زمرہ جات کے محفوظات: ناصر کاظمی

تیرھواں منظر

گاڑی اُڑی جا رہی ہے۔ رات ہو گئی ہے۔ سورج پور اب تھوڑی دُور ہے۔احمد اور فیاض بدستور باتیں کر رہے ہیں اور عبدل گہری سوچ میں سر جھکائے بیٹھا ہے۔

کردار

احمد، فیاض، عبدل

احمد : کئی بار تم سے کہا ہے کہ کھڑکی کا شیشہ اُٹھا دو

یہ شیشہ اُٹھا دو نا بھائی!

فیاض : کون ہے وہ پھر تم ہی بتاؤ!

احمد : ارے ہاں ! وہ اندھی بھکارن!

خدا جانے وہ کون ہے؟

فیاض : سات برس میں اس دھرتی کی ایسی کا یا پلٹی!

پہلے جنگل راکھ ہوا، پھر کال پڑا

سیلاب تو بس ایسا آیا کہ تو بہ میری!

سورج پور میں کیا رکھا ہے؟

احمد : پرانی حویلی بھی اُجڑی پڑی ہے

وہ ڈیرہ تو حشمت کے دَم سے ہی تھا بس!

تمھیں یاد ہے جب وہ سیلاب آیاتھا

اُس رات عبدل کے ماں باپ، بُلّھے کا کنبہ

خداجانے کتنی ہی مخلوق اس راؤں میں بہہ گئی

فیاض : بندو اور میں کشتی لے کر سب سے پہلے عبدل کے ڈیرے میں پہنچے

حشمت باوا اور نصیبن گھر سے نہ نکلے

احمد : میں بھی اس رات اکبر کو لے کر گیا تھا مگر وہ نہ مانے!

اجی یہ پرانے زمانے کے بوڑھے کسی کی نہیں مانتے

خیر اچھے تھے وہ لوگ!

دُنیا میں اب ایسی شکلیں کہاں ہیں ؟

فیاض : حسنی آپ کے ساتھ تھا جس دِن آگ لگی تھی؟

احمد : میں بندو کے ہمراہ مرچوں کی پیلی میں بیٹھا ہوا تھا

کہ حسنی طنبورہ لیے آ گیا

ہم وہیں رہٹ کے مڈھ پہ سنگیت سننے لگے تھے

کہ اکبر بھی گھوڑے سے اُترا

وہ شام اب کبھی یاد آتی ہے تو کانپ جاتا ہوں بھائی!

فیاض : حسنی آپ کے ساتھ تھا لیکن

نندی کس کے ساتھ گئی تھی؟

عبدل پھر کیوں بھاگا؟۔۔۔

احمد : ہاں تو میں کہہ رہا تھا

اندھیرا اُترنے لگا تھا کہ اتنے میں ٹاپوں کی آواز آئی

وہ عبدل کے پیچھے لگے تھے !

اِسی وقت میں اور حسنی بھی گھوڑوں کو لے کر چلے

رات کے کوئی نو دس بجے تھے کہ ندی کے

اُس پار جنگل میں جلتا الاؤ دکھائی دیا

گھوڑے چلتے نہ تھے اور ہم جاں ہتھیلی پہ لے کر اُدھر چل پڑے

پاس پہنچے تو دیکھا الاؤ پہ اک نار بیٹھی تھی،

جلتے الاؤ کے نزدیک عریاں بدن ایک عورت

پریشان بالوں سے منہ کو چھپائے،

خدا جانے وہ کون تھی!

فیاض : اچھا اچھا! یہ عورت۔۔۔

وہ —- تم نے کچھ پُوچھا تھا اس سے

وہ کیا بولی ؟

احمد : ہم نے پوچھا تو کھانے کو دوڑی

ڈرانے لگی اور کہنے لگی ’’ڈین ہوں

دُور ہو جاؤ ورنہ کلیجہ چبا لوں گی۔‘‘

پہلے تو ہم ڈرگئے پھر ذرا بڑھ کے حسنی نے نیزہ سنبھالا

وہ تھرا گئی زرد سی پڑگئی

فیاض : پھر آگے کیا بات ہوئی یہ بھی تو بتاؤ؟

احمد : ہم نے اس سے بڑی دیر تک گفتگو کی

فیاض : میں جانوں وہ کوکھ جلی تھی

جادُو ٹونہ کرتی ہو گی!

آخر اس نے کوئی بات تو کی ہو گی نا؟

احمد : نہیں کچھ نہیں ۔۔۔ رو رہی تھی

جب حسنی نے اس کو بتایا کہ وہ نغمہ گر ہے تو کہنے لگی کچھ سناؤ!

وہ حسنی بھی کیا منچلا تھا

سنانے لگا!

فیاض : اچھے وقت میں گانے کی سوجھی تھی اس کو !

احمد : یہ کوی اور راگی طبیعت کے بندے ہیں !

ہاں ! پھر وہ عورت —-

وہ اپنی کہانی سنانے لگی تھی کہ اتنے میں اک شور اُٹھا

گھڑی بھر میں جنگل چٹخنے لگا

آگ میلوں تلک بڑھ چکی تھی

وہ اس شور کو سن کے جنگل میں بھاگی

مرا گھوڑا آگے نہ چلتا تھا

میں رہ گیا اور حسنی ہوا ہو گیا

سارے جنگل میں ڈھونڈا

وہ دونوں نہ جانے کہاں کھو گئے تھے؟

سواروں نے بھگدڑ مچائی تھی

پھر کیا ہوا یہ نہ پوچھو

وہ ناری خدا جانے غائب ہوئی، جل بجھی، بھاگ نکلی

خدا جانتا ہے۔

فیاض : وہ بزدل پھر گاؤں چھوڑ کے کیوں بھاگا تھا؟

احمد : کوئی کہتا ہے عبدل وہیں جل گیا!

کوئی کہتا ہے یہ جھوٹ ہے وہ کسی دوسرے گاؤں میں تھا

مگر یہ مجھے علم ہے یا خدا جانتا ہے

کہ حسنی مرے ساتھ تھا

وہ تو ناحق ہی مارا گیا!

میں نے لوگوں کو روکا بڑی منتیں کیں

وہاں کچھ بھلے لوگ بھی تھے

وہ کہتے رہے کہ عدالت کا دَر کھٹکھٹاؤ

مگر ایسے بلوے میں کب کوئی سنتا ہے

بُلّھا تو غصّے میں اندھا تھا

بس دونوں لڑنے لگے اور وہیں کٹ مرے!

(عبدل سوچتا ہے۔ اسے طرح طرح کے خیال آوازیں دیتے ہیں )

عبدل : سورج پور اب پھر نہ بسے گا!

سورج پور اب پھر نہ بسے گا

سورج پور تو اُس دن اُجڑ گیا تھا!

وہ دن اپنے گاؤں کی بربادی کا دن تھا!

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

آواز : کنچ گھر میں چاند اُترا ہے

دروازے کیوں بند پڑے ہیں ؟

کس نے بند کیے ہیں ؟

نندی تم یہاں کیوں آئی ہو؟

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

نندی : مجھے خوف آتا ہے عبدل

وہ کھڑکی کے شیشے تڑخنے لگے ہیں !

لہو گر رہا ہے

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

اکبر : یہ کنچ گھر میں لہو کی بارش کہاں سے آئی!

سفید شیشوں پہ لال تحریر کس نے لکھی ؟

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

آواز : یہ آیا تجھے آج کس کا خیال؟

ہرے بن میں کلیاں کھلیں لال لال

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

حسنی : گگن سے اُڑ کے دھرت پہ آیا کیسے رنگ گلال

اُجلے چٹے چٹے شیشے سارے ہو گئے لال لال

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

بینا باجے تنانوم تنانوم

جھانجھن بولے چھن

بہت بڑی سرکار ہے تیری سیّد قطب الدینؒ

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

آواز : اب اس پیڑ سے اُڑجا!

اب اس پھل میں رَس نہ پڑے گا

اس کو اندر سے کیڑوں نے چاٹ لیا ہے

اب اس پیڑ سے اُڑجا

کڑوے نیم کی ٹہنی چن لے!

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

فیاض : اب تو یہی تمنا ہے بس

نویں شہر میں جلدی جلدی گھر بن جائے

احمد : آٹھ بجنے لگیں تو بتانا

تمھیں کنچ گھر کا نظارہ دکھاؤں گا

گاڑی وہیں سے گزرتی ہے

فیاض : آٹھ بجنے میں چند منٹ ہیں !

آواز : سورج پور اترو گے عبدل!

وہاں نہ جانا!

