زمرہ جات کے محفوظات: نشاطِ خواب
چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے
چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے
یہ قوم کے شاہین ہیں جرأت کے ستارے
اُڑتے ہیں یہ شاہیں تہِ افلاک جہاں تک
اِک آگ کا دریا نظر آتا ہے وہاں تک
مشرق کے کنارے کبھی مغرب کے کنارے
چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے
اِک جست میں دشمن کے نشیمن کو جلایا
جو سامنے آیا اُسے اِک پل میں گرایا
ہیں اِن کے پر و بال میں بجلی کے شرارے
چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے
بھولے سے کبھی اِن کے نشانے نہیں چوکے
فی النار کیے آن میں طیارے عدو کے
کچھ ڈھیر کیے خاک پہ کچھ راہ میں مارے
چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے
ہو اَمن کا موسم تو یہ خوشبو ہیں صبا ہیں
اور جنگ میں دشمن کے لیے قہرِ خدا ہیں
محفوظ ہے یہ پاک وطن اِن کے سہارے
چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے
(۱۱ دسمبر ۱۹۷۱)
اے غازیانِ صاحبِ کردار دیکھنا
اے غازیانِ صاحبِ کردار دیکھنا
بچ کر نہ جائے لشکرِ کفار دیکھنا
سارے جہاں کی تم پہ نظر ہے بڑھے چلو
ہر گام سوئے فتح و ظفر ہے بڑھے چلو
خالی نہ جائے کوئی بھی اب وار دیکھنا
بچ کر نہ جائے لشکرِ کفار دیکھنا
راہِ خدا میں بدر کے اصحاب کی طرح
بڑھنا ہے تم کو نوح کے سیلاب کی طرح
کرنا ہے آج کفر کو مسمار دیکھنا
بچ کر نہ جائے لشکرِ کفار دیکھنا
رکھنا ہے تم کو ملتِ اسلام کا بھرم
شیرانہ ہر محاذ پہ آگے بڑھے قدم
ایمان پر ہے کفر کی یلغار دیکھنا
بچ کر نہ جائے لشکرِ کفار دیکھنا
اللہ اور رسولؐ کا پیغام ہے وہی
اسلام اور دشمنِ اسلام ہے وہی
اے پیروانِ حیدرِ کرار دیکھنا
بچ کر نہ جائے لشکرِ کفار دیکھنا
بارہ کروڑ ہونٹوں پہ ہے ایک ہی صدا
اے ارضِ پاک تیرا نگہبان ہے خدا
ظاہر ہوئے ہیں فتح کے آثار دیکھنا
بچ کر نہ جائے لشکرِ کفار دیکھنا
(۸ دسمبر ۱۹۷۱ ۔ اُستاد امانت علی خاں ، فتح علی خاں )
میرے سر مرے دل کی صدائیں
ترے گن گائیں
تیری وفا کے گیت سنائیں
ترے گن گائیں
تو غازی تو مردِ میداں
ساری قوم ہے تجھ پر نازاں
تیرے ساتھ ہیں سب کی دُعائیں
ترے گن گائیں
تو ہے عظمت پاک وطن کی
شان ہے تجھ سے پاک چمن کی
پاک چمن کی پاک ہوائیں
ترے گن گائیں
دھوم ہے تیری عالم عالم
گھر گھر چمکا فتح کا پرچم
گھر گھر میں خوشیاں لہرائیں
ترے گن گائیں
میرے سر سنگیت کی کلیاں
مہک رہی ہیں جن سے گلیاں
کیسے کیسے رُوپ دکھائیں
ترے گن گائیں
(۱۰ نومبر ۱۹۶۵ ۔ کلا رتی راگ، آوازیں ۔ اُستاد نزاکت علی خان، سلامت علی خان۔ طبلے پر سنگت۔ شوکت حسین)
تو ہے دِلوں کی روشنی تو ہے سحر کا بانکپن
تو ہے دِلوں کی روشنی تو ہے سحر کا بانکپن
تیری گلی گلی کی خیر اے مِرے دل رُبا وطن
پھول ہیں تیرے ماہتاب ذرّے ہیں تیرے آفتاب
تیرے ایک رنگ میں تیری بہار کا شباب
داغِ خزاں سے پاک ہے تیرے چمن کا پیرہن
تیری گلی گلی کی خیر اے مِرے دل رُبا وطن
تیرے علم ہیں سربلند عرصہِ کارزار میں
تیرے جواں ہیں سربکف وادی و کوہسار میں
اَبر و ہوا کے ہم قدم تیرے دلیر صف شکن
تیری گلی گلی کی خیر اے مرے دل رُبا وطن
تیری ہوائیں مشکبو تیری فضائیں گلفشاں
تیرے ستارہ و ہلال عظمت و امن کا نشاں
دُھوم تری نگر نگر شان تری دمن دمن
تیری گلی گلی کی خیر اے مرے دل رُبا وطن
(۹ نومبر ۱۹۶۵ ۔ بسنت بہار۔ آوازیں ۔ اُستاد نزاکت علی خاں ، سلامت علی خاں ۔ طبلے پر سنگت —- شوکت حسین)
فوجی بینڈ
اے ارضِ پاک تو ہے دارالاماں ہمارا
دائم ہے تیرے دم سے نام و نشاں ہمارا
تو پاک سر زمیں ہے تو منزلِ یقیں ہے
پرچم کا تیرے سایا ہے سائباں ہمارا
دشمن نہ چھو سکیں گے اب تیری سرحدوں کو
بیدار ہو چکا ہے اب کارواں ہمارا
تاروں کی سلطنت میں اُڑتے ہیں اپنے شاہیں
حیرت سے دیکھتا ہے منہ آسماں ہمارا
پربت کی چوٹیوں پر چمکے علم ہمارے
گہرے سمندروں میں ہے آشیاں ہمارا
ہر شاخ اِس چمن کی شمشیرِ حیدری ہے
حملہ نہ سہ سکے گی بادِ خزاں ہمارا
روکے نہ رُک سکے گی تیغِ جہاد اپنی
تھامے نہ تھم سکے گا سیلِ رواں ہمارا
سینچا ہے خونِ دل سے اِن کیاریوں کو ہم نے
تازہ رہے گا ہر دَم یہ گلستاں ہمارا
(پیشکش سلور پولیس لاہور ۔ ۱۴ اکتوبر ۱۹۶۵ ۔ آواز۔ سلیم رضا)
عقیدتوں کا سلام تجھ پر
عقیدتوں کا سلام تجھ پر
عقیدتوں کا سلام تجھ پر
عزیزِ ملت نشانِ حیدر
بجا ہے یہ احترام تیرا
رہے گا تا حشر نام تیرا
تری شہادت سے اے سپاہی
ملی ہے قرآن کو گواہی
عزیزِ ملت نشانِ حیدر
محاذ پر جاگتا رہا تو
پہاڑ بن کر ڈٹا رہا تو
وطن کو پائندہ کر گیا تو
وفا کو پھر زندہ کر گیا تو
عزیزِ ملت نشانِ حیدر
سلام کہتا ہے شہر تجھ کو
سلام کہتی ہے نہر تجھ کو
سلام کہتے ہیں تجھ کو ہمدم
سلام کہتا ہے سبز پرچم
عزیزِ ملت نشانِ حیدر
رہِ وفا کا شہید ہے تو
نویدِ صبحِ اُمید ہے تو
یہ زندگی جو تجھے ملی ہے
یہ زندگی رشکِ زندگی ہے
عزیزِ ملت نشانِ حیدر
(۷ اکتوبر ۱۹۶۵ ۔ موسیقی ۔ کالے خان۔ آوازیں ۔ منیر حسین اور ساتھی)
چینی دُھن پر
تو ہی ہماری جان ہے
تو قوتِ ایمان ہے
تو ہی ہماری آن ہے
اے پاک وطن
تجھ سے ہماری شان ہے
تجھ سے ہماری آبرو
قریہ بہ قریہ کو بہ کو
اے جان و دل کی آرزو
اے پاک وطن
تجھ سے ہماری شان ہے
تری زمیں کے پاسباں
شمس و قمر کے رازداں
تری بہاریں جاوداں
اے پاک وطن
تجھ سے ہماری شان ہے
قلب و نظر کی روشنی
تو ہے نویدِ زندگی
تو ہے جلالِ حیدری
اے پاک وطن
تجھ سے ہماری شان ہے
(یکم اکتوبر ۱۹۶۵ ۔ موسیقی۔ کالے خان، تقریباً چالیس آوازیں )
پاک ارضِ وطن کے جیالے
پاک ارضِ وطن کے جیالے
یہ جواں ہیں بڑی شان والے
پاک بے باک اِن کی جوانی
جرأتوں عظمتوں کی نشانی
وقت لکھے گا اِن کی کہانی
آنے والی سحر کے اُجالے
یہ جواں ہیں بڑی شان والے
اِن سے عزت ہمارے وطن کی
اِن سے رنگینیاں انجمن کی
یہ ہیں خوشبو وفائے چمن کی
پاک ماؤں کی گودی کے پالے
یہ جواں ہیں بڑی شان والے
ماہ و خورشید کے ہمسفر ہیں
یہ جواں فاتحِ بحر و بر ہیں
پاک سرحد پہ سینہ سپر ہیں
فتح نصرت کا پرچم سنبھالے
یہ جواں ہیں بڑی شان والے
میری آواز کی شان ہیں یہ
میرے گیتوں کا ارمان ہیں یہ
میرے سنگیت کی جان ہیں یہ
میری آواز اِن کے حوالے
یہ جواں ہیں بڑی شان والے
(۱۸ ستمبر ۱۹۶۵ ۔ ملکہِ موسیقی روشن آرا بیگم)
پاک فوج کے جواں تو ہے عزم کا نشاں
پاک فوج کے جواں تو ہے عزم کا نشاں
تیرے عزم کے حضور سرنگوں ہیں آسماں
تیرے دم سے جاوداں زندگی کی داستاں
شادماں رواں دواں
پاک فوج کے جواں تو ہے عزم کا نشاں
تیری ایک ضرب سے کوہسار کٹ گئے
دشمنوں کے مورچے ہٹ گئے اُلٹ گئے
زلزلے پلٹ گئے
پاک فوج کے جواں تو ہے عزم کا نشاں
ہم عنانِ کہکشاں پرفشاں ترے جہاز
ہم رکابِ آسماں تیری فوجِ ترک تاز
تو ہے زندگی کا راز
پاک فوج کے جواں تو ہے عزم کا نشاں
پانیوں کی سلطنت میں ضوفشاں ترے علم
وقت کی کتاب میں تیرا نام ہے رقم
تو ہے ملک کا بھرم
پاک فوج کے جواں تو ہے عزم کا نشاں
(۱۶ ستمبر ۱۹۶۵ موسیقی ۔ کالے خان۔ آوازیں ۔ سلیم رضا، نورجہاں بیگم اور ساتھی۔)
ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر
ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر
وادیوں میں گھاٹیوں میں سربکف
