجھے اس پر فخر ہے۔ میں اپنے آپ کو قدرت کے ودیعت کردہ ترنم کا امانت دار سمجھتا ہوں اور زمانے کو وہی کچھ لوٹانے کی سعی میں مصروف ہوں جو صبح کے وقت پرندے اپنے نغموں سے لوٹاتے ہیں۔ ایک رنگ ہے، ایک ترنگ ہے، ایک توازن ہے جو اس زندگی کے حسن اور بدصورتی نے صدیوں سے بہر طور قائم کر رکھا ہے، میں اپنے آپ کو اور اپنی تخلیقات کو اسی توازن کے تسلسل کا ایک انتہائی معمولی سا نقش سمجھتا ہوں۔
کیا پھول اس لیے کھلتا ہے کہ اس کی خوشبو ساری دنیا کو معطّر کر دے، کیا بارش اس لیے ہوتی ہے کہ اپنی چھن چھن اور جھن جھن سے تمام ارواحِ عالم کو تھرکنے پر مجبور کر دے؟ کیا جگنو اس لیے اڑتے اڑتے جھلملاتا ہے کہ ساری کائنات کے اندھیروں کو ختم کر ڈالے، کیا قوسِ قزح تمام کائنات کو اپنے رنگوں سے بھرنے کے لیے بارش کے قطروں کے بطن سے نمودار ہو جاتی ہے؟ نہیں۔۔ یقیناً نہیں، لیکن کسی ایک پھول کا کھلنا دنیا کے ایک بہت ہی حقیر حصے کو تو ضرور معطّر کرتا ہے، ایک بارش تمام صحراؤں کی پیاس کہاں بجھا سکتی ہے، لیکن اس کائنات کے ایک بے انتہا چھوٹے سے حصے کو تو نئی زندگی بخشتی ہے، ایک جگنو کی ہلکی سی جھلملاہٹ کائنات بھر کے اندھیروں کا منہ چڑانے کے لیے کیا کم ہے؟ قوسِ قزح کی چند لمحوں کی زندگی کتنی ہی بے رنگ آنکھوں کو اپنے حسن کا دان دے جاتی ہے، چاہے باقی تمام کائنات بے رنگی کی کیفیت میں نوحہ خوانی میں مصروف رہے۔ میرے شعر اور میری نظمیں چاہے میری خود کلامی ہی کیوں نہ کہلائیں، زندگی کے وسیع تر تناظر میں کسی بھی طور سے پھول کی خوشبو، جگنو کی روشنی، بارش کی چھم چھم یا قوسِ قزح کے رنگوں بھرے منظر سے کم نہیں۔
کبھی سوچتا ہوں کہ اس دنیا میں کتنی آنکھیں ہوں گی جو ڈوبتے سورج کو دیکھ کر میری آنکھوں ہی کی طرح نم ہو جاتی ہوں گی، کتنی سماعتیں ہوں گی جو بادلوں کی کڑک سن کر یا چلتی ہوا سے ٹوٹتے ہوئے سکوت کو سن کر میری سماعت ہی کی طرح بے چین ہو جاتی ہوں گی، کتنے لب ہوں گے جو برستی بوندوں کی ٹھنڈک محسوس کرتے ہی میرے لبوں کی طرح سلگ اٹھتے ہوں گے، کتنے دل ہوں گے جو کسی درخت پر ایک معصوم پرندے کو دیکھ کر مچل اٹھتے ہوں گے۔ کتنی روحیں ہوں گی جو اپنی اداسی کی چادر اوڑھے میری ہی طرح خوشیوں سے بھاگتی پھر رہی ہوں گی۔
مجھے علم نہیں کہ میری زندگی کی متاعِ کُل پڑھتے ہوئے آپ پر کیا بِیتے گی، ان سادہ لفظوں کے پیچھے کہیں انتہائے محبت سے سرشار زندگی کانپتی ملے گی تو کہیں نفرتوں میں ڈوبی ہوئی ٹوٹتی سانسیں، کہیں اپنی کم مائیگی کا ماتم کرتا ہوا وجدان، تو کہیں اپنی اونچی اڑانوں پر فخر کرتا ہوا ایک پرندہ، کہیں اپنے بڑھاپے کے نوحے سناتا ہوا ایک چھوٹا سا بچہ، تو کہیں بچوں سی معصوم خواہشوں کا اظہار کرتا ہوا ایک بوڑھا، کہیں نہ ختم ہوتے ہوئے دائروں کی رسی پر توازن سے چلتا ہوا ایک بازیگر۔ تو کہیں گرتا سنبھلتا ایک شعلہ جو کسی بھی لمحے بجھنے کے ڈر سے کبھی زمین کو سجدہ کرتا ہے تو کبھی فلک کی طرف گلے بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے۔
کہیں کسی ناکردہ جرم کی سزا بھگتتا ہوا ایک قیدی، تو کہیں ایک آزاد ہرن جو زندگی کی خوبصورت وادیوں میں چوکڑیاں بھرتا ہی چلا جاتا ہے۔ کہیں خود سوزی کے نشے میں ڈوبا ہوا ایک نیم جان جسم۔ کہیں فطرت کو اپنی محبوبہ سمجھ کر اس کے عشق میں مبتلا ایک پاگل دیوانہ تو کہیں آنسوؤں سے بھری آنکھیں لیے ہوئے منظروں کی دھندلاہٹ کا شکوہ کرنے والا ایک شخص۔
دیوانگی کی ایسی ہی دھند میں لپٹا ہوا وہ حساس شخص بھی شاید نظر آئے جو معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں پر تڑپ اٹھتا ہے، معاشرتی مساوات کی عدم موجودگی پر کراہتا ہے، ظلم اور ناانصافی سے بھرے ملک سے نکل کر ایک ترقی یافتہ معاشرے کا شہری ہونے کے ناطے اپنے وطن کا درد دل میں لیے کڑھتا ہے اور ان مسائل پر انتہائی دھیمے انداز میں تبصرہ نگاری بھی کرتا ہے۔ ہیجان بھرے معاشرے میں بیٹھے ان شاطر لوگوں سے، کبھی براہِ راست اور کبھی بالواسطہ مکالمہ بھی کرتا ہے اور ان کو آئینے میں ان کا اصل مکروہ چہرہ بھی دکھاتا ہے۔
اگر میری نظمیں اور غزلیں پڑھتے ہوئے آپ کو اپنے دل کی آواز لگیں تو اس کو میں اپنی کامیابی سمجھوں گا۔
یاؔور ماجد – 2012
https://yawarmaajed۔wordpress۔com
https://www۔facebook۔com/YawarMaajedAuthor/