عبدل : گاڑی آگے کو چلتی ہے

چیزیں پیچھے کو ہٹتی ہیں

ساری دھرتی گھوم رہی ہے

کھڑکی کے اُجلے شیشے میں چاند بھی جم کر ٹھہر گیا ہے

آواز : سورج پور اُترو گے عبدل!

وہاں نہ جانا!

وہاں ترا اب کوئی نہیں ہے!

عبدل : اس دھرتی سے میرا ناطہ ٹوٹ چکا ہے!

اپنے وقت کا اِک اِک ساتھی چھوٹ چکا ہے!

آواز : میں نہ کہتا تھا کہ وہ گھوڑا بڑا منحوس ہے

وہ زمیں منحوس تھی وہ آسماں منحوس تھا

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

تجھ کو اِس دِن کے لیے پالا تھا عبدل!

پوت کاہے کو جنا تھا سانپ تھا!

آواز : تونے نندی کو مارا ہے!

تو نے اس کا خون پیا ہے!

تونے حسنی کو مارا ہے!

تو اپنے ماں باپ کا قاتل !

تو ہی بُلّھے کا قاتل ہے

اتنے تن داروں کا خون تری گردن پر!

تو خونی ہے!

توقاتل ہے!

عبدل : تو جھوٹا ہے

نندی اپنی موت مری ہے

حسنی میرا جگری دوست تھا

آواز : تو بزدل ہے!

تو نے سورج پورکو اجاڑا!

عبدل : تو جھوٹا ہے!

تو بزدل ہے!

آواز : تو خونی ہے!

تو قاتل ہے!

تو بزدِل ہے!

عبدل : (لہجہ بدل کر )

دُھوپ کی گرمی سے پیلا پڑ گیا تھوہڑ کا کانس

چاند کی کبریت سے جلنے لگے جنگل کے بانس

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

ارے کیا ہوا دیکھنا تو!!

یہ گاڑی کھڑی ہو گئی؟

فیاض : (عبدل کی طرف دیکھ کر) کون سا اسٹیشن ہے بھائی؟

آپ یہاں اُتریں گے صاحب؟

احمد : نہیں ! یہ تو جنگل ہے!

گاڑی یہاں کیوں رُکی!

کوئی آواز بھی تو نہیں !

کوئی بتی نہیں !

یہ تو جنگل ہے! سنسان جنگل!!

ناصر کاظمی

بارھواں منظر

نویں شہر میں اکبر، مونا اور احمد دو پہیوں کی گاڑی میں پھول گلی سے کنچ گھر کی طرف جا رہے ہیں ۔ گاڑی کو دو سفید گھوڑے کھینچ رہے ہیں ۔ گرمیوں کی دوپہر ہے۔ ایک عورت بھیرویں گا رہی ہے۔ اس کی آواز دُور سے آرہی ہے ۔

کردار

ایک عورت ، مونا ( عمر 22 سال)

اکبر ، احمد

گاڑی کی آواز :

رِک شک رِک شک

رِک شک رِک شک

رِک شک رِک شک

عورت کے گانے کی آواز : کنچن رُوپ دکھائے

سرگم سا (سارے گاما سا)

جل میں آگ لگائے

چھم چھم ناچے کھڑی دوپہری

دُھوپ کی تانیں گہری گہری

سرگم سا

جل میں آگ لگائے

سر کی چھایا سر سے آگے

سر کے پیچھے سرتی بھاگے

سرگم سا

سر کی تھاہ نہ پائے

کنچن رُوپ دکھائے

سرگم سا

جل میں آگ لگائے

مُونا : گاڑی والے گاڑی روکو

احمد بھیا نیچے اُترو!

احمد : یہ کس کا جنازہ ہے اکبر؟

اکبر : ہمارے مفتی گزر گئے ہیں

یہ آخری شمع رہ گئی تھی!

ناصر کاظمی

گیارھواں منظر

صبح کا وقت ہے۔ اکبر، احمد کنچ گھر کے ایک کمرے میں بیٹھے باتیں کر رہے ہیں ۔ یہ کنچ گھر سورج پور سے 1-1/2 میل کے فاصلے پرہے۔ پہلے اس کے حصّہ دار اور مالک عبدل اور حسنی تھے۔ پھر ہجرت کے بعد اکبر ان میں مل گیا۔ اب عبدل اور حسنی کے بعد اکبر اور احمد اس کے مالک بن گئے ہیں ۔ کنچ گھر میں بہت سی تبدیلیاں آ گئی ہیں ۔ اس کے چاروں طرف نواں شہر آباد ہو گیا ہے۔ بہت سے کاریگر اور مزدور بدل گئے ہیں اور اس کا کام بھی ذرا پھیل گیا ہے۔ لیکن کنچ گھر کا انجینئر وہی ہے۔

زمانہ : ہجرت کے بعد

کردار

احمد، اکبر، شیشہ گر

کنچ گھر کی آواز : کھڑانک ٹَڑک ٹَڑک چھک چھک

کھڑانک ٹَڑک ٹَڑک چھک چھک

کھڑانک کھڑانک ٹَڑک ٹَڑک چھک چھک

کھڑانک کھڑانک ٹَڑک ٹَڑک چھک چھک

اکبر اور احمد، حسنی کے کمرے میں بیٹھے باتیں کر رہے ہیں ۔ ایک شیشے کی الماری میں حسنی کی چتر بین خاموش پڑی ہے۔ حسنی کے بعد اس کسی نے نہیں چھیڑا۔ اکبر اور احمد، بینا کو دیکھتے ہیں اور کچھ دیر خاموش رہتے ہیں

(احمد کو حسنی کا خیال آتا ہے )

بینا با جے تنانوم تنانوم

جھانجن بولے چھن

بینا باجے تنانوم تنانوم

احمد : (میز پر رکھے ہوئے (PAPER WEIGHT) کو دیکھ کر اکبر سے مخاطب ہوتا ہے)

یہ شیشے کی بٹی!

یہ شیشے کی بٹی میں رنگوں کے آنسو!

یہ کیا بلبلے سے چمکتے ہیں دیکھو!

اکبر : ذرا سی بٹی میں ایک دُنیا بسی ہوئی ہے

نظامِ شمسی کے سارے رشتے سمٹ گئے ہیں

یہ ایک ننھا سا آسماں ہے

اُسی طرح صاف اور شفاف اُجلا اُجلا!

یہ کھڑکیاں اور یہ کھڑکیوں کے سفید شیشے

سفید شیشوں سے روشنی کی پھوار چھن چھن کے گر رہی ہے

یہ روشنی دائروں کے اندر!

یہ دائرے روشنی کے اندر!

یہ روشنی کے سفید نقطے!

چہار جہتی زماں کا دھارا

خموش چیزوں کو لے اُڑا ہے

یہ روشنی معجزے کی صورت اُتر رہی ہے

خموش چیزیں بھی چل رہی ہیں

احمد : چلو کنچ گھر مشینیں تو دیکھیں

شیشہ گر کمرے کے اندر آتا ہے اور احمد اور اکبر کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگتا ہے۔ مشینوں کی آواز دُور سے آرہی ہے۔

کھڑنک کھڑنک چھک ٹڑک ٹڑک

کھڑنک کھڑنک چھک ٹڑک ٹڑک

شیشہ گر : کیوں بھائی سوچ لیا تم نے؟

اکبر : مجھے تو منظور ہے سبھی کچھ

اب آپ احمد کوراضی کر لیں !

احمد : مجھے کوئی انکار ہے میرے بھائی!

جو یاروں کی مرضی وہی میری مرضی!

شیشہ گر : اب آپ ہی فیصلہ کر لیجیے کہ عبدل اور حسنی

کے حصّے کیسے بٹیں ؟

ان کا تو کوئی وارث بھی نہیں !

حق دار تو اس کے آپ ہی ہیں

لیکن ذرا سوچ سمجھ لینا!

احمد : مگر آپ کا بھی تو حصّہ ہے اس میں !

اکبر : بجا ہے بھائی! تمھاری محنت ہمارا پیسہ!

احمد : تو پھر تین حصّے ہوے۔

کچھ تو اللہ کے رستے میں دے دو!

جو باقی بچے اس کو تینوں میں تقسیم کرلو

اکبر : تو اتنی جلدی ہی کیا ہے احمد؟

مرا تو دِل کانپتا ہے جب بھی خیال آتا ہے دوستوں کا

یہ حصّے وِصّے کی بات چھوڑو!

جو کام کرنا ہے کرتے جاؤ!

احمد : میں قانون کی رُو سے کہتا ہوں

ورنہ میرا دِل بھی دُکھتا ہے

حسنی بھی اپنا بڑا یار تھا

اور عبدل تمھار ا بڑا دوست تھا

بلکہ دونوں تمھارے ہی ساتھی۔۔۔

مگر خیر! چھوڑو یہ باتیں !