بادلوں کے ساتھ ساتھ صف بہ صف
دشمنوں کے مورچوں پہ ہر طرف
ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر
بے مثال ارضِ پاک کے جواں
لازوال سرحدوں کے پاسباں
بڑھ رہے ہیں خاک و خوں کے درمیاں
ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر
ساتھیو بلا رہی ہے زندگی
خون میں نہا رہی ہے زندگی
موت کو بھگا رہی ہے زندگی
ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر
ڈرنے والے ہم نہیں ہیں جنگ سے
گاڑیوں سے توپ اور تفنگ سے
ڈٹ کے ہم لڑیں گے ڈھنگ ڈھنگ سے
ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر
موج موج بڑھ رہے ہیں لشکری
لشکرِ غنیم میں ہے ابتری
گونجنے لگی صدائے حیدری
ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر
(۸ ستمبر ۱۹۶۵ موسیقی۔ سلیم حسین آوازیں ۔سلیم رضا، منیر حسین اور ساتھی)
ہمارے پاک وطن کی شان
ہمارے پاک وطن کی شان
ہمارے شیر دلیر جوان
خدا کی رحمت اِن کے ساتھ
خدا کا ہاتھ ہے اِن کا ہاتھ
ہے اِن کے دَم سے پاکستان
ہمارے شیر دلیر جوان
ستارے جرأت ہمت کے
وطن کی عظمت شوکت کے
عدو کی غارت کا سامان
ہمارے شیر دلیر جوان
یقینِ محکم کی تصویر
شجاعت نصرت کی تفسیر
اخوت اور عمل کی جان
ہمارے شیر دلیر جوان
(ناصر کاظمی کی ڈائری سے ۔ ۷/۹/۱۹۶۵ ۔ موسیقی ۔ کالے خان۔آوازیں۔سلیم رضا، منیر حسین اور ساتھی۔)
فوری تحفہ
اس سے پہلے کہ ہم زمین کے ہوں زمین ہماری تھی۔
سو سال سے زیادہ مدت تک وہ ہماری تھی
اس سے پیشتر کہ ہم اس کے باسی بنے ’’میساکوٹس‘‘ اور ’’ورجینیا‘‘ ہمارے تھے
لیکن ہم انگلستان کے تھے، نوآباد تھے،
ہمارے پاس وہ تھا جو ابھی ہمیں ملا نہیں تھا،
ہمارے پاس متاعِ نایافت کے سوا کچھ نہ تھا
ہم کسی چیز کو رو کے ہوئے تھے جس نے ناتواں بنا دیا
اور آخرکار ہمیں احساس ہوا کہ یہ ہم خود تھے
ہم اپنے آپ کو اپنی سرزمین سے دور کھینچے ہوئے تھے،
پھر انجام کار ہم نے اپنے آپ کو سپرد کرنے ہی میں عافیت جانی۔
ہم جیسے بھی تھے ہم نے اپنے آپ کو یکسر سپرد کر دیا
(یہ تحفہ بہت سی جنگوں کی صورت میں تھا)
اُس سر زمین کو جو مغرب کی سمت مبہم طور پر چلی جا رہی تھی،
اُس سر زمین کو جس میں نہ کہانیاں تھیں نہ فن نہ وسعت،
جیسی وہ تھی اور جیسی وہ مستقبل میں ہونے والی تھی۔
بروکلین گھاٹ کو عبور کرتے ہوئے
-۱-
اے مدکے چڑھتے ہوئے دھارے ! میں تجھے دیکھ رہا ہوں —-روبرو!
اے مغرب کے بادلو —-اے پہر دوپہر میں ڈوبنے والے سورج —-میں تمھیں بھی دیکھ رہا ہوں ۔
اے عام لباس میں ملبوس مرد و زن کے ہجوم —-! تو میرے لیے کس قدر تجسس انگیز ہے!
مسافر کشتیوں میں سوار سینکڑوں لوگ، جو گھروں کو لوٹ رہے ہیں ،
میرے لیے اس قدر تجسس انگیز ہیں کہ آپ تصوّر بھی نہیں کر سکتے ،
اور اے وہ لوگو، جو آج سے برسوں بعد اسی طرح کشتیوں پر سوار ہو کر ایک ساحل سے دوسرے ساحل کی طرف جاؤ گے تم میرے لیے اور بھی تجسس انگیز ہو اور میں چشمِ تصور میں تمھیں اپنے سامنے اس طرح مجسم پاتا ہوں کہ تم اندازہ ہی نہیں کر سکتے ۔
-۲-
میں شب و روز لمحہ بہ لمحہ تمام اشیائے عالم سے غیرمحسوس طور پر فیضانِ حیات حاصل کرتا ہوں ،
کائنات کا نظام کس قدر سادہ، ٹھوس اور مربوط ہے، جہاں میں جدا —-ہرفرد جدا —- پھر بھی سب اسی نظام کا حصہ،
ماضی اور مستقبل کی جیتی جاگتی تصویریں ،
اور گلیوں میں راہ چلتے ہوئے، یاد ریا کو عبور کرتے ہوئے،
معمولی سے معمولی مناظر اور خفیف سے خفیف آوازوں سے پیدا ہونے والی جمالی کیفیات میرے ذہن پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتی ہیں ۔
میں بہتے جل کی تیز دھارا میں تیرتا ہوا کہیں کا کہیں نکل جاتا ہوں ،
یہ سب محسوسات میرے اور آنے والے لوگوں کے درمیان ایک رابطہ قائم کرتے ہیں ۔
وہ بھی یقینی طور پر زندگی، محبت، بصارت اور سماعت جیسی نعمتوں سے ہماری طرح بہرہ ور ہوں گے۔ دوسرے لوگ بھی اسی گھاٹ کے دروازوں میں داخل ہوں گے۔
اور ساحل ساحل پار اتریں گے،
وہ بھی مد کے چڑھتے ہوئے پانی کا نظارہ دیکھیں گے،
وہ بھی منہاٹن کے شمال اور مغرب میں جہازوں کو آتے جاتے اور اس کے جنوب اور مشرق میں بروکلِن کی پہاڑیوں کو دیکھیں گے،
وہ ان چھوٹے بڑے جزیروں کا نظارہ کریں گے ؛
نصف صدی بعد، وہ لوگ بھی ان سب چیزوں کو دیکھیں گے، جبکہ اسی طرح آدھ ایک گھنٹے میں سورج ڈوبنے والا ہو گا،
آج سے ایک صدی یا کئی صدیوں کے بعد، وہ لوگ ان چیزوں کو دیکھیں گے،
اور ڈوبتے ہوئے سورج، مدکے چڑھتے ہوئے اور جزر کے اترتے ہوئے پانی کے نظاروں سے اسی طرح لطف اندوز ہوں گے۔
-۳-
زمان ومکان کی کوئی حقیقت نہیں —- سب مسافت سمٹ کر رہ جاتی ہے،
اے آئندہ نسل کے، بلکہ کئی آنے والی نسلوں کے زن و مرد،
میں بھی تمھار ہمدم ہوں ،
دریا اور آسمان کو دیکھ کر جوا حساسات تمھارے دلوں میں جنم لیتے ہیں ، ان سے میں بھی آشنا ہوں ،
جس طرح تم میں سے کوئی بھی زندہ انبوہ کا ایک فرد ہے، اسی طرح میں بھی تھا،
جس طرح تم اس دریا کے روح پر ور نظارے اور بہتے ہوئے پانی کی ضوفشانیوں سے تازہ دم ہوتے ہو، اسی طرح میرے دل میں بھی تروتازگی پیدا ہوتی تھی،
جس طرح تم جنگلے پر جھکے ہوئے محسوس کرتے ہو کہ تم پانی کے ساتھ بہے چلے جا رہے ہو،
اسی طرح میں بھی کھڑا ہو جاتا تھا اور اپنے آپ کو پانی کے ساتھ رواں دواں محسوس کرتا۔
میں نے بھی اس قدیم دریا کو بار بار عبور کیا،
میں بھی سال کے آخری مہینے میں مرغابیوں کو فضا میں بہت بلندی پر یوں محوِ پرواز دیکھتا کہ ان کے جسم متحرک ہوتے لیکن پر ساکت ہوتے،
میں ان پرندوں کے جسم کے بعض حصوں کو شوخ زردی سے روشن اور باقی حصوں کو گھمبیر سائے میں ڈوبا ہوا دیکھتا ،
یہ پرندے فضا میں آہستہ آہستہ چکر کاٹتے رہتے اور پھر رفتہ رفتہ جنوب کی طرف پرواز کرنے لگتے،
میں موسم گرما کے نیلگوں آسمان کا عکس پانی میں دیکھتا،
میری آنکھیں کرنوں کے جگمگاتے راستے کو دیکھ کر چکا چوند ہوجاتیں ،
سورج سے چمکتے پانی میں روشنی کی خوبصورت مرکز گریز لکیروں کو اپنے سر کے ارد گرد رقصاں دیکھتا ،
جنوب اور جنوب مغرب کی پہاڑیوں پر ہلکی سی دھند چھائی ہوئی ہوتی،
میں بھی سفید بادلوں کو دیکھتا ، جن میں بنفشی رنگ کی جھلک نظر آتی،
میں بھی خلیج کے نچلے حصے سے جہازوں کو آتے ہوئے دیکھتا،
یہ جہاز رفتہ رفتہ میری طرف بڑھتے چلے آتے اور میں ان مسافروں کو دیکھتا جو مجھ سے قریب ہوتے،
میں دو مستولوں والی اور ایک مستول والی کشتیوں کے سفید بادبان اور لنگرانداز جہازوں کو دیکھتا،
ان کے ملاح مستولوں ، رسیوں اور چپوؤں پر کام میں جتے ہوئے نظر آتے یا جہاز کو اتھلے پانی سے نکالنے کے لیے چپوؤں کو چلاتے ہوئے صاف نظر آتے،
گول گول مستول، حرکت کرتے ہوئے جہاز اور ان پر سانپ کی مانند بل کھاتے ہوئے جھنڈوں کو دیکھتا،
چھوٹی بڑی دخانی کشتیاں سرگرم سفر ہوتیں اور ان کے کپتان اپنی جگہوں پر مستعددکھائی دیتے،
متحرک جہاز کے پیچھے پانی کی ایک سفید لکیر دکھائی دیتی اور اس کے پہیوں کے گھومنے سے تھرتھراہٹ کی آواز سنائی دیتی ۔
تمام قوموں کے پرچم دیکھتا، جو غروبِ آفتاب کے وقت اتار لیے جاتے،