ذرا کنچ گھر تو دکھا دو!

اکبر : (شیشہ گر کی طرف اشارہ کر کے)

یہ شیشہ گر ہیں انہی ں سے کہیے!

بڑی ہی منت سے میں نے ان کو منا لیا ہے

کہ کنچ گھر چھوڑ کر نہ جائیں

شیشہ گر : چلو پہلے مشین کو دیکھیں ہم!

احمد : تو یہ کنچ گھر کیسے چلتا ہے؟

ٹَرک چھک چھک

ٹَرک چھک چھک

شیشہ گر : یہ موٹر ہے! —- بجلی کے زور سے چلتی ہے

یہ دو بڑی چرخیاں سب سے پہلے گھومتی ہیں !

چرخی گھم گھیریاں کھاتی ہے اور باقی پہیے گھومتے ہیں

پھر ان کے ساتھ ہی چھوٹے بڑے سب پرزے چلنے لگتے ہیں

یہ چمنی ہے ! —- چمنی میں ایندھن جلتا ہے

ایندھن کولے کا ہوتا ہے —- لکڑی اور پتھر کا کولہ !

یہ بھٹی ہے! —- بھٹی میں شیشہ پگھلتا ہے اور سانچوں میں گر تا رہتا ہے

یہ کئی قسم کے سانچے ہیں !

ان سانچوں میں ہر طرح کی چیزیں بنتی ہیں

یہ پرچ پیالے، یہ کوزے، یہ جھاڑ یہ قیف

یہ نلکیاں یہ گل دان یہ جگ، سوڈے کی بوتلیں

اَور گلاس، یہ سارے کانچ سے بنتے ہیں !

احمد : یہ شیشوں کے تختے!

یہ شیشہ بھلا کس طرح کاٹتے ہیں ؟

شیشہ گر : یہ ٹھوس حجم نازک شیشہ ہیرے کی قلم سے کٹتا ہے

شیشے کی نازک چادرکو نوکیلے کھردرے کنکر سے بھی کاٹتے ہیں

ہیرے کی قلم کبھی دیکھی ہے؟

اس شیشے کو پیمانہ رکھ کر کاٹتے ہیں

ہیرے کی قلم سے تیز لکیر لگاتے ہیں

پھر دونوں طرف سے شیشے کو ہاتھوں سے دبا کر توڑتے ہیں

یہ کام بڑا ہی نازک ہے!

احمد : مگر یہ بتاؤ کہ شیشہ پگھلتا ہے کیسے؟

شیشہ گر : پہلے تو کانچ کی کرچیوں کو یا کانچ کے چھوٹے ٹکڑوں کو

بھٹی کے اندر ڈالتے ہیں

پھر چاروں طرف سے بھٹی کو ڈھک دیتے ہیں

یہ بھٹی جوں جوں تپتی ہے شیشے میں لرزش ہوتی ہے

پہلے تو ایک ہی نقطے پر اک تھرتھری ہونے لگتی ہے

پھر تھرتھری بڑھنے لگتی ہے اور ذرّے ہلنے لگتے ہیں

ذرّوں میں کھلبلی مچتی ہے

پھر ذرّے آگے اور پیچھے کیڑوں کی طرح سے رینگتے ہیں

یوں شیشہ پگھلتا رہتا ہے

سانچوں میں ڈھلتا رہتا ہے

اور چیزیں بنتی رہتی ہیں

یہ ریشم سے اُلجھے اُلجھے لچھے سے جو تم دیکھتے ہو

یہ سانچوں میں سے اُچھل کر باہر گرتے ہیں

احمد : بڑا ہی ادق کھیل ہے شیشہ سازی!

میں کتنے دنوں میں اسے سیکھ لوں گا!

شیشہ : دُنیا جسے شیشہ کہتی ہے وہ ایک طرح کا پتھر ہے

یہ شیشہ جو تم دیکھتے ہو پتھر کے دِل کا جوہر ہے

جو رنگ نظر آتے ہیں تمھیں اس شیشہ سازی کے فن میں

کبھی آنکھیں موند کے دیکھو تم، یہی رنگ ہیں دِل کے درپن میں

مجھے شیشہ گر ہی نہ سمجھو تم مرا شیشہ پھوٹ نہیں سکتا

میں جوہری ہوں جس جوہر کا وہ جوہر ٹوٹ نہیں سکتا

آپ آتے رہیں تو چند دنوں میں سارا کھیل سکھا دُوں گا

اس شیشہ گری کی صنعت کے سب راز رموز بتا دُوں گا

ناصر کاظمی

دسواں منظر

رات ہو گئی ہے۔ چاروں طرف سے جنگل دَھڑ دَھڑ جلتا ہے۔ اک عجب بھگدڑ مچی ہے۔

کردار

کچھ لوگ ، احمد ، شیشہ گر : (کنچ گھر کا انجینئر عمر تقریباً 50 سال)

بُلّھا ، حسنی

آوازیں :

1 وہ اُدھر بھاگا!

ارے پکڑو اُسے! جانے نہ پائے

2 بڑا اندھیر ہے میرے یارو

بستے گاؤں کی بیٹی کاڈ کے لے گیا حسنی!

3 منے اپنی انکھ تے دیکھا، وا حسنی تھا

حسنی ہور نندی دونوں تھے

(احمد آگ کے شعلے دیکھ کر ہجوم میں شامل ہو جاتا ہے)

احمد : آگ کس نے لگائی تھی بھائی!

ملا کچھ پتہ؟

آوازیں : 1 یو قصہ تو بڑا ٹھاڑا ہے !

(کچھ لوگ حسنی کا گھوڑا گھیر کراسے ہجوم میں لاتے ہیں ۔)

1 —- یارو! اس کی ہڈی پسلی توڑ کے رکھ دو۔

2 —- اِس کے سَر ماں مارو دوگاڑا!

احمد : خبردار! کیوں مارتے ہو؟

گرفتار کر لو، پولیس کے حوالے کرو

اپنے ہاتھوں میں قانون لینا حماقت ہے

1 —- بڑا حَمیتی آیا اس کا!

چپکرا ہوجا!!

احمد : مگر پہلے تحقیق کر لو

عدالت کھلی ہے، عدالت کا در کھٹکھٹاؤ!

1 —- پیچھے ہٹ جا! اپنی بوتھی پرے نوں کرلے!

شیشہ گر : بھلا یہ بھی کوئی شرافت ہے

اسے اپنے ہاتھ سے مت مارو!

یہ کام عدالت پر چھوڑو!

بُلّھا : یو میرا مجرم ہے یارو!

اِنّ نوں میرے پاس لیاؤ!

(بُلّھا، حسنی کو خون بھری آنکھوں سے دیکھ کر بولتا ہے)

تو اگر اشراف ہے تو آ کر اُتر میدان ماں

سیّد ہے تو، رجپوت میں !

تو پہلے اپنا وار کر پھر روک میرے وار کو

میں یوں نہ چھوڑوں گا تجھے !

حسنی : میں نردوش ہوں بُلّھے بیرا میرے حال سے جانچ

سانچ کے آگے جھوٹ نہ ٹھہرے نئیں ہے سانچ کو آنچ

سیّد ایسا نئیں ہے بُلّھے تو کیا جانے اس کی ساکھ

جس کے سنگ جلی تری بھینا وہ بھی ہوئے گیا راکھ

تیرے میت ہیں سینکڑوں ، پنج تن میرے ساتھ

تیرے پاس گنڈاسیاں میں ہوں خالی ہاتھ

دُھومن شاہ کی سوں ہے بُلّھے میرا نئیں قصور

میں لڑنا نہیں چاہوتا مجھے نہ کر مجبور

1 بیر کاڈن لاگے تنے سر م نہ آئی!

راج کَوِ ی اِب آجا بچ مدان ماں !

بلّھا : میں تجھے زندہ نہ جانے دُوں گا حسنی!

فیصلہ کر لے یہیں !

یا تو نہیں یا میں نہیں !

حسنی : میرا پیر علی ؓ مولا ہے ہو رانگڑ کے چھور

آجا بیچ مدان ماں دیکھوں تیرا جور

ناصر کاظمی

نواں منظر

حسنی اور احمد سورج پور سے دومیل کے فاصلے پر جنگل کے شمالی حصّے کے ساتھ ساتھ گھوڑوں پر بیٹھے عبدل اور نندی کی تلاش میں پھر رہے ہیں ۔ اندھیری رات ہے۔ سناٹا ایک حادثے کی طرح پھیلتا جا رہا ہے۔ احمد اور حسنی کے گھوڑے دوڑ دوڑ کر پسینہ پسینہ ہو گئے ہیں ۔

کردار

احمد، حسنی، ناری

احمد : تمھارا تو سر پھر گیا ہے!