شام کے جھٹپٹے میں لہروں کے کنارے صدف کی مانند نظر آتے، ایسا محسوس ہوتا جیسے فطرت کے ہاتھ دریا سے پیالے بھر بھر کے نکال رہے ہیں ، ان لہروں کے سروں پر رنگین کلغیاں نظر آتیں اور ہر طرف لہروں کی آب وتاب دکھائی دیتی،
پانی کی سطح رفتہ رفتہ دھند لکے میں غائب ہو جاتی، گودی کے قریب پتھر سے بنے ہوئے مال گوداموں کی خاکستری دیواریں ،
دریا پر سایوں کا ہجوم، جہازوں کو کھینے والے بڑے سٹیمر کے دونوں طرف چھوٹی کشتیاں مثلاً خشک گھاس لانے والی کشتیاں ، جہازوں سے سامان اتارنے والی کشتیاں ،
دریا کے اس پار ڈھلائی کے کارخانوں کی چمنیوں سے بلند ہونے والے شعلے رات کی تاریکی میں اور بھی نمایاں ہو جاتے،
اور ان کی کھلتی بندہوتی سرخ اور زرد روشنی تاریکی کے پس منظر میں مکانوں کے بالائی حصوں اور گلیوں کے ان حصوں میں نظر آتی جہاں مکانات کا سلسلہ منقطع ہو جاتا۔
-۴-
یہ سارے مناظر میرے لیے ویسے ہی تھے جیسے اب تمھارے لیے ہیں ،
میں نے ان شہروں سے اور تیز بہتے ہوئے شاندار دریاؤں سے جی بھر کے پیار کیا،
جن مردوں اور عورتوں کو میں نے دیکھا میں نے ان سے قربت محسوس کی،
مجھے دوسرے لوگوں کا بھی قرب حاصل ہو گا —- وہ لوگ جو مجھے دیکھنے کے لیے ماضی میں جھانکتے ہیں ، کیونکہ میں نے انہی ں دیکھنے کے لیے مستقبل میں جھانکا تھا،
(وہ وقت آ کر رہے گا، خواہ آج ہی شب وروز کے کسی لمحے میں میرے دل کی دھڑکنیں بند ہوجائیں )۔
-۵-
پھر ہمارے درمیان حدِ فاصل کیا ہے؟
ہمارے درمیان بیسیوں یا سینکڑوں سا ل کا وقفہ کیا حقیقت رکھتا ہے؟
اس کی حقیقت کچھ بھی ہو یہ حدِ فاصل نہیں بن سکتا —- مسافت حدِ فاصل نہیں بن سکتی، جگہ حدِ فاصل نہیں بن سکتی،
میں بھی کبھی زندہ تھا اور کئی پہاڑیوں والا برکلن میرا تھا،
میں بھی جزیرہ منہاٹن کے بازاروں میں گھوما ہوں اور اس کے چاروں طرف بکھرے پانی میں نہایا ہوں ،
میں نے اپنی ذات میں یک بیک ابھرتے ہوئے عجیب و غریب سوالوں کو محسوس کیا ہے ۔
دن کے وقت لوگوں کے ہجوم میں کبھی کبھی یہ سوال میرے ذہن میں ابھرتے،
رات گئے گھر کو لوٹتے ہوئے یا بستر پر لیٹے ہوئے میں ان خیالات میں گم ہو جاتا،
میں ہمیشہ انہی خیالات میں غلطاں و پیچاں رہتا،
میری شناخت بھی میرے وجود سے کی جاتی تھی،
میں جانتا تھا کہ میرے وجود سے میری شناخت ہوتی ہے اور آئندہ بھی میری ذات کی شناخت میرے وجود سے ہو گی۔
-۶-
یہ کیفیت صرف آپ کی ذات تک محدود نہیں ہے کہ کبھی کبھی تاریک خیالات آپ کے ذہن پر چھا جاتے ہیں ،
میرے ذہن پر بھی اسی طرح تاریک خیالات مسلط ہوتے رہتے ہیں ،
مجھے بھی اپنی زندگی کے بہترین افعال لغو اور مشکوک نظر آنے لگتے ہیں ،
میرے دل میں رہ رہ کر یہ سوال اُبھرتا کیا میرے عظیم خیالات درحقیقت بے معنی ہیں ؟
صرف آپ ہی کو معلوم نہیں کہ شر کی حقیقت کیا ہے،
میں بھی جانتا ہوں کہ شر کی حقیقت کیا ہے،
میں بھی متضاد خیالات کا شکار رہا،
میں بے تکی باتیں کرتا، شرم سے چہرہ سرخ ہو جاتا، نفرت کرتا، جھوٹ بولتا، چوری کرتا اور کِینہ پروری کرتا،
میں اپنی مکاری، غصہ، شہوت اور جنسی خواہشات کے بارے میں زبان کھولنے کی جرأت نہیں کر سکتا،
میں بھی متلون مزاج، مغرور، حریص ، کم ظرف، مکار، بزدل اور کِینہ پرور تھا، بھیڑیے، سانپ اور سؤر کی خبیث عادات کی مجھ میں کمی نہیں تھی،
پر فریب نظروں اور لغو باتوں کے علاوہ جنسی خواہشات میرے دل و دماغ پر چھائی ہوئی تھیں ،
انکار، نفرت، التوا، کمینگی اور سستی جیسے عناصر میرے اعمال میں شامل تھے،
میں سب باتوں میں نوعِ انسان کے ساتھ برابر کا شریک تھا، انہی جیسے دن گزارتا اور انہی جیسے اتفاقی واقعات سے دوچار ہوتا،
جب نوجوان لوگ مجھے اپنی طرف آتے ہوئے یا کہیں سے گزرتے ہوئے دیکھتے تو نہایت صاف اور بلند آواز میں مجھے میرے خاص نام سے پکارتے ،
جب میں کھڑا ہو جاتا تو وہ اپنے بازو میری گرد ن میں حمائل کر دیتے یا جب میں بیٹھتا تو ان کے جسم بے پروائی کے انداز میں میرے جسم سے مس ہوتے،
میں اپنے کئی محبوبوں کو بازاروں ، مسافر کشتیوں یا عوامی اجتماعات میں دیکھتا، لیکن ان سے بات نہ کرتا،
میں باقی لوگوں کی طرح زندگی گزارتا، انہی کی طرح ہنستا، کھیلتا، کھاتا، پیتا اور نیند کے مزے لوٹتا ایسا کردار ادا کرتا، جس سے کسی ایکٹر یا ایکٹریس کے فن کا مظاہرہ ہوتا،
وہی پرانا کردار، جس کی تشکیل خود ہمارے ہاتھوں میں ہے، اس سے خواہ ہم انتہائی بلندی پر پہنچ جائیں خواہ انتہائی پستی کی طرف چلے جائیں یا کبھی بلندی اور کبھی پستی کی طرف مائل ہوں ۔
-۷-
میں نے تمھیں قریب سے قریب تر ہو کر دیکھا ہے،
اب تم جتنا میرے متعلق خیال کرتے ہو، میں بھی تمھارے متعلق اتنا ہی سوچتا تھا —- میں نے یہ خیالات قبل از وقت ہی اپنے ذہن میں محفوظ کرلیے تھے،
تم نے ابھی جنم بھی نہیں لیا تھا کہ میں گھنٹوں بڑی سنجیدگی سے تمھارے خیالوں میں گم رہتا۔
کس کو معلوم تھا کہ مجھ پر کیا کیا چیزیں گہرا اثر ڈالتی ہیں ؟
کون جانتا ہے کہ اس قدر مسافت کے باوجود میں تمھیں اپنی چشمِ بصیرت سے صاف دیکھ رہا ہوں حالانکہ تم مجھے نہیں دیکھ سکتے ؟
-۸-
آہ، منہاٹن جو جہازوں کے مستولوں سے پٹا پڑا ہے، کیا میرے لیے اس سے شاندار اور قابلِ تعریف کوئی چیز ہو سکتی ہے؟
یہ دریا، غروبِ آفتاب کا یہ منظر، مد کی ابھرتی ہوئی لہریں جن کے کنارے صدف جیسے ہیں ؟
مرغابیاں جن کے جسم متحرک ہیں ، دھندلکے میں خشک گھاس سے لدی ہوئی کشتیاں اور رات گئے تک جہازوں سے سامان اتارنے والی کشتیاں ؟
کون سے دیوتا ان لوگوں سے بڑھ کر ہو سکتے ہیں جو گرم جوشی سے میرا ہاتھ پکڑتے ہیں اور جب میں قریب جاتا ہوں تو پیاری آواز میں مجھے میرے خاص نام سے پکارتے ہیں ؟
جب جب کسی عورت یا مرد سے میری آنکھیں چار ہوتی ہیں تو ہمارے باہمی ربط سے بڑھ کر اور کس چیز میں لطافت ہو سکتی ہے؟
وہ کون سی چیز ہے جو میری ذات کو تمھارے وجود میں مدغم کرتی ہے اور میرے خیالات کو تمھارے خیالات سے ہم آہنگ کرتی ہے؟
ہم خود ہی ان خیالات کا تجزیہ کر سکتے ہیں ، کیا ہم اس پر قادر نہیں ہیں ؟
میں نے جس چیز کا ذکر کیے بغیر وعدہ کیا تھا، کیا تم نے اسے قبول نہیں کر لیا؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ مطالعہ سے اس کا علم نہیں ہو سکتا تھا اور تبلیغ سے اسے سر انجام نہیں دیا جا سکتا تھا؟
-۹-
اے دریا اپنی روانی سے کام رکھ! مد کی حالت میں موجیں مارتا رہ اور جزر کی حالت میں پرسکون ہو کر چل !
اے صدف جیسے کنارے اور رنگین کلغی رکھنے والی لہرو، خوب اٹکھیلیاں کرو!
اے غروبِ آفتاب کے وقت کے رنگین بادلو، اپنی عظمت کی مجھے بھی جھلک دکھاتے جاؤ اور ان مردوں اور عورتوں کو بھی جو آئندہ نسلوں میں جنم لیں گے!
اے بے شمار مسافرو، ساحل ساحل پار اترتے رہو!
منہاٹن کے اونچے مستولو، اپنے سر اور بلند کرو! بروکلن کی خوبصورت پہاڑیو اپنے سر اور بلند کرو!
اے میرے ششدر اور جستجو پسند دماغ اپنی سرگرمیوں کو تیز تر کر دے! اسی طرح سوالات اور جوابات کی ادھیڑ بن میں لگارہ!
کائنات کے اسرار کا حل تلاش کرنے میں یونہی سر مارتا رہ!
اے محبت میں سرشار اور پیاسی آنکھو، یونہی گھر، بازار اور لوگوں کے ہجوم کو دیکھتی رہو!
اے نوجوانوں کی آوازو، یونہی مترنم لہجے میں بلند ہوتی رہو اور مجھے میرے خاص نام سے پکارتی رہو!
اے میری دیرینہ زندگی، یونہی وہ کردار ادا کرتی رہ جس سے کسی فنکار کی عظمت ظاہر ہوتی ہے
وہ پرانا کردار ادا کرتی رہ، جس کی بلندی یا پستی ہم سب کے دائرہِ اختیار میں ہے!
اے میرے اشعار کو پڑھنے والو، ذرا سوچو تو سہی کیا میں نامعلوم طریقوں سے تمھیں دیکھ رہا ہوں یا نہیں ؟
پاؤں جمالو، دریا کے اوپر جنگلے پر جھک جاؤ، انہی ں سہارا دو جو بے پروائی کے انداز میں اپنے جسم کو تمھارے جسم سے مس کیے ہوئے ہیں اور پھر یوں محسوس کرو جیسے تم بھی پانی کے ساتھ بہے جا رہے ہو،
اے سمندری پرندو، اڑتے رہو! ایک طرف کو جھک کر اڑان جاری رکھو یا فضا کی بلندیوں میں لمبے لمبے چکر کاٹتے رہو!
اے آبِ رواں ، موسمِ گرما کے آسمان کے عکس کو اپنے سینے میں اتار لے اور اس وقت تک اسے محفوظ رکھ، جب تک نظارہ کرنے والوں کی نیچے جھکی ہوئی آنکھیں سیر نہ ہو جائیں !
اے روشنی کی لہرو، سورج کی شعاعوں سے چمکتے پانی میں میرے عکس سے اسی طرح منعطف ہوتی رہو!
اے جہازو، خلیج کے نچلے حصے سے آتے رہو! اے سفید بادبان والی چھوٹی بڑی کشتیو! کبھی اوپر سے نیچے اور کبھی نیچے سے اوپر کو چلتی رہو!
اے تمام اقوام کے قومی پرچمو، یونہی ہوا میں لہراتے رہو! حسبِ معمول غروبِ آفتاب کے وقت اترتے رہو!
اے ڈھلائی کے کارخانوں کی چمنیو، اپنے شعلوں کو یونہی فضا میں بلند کرتی رہو! رات کی تاریکی میں اپنے سیاہ سائے ڈالتی رہو! مکانوں کے بالائی حصوں پرا پنی سرخ اور زرد روشنی پھینکتی رہو!
موجودہ دور کے اور مستقبل کے موہوم پیکرو، اپنی حقیقت ظاہر کرتے رہو!
تم روح کے لیے حجاب کا کام دیتے ہو، یونہی روح پر چھائے رہو!
محبتِ الٰہی کی خوشبو میرے لیے اور تمھارے جسموں کو تمھارے لیے معطر کرتی رہے!
اے شہرو، اپنی رونق کو اور دوبالا کرو! اے وسیع اور بھرپور دریاؤ، تمھارے جہاز اسی طرح سامان لاتے رہیں اور تم اس طرح اپنے نظارے جاری رکھو!
اپنی وسعت کو اور زیادہ کرو، روح کو غذا بہم پہنچانے کے لیے شاید تم سے بڑھ کو کوئی چیز نہیں ،
اے فطرت کے بے زبان اور حسین مبلغو، تم نے بہت عرصہ تک انتظار کیا ہے، تم ہمیشہ انتظار میں محو رہتے ہو،
ہم نہایت گرمجوشی سے تمھارا استقبال کرتے ہیں اور ہمارے جذبات تمھارے حق میں کبھی سرد نہیں پڑیں گے،
تم ہمیں کبھی دھوکا نہیں دو گے یا ہم سے کبھی کنارہ کشی اختیار نہیں کرو گے،
ہم تمھیں اپنے کام میں لاتے ہیں ، اور تمھیں کبھی نظرانداز نہیں کرتے —- ہم تمھیں ہمیشہ کے لیے اپنے سینوں میں محفوظ رکھتے ہیں ،
ہم تمھاری گہرائی کو نہیں پا سکتے —- ہم تم سے محبت کرتے ہیں —- تم جامع کمالات ہو،
تمھاری بنیادیں ابد پر استوار ہیں ،
تم کسی کے لیے بڑے اور کسی کے لیے چھوٹے پیمانے پر روحانی غذا بہم پہنچانے کا سبب ہو۔
وی تی —-
انہد مرلی شور مچایا
مرشد نے سب بھید بتائے
عقل و ہوش و حواس اُڑائے
مدہوشی میں ہوش سکھا کر
منزل کا رستہ دکھلایا
انہد مرلی شور مچایا
جلوئہ وحدتِ کامل دیکھا
نقشِ دوئی کو باطل دیکھا
عالم کے اَسرار کو سمجھا
دھیان گیان کے راز کو پایا
انہد مرلی شور مچایا
نورِ حقائق ہوا نمایاں
سرِ حقیقت ہو گئے آساں
فاش ہوا ہر نکتہِ پنہاں
قرب و بعد کا فرق مٹایا
انہد مرلی شور مچایا
سن کر اس مرلی کی باتیں
اُلجھے راز انوکھی باتیں
بھولے سبھی صفاتیں ذاتیں
وحدت نے وہ رنگ جمایا
انہد مرلی شور مچایا
(ترجمہ از خواجہ غلام فرید، نومبر ۱۹۶۸ ۔ جشنِ فرید منعقدہ ملتان میں پڑھا گیا)
پی، فو، جن
اُس کے ریشمی پھرن کی سرسراب خاموش ہے
مر مر کی پگڈنڈی دھول سے اَٹی ہوئی ہے
اُس کا خالی کمرہ کتنا ٹھنڈا اور سونا ہے
دروازوں پر گرے ہوئے پتوں کے ڈھیر لگے ہیں
اُس سندری کے دھیان میں بیٹھے
میں اپنے دکھیارے من کی کیسے دِھیر بند ھاؤں
جاڑے کی رات
مرا بستر کیسا سونا ہے
میں راتوں جاگتا رہتا ہوں
جب خنکی بڑھنے لگتی ہے
اور رین پون لہراتی ہے
یہ پردے سر سر کرتے ہیں
ساگر سا شور مچاتے ہیں
میں سوچتا ہوں کبھی یہ لہریں
ترے پاس مجھے پھر لے جائیں !!
(والٹ وٹمین کے شعری مجموعے ’’لیوزآف گراس‘‘ مطبوعہ 1891-92ء سے ’’کراسنگ بروکلین فیری‘‘ کا ترجمہ۔ 1965ء میں ناصر کا ظمی نے امریکن سنٹر لاہور کے ایما پر کنیتھ ایس لن کے مرتب کردہ مضامین کے مجموعے ’’دی امیریکن سوسائٹی‘‘ کا ترجمہ کیا، جو اُردو مرکز لاہور کے زیراہتمام شائع ہوا۔ چائن وتنائی نظم اسی کتاب ’’دی امیریکن سوسائٹی‘‘ سے اخذ کی گئی ہیں ۔)
اُس کا در چٹے پانی پر کھلتا تھا
اُس کا در چٹے پانی پر کھلتا تھا
کاٹھ کے پل کے آمنے سامنے
وہاں وہ ننھی منی سندری
سدا اکیلی رہتی تھی
اور اُس کا کوئی یار نہ تھا —-
نظم: تزے۔ یے
(والٹ وٹمین کے شعری مجموعے ’’لیوزآف گراس‘‘ مطبوعہ 1891-92ء سے ’’کراسنگ بروکلین فیری‘‘ کا ترجمہ۔ 1965ء میں ناصر کا ظمی نے امریکن سنٹر لاہور کے ایما پر کنیتھ ایس لن کے مرتب کردہ مضامین کے مجموعے ’’دی امیریکن سوسائٹی‘‘ کا ترجمہ کیا، جو اُردو مرکز لاہور کے زیراہتمام شائع ہوا۔ تزے۔ یے نظم اسی کتاب ’’دی امیریکن سوسائٹی‘‘ سے اخذ کی گئی ہیں ۔)
اے ارضِ وطن
تو جنت میرے خوابوں کی
تری مٹی کے ہر ذرّے میں
خوشبو ہے نئے گلابوں کی
تو جنت میرے آبا کی
گل ریز ہے تیرا ہر گوشہ
زرخیز ہے تیری ہر وادی
تو دولت میری نسلوں کی
ترے دامن میں پوشیدہ ہے
تقدیر سنہری فصلوں کی
تو ساحل میری کشتی کا
ہر آن بدلتے موسم میں
تو حاصل میری کھیتی کا
تو محنت ہے مزدُوروں کی
آبادی میں ، ویرانی میں
تو طاقت ہے مجبوروں کی
تو جنت ماہی گیروں کی
تو سندر بن مرے گیتوں کا
تو ٹھنڈی رات جزیروں کی
تو چاند اندھیری راتوں کا
اُمید کے تنہا جنگل میں
تو جگنو ہے برساتوں کا
تو سرمایہ مری غربت کا
میں تیرے دَم سے زندہ ہوں
تو پرچم ہے مری ہمت کا
ترے جنگل ، پربت ہرے رہیں
یہی رنگ رہے تری جھیلوں کا
چشمے پانی سے بھرے رہیں
تری مانگ جواں رہے پھولوں سے
ترے ننھے پودے ہنستے رہیں
تری گود بھری رہے جھولوں سے
تو میرا لہو میں تیرا لہو
تو میرا شجر میں تیرا ثمر
جو تیرا عدو وہ میرا عدو
اے ارضِ وطن مجھے تیری قسم
جب تجھ کو ضرورت ہو میری
شمشیر بنے گا میرا قلم
میں تیرے لیے پھر آؤں گا
ہر عہد میں تیری نسلوں کو
خوشیوں کے گیت سناؤں گا
(۱۹۷۱ ۔ لاہور ٹی وی)
قائدِاعظم
دُنیا کو یاد تیری حکایت ہے آج بھی
ہر ایک دل میں تیری محبت ہے آج بھی
کانوں میں گونجتی ہے ابھی تک تری صدا
آنکھوں کے سامنے تری صورت ہے آج بھی
تیرا کلام انجمن افروز کل بھی تھا
تیرا پیام شمعِ ہدایت ہے آج بھی
تزئینِ باغ تشنہِ تکمیل ہے ابھی
میرے وطن کو تیری ضرورت ہے آج بھی
ہر محاذِ جنگ پر
اے خدائے دو جہاں
تیرے حکم سے بہار اور خزاں
تو نے خاکِ مردہ کو شجر دیے
رَس بھرے ثمر دیے
بحر کو صدف، صدف کو بے بہا گہر دیے
تازہ موسموں کے ساتھ
طائروں کو تازہ بال و پر دیے
بے گھروں کو گھر دیے
اے مرے کریم رب!