ارے میں بہت تھک گیا ہوں

میری انتڑیاں قل ہو اللہ پڑھنے لگی ہیں

حسنی : بھانبڑ جلے سریر ماں رنگ اچھالیں نین

من دیپے جس رین ماں ، وہی نہ ہو یہ رین!

احمد : بھلا اس اندھیری بَنی میں تمھیں کیا ملے گا؟

تمھیں جان پیاری نہیں ؟

حسنی : موت کھڑی جس باٹ پہ وہی ہے میری باٹ

گُروجی میری دھیر بند ھاؤ میں اُتروں کس گھاٹ؟

احمد : آؤ ندی کے اُس پار اُتریں !

اُدھر ایک رستہ ہے

حسنی : (احمد سے )

من کی اکھیاں کھول کے دونوں اکھیاں میچ

پھوٹے گا پھر چاندنا، ندی کے بیچوں بیچ

احمد : ارے یہ تو جادُو کی دھرتی ہے!

حسنی : دھرتی اُوپر نیلا گگن، گگن پہ ناچیں پھُول

ان کی چھایا دیکھ کے، جل میں جلیں بھنبول

حسنی اور احمد کے گھوڑے چلتے چلتے ایک دَم رُک جاتے ہیں ۔ حسنی اور احمد بہت کوشش کر تے ہیں لیکن گھوڑے آگے نہیں چلتے۔ دونوں گھوڑے اگلے پاؤں اُٹھا کر ہنہناتے ہیں اور خر خر کرتے ہیں اور اپنی کنوٹیاں جلدی جلدی گھماتے ہیں ۔ احمد بہت اصرار کرتا ہے لیکن حسنی واپس جانے سے انکار کر دیتا ہے۔

احمد : ارے وہ اُدھر آگ!۔۔۔

اُس آگ کے پاس ۔۔۔ اک آدمی زاد!۔۔۔

حسنی : گگن سے اُڑ کے دھرت پہ آیا کیسے رنگ گلال!

کالی، پیلی، گیروی، مٹی ہو گئی لال

احمد : (خوف زدہ آواز میں )

خدا جانے یہ کون ہے؟

یار آگے نہ جاؤ!

حسنی : دَھڑ دَھڑ جلے سوکھی لکڑی جگَر جگَر انگار

آگ کی اُٹھی لاٹ سے، نکلیں سرخ انار

بھُبھل ملے سریر پہ، ننگی بیٹھی نار

نس اندھیاری رین ماں یہ کیسا اجیار!

حسنی اور احمد جلدی سے الاؤ کے قریب آ جاتے ہیں ۔ دونوں ، گھوڑے پر سوار ہیں ۔ حسنی آگے ہے۔ ایک ننگ دھڑنگی عورت بدن پہ راکھ ملے بالوں سے منہ چھپائے سر جھکائے سنسان بیٹھی ہے۔ وہ ان کی طرف بالکل توجہ نہیں دیتی۔ پہلے تو حسنی اور احمد ڈر کے مارے سہم جاتے ہیں ۔ حسنی، عورت سے مخاطب ہوتا ہے۔

حسنی : اگنی بَرن کی اوٹ ماں ، اپنا بدن چھپا

اوناری! او مورکھ ناری اپنا ناؤں بتا!

ناری : (بڑی ڈراؤنی اور گہری آواز میں )

ناری نہیں ، چڑیل ہوں ، اپنی جان سنبھال

کھائے لُوں گی ترا کالجہ، جیوڑا لوں گی نکال

حسنی : تو مجھے نئیں پچھانتی، میں ہوں مَنش دلیر

ایسا بھالا ماروں گا بس کر دوں گا یہیں ڈھیر

ناری : تو مجھے نئیں پچھانتا، باپ مرا مہاراج

میں ہوں مہا رجپوتنی، گپت مرا سرتاج

حسنی : تو ہے کس مورکھ کی پتنی کون ترا سرتاج ؟

کس کے کارن پھونک دی تو نے اپنی لاج؟

احمد : (حسنی کا شانہ پکڑ کر کہتا ہے)

مرے بھائی نرمی سے بولو!

ناری : ناری سے جب بولیے، کہیے میٹھی بات

جیب سنبھال کے بول رے مورکھ کھول نہ اپنی ذات!

’’کون دِسا سے آیا ہے تو کون دِسا کو جا!

بھالالے ریا ہاتھ ماں گھوڑا ریا نچا‘‘

حسنی : میں ہوں ایک ستاریا کھو گئی میری ستار

نگری نگری گاتا پھروں ، لوگ کہیں گُن کار

ناری : گُنی ہے تو گُن کاری ہے تو کوئی گُن دکھلا

سُرتی رُوپ کو من میں بٹھا کے موہن گیت سنا!

حسنی : تار طنبورے بن او ناری کیسے گاؤں گیت؟

اُجڑے بن کی باس ہے، سنگت بن سنگیت

ناری : بین نہ باجے تار بن، من باجے بن تار

بین بنا جو گیت سناوے وہی بڑا گُن کار

چندر پانچ کی چھیڑ سے سُرتی رُوپ دکھا

سات سُروں کی راگنی اک تارے پر گا

احمد : مرے بھائی کچھ تو سناؤ!

حسنی : ایک نار میں ایسی دیکھی پہر پہر کرے بین

اس کی اکھیاں دیکھ کے بھوربھی دیکھے رین

گورا مکھڑا پیازی برن، چند سے چٹے پیر

پل پل اُس کے دھیان ماں نو اَنبر کی سیر

کس کے کارن جوگن بنی، کیوں چھوڑا گھر بار؟

اپنا محل بتاؤ دے، او دکھیاری نار!

ناری : ’’محل تجھے بتاؤتی‘‘ کھڑی ہوں تن من ہار

’’بجلی پڑواِن محلوں پر، تم پر پڑو انگار‘‘

احمد : ارے آگ!

یہ آگ! —- یہ شور

گھوڑے کے ٹاپوں کی آوازوں اور لوگوں کے شور سے جنگل گونج اُٹھتا ہے۔ آگ کے شعلے آسمان تک بلند ہو رہے ہیں ۔ عورت جنگل کی طرف بھاگ جاتی ہے اور حسنی اس کے پیچھے بھاگتا ہے۔

ناصر کاظمی

آٹھواں منظر

مرچوں کے کھیت میں حسنی، بندو اور احمد رہٹ کے مڈھ پر بیٹھے حقہ پی رہے ہیں ۔ شام ہو رہی ہے۔ رہٹ چل رہا ہے ۔

کردار

حسنی، بندو، احمد، اکبر

کچھ دیہاتی، بلھا

رہٹ کی آواز:

چین مچینا، چین مچینا، چین مچینا کھیت

چین مچینا، چین مچینا، چین مچینا کھیت

بارہ ٹالی ہیٹھ

بارہ گئے پردیس ماں بارہ پھیر بھی آویں گے

چین مچینا، چین مچینا، چین مچینا کھیت

بارہ ٹالی ہیٹھ

بارہ ٹالی ہیٹھ

حسنی رہٹ کے مڈھ پر بیٹھا طنبورہ بجا رہا ہے۔ بندو اور احمد حقہ پی رہے ہیں ۔ الاؤ کی آگ بھڑک رہی ہے۔

حسنی : سانجھ بھئے اک ڈھیر پہ اندھا سادھو روئے

ہم نے نگری چھوڑ دی، ہمیں نہ چھیڑے کوئے

بندو : سادھو جی اب اُٹھ بھی جاؤ تار طنبورہ چھوڑ

برس رہی اسمان سے کالک تابڑ توڑ

حسنی : پچھم دیس کے نیل ماں ڈوبن لاگا بھان

اس کی ریکھا دیکھ کے ڈول گئی مری جان

سانجھ اُڑا کے لے گئی سورج پور کا رُوپ

کیا جانے کس دیس میں اُترے گی یہ دُھوپ؟

بندو : دُھپ گئی پردیس ماں کلی رہ گئی چھاؤں

مرگھٹ دیکھے گاؤں لے تو رب کا ناؤں

حسنی : سدھ بدھ ہے مجھے دُھوپ کی نا میں جانوں چھاؤں

نا مرا ٹھور ٹھکانا کوئی نا مرا کوئی گاؤں

بندو : ٹھنڈی ٹھنڈی ریت پہ جلنے لا گے پاؤں

کالی رَینا سر پہ کھڑی، چلو چلیں اب گاؤں

احمد : نہیں بندو بھیا طنبورہ تو سن لیں !