کس زباں سے تیرا شکر ہو ادا
تو نے ہم کو یہ نیا وطن دیا
ہم نے یہ نیا وطن ترے ہی نام پر لیا
اس نئے چمن میں کتنے رنگ رنگ پھول ہیں
کیسے کیسے شہر اور کیسے کیسے لوگ ہیں
کیسے کیسے شاعر اور نغمہ گر
کتنے اہلِ علم اور باکمال
کس قدر جری دلیر نوجواں
جن کے دل سے جاوداں ہے اس چمن کی داستاں
اے مرے کریم ربّ تو نے اپنے بندوں کو ہزارہا ہنر دیے
اور مجھے قلم دیا
اے علیم تیرے عِلم کے حضور
میرے عِم اور ہنر کی کیا بساط
آج مجھ کو اتنی مہلت اَور دے کہ لکھ سکوں وہ داستاں
جو اپنے خوں سے لکھ رہے ہیں سرحدوں کے پاسباں
یہ صف شکن دلیر ہیں مرے قلم کی آبرو
انہی کے دَم سے آج پھر مرا قلم ہے سرخرو
قلم جو لفظِ تازہ کا شکاری تھا
قلم جو حرف و صوت کا پجاری تھا
وہی قلم بلند ہو کے اب جہاد کا علم بنا
وہی قلم مجاہدوں کے ہاتھ میں وہ برقِ شعلہ خو بنا
جو دُشمنوں کی صف پہ ٹوٹ ٹوٹ کر گرا
اب اپنے کاغذوں پہ چشمِ خوں فشاں کا نم نہیں
اب اپنے کاغذوں پہ جاتے موسموں کا غم نہیں
یہ کاغذ اپنے ہاتھ میں وہ کار گاہِ رزم ہے
جہاں پہ فتحِ قوم کا نشان میری نظم ہے
یہ کاغذ اپنے ہاتھ میں وہ بحر بے کنار ہے
جہاں ہر ایک موج فتح مند ذوالفقار ہے
یہ کاغذ اپنے ہاتھ میں ہے وہ فضائے بیکراں
جہاں ہوا کے پاسباں ہیں ہر طرف شررفشاں
مرے قلم کی روشنائی تیرگی کو زہر ہے
مرے قلم کے سحر سے چھڑی ہے داستان،
رزمِ خندق و حنین کی
علیؓ کی ذُوالفقار سے جو بچ گئے
وہ زد میں ہیں حسینؓ کی
مرے قلم وہ معرکے دکھا مجھے
جہاں ہمارے غازیوں نے ظلم وجور کے ہر اِک نشان کو مٹا دیا
مری جبیں کی ہر شکن کو زندہ کر
کہ اب عدو ہماری تیغِ ضوفشاں کی زد میں ہے
مرے یقیں کو تازہ کر
کہ اب عدو ہماری ضربِ جاوداں کی زد میں ہے
یہ جنگ آج کفر و دیں کی جنگ ہے
یہ میری قوم کے یقیں کی جنگ ہے
یہ میری پاک سر زمیں کی جنگ ہے
یہ جنگ آج حق پرست ملتوں کی جنگ ہے
یہ جنگ آج صلح جو صداقتوں کی جنگ ہے
ترے کرم سے اے مرے کریم ربّ
مرا قلم ہے سرخرو
مرا قلم ہے میرے فن کی آبرو
مری صدا میں آج آتے موسموں کا نور ہے
مری نوا میں آج صبحِ فتح کا ظہور ہے
کہ میری پاک سر زمیں کا
ایک ایک فرد پوری قوم ہے
پوری قوم آج ایک فرد ہے
عدو کا رنگ زرد ہے
مرا وطن یونہی رہے گا تا ابد
مرا چمن یونہی رہے گا تا ابد
ارضِ پاک تیرے صبر کی قسم!
تیرے غازیوں ، شہیدوں کی قسم!
جب تلک ہے دَم میں دَم
جب تلک ہے اپنی سرحدوں پہ یورشِ ستم
عدو سے پنجہ آزما رہیں گے ہم
ہر محاذِ جنگ پر
قلب وچشم وگوش کے محاذ پر
عقل وتاب وہوش کے محاذ پر
خواب اور خیال کے محاذ پر
شعر اور ساز کے محاذ پر
شہر شہر گاؤں گاؤں
گلیوں اور کھیتوں میں
جنگلوں ، پہاڑوں میں
وادیوں ، جزیروں اور جھیلوں میں
میگھنا سے راوی تک
سبز اور سنہرے دیس کے چمکتے رمنوں میں
نشر گاہوں ، درس گاہوں
کارخانوں ، دفتروں میں اور گھروں میں
بحروبر میں اور فضا میں
دُشمنوں کے راستوں میں
دشمنوں کی بستیوں میں
ہر نئے محاذ پر
ہر محاذِ جنگ پر
ایک ہزار سال تک لڑیں گے ہم
ایک ہزار سال تک لڑیں گے ہم
ایک ہزار سال تک لڑیں گے ہم
(۱۲ دسمبر ۱۹۷۱ ۔ لاہور ٹی وی)
آج تری یادوں کا دن ہے
تیری یاد سے مشرق مغرب
جاگ رہے ہیں شہر ہمارے
تیرے نام سے گونج رہے ہیں
علم اور حکمت کے گہوارے
کہیں لیک تیرے ہاتھوں کی
کہیں تری باتوں کی خوشبو
کہیں چمک تیری آنکھوں کی
کہیں تری آواز کا جادُو
عزم ترا کہسار کی عظمت
تیری فکر سمندر گہرا
دو دھاری تلوار کی ضربت
لمبا قد اور جسم اکہرا
تو نے کھوئی ہوئی باتوں کو
مایوسی میں یاد دلایا
تو نے سوئی ہوئی راتوں کو
بیداری کا خواب دکھایا
تیری یاد سے مہک رہے ہیں
گلشن ، بن ، بستی ، ویرانے
ہونٹ ہونٹ پر نام ہے تیرا
گلی گلی تیرے افسانے
قائدِاعظم میرے دل میں
تیری محبت زندہ رہے گی
نام ترا تابندہ رہے گا
یاد تری پائندہ رہے گی
(۱۱ ستمبر ۱۹۶۹ ۔ لاہو ر ٹی وی)
ہنستے پھولو ہنستے رہنا
ہنستے پھولو ہنستے رہنا
تم ہو پاک وطن کا گہنا
دُھوم ہے گھر گھر آج تمھاری
خوشبو کی نہریں ہیں جاری
شاخوں نے پھر گہنا پہنا
ہنستے پھولو ہنستے رہنا
پھول ہیں تھوڑے ، خار بہت ہیں
پردے میں اغیار بہت ہیں
اپنا بھید کسی سے نہ کہنا
ہنستے پھولو ہنستے رہنا
تم ہو شہیدوں کا نذرانہ
تم کو قسم ہے سر نہ جھکانا
آپس کے دُکھ مل کر سہنا
ہنستے پھولو ہنستے رہنا
راوی اور چناب کے پیارو
جہلم ، سندھ کی آنکھ کے تارو
آج سے میرے دل میں رہنا
ہنستے پھولو ہنستے رہنا
(۱۵ نومبر ۱۹۶۵)
تیرگی ختم ہوئی
تیرگی ختم ہوئی ، صبح کے آثار ہوئے
شہر کے لوگ نئے عزم سے بیدار ہوئے
شب کی تاریکی میں جو آئے تھے رہزن بن کر
صبح ہوتے ہی وہ رُسوا سرِبازار ہوئے
جگمگانے لگیں پھر میرے وطن کی گلیاں
ظلم کے ہاتھ سمٹ کر پسِ دیوار ہوئے
ہم پہ احساں ہے ترا شہر کی اے نہرِ عظیم
تو نے سینے پہ سہے ، شہر پہ جو وار ہوئے
شاخ در شاخ چمکنے لگے خوشبو کے چراغ
عالمِ خاک سے پیدا نئے گلزار ہوئے
تو ہے عزیزِ ملت
تو ہے عزیزِ ملت تو ہے نشانِ حیدر
احساں ہے تیرا ہم پر اے قوم کے دلاور
تو عزم کا ستارہ ، تو ہے ہلالِ جرأت
تو خادمِ وطن ہے ، تجھ سے وطن کی عزت
گاتے ہیں تیرے نغمے راوی ، چناب، جہلم
تاروں کی سلطنت پر اُڑتا ہے تیرا پرچم
سلہٹ سے تا کراچی پھیلے ہیں تیرے شہپر
تو ہے عزیزِ ملت تو ہے نشانِ حیدر
رَن کچھ کے معرکے میں جوہر دکھائے تو نے
واہگہ کی سرحدوں سے لشکر ہٹائے تو نے
توپوں کے منہ کو موڑا ، ٹینکوں کا مان توڑا
جو تیری زد میں آیا تو نے نہ اُس کو چھوڑا
زندہ کیا وطن کو تو نے شہید ہو کر
تو ہے عزیزِ ملت تو ہے نشانِ حیدر
اُونچی تری اُڑانیں ، کاری ترے نشانے
تونے جلا کے چھوڑے دُشمن کے آشیانے
باندھا ہے وہ نشانہ دُشمن کے گھر میں جا کر
تو نے گرائے ہنٹر اِک آن میں جھپٹ کر
بجلی ہیں تیرے بمبر ، شاہیں ہیں تیرے سیبر
تو ہے عزیزِ ملت تو ہے نشانِ حیدر
ساندل کے آسماں سے روکے ہیں تو نے حملے
راوی کی وادیوں پر احساں ہیں تیرے کتنے
چھنب اور جوڑیاں میں گاڑا ہے تو نے جھنڈا
اے دوارکا کے غازی زندہ ہے نام تیرا
ہیبت سے تیری لرزاں کہسار اور سمندر
تو ہے عزیزِ ملت تو ہے نشانِ حیدر
وہ شہر بلھے شاہ کا بستا ہے تیرے دَم سے
خوشحال خاں کی نگری ہے تیرے دَم قدم سے
داتا کا شہر تو نے پائندہ کر دیا ہے
اقبال کے وطن کو پھر زندہ کر دیا ہے
ہر دیس ، ہر نگر میں چرچا ہے تیرا گھر گھر
تو ہے عزیزِ ملت تو ہے نشانِ حیدر
(۲۹ ستمبر ۱۹۶۵)
تو ہے مری زندگی
تو ہے مری زندگی اے مرے پیارے وطن
تو ہے مری روشنی اے مرے پیارے وطن
اے مری خلدِ بریں تیری بہاروں کی خیر
اے مرے عزم و یقیں تیرے دیاروں کی خیر
تیرے ستاروں کی خیر
تو ہے مری زندگی اے مرے پیارے وطن
پاک ترے آبشار پاک ہیں تیرے جبل
پاک تیری کھیتیاں پاک ترے پھول پھل
جلوئہ صبحِ ازل
تو ہے مری زندگی اے مرے پیارے وطن
تیری فضا پر کھلے چاند ستاروں کے راز
عرش کی محراب میں پڑھتے ہیں شاہین نماز
پاک دل و پاک باز
تو ہے مری زندگی اے مرے پیارے وطن
صدائے کشمیر
صدائے کشمیر آ رہی ہے ، ہماری منزل قریب تر ہے
یہ عدل و انصاف کی گھڑی ہے، ستم کی میعاد مختصر ہے
لہو شہیدوں کا رنگ لایا
نئی سحر کی اُمنگ لایا
غرور کا اَبر چھٹ رہا ہے
رُخِ حوادث پلٹ رہا ہے
یہ پیڑ اب تیر بن گئے ہیں
چنار شمشیر بن گئے ہیں
خدا کا قہر و عذاب آیا
عدو کا روزِ حساب آیا
گھروں سے نکلے ہیں اہلِ ایماں
کسی کے بس کا نہیں یہ طوفاں
گزر کے چشموں سے، بحر و بر سے
ہر ایک گھر تک پہنچ گئی ہے
سری نگر تک پہنچ گئی ہے
یہ تیغ تھامے نہ تھم سکے گی
عدو کی محفل نہ جم سکے گی
علم ہمارا نہ جھک سکے گا
یہ سیل روکے نہ رُک سکے گا
(۲۴ اکتوبر ۱۹۶۵ ۔ آزاد کشمیر ریڈیو)
سرگودھا میرا شہر
زندہ دِلوں کا گہوارہ ہے سرگودھا میرا شہر
سب کی آنکھوں کا تارا ہے سرگودھا میرا شہر
سورج سے گھر ، چاند سی گلیاں ، جنت کی تصویر
بانکے چھیل چھبیلے گبھرو غیرت کی شمشیر
سبک چال نخریلے گھوڑے، کڑیل نیزہ باز
آنکھیں تیز کڑکتی بجلی تاروں کی ہمراز
زندہ دِلوں کا گہوارہ ہے سرگودھا میرا شہر
تھل ، جنگل ، پربت اور بیلے ہرے بھرے شاداب
سونا سی لہراتی فصلیں ، نہریں بھی خوش آب
سرحد سرحد اس کے سپاہی آگے بڑھتے جائیں
ان کے ساتھ خدا کی رحمت اور بہنوں کی دُعائیں
زندہ دِلوں کا گہوارہ ہے سرگودھا میرا شہر
ہر دَم اس کے جیٹ طیارے اُڑنے کو تیار
تیز ہوا بازوں کا دستہ چوکس اور ہشیار
دُشمن کے کتنے طیارے پل میں کیے برباد
سرگودھا کے شہبازوں کو وقت کرے گا یاد
زندہ دِلوں کا گہوارہ ہے سرگودھا میرا شہر
(۱۵ ستمبر ۱۹۶۵)
سیالکوٹ توزندہ رہے گا
زندہ رہے گا زندہ رہے گا ، سیالکوٹ تو زندہ رہے گا
زندہ قوموں کی تاریخ میں نام ترا تابندہ رہے گا
جموں اور کشمیر سے پہلے تو ہے نصرت کا دروازہ
دُشمن بھی اب کر بیٹھا ہے تیری جرأت کا اندازہ
زندہ رہے گا زندہ رہے گا ، سیالکوٹ تو زندہ رہے گا
شاعرِ مشرق کا تو مسکن ، تجھ پہ بزرگوں کا ہے سایا
جس نے تجھ پر ہاتھ اُٹھا یا ، تو نے اُس کا نام مٹایا
زندہ رہے گا زندہ رہے گا ، سیالکوٹ تو زندہ رہے گا
دوسری جنگِ عظیم کے بعد نہیں دیکھی ہے ایسی لڑائی
سرحد سرحد دیکھ چکی ہے دُنیا دُشمن کی پسپائی
زندہ رہے گا زندہ رہے گا ، سیالکوٹ تو زندہ رہے گا
تیری سرحد سرحد پر دُشمن کا قبرستان بنا ہے
تیری جانبازی کا سکہ دُنیا نے اب مان لیا ہے
زندہ رہے گا زندہ رہے گا، سیالکوٹ تو زندہ رہے گا
پاک فوج ہے تیری محافظ ایک وار بس اَور دکھادے
اُٹھ اور نام علیؑ کا لے کر دُشمن کو مٹی میں ملا دے
زندہ رہے گا زندہ رہے گا ، سیالکوٹ تو زندہ رہے گا
(۹ ستمبر ۱۹۶۵)
وطن
اے وطن تجھ سے نیا عہدِ وفا کرتے ہیں
مال کیا چیز ہے ، ہم جان فدا کرتے ہیں
سرخ ہو جاتی ہے جب صحنِ چمن کی مٹی
اسی موسم میں نئے پھول کھلا کرتے ہیں
اے نگہبانِ وطن تیرا نگہباں ہو خدا
شہر کے لوگ ترے حق میں دُعا کرتے ہیں
گلشن پاک ہمارا
گلشن پاک ہمارا
تن من دھن سے پیارا
ہم کو ناز ہے اس گلشن پر
ہم نے کتنی جانیں دے کر
اس کا رنگ اُبھارا
گلشن پاک ہمارا
بستے شہر زمیں کے سہرے
تہذیبوں کے روشن چہرے
گھر گھر چاند ستارا
گلشن پاک ہمارا
پاک فضا ، پرچم نورانی
بیداری کی زندہ نشانی
نصرت کا گہوارہ
گلشن پاک ہمارا
ساقی مجھے پھر فکرِ جہاں نے گھیرا
موتی تری گفتار کے چنتا ہی رہوں
کیا نقل کروں شامِ غریباں کی بہار
تر آنکھ کروں معدِن گوہر کھل جائے
گر مدحتِ شبیر کا دفتر کھل جائے
لہو لہو ہے زبانِ قلم بیاں کے لیے
تزئینِ کائنات برنگِ دِگر ہے آج
تزئینِ کائنات برنگِ دِگر ہے آج
جشنِ ولادتِ شہِ جن و بشر ہے آج
صدیوں سے فرشِ راہ تھے جس کے لیے نجوم
آغوشِ آمنہ میں وہ رشکِ قمر ہے آج
صبح ازل کو جس نے دیا حسنِ لازوال
وہ موجِ نور زینتِ دیوار و در ہے آج
کس کے قدم سے چمکی ہے بطحا کی سر زمیں
ظلمت کدوں میں شورِ نویدِ سحر ہے آج
اے چشمِ شوق شوکتِ نظارہ دیکھنا
ماہِ فلک چراغِ سرِ رہ گزر ہے آج
شوقِ نظارہ نے وہ تراشا ہے آئنہ
جس آئنے میں جلوہِ آئینہ گر ہے آج
جچتی نہیں نگاہ میں دُنیا کی رونقیں
کیا پوچھتے ہو دھیان ہمارا کدھر ہے آج
ناصر درِ حضورؐ سے جو چاہو مانگ لو
وا خاص و عام کے لیے بابِ اثر ہے آج
(۱۹ مئی ۱۹۷۰)
دل کی دُنیا میں ہے روشنی آپؐ سے
دل کی دُنیا میں ہے روشنی آپؐ سے
ہم نے پائی نئی زندگی آپؐ سے
کیوں نہ نازاں ہوں اپنے مقدر پہ ہم
ہم کو ایماں کی دولت ملی آپؐ سے
کل بھی معمور تھا آپ کے نور سے
ہے منوّر جہاں آج بھی آپؐ سے
دُشمنوں پر بھی در رحمتوں کا کھلا
راہ و رسمِ محبت چلی آپؐ سے
دل کا غنچہ چٹکتا ہے صلِ علیٰ
اپنے گلشن میں ہے تازگی آپؐ سے
سب جہانوں کی رحمت کہا آپؐ کو
کتنا خوش ہے خدا ، یانبی آپؐ سے
ختم ہے آپ پر شانِ پیغمبری
یہ روایت مکمل ہوئی آپؐ سے
(۱۱ فروری ۱۹۷۱)
شجر حجر تمھیں جھک کر سلام کرتے ہیں
شجر حجر تمھیں جھک کر سلام کرتے ہیں
یہ بے زبان تمھیں سے کلام کرتے ہیں
زمیں کو عرشِ معلی ہے تیرا گنبدِ سبز
تری گلی میں فرشتے قیام کرتے ہیں
مسافروں کو ترا دَر ہے منزلِ آخر
یہیں سب اپنی مسافت تمام کرتے ہیں
جنھیں جہاں میں کہیں بھی اماں نہیں ملتی
وہ قافلے یہاں آ کر قیام کرتے ہیں
نظر میں پھرتے ہیں تیرے دیار کے منظر
اسی نواح میں ہم صبح و شام کرتے ہیں
سکونِ دل کی انہی سے اُمید ہے ناصر
جو اپنا فیض غریبوں پہ عام کرتے ہیں
(۲۵ فروری ۱۹۷۵ ۔ لاہور ٹی وی)
پیامِ حق کا تمھیں منتہی سمجھتے ہیں
پیامِ حق کا تمھیں منتہی سمجھتے ہیں
تمھاری یاد کو ہم زندگی سمجھتے ہیں
تمھارے نور سے معمور ہیں وجود و عدم
اسی چراغ کو ہم روشنی سمجھتے ہیں
قدم پڑا ہے جہاں آپ کے غلاموں کا
ہم اُس زمین کو تختِ شہی سمجھتے ہیں
یہ آپ ہی کا کرم ہے کہ آج خاک نشیں
مقامِ بندگی و قیصری سمجھتے ہیں
سمجھ سکیں گے وہ کیا رُتبہِ نبیِؐ کریم
جو آدمی کو فقط آدمی سمجھتے ہیں
اے ختمِ رُسلؐ اے شاہِ زمن اے پاک نبی رحمت والے
اے ختمِ رُسلؐ اے شاہِ زمن اے پاک نبی رحمت والے
تو جانِ سخن موضوعِ سخن اے پاک نبی رحمت والے
اے عقدہ کشائے کون و مکاں ترے وصف نہیں محتاجِ بیاں
عاجز ہے زباں ، قاصر ہے دہن اے پاک نبی رحمت والے
اے بدر و حنین کے راہ نما ، اے فاتحِ خیبر کے مولا
ترا ایک اشارہ کفر شکن اے پاک نبی رحمت والے
تری یاد ہماری شمعِ یقیں ، ترا نام ہمارا نقشِ نگیں
ترے نور سے ہے ملت کا چمن اے پاک نبی رحمت والے
میں کچھ بھی نہیں مجھے کیا ہے غم جب تیرا کرم ہے شاہِ کرم
شاداب ہے میرے تن کا بن اے پاک نبی رحمت والے
تضمین براشعارِ غالب
یہ کون طائرِ سد رہ سے ہم کلام آیا
یہ کون طائرِ سد رہ سے ہم کلام آیا
جہانِ خاک کو پھر عرش کا سلام آیا