بھلا ساز سنگیت کو چھوڑ کر کون جائے!

کبھی نہ کبھی آج فرصت ملی ہے

ارے اور کچھ دیر بیٹھو

ذرا سر کی دیوی کے جی بھر کے درشن تو کرلیں !

یہ دُنیا کے دھندے تو چلتے رہیں گے

حسنی : رُت بدلی، آندھی چلی، سوکھن لاگے پات

رنگ برنگ ڈالیاں ، روویں مَل مَل ہات

بندو : ہائے رے مار دیا، کھوئے دیا ہم نوں

تو پکا گُن کا رہے بھیا!

احمد : بھائی جادُو وہی ہے جو سر چڑھ کے بولے

ارے یہ کوی راج ہیں !

اِن کے گیتوں میں سنسار سنگیت ہے

پھر کہو نا! وہ کیا بول تھے؟

دھیان کس اور پلٹا؟

وہ لوگ اور وہ نقشے جنھیں بھول بیٹھے تھے ہم

آج پھر سامنے آگئے ہیں

وہ دیس اب جو پردیس ہے

آج پھر اس کی مٹی کی خوشبو لَویں دے اُٹھی ہے

وہ قصبے وہ گلیاں وہ رستے وہ گھر

جو کھلے چھوڑ آئے تھے ہم

آج پھر ذہن میں پھر رہے ہیں

سناتے رہو بھائی!

ہم آج ڈیرے نہ جائیں گے !

حسنی : ایک کونج میں ایسی دیکھی اڑے چھوڑ کے ڈار

سانجھ بھئے جس دیس میں اُترے وہاں نہ ہو اجیار

حسنی طنبورہ بجا رہا ہے کہ اکبر گھوڑے پر آتا دکھائی دیتا ہے۔ اکبر گھوڑے سے اُتر جاتا ہے۔

اکبر : سلام کرتا ہوں !

ہیں یہ کیا ہو گیا ہے تجھ کو؟

میں صبح سے تجھ کو ڈھونڈتا پھر رہا ہوں پیارے!

وہ کنچ گھر تیری جان کو رو رہا ہے حسنی!

اُدھر وہ عبدل ہے جانے کس روگ میں پھنسا ہے؟

یہ کام کیسے چلے گا پیارے؟

بندو : اکبر بھیا! عبدل کی کچھ کھیر کھبر ہے؟

اکبر : بڑے مزے میں ہے شاہ زادہ!

ابھی ملا تھا

ارے وہ کیا ہے

وہ دیکھو! آکاش پروہ کیا ہے؟

حسنی : آگے پیچھے بھاگتے تارے!

بندو : ایک دو تین، اور چار پانچ!

حسنی : وہ چھ! اور وہ سات !!

رنگ برنگ گربڑے آگ کے پنکھ لگائے

گھپ اندھیری سانجھ ماں کس نے یہاں اُڑائے؟

اکبر : نہ جانے کس دیس سے اُڑے ہیں ؟

نہ جانے کس دیس میں گریں گے ؟

حسنی : جانے کس کا بیاہ رچا ہے اتنے چوکھے رنگ

برج چڑھے آکاش پر ارمانوں کے سنگ

ایسے رنگ گلال میں ، کیا اپنا من کھوئے

جانے اس کی اوٹ میں کوئی جلتا ہوے؟

بندو : کیسے بول بچا روحسنی دیکھ کے پیار کا جھمکا؟

کیا کہنا ہے تم کا؟

حسنی : ڈھور ہنکاتے پھیر ماں کیسی کرے بچار؟

بندو تو ہے جما گنوارو تو کیا جانے پیار؟

دُور سے کنچ گھر کے سائرن کی آواز سنائی دیتی ہے۔ سناٹا اَور پھیل جاتا ہے۔ کنچ گھر کے مزدور اور کاری گر دُور سے ایک رستے پر تیزی سے جاتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔

اکبر : سناؤ کیا حال ہے مرے دوستو تمھارا؟

بندو : اتنے دنوں ماں سکل دکھائی

اچھے تو ہومیرے بھائی؟

اکبر : خدا کے فضل وکرم سے اچھی گزر رہی ہے!

سناؤ احمد تمھار ا کیا حال ہے

کہو کیسی کٹ رہی ہے ؟

احمد : عنایت ہے بس آپ کی!

آؤ کچھ دیر بیٹھو! یہ حقہ ابھی بھر کے رکھاہے

حقہ توپیتے ہو تم بھی!

ارے آج حسنی نے وہ رنگ باندھا کہ بس!

یار اس کے گلے میں قیامت کی مرکی ہے

گھنگرو کا کھٹکا ہے !

ظالم نے کوئل کی آواز پائی ہے

اکبر : (کھیتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے)

نہ جانے یہ جنگلی کبوتر کہاں سے اُترے ہیں اُجڑے بن میں ؟

کبوتروں کی یہ ٹکڑیاں ہیں کہ ٹڈی دَل ہے!

بڑا اندھیرا ہے بھائی احمد!

کہاں چلے ہو؟

احمد : ذرا دو کبوتر گرا لاؤں !

بس پل جھپکنے میں آجاؤں گا!

اکبر : خدا کو مانو!!

یہ شام کے وقت ان پرندوں کو کیوں ستاتے ہو!

جانے دو! غیر وقت ہے!!

بندو : بڑا ہی بھولا پنچھی ہے یہ، سیّد اس کی ذات

بھرے سمے مت مارو اس کو مانو میری بات!

حسنی تم کو ئی گیت سناؤ!

بابو جی کا جی بہلاؤ!

اکبر : (حسنی کی طرف دیکھ کر طنز سے کہتا ہے )

بڑے مزے میں ہو آج حسنی!

بندو : کنچ گھر ماں چھٹی ہو گئی گھگو شور مچائے

اپنے اپنے ٹھار کو، خلقت دَوڑ ی جائے

گھراں کو بھاگے چودھری، ٹھاکر اور ججمان

ہری بھری نگّر پَیلیاں ، چھوڑ گئے کرسان

مَمٹی سے جل جوگنی، اُڑ گئی چھوڑ کے ماس

پگلی بِل بتوریاں ، بولیں مڑھی کے پاس

اکبر : ارے او بندو! ذرا اِدھر چھینٹیاں تو لانا!

الاؤ ٹھنڈا پڑا ہے بھائی!

یہ کیا خبر تھی کہ اس اندھیرے میں دوستوں کی سبھا جمے گی

نہیں تو کمبل ہی لیتے آتے

بندو : کمبل کو نہیں جانتے، گاؤں کے سیدھے لوگ

ہم تو نرے گنوار ہیں ، تم ہو سہری لوگ

اکبر : بھلا کبھی تم نے شہر دیکھا ہے ؟

جانتے ہو کہ شہر کیا ہے؟

کبھی جو سپنے میں دیکھ پاؤ تو گاؤں کی ناریوں کو بھولو!

احمد : میاں باؤلے ہو کے روتے پھرو گے!

ارے شہر کی ناریوں سے خدا ہی بچائے!!

ذرا آگ کے پاس آجاؤ خنکی اُترنے لگی ہے!

سنا تم نے حسنی!! یہ آواز کس کی ہے؟

(بندو سہم جاتا ہے)

بندو : یہ بولے جس گاؤں ماں پھر نہ بسے وہ گاؤں

یارو اب نئیں بولنا، یہاں کسی کا ناؤں

احمد : میاں تم تو وہمی ہو بندو!

بندو : تم نے پھر مرا ناؤں لیا!

میں کہتا ہوں ناؤں نہ بولو!

حسنی : چڑیاں ترسیں گھونٹ کو دھرتی دُھول اُڑائے

تم رہو اس دیس میں ہم سے رہا نہ جائے

آواز : بندو —- ہو —- بندو

بندو : ہوت —- چاچا —- ہوت —- کیا بات ہے ؟

چکّی کی آواز : ٹُک چھک ٹُک چھک ٹُک چھک

احمد : یہ آٹے کی چکی ابھی تک یونہی چل رہی ہے!

یہ چکی میں کیا پس رہا ہے؟

—- مگر گاؤں بھر میں دہائی مچی ہے کہ آٹا نہیں

کال ہے، لوگ مرجائیں گے

لوگ بھوکوں مرے جا رہے ہیں !

بندو : ندیا ں سوکھیں کال ماں ، ٹڈی کھا گئی دھان

پیٹ پجاری شہر کو بھاگے، بھوکوں مریں کسان

احمد : چلو! شہر میں چل کے ڈیرہ لگائیں !

مگر بھائی! ہم تو پنہ گیر ہیں

شہر میں کیا کریں گے ؟

وہاں ان دنوں کام ملنا بھی مشکل ہے

اپنا کوئی یار ڈپٹی کلکٹر ہی ہوتا

نہیں یار! اب تو یہی مر رہیں گے

اسی گاؤں میں گھر بنائیں گے

اب تو یہی تھل بسائیں گے

بندو : سہر مرے کیا پھونکنا، دیکھے سہر کے لوگ

گیا تھا کنکو بیچنے، لے آیا کیا روگ؟

احمد : یہ سب نفع خوروں کی سازش ہے

غلے کا توڑا نہیں !

اپنے کھیتوں کو دیکھو!

ذرا اپنی فصلوں کو دیکھو!

ہری ہیں ، بھری ہیں !

مگر یہ زمیندار، یہ کالی منڈی کے تاجر!

اکبر : یہ دُکھ بھری رات کیسی کالی ہے

آج تاروں کی سَمسَرن کس کو دھونڈتی ہے!

اداس تاروں کی سَمسَرن کو جگاؤ حسنی!

گئے سمے کو بلاؤ حسنی!

سناؤ حسنی!

حسنی طنبورہ چھیڑتا ہے، بندو حقے کے نیچے کو پکڑکر اپنی چاندی کی انگوٹھی سے حقے کا پیوندا بجاتا ہے۔

حسنی : بینا باجے۔ تنانوم تنانوم

جھانجن بولے چھن

تو چپکے چپکے آ گوری!

اس گھور اندھیری رین ماں

جوں کجرا ناچے نین ماں

تو چپکے چپکے آگوری!

(بندو چونک کر کھڑا ہو جاتا ہے)

بندو : دیکھ تو حسنی!

یو کیسی پگھّم پگھّی!

بارہ سوار سامنے سے گرد اُڑاتے ہوئے آتے ہیں ۔ اندھیرے میں ان کی سفید پگڑیاں اور گھوڑیوں کی آنکھیں چمکتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ اگلے دو سواروں نے اپنے ہاتھوں میں جلتی ہوئی مشعلیں اُٹھائی ہوئی ہیں ۔

بُلّھا : دوڑیو رے! دوڑیو!

دوڑ یو رے !

(گھوڑے سوار الاؤ کے قریب آجاتے ہیں )

دوسری آواز : کون ہے یو اس اندھیری رات ماں ۔ ہو

یو الاؤ کن نے جالا؟

لائیو رے میرا بھالا؟

تیسری آواز : ہوت نچئیے! کون ہے گا تو؟

چوتھی آواز : بلھے بیرا گھوڑا موڑ لے !

آندھی چلنے لاگی!

بندو : کون ہے بھائیا؟ کیا بات ہو گئی؟

چوتھی : ہو! وا عبدل تھا نا بندو!

بیر کاڈ کے لے گیا سالا!

ہوا کی مافک چل دو یارو

پھیروا ہتھ نہ آیا

گھوڑے سوار آن کی آن میں ہوا ہو جاتے ہیں ۔ آندھی تیز ہو گئی ہے۔ اکبر، احمد، حسنی اور بندو کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہے۔

بندو : حسنی بھیا یو ہے پریم کا سودا

مرے یار کی ساری جند گئی برباد

حسنی : تم ٹھہرو اسی باٹ پہ، ہم چلے پی کے دوار

احمد تو مرے ساتھ چل کہیں کھو نہ جاوے یار

احمد : مگر میں توعبدل سے واقف نہیں

اس کی صورت بھی دیکھی نہیں آج تک!

خیر! تیری خوشی ہے تو چلتے ہیں

یارو یہیں راستہ دیکھنا ہم ابھی آئے!

(ٹاپوں کی آواز)

اکبر : بڑی حماقت ہے!

اس اندھیرے میں کس کو ڈھونڈوگے میرے بھائی!

مجھے تو ڈر ہے کہ آج عبدل پہ کوئی آفت نہ آن ٹوٹے

بڑی بری بات کی ہے اُس نے!

بڑی بری بات کی ہے اُس نے!

ناصر کاظمی

ساتواں منظر

سورج ڈُوب رہا ہے ۔ گاڑی پوری رفتار سے چل رہی ہے۔ عبدل کھڑکی کی طرف بیٹھا سوچ رہا ہے۔ گاڑی کبھی کبھی سُرنگ میں سے یا کسی پل پر سے گزرتی ہے تو وہ چونک پڑتا ہے۔ احمد اور فیاض دوسری طرف باتیں کر رہے ہیں ۔

کردار

عبدل، احمد، فیاض

عبدل : (کھڑکی کے باہر چیزوں کو دیکھ کر سوچتا ہے)

رنگ برنگے ذرے بھورے بھورے پتھر

پیلی کرنیں کیکر کی سیڑھی سے اُتر رہی ہیں

کالے ناگ سنہری جیب نکا لے!۔۔۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

خشک پہاڑوں کی چوٹی پر

آڑی ترچھی کالی زرد لکیریں !۔۔۔

پتھر کے سینے سے چشمے پھوٹ رہے ہیں

کہیں کہیں ہر یالی بھی ہے

بھو کی گائیں —- ان کے تھنوں میں دُودھ نہیں ہے

وہ کیا چیز ہے !!

وہی درا ہے

سانجھ سے پہلے اس پر تالے پڑ جاتے ہیں

کو ن اب اس کی مہریں توڑے!

………………

یہ دھرتی اب سارے بندھن توڑ چکی ہے

ایک قبیلہ جاگ رہا ہے

بھیڑوں کو للکار رہا ہے

ایک کرن پھر وقت کی سیڑھی سے اُتری ہے

لیکن میں تو —- اس دھرتی میں میرا کوئی نہیں ہے

سات برس کے بعد یہاں سے پھر گزرا ہوں

وہی پہاڑ اور وہی نظارے

اس وادی میں کیسے اُتروں ؛

اس دھرتی سے میرا ناطہ ٹوٹ چکا ہے

اپنے وقت کا اک اک ساتھی چھوٹ چکا ہے

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

احمد : (فیاض سے)

وہ کھڑکی کا شیشہ اُٹھا دو

مرے بھائی باہر ہوا چل رہی ہے

فیاض : ذرا گلاس تو بھرنا بھائی!

پیاس لگی ہے —- سارا دن میں کتنے گلاس انڈیل چکا ہوں

یہ شیشے کی صراحی تم نے کہاں سے لی ہے؟

یہ مال تو باہر کا لگتا ہے مجھ کو

احمد : یہ سب اپنے ہی کنچ گھر میں بنی ہیں

کبھی آپ آئیں تو باہر کی صنعت گری بھول جائیں

فیاض : پانی تو خاصا ٹھنڈا ہے!

آپ پیئں گے؟

احمد : بہت پی چکا ہوں !

میں گرمی میں پانی ذراکم ہی پیتا ہوں

فیاض : وہ دیکھو کھڑکی سے باہر

نقرے پر اک لڑکا سرپٹ دَوڑ رہا ہے!

احمد : چال تو خوب چلتا ہے

لیکن سوار اس کا بالکل اناڑی ہی لگتا ہے

فیاض : ہاں کچھ ایسا ہی قصہ ہے

گھوڑ سواری کھیل نہیں ہے

اپنے پاس بھی دو گھوڑے ہیں

میں نے انہی ں بچوں کی طرح سے پالا ہے ۔۔۔

احمد : مرے پاس بھی ایک چِینا ہے

اس میں بڑا دَم ہے بھائی!

بڑا ہی مبارک ہے یہ چینا گھوڑا

مرے پاس جس دن سے ہے یوں سمجھ لو کہ بس لکشمی آ گئی

فیاض : یہ بھی وہم ہے

اگلے وقتوں کے لوگوں کی خوش فہمی ہے

احمد : پرانی حویلی کے گھوڑے —- مگر وہ تو اُجڑی پڑی ہے

فیاض : حشمت کا ڈیرہ بھی اب سنسان پڑا ہے

احمد : بعض گھوڑا تو سچ مچ ہی منحوس ہوتا ہے

فیاض : ہم نے اپنی ساری عمر میں رنگ رنگ کے گھوڑے پالے

چمبا، نقرا، خاکی، چینا، کالا اور کمیت

گھوڑا تو بس قسمت والے کو ملتا ہے

اس کے کانوں سے جنت کی ہوا آتی ہے

اس کی ٹاپ سے دھرتی کا دِل کانپ اُٹھتا ہے

احمد : مگر کالے گھوڑے کی کیا بات ہے!

تم نے دیکھا ہے شاید وہ گھوڑا

وہی کالا گھوڑا!