جبیں بھی سجدہ طلب ہے یہ کیا مقام آیا
’’زباں پہ بارِ خدایا! یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے‘‘
خطِ جبیں ترا اُمّ الکتاب کی تفسیر
کہاں سے لاؤں ترا مثل اور تیری نظیر
دکھاؤں پیکرِ الفاظ میں تری تصویر
’’مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغِ اسیر
کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لیے‘‘
کہاں وہ پیکرِ نوری ، کہاں قبائے غزل
کہاں وہ عرش مکیں اور کہاں نوائے غزل
کہاں وہ جلوئہ معنی ، کہاں ردائے غزل
’’بقدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے‘‘
تھکی ہے فکرِ رسا اور مدح باقی ہے
قلم ہے آبلہ پا اور مدح باقی ہے
تمام عمر لکھا اور مدح باقی ہے
’’ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے‘‘
ساتواں رنگ
بال کالے ، سفید برف سے گال
چاند سا جسم ، کوٹ بادل کا
لہریا آستین ، سرخ بٹن
کچھ بھلا سا تھا رنگ آنچل کا
اب کے آئے تو یہ ارادہ ہے
دونوں آنکھوں سے اس کو دیکھوں گا
گجر پھولوں کے
اک کرن چشم و چراغِ دلِ شب
کیوں اسے خونِ رگِ دل نہ کہوں
رقص کرتی ہے کبھی شیشوں پر
کبھی روزن سے اُتر آتی ہے
کبھی اِک جامہِ آویزاں کی
نرم سلوٹ کے خنک گوشوں میں
گیت بنتی ہے گجر پھولوں کے
بارش کی دُعا
اے داتا بادل برسا دے
فصلوں کے پرچم لہرا دے
دیس کی دولت دیس کے پیارے
سوکھ رہے ہیں کھیت ہمارے
ان کھیتوں کی پیاس بجھا دے
اے داتا بادل برسا دے
یوں برسیں رحمت کی گھٹائیں
داغ پرانے سب دُھل جائیں
اب کے برس وہ رنگ جما دے
اے داتا بارش برسا دے
کھیتوں کو دانوں سے بھر دے
مردہ زمیں کو زندہ کر دے
تو سنتا ہے سب کی دعائیں
داتا ہم کیوں خالی جائیں
ہم کو بھی محنت کا صلہ دے
اے داتا بادل برسا دے
(دو فروری ۱۹۶۷)
نیا سفر
اندھیروں کی نگری سے پھوٹی کرن
مہکنے لگا خاک دانِ کہن
اُٹھا محملِ وقت کا سارباں
نئی منزلوں کو چلے کارواں
سریلی ہواؤں نے چھیڑا وہ راگ
لگی اوس سے خیمہِ گل میں آگ
صبا گل کی نس نس میں بسنے لگی
اُجالوں کی برکھا برسنے لگی
نئے پھول نکلے نئے روپ میں
زمیں جھم جھمانے لگی دھوپ میں
ترنجِ فلک کی ضیا پھیل کر
زرِ گل بچھانے لگی خاک پر
فضا جگمگائی گلِ سنگ سے
ہوا پھر گئی گردشِ رنگ سے
پہاڑوں سے لاوا نکلنے لگا
جگر پتھروں کا پگھلنے لگا
چمن در چمن وہ رمق اب کہاں
وہ شعلے شفق تا شفق اب کہاں
کراں تا کراں ظلمتیں چھا گئیں
وہ جلوے طبق در طبق اب کہاں
بجھی آتشِ گل اندھیرا ہوا
وہ اُجلے سنہرے ورق اب کہاں
سریلی ہواؤں میں رَس گھول کر
طیور اُڑ گئے بولیاں بول کر
زمیں بٹ گئی ، آسماں بٹ گیا
چمن بٹ گیا ، آشیاں بٹ گیا
نکلنے لگا آبشاروں سے دُود
ہوا قلزمِ ماہ جل کر کبود
پہاڑوں میں میداں میں جنگل میں آگ
سمندر میں خشکی میں جل تھل میں آگ
گرجنے لگیں آگ کی بدلیاں
جھلسنے لگیں پیاس سے کھیتیاں
وہ آندھی چلی دَورِ آلام کی
کہ رُکنے لگی نبض ایام کی
اُٹھے یوں نجیبانِ انجم سپاہ
گرا ہار کر تاش کا بادشاہ
رہِ جستجو مختصر ہو گئی
ہمالہ کی چوٹی بھی سر ہو گئی
پرانی بہاریں قفس میں گئیں
وہ انساں گئے اور وہ رسمیں گئیں
نئی گردشوں میں گھرا آسماں
زمینِ کہن پر گرا آسماں
’’ہوا ایک جنگل میں آ کر گزر
کسو کو نہیں یاں کسو کی خبر‘‘
ہوا نوحہ گر دشتِ شب کا نقیب
صدا اس کی پرہول ، صورت عجیب
یہ وحشی جہاں محوِ فریاد ہو
وہاں کوئی بستی نہ آباد ہو
جہاں گھر بنائے یہ خانہ خراب
وہاں کے مکینوں کو آئے نہ خواب
سرِ شام بستی میں رونے لگے
مگر دن نکلتے ہی سونے لگے
پرانی حویلی کی دیوار پر
کرے ہاؤ ہو ہاؤ ہو رات بھر
پھڑکتا رہا اور روتا رہا
بھرے شہر کی نیند کھوتا رہا
کسی منچلے نے جو دیکھا اُدھر
اُڑایا اُسے کنکری مار کر
اُٹھی اک صدا بام کے متصل
جسے سن کے پھٹ جائے پتھر کا دِل
لیے چونچ میں کنکری اُڑ گیا
گھنے جنگلوں کی طرف مڑ گیا
بلندی سے آخر گرایا اُسے
کسی آبجو میں بہایا اُسے
نہ پھر شہر کی سمت آیا کبھی
وہ نوحہ نہ اُس نے سنایا کبھی
اِدھر فکر سے جان گھلنے لگی
خیالوں کی کھڑکی سی کھلنے لگی
نظر آیا ملکِ سخن کنکری
غزل کنکری اور بھجن کنکری
گھلی کنکری اور پانی ہوئی
پئے گوشِ عبرت کہانی ہوئی
پلٹ کر جو دیکھا سماں اور تھا
کہ پردے میں فتنہ نہاں اور تھا
نیا شور لے کر جمودی اُٹھے
سخن ور گئے اور نمودی اُٹھے
چٹخنے لگے یوں زباں پر سخن
جلے جیسے سوکھے درختوں کا بن
’’نہ بلبل غزل خواں نہ طیروں کا شور
سبھی دیکھتے میر کے منہ کی اَور‘‘
نہاں رازِ مطلوب و طالب رہا
ہر آواز پر میر غالب رہا
بجھے یوں اجالوں میں تیرہ ضمیر
پریشاں ہو جیسے دُھوئیں کی لکیر
نہ چشمِ بصیرت نہ ذوقِ ہنر
ہوئیں ساری اقدار زیر و زبر
رہ و رسمِ اجداد سے کٹ گئے
ہم اپنی روایات سے کٹ گئے
یہاں میر و غالب کا فن کیا کرے
سخن ساز عرضِ سخن کیا کرے
اُجڑتا رہا بوستانِ ادب
مگر پھول کھلتے رہے زیرِ لب
تصوّر کی تیغِ دو دَم چوم کر
چھپے کنج میں ہم ، قلم چوم کر
مجھے شورِ چرخ و زمیں لے گیا
تصوّر کہیں سے کہیں لے گیا
بدلنے لگی آسمانوں کی لے
نیا چاند اُترا سرِ برگِ نے
زمیں اجنبی آسماں اجنبی
سفر اجنبی کارواں اجنبی
خنک نیلے نیلے بحیرے کہیں
بحیروں کے اندر جزیرے کہیں
خنک پانیوں پر سفینے رواں
سفینوں پہ اُڑتے ہوئے بادباں
شرابور رستے ، معطر فضا
شجر خوب صورت ، ثمر خوش نما
سنیلے مکاں اور سجیلے مکیں
مکیں جن کی چھب دل رُبا دل نشیں
کہیں بدلیاں گیت گاتی ہوئیں
کہیں بارشیں گنگناتی ہوئیں
کسی مدھ بھری صبح کی آس میں
شتر مرغ دبکے ہوئے گھاس میں
کہیں پیچ در پیچ بیلوں کے جال
کہیں گھاٹیوں میں رمیدہ غزال
فضا در فضا پھول سی تتلیاں
پروں پر اُٹھائے ہوئے گلستاں
کہیں منزلوں کے دھواں دھار گھیر
کہیں سونے سنسان رستوں کے پھیر
کہیں گردِ مہتاب اُڑتی ہوئی
نشیبوں میں بل کھا کے اُڑتی ہوئی
ہوا تازہ رس پھول چنتی ہوئی
زمیں اَن سنے راگ بنتی ہوئی
ستارے گئے ظلمتوں کو لیے
چٹخنے لگے شاخچوں پر دِیے
کھلا جنت صبح کا در کھلا
بہ آوازِ اللہ اکبر کھلا
مہکنے لگیں دھان کی کھیتیاں
کہ ابرِ بہاری برس کر کھلا
چلے مدتوں کے رُکے راہ رو
کوئی پا برہنہ ، کوئی سر کھلا
جنھیں پانیوں میں اُترنا پڑے
وہ ہاتھوں میں رکھتے ہیں خنجر کھلا
لرزنے لگی تنگنائے سخن
کہ شاہینِ معنی کا شہپر کھلا
نئی رُت نے چھیڑا نیا ارغنوں
فضا میں جھلکتا ہے لمحوں کا خوں
ہوئے نغمہ زن طائرانِ چمن
کہ عرصے میں اُترے ہیں اہلِ سخن
وہ درویشِ گلگوں قبا آ گئے
وہ رندانِ خونیں نوا آگئے
نئے دن کا سورج دَمکنے لگا
زمیں کا ستارہ چمکنے لگا
(جولائی ۔ ۵۴)
شہر غریب
رات سنسان آدمی نہ دیا
کس سے پوچھوں تری گلی کا پتا
شہر میں بے شمار رَستے ہیں
کیا خبر تو کدھر گیا ہو گا
آج کس رُو سیاہ آندھی نے
سبز تاروں کا کھیت لوٹ لیا
تھم گئے ریت کے رواں چشمے
سو گیا گیت ساربانوں کا
آ رہی ہے یہ کس کے پاؤں کی چاپ