وہ گھوڑا نہیں آدمی ہے!

فیاض : اس خطے کا کون سا گھوڑا مجھ سے چھپا ہوا ہے

اس میں کوئی گُن ہوتا تو میں کب چھوڑ نے والا تھا

جی وہ تو فوج کا کنڈم مال ہے

دیکھنے میں تصویر ہے لیکن ناکارہ ہے

وہ گھوڑا تو بڑا خونخوار ہے !

احمد : تمھیں یاد ہو گا کہ گھوڑوں کے میلے میں پچھلے برس

گاؤں کے چودھری جی نے للکار کے شرط باندھی

کہ اس کالے گھوڑے پہ جو بھی سواری کرے گا

یہ گھوڑا اسی کو ملے گا

تمھیں یاد ہے نا! کہ اکبر سے پتلے چھریرے بدن

کا جواں اس کو اِک آن میں لے اُڑا تھا

ارے یہ پنہ گیر لڑکا تو آفت کا پتلا ہے

دیکھو تو بھولا سا معصوم سا ہے

مگر وہ گُنی ہے!

فیاض : گُنی وُنی تو کیا ہے بس قسمت کا دَھنی ہے

احمد : اب تو اکبر نے مونا سے شادی بھی کر لی ہے

اچھے گھرانے کی لڑکی ہے !

فیاض : لیکن اس میں ایک ہی کھوٹ ہے

نئے زمانے کی لڑکی ہے

کالج تک تو ٹھیک ہے لیکن

وہ تو کھلے بندوں بے پردہ پھرتی ہے

یہ سب باتیں اپنے کو تو کھلتی ہیں

میاں ہم تو پرانے لوگ ہیں

احمد : اجی اب تو نقشہ ہی کچھ اَور ہے

وہ زمانہ گیا یہ نئی روشنی ہے

وہ نندی بھی تھی! آگ میں جل بجھی

فیاض : وہ بے چاری زندہ رہ کر بھی کیا کرتی!

اس کی قسمت میں جل مرنا ہی لکھا تھا

احمد : تو وہ آگ کس نے لگائی تھی؟

عبدل نے ! —- نندی کے بھائی نے! —- حسنی نے!

فیاض : میاں جتنے منہ اتنی ہی باتیں

سنا یہی ہے!

اللہ جانے تہہ میں کیا ہے؟

احمد : یہ سارے زمیندار ایسے ہی ہیں

لوگ کہتے ہیں جنگل انھوں نے جلایا

مگر گاؤں والوں کو نندی کے بھائی پہ شک ہے

بھلا آپ اس دن کہاں تھے

فیاض : میں اس روز وہیں تھا

اپنے گاؤں میں تھا، بس کھانا کھانے ہی بیٹھا تھا

اتنے میں اک شور سا اُٹھا

میں سمجھا کہ ساتھ کے گاؤں نے ہلّہ بول دیا ہے

ننگے بدن گھوڑے پہ الانا چڑھ کے نکلا

اِس سے پوچھا اُس سے پوچھا

کالی رات اور تیز ہوا تھی

تین کوس سے آگ کی لاٹیں چمک رہی تھیں

ڈیرے والے بھرے طمنچے اور بندوقیں لے کر نکلے

گھوڑے سوار مشالیں لے کر بھاگ رہے تھے

احمد : تعجب ہے عبدل کہاں تھا؟

وہ نندی تو جل ہی گئی تھی!

تمھیں تو خبر ہے!

فیاض : آگ کے بہتے دریاؤں میں

اس کی چیخیں ہم نے سنی ہیں

ہم نے لاکھ پکارا

آوازیں دیں

لیکن کوئی نہ بولا!

احمد : میں نے وہ رات دیکھی ہے جب آسماں سرخ تھا!

ناصر کاظمی

چھٹا منظر

آدھی رات گزر چکی ہے۔ جنگل کی آگ کے شعلے ابھی تک بھڑک رہے ہیں ۔ گاؤں بھر میں شور برپا ہے۔ عبدل ویران رستوں میں گرتا پڑتا، چھپتا چھپاتا گھر آتا ہے اور طویلے میں سے اپنے باپ کے کمرے میں جھانکتا ہے۔ عبدل کے ماں باپ آپس میں گفتگو کر رہے ہیں ۔

کردار

نصیبن : عبدل کی ماں (عمر 60 سال)

حشمت : عبدل کا باپ ( عمر 70 سال)

(عبدل کھڑکی میں سے سب ماجرا دیکھ رہا ہے)

حشمت : تو کیا یہ بے ہوئی ہے؟

گاؤں والے باؤلے ہیں ؟

نصیبن : ان حویلی والوں کے کیڑے پڑیں

ہفت رنگن نے مرے لونڈے کو پاگل کر دیا

حشمت : غضب ہے، قہر ہے جی!

اس بڑھاپے میں یہ دن بھی دیکھنا تھا

میں تو اس جینے سے بھر پایا ہوں یا رب

تو اُٹھالے اب مجھے جلدی اُٹھالے

اِس بڑھاپے میں یہ صدمہ کوئی دشمن بھی نہ دیکھے

نصیبن : میرے اللہ لٹ گئی میں

پوت کا ہے کو جنا تھا سانپ تھا

تم کو اِس دن کے لیے پالا تھا عبدل!

واہ بیٹا! تم نے اپنے خانداں کا نام روشن کر دیا

باپ دادا کے زمانے کا یہ جنگل ایک دَم میں پھونک ڈالا

حشمت : کبھی ہم پر بھی آئی تھی جوانی؟

نصیبن : نہ ہوا اِس وقت میری ماں کا جایا

دیکھ لیتی اِن زمینداروں کا مان!

میرے بیٹے کو اگر کچھ ہو گیا تو شیرمے پی لوں گی اِن کے!

حشمت : اجی بس چپ رہو تم!

تم نہ بولو!

تمھارے پیار نے کھویا ہے اس کو

نصیبن : کوئی اس دِیدے پھٹی کو پوچھنے والا نہیں

کیوں گئی تھی وہ ہکارا؟

وہ کنویں پر کیوں گئی تھی؟

عبدل سب باتیں سن رہا ہے۔ کبھی وہ بوڑھے ماں باپ کی طرف دیکھتا ہے اور کبھی بدنامی کا ڈر اسے ستاتا ہے۔ نندی کے بعد وہ اب گاؤں میں ٹھہرنا نہیں چاہتا۔

آواز : وہ رستہ ہے!

راتوں رات نکل جا عبدل!

عبدل : لیکن یہ میرا گھر!

یہ میرے ماں باپ!

کہاں جاؤں گا!

نندی! میرے ارمانوں کا آخری سنگم!

آواز : اب اس پیڑ سے اُڑجا

اس کی جڑیں اب سوکھ چُکی ہیں

اس کے پھل کو اندر سے کیڑوں نے چاٹ لیا ہے

ہوا چلے یا پانی برسے

اب اس پھل میں رس نہ پڑے گا

چاند کی کرنیں دستک دے کر

اُلٹے پاؤں پلٹ جائیں گی

چھلکا پیلا پڑ جائے گا

اب اس پیڑ سے اُڑ جا

دُور کسی جنگل میں ڈال بسیرا

کڑوے نیم کی ٹہنی چن لے

ناصر کاظمی

پانچواں منظر

اندھیرے جنگل میں عبدل، نندی کو ڈھونڈتا ہے لیکن نندی کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ عبدل تھک ہار کر ایک گھنے درخت کے تنے کے سہارے حیران کھڑا ہو جاتا ہے۔ خاصی رات ہو گئی ہے۔ وہ نندی کے خیال میں کھوجاتا ہے۔

عبدل : ٹھہرو نندی!

ٹھہرو نندی کہاں چلی ہو؟

رستہ بھول نہ جانا!

نندی : کنویں میں نہ جھانکو!

عبدل : وہ دیکھو وہ ریت پہ بڑھیاں دَوڑ رہی ہیں !

اکبر : میں کنچ گھر جا رہا ہوں عبدل!

تمھارا پیغام بھیج دُو ں گا

بڑی اندھیری ہے آج کی شام

آندھی آئے گی!

نندی : ادھر گرد سی اُڑ رہی ہے

چلو اس بنی کے درختوں میں چھپ جائیں

رات ہو گئی ہے

(اتنے میں لوگوں کا شور سنائی دیتا ہے اور وہ جنگل کو آگ لگا دیتے ہیں )

عبدل : کم بختوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے

کیسے بھاگوں ؟

آگ —- آگ —- آگ

چاروں جانب آگ کا دریا

کہاں ہو نندی؟

بولو نندی کہاں چھپی ہو!

باہر جاؤں !