پھیلتا جا رہا ہے سناٹا
یہ مرے ساتھ چل رہا ہے کون
کس نے مجھ کو ابھی پکارا تھا
سامنے گھورتی ہیں دو آنکھیں
اور پیچھے لگی ہے کوئی بلا
ڈُوبی جاتی ہیں وقت کی نبضیں
آ رہی ہے کوئی عجیب ندا
اک طرف بے اماں اجاڑ مکاں
اک طرف سلسلہ مزاروں کا
سرنگوں چھتریاں کھجوروں کی
بال کھولے کھڑی ہو جیسے قضا
یہ دِیا سا ہے کیا اندھیرے میں
ہو نہ ہو یہ مکان ہے تیرا
دل تو کہتا ہے در پہ دستک دوں
سوچتا ہوں کہ تو کہے گا کیا
جانے کیوں میں نے ہاتھ روک لیے
یہ مجھے کس خیال نے گھیرا
کسی بے نام وہم کی دیمک
چاٹنے آ گئی لہو میرا
دشتِ شب میں اُبھر کے ڈوب گئی
کسی ناگن کی ہولناک صدا
تیرے دیوار و در کے سایوں پر
مجھ کو ہوتا ہے سانپ کا دھوکا
بوٹا بوٹا ہے سانپ کی تصویر
پتا پتا ہے سانپ کا ٹیکا
آسماں جیسے سانپ کی کنڈلی
تارا تارا ہے سانپ کا منکا
آ رہی ہے لکیر سانپوں کی
ہر گلی پر ہے سانپ کا پہرا
سانپ ہی سانپ ہیں جدھر دیکھو
شہر تیرا تو گڑھ ہے سانپوں کا
تیرے گھر کی طرف سے میری طرف
بڑھتا آتا ہے ایک سایا سا
دھوپ سا رنگ برق سی رفتار
جسم شاخِ نبات سا پتلا
پھول سا پھن چراغ سی آنکھیں
یہ تو راجا ہے کوئی سانپوں کا
ہاں مری آستیں کا سانپ ہے یہ
کیوں نہ ہو مجھ کو جان سے پیارا
ایک ہی پل میں یوں ہوا غائب
جیسے پانی سے عکس بجلی کا
کٹ گئی پھر مرے خیال کی رَو
شیشہِ خواب کار ٹوٹ گیا
ناگہاں سیٹیاں سی بجنے لگیں
رات کا شہر پل میں جاگ اُٹھا
آنکھیں کھلنے لگیں دریچوں کی
سانس لینے لگی خموش فضا
میں تو چپ چاپ چل رہا تھا مگر
شہر والوں نے جانے کیا سمجھا
تیری بستی میں اتنی رات گئے
کون ہوتا بھلا یہ میرے سوا
ارے یہ میں ہوں تیرا شہر غریب
تو گلی میں تو آ کے دیکھ ذرا
سوچتا ہوں کھڑا اندھیرے میں
تو نے دروازہ کیوں نہیں کھولا
میرا ساتھی مرا شریکِ سفر
رہ گیا پچھلی رات کا تارا
کہاں لے آئی تو مجھے تقدیر
میں کہاں آ گیا ہوں میرے خدا
یہاں پھلتا نہیں کوئی آنسو
یہاں جلتا نہیں کسی کا دیا
تیرا کیا کام تھا یہاں ناصر
تو بھلا اس نگر میں کیوں آیا
(۱۹۵۴)
مطلعِ ثانی
دل کھینچتی ہے منزلِ آبائے رفتنی
جو اس پہ مرمٹے وہی قسمت کے تھے دھنی
وہ شیر سو رہے ہیں وہاں کاظمین کے
ہیبت سے جن کی گرد ہوئے کوہِ آہنی
شاہانِ فقر وہ مرے اجدادِ باکمال
کرتی ہے جن کی خاک بھی محتاج کو غنی
سر خم کیا نہ افسر و لشکر کے سامنے
کس مرتبہ بلند تھی اُن کی فروتنی
کرتی تھی ان کے سایہِ محمود میں قیام
قسمت مآبی ، خوش نسبی ، پاک دامنی
شب بھر مراقبے میں نہ لگتی تھی اُن کی آنکھ
دن کو تلاشِ رزق میں کرتے تھے جاں کنی
تھی گفتگو میں نرم خرامی نسیم کی
ہر چند وہ دلیر تھے تلوار کے دھنی
جاتے ہیں اب بھی اس کی زیارت کو قافلے
اُس در کے زائروں کو نہیں خوفِ رہزنی
اُس آستاں کی خاک اگر ضوفشاں نہ ہو
برجوں سے آسمان کے اُڑ جائے روشنی
انبالہ ایک شہر تھا ، سنتے ہیں اب بھی ہے
میں ہوں اُسی لٹے ہوئے قریے کی روشنی
اے ساکنانِ خطہِ لاہور! دیکھنا
لایا ہوں اُس خرابے سے میں لعلِ معدنی
جلتا ہوں داغِ بے وطنی سے مگر کبھی
روشن کرے گی نام مرا سوختہ تنی
خوش رہنے کے ہزار بہانے ہیں دہر میں
میرے خمیر میں ہے مگر غم کی چاشنی
یارب! زمانہ ممتحنِ اہلِ صبر ہے
دے اس دنی کو اور بھی توفیقِ دُشمنی
ناصر یہ شعر کیوں نہ ہوں موتی سے آبدار
اس فن میں کی ہے میں نے بہت دیر جانکنی
ہر لفظ ایک شخص ہے ، ہر مصرع آدمی
دیکھو مری غزل میں مرے دل کی روشنی
مطلعِ اوّل
ہر کوچہ اِک طلسم تھا ہر شکل موہنی
قصہ ہے اس کے شہر کا یارو شنیدنی
تھا اِک عجیب شہر درختوں کی اوٹ میں
اب تک ہے یاد اس کی جگا جوت روشنی
سچ مچ کا اِک مکان پرستاں کہیں جسے
رہتی تھی اس میں ایک پری زاد پدمنی
اُونچی کھلی فصیلیں ، فصیلوں پہ برجیاں
دیواریں سنگِ سرخ کی ، دروازے چندنی
جھل جھل جھلک رہے تھے پسِ چادرِ غبار
خیمے شفق سے لال ، چتر تخت کندنی
فوّارے چھوٹتے ہوئے مر مر کے صحن میں
پھیلی تھی جس کے گرد گلِ بانس کی بنی
ہر بوستاں کے پھول تھے اس عیش گاہ میں
ہر دیس کے پرندوں نے چھائی تھی چھاؤنی
جھرمٹ کبوتروں کے اُترتے تھے رنگ رنگ
نیلے ، اُجال ، جوگیے ، گلدار ، کاسنی
پٹ بیجنا سی انکھڑیاں گلِ چاندنی سے تاج
چونچوں میں خس کی تیلیاں پنجوں میں پینجنی
سارنگیاں سی بجتی تھیں جب کھولتے تھے پر
یکبار گونج اُٹھتی تھی سنسان کنگنی
اِستادہ اصطبل میں سبک سیر گھوڑیاں
ٹاپوں میں جن کی گرد ہو گردونِ گردنی
رہتی تھی اس نواح میں ایسی بھی ایک خلق
پوشاک جس کی دُھوپ تھی، خوراک چاندنی
کل رات اس پری کی عروسی کا جشن تھا
دیکھی تھی میں نے دُور سے بس اس کی روشنی
ہر ملک ہر دیار کے خوش وضع میہماں
بیٹھے تھے زیبِ تن کیے ملبوس درشنی
جلنے لگیں درختوں میں خوشبو کی بتیاں
پھر چھیڑ دی ہوائے نیستاں نے سمفنی
ہاتھوں میں رنگترے لیے سر پر صراحیاں
کچی نکور باندیاں نکلیں بنی ٹھنی
کشمش ، چھوارے ، کاغذی بادام ، چار مغز
رکھے تھے رنگ رنگ کے میوے چشیدنی
مرغابیاں تلی ہوئیں ، تیتر بھنے ہوئے
خستہ کباب سیخ کے اور نان روغنی
صندل، کنول، سہاگ پڑا ، سہرا ، عطر ، پھول
لائی سجا کے تھال میں اک شوخ کامنی
شیشے اُچھال اُچھال کے گاتے تھے مغچے
بیٹھی تھی شہ نشین پہ اک دختِ اَرمنی
رقاصِ رنگ ناچتے پھرتے تھے صف بہ صف
دُولہا بنا گلال ، بسنتی دُلہن بنی
سازوں کی گت پلٹ گئی ، طبلے ٹھٹک گئے
پی کر شراب ناچ رہی تھی وہ کنچنی
انگارہ سا بدن جو دَمکتا تھا بار بار
گل منہ پہ ڈھانپ لیتے تھے کرنوں کی اوڑھنی
ہر دانگ باجنے لگے باجے نشاط کے
مردنگ ، ڈھول ، تان پرا ، سنکھ سنکھنی
آکاش سے برس پڑے رنگوں کے آبشار
نیلے ، سیہ ، سفید ، ہرے ، لال ، جامنی
اتنے میں ایک کفرِ سراپا نظر پڑا
پھرتی تھی ساتھ ساتھ لگی جس کے چاندنی
ماتھے پہ چاند ، کانوں میں نیلم کی بالیاں
ہاتھوں میں سرخ چوڑیاں ، شانوں پہ سوزنی
پلکیں دراز خطِ شعاعی سی تیز تیز
پتلی ہر ایک آنکھ کی ہیرے کی تھی کنی
ٹھوڑی وہ آئنہ سی کہ بس دیکھتے رہیں
جوبن کے گھاٹ پر وہ کنول دو شگفتنی
گردن بھڑکتی لو سی کہ جی چاہے جل مریں
کالے سیاہ بال کہ بدمست ناگنی
وہ اُنگلیاں شفق سی کہ ترشے ہوئے قلم
اُجلے روپہلے گال کہ ورقے نوشتنی
کندن سا رُوپ ، دھوپ سا چہرہ ، پون سی چال
دامن کشیدنی ، لب و عارض چشیدنی
صورت نظر نواز ، طبیعت ادا شناس
سو حسن ظاہری تو کئی وصف باطنی
پردے اُٹھا دیے تھے نگاہوں نے سب مگر
دل کو رہا ہے شکوئہ کوتاہ دامنی
اُڑ اُڑ کے راج ہنسوں نے جنگل جگا دیا
گھوڑوں کی رَتھ میں بیٹھ گئے جب بنا بنی
منہ دیکھتے ہی رہ گئے سب ایک ایک کا
منہ پھیر کر گزر گئی وہ راج ہنسنی
منظر مجھے ہوس نے دکھائے بہت مگر
ٹھہرا نہ دل میں حسن کا رنگِ شکستنی
تارا سحر کا نکلا تو ٹھنڈی ہوا چلی
نیند آ گئی مجھے کہ وہاں چھاؤں تھی گھنی