لیکن نندی!

نندی مر جائے گی عبدل!

ایک آواز : اُلٹے پاؤں پلٹ جا عبدل!

نندی اب نہ ملے گی

اس کی قسمت میں جلنا ہے

اُلٹے پاؤں پلٹ جا!

عبدل : لیکن نندی! اُسے اکیلا چھوڑ کے جاؤں !

نہیں نہیں ! میں جل جاؤں گا!

جل جاؤں گا!

جل جاؤں گا!

آواز : آگ کسی کی میت نہیں ہے

اپنی جان بچا لے عبدل!

نندی اب نہ ملے گی

اندھی آگ کا رستہ چھوڑ کے راتوں رات نکل جا پیارے

وہ رستہ ہے!

اب آواز نہ دینا عبدل!

نندی اب آواز نہ دے گی!

وہ رستہ ہے!

اِس رَستے سے دریا کے اُس پار اُتر جا!

آگ کے منہ پہ آنکھیں نہیں ہیں

آگ ہے اندھی

آگ ہے بہری!

اپنی جان بچا لے عبدل

وہ رستہ ہے!!

ناصر کاظمی

چوتھا منظر

عبدل گاؤں کی لڑکیوں کو بڑھ کے ایک گھنے درخت کے پیچھے چھپ کر دیکھ رہا ہے۔ اس کے خاکی گھوڑے کی لگام اس کے ہاتھ میں ہے۔

مقام : سورج پور کے باہر میدان میں

کردار

نندی، یاسمینہ، زرینہ، عبدل، اکبر

نندی : کنویں میں نہ جھانکو!

یہاں سانپ رہتے ہیں

یا سمینہ : تیرا تو سر پھرا ہے!

نندی : نہیں یا سمینہ یہ سب سے پرانا کنواں ہے

یہاں اب کے ساون میں بھیا نے دو سانپ مارے تھے

کم بخت پھنیئر تھے!

یاسمینہ : سانپ اور اس کنویں پر!

نندی : (جھنجھلا کر)

وہ کھیتوں میں کیا ہے؟

وہ گھوڑے پہ کون آرہا ہے؟

یاسمینہ : ہو گا کوئی تمھیں کیا؟

نندی : چلو آؤ دیکھیں تو وہ کون ہے؟

یاسمینہ : حسنی ہے میں تو جانوں !

نندی : اری چپ رہو! اس میں ہمت ہے اتنی!

زرینہ : (گنگنانے لگتی ہے)

بہتا ساگر چھوڑ کے کاہے لیؤ بن باس

برھن بدری اُڑے اکیلی دُور بھیؤ آکاس

ساجن بن جی نہ لگے برھن گا وے جوگ

نگر ی نگری پھرے اکیلی پتھر ماریں لوگ

یاسمینہ : اچھا جی اب میں سمجھی!

تو بھی جلی ہوئی ہے!

نندی : بڑی پارسا ہے نا تو!

جانتی ہوں !

بتا کون تھا وہ جو میلے میں سُکھ پال لایا تھا؟

اب بولتی کیوں نہیں ؟

کیسی چپکی کھڑی ہے ؟

یاسمینہ، نندی اور زرینہ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتی ہیں اور گانے لگتی ہیں ۔

یاسمینہ : ماں ری ماں میں چودہ برس کی

(سب مِل کر ) : سولہ برس کا تھا —- چھورا رانگڑ کا

سولہ برس کا تھا —- چھورا رانگڑ کا

مجھے بلا وے تھا —- چھورا رانگڑ کا

وقفہ

عبدل گھوڑے پر سوار ہو کر سامنے آتا ہے۔ زرینہ اور یا سمینہ ڈر کر ایک طرف ہوجاتی ہیں اورنندی اکیلی رہ جاتی ہے۔

عبدل : آؤ میں تم کو گھر چھوڑ آؤں

دیکھو! سورج کتنا نیچے اُتر گیا ہے؟

نندی : (ذراگھبرا کر )

نہیں جی! چلے جاؤ!

عبدل : ٹھہرو نندی!

نندی : امی کہتی تھیں غیر آدمی سے نہیں بات کرتے !

عبدل : وہ دِن یاد ہیں !

اسی کنویں پر سانجھ سویرے کھیلنے آتے !

وہ اِملی کا درخت ابھی تک اسی طرح خاموش کھڑا ہے!

آؤ گٹارے توڑیں !!

میں اِملی پہ چڑھ جاتا ہوں

تم پلا پھیلاؤ!

وہ دیکھو! وہ ریت پہ بڑھیاں دَوڑرہی ہیں !

آؤ اُن کے پیچھے بھاگیں !

اُس نے پھر کشتی کے لنگر کھول دیے ہیں ۔

کشتی چلنے لگی ہے!

پانی کی آواز سنی ہے تم نے؟

(عبدل سامنے ایک کیکر کے درخت پہ گڑسل کو کنکر مارکر اُڑا دیتا ہے)

نندی : (انگلی میں انگوٹھی کو پھرانے لگتی ہے)

شام کی خامشی میں درختوں پہ کنکر نہیں مارتے

شام کو پیڑ آرام کرتے ہیں عبدل!

یہ رونے کی آواز کس کی ہے؟

عبدل : چرواہی بھیڑوں کو ہانک رہی ہے!

نندی : (گھبرا کر) نہیں یہ تو اُلّو کی آوازہے

جھاڑیوں میں کہیں کوئی چوہا چھپا ہے!

(زمین کی طرف دیکھ کر چونک پڑتی ہے)

ارے میں تو ڈر ہی گئی تھی!

یہ گھوڑے کا سم ہے!

یہ اتنا بڑا قافلہ کس طرف جا رہا ہے!

عبدل : بے چارے اوڈ ہیں ، خانہ بدوش ہیں

نگری نگری آوارہ پھرتے رہتے ہیں

مینہ بندی ہو، آندھی ہو، چمکیلا دن ہو، کالی رات ہو

رستے ہی میں پڑے رہتے ہیں

آدمی دن بھر مزدوری کرتے رہتے ہیں

عورتیں اپنے بچوں کو گودی میں لے کر

گھا س پھوس اور ڈھیکر چنتی رہتی ہیں

اُونٹوں اور بھیڑوں کے دُودھ کو شہر میں جا کر بیچتی ہیں

نندی : میں کہتی ہوں کوئی یہاں آ گیا تو!!

عبدل : (خانہ بدوشوں کے قافلے کی طرف دیکھتے ہوے)

یہ دھرتی اب سارے بندھن توڑ چُکی ہے

اب یہ قبیلہ جاگ رہا ہے

بھیڑوں کو للکار رہا ہے

یا یہ بھیڑیں دُودھ نہ دیں گی

یا پھر ان کے تھن پر تھیلی چڑھ نہ سکی گی

وہ دیکھو! وہ رنگ بر نگے ذرّے

بھورے بھورے نیلے نیلے پتھر

ریت کے تارے آگ کی ہولی کھیل رہے ہیں

پیلی کرنیں کیکر کی سیڑھی سے اُتر رہی ہیں

کالے ناگ سنہری جیب نکالے

گل کنجوں میں ناچ رہے ہیں

نندی : ہوا کتنی خاموش ہے!

فاختہ ریت کے نرم بستر پہ چپ چاپ بیٹھی ہے

ندی ہے ندی کا پانی ہے، پانی کی آوازہے

فاختہ بہتے پانی کے شیشے میں اپنے ہی رُوپک کو تکتی ہے

لہریں اُچھلتی ہیں اور بیٹھ جاتی ہیں

عبدل : اس کے ننھے پنجے دیکھو

ریشم کے لچھوں کی طرح باریک ملائم

اُس کے پر اور اُس کی چونچ کو غور سے دیکھو

جب یہ اپنی چونچ کو ریت پہ گھستی ہے

تو سارا جنگل گاتا ہے ۔۔۔

تم کیا سوچ رہی ہو؟

نندی : نہیں کچھ نہیں باؤلی ہو گئی ہوں !

عبدل : سوچ رہا ہوں ہم یوں کب تک

ہم یوں کب تک ۔۔۔ تم ہی سوچو! ۔۔۔ ہم یوں کب تک!

نندی : چلو اب یہاں سے چلیں !

عبدل : فاختہ اُڑ کر ڈال پہ جا بیٹھی ہے

وہ دیکھو پھر نیچے اُتر گئی ہے !

اس کی چونچ میں کیا ہے؟

نندی : وہ سرسوں کی پھلچی ہے!

عبدل : نیل کنٹھ کا پر ہے شاید!

نندی : یہ اُڑتی نہیں —- آؤاس کو اُڑائیں !

عبدل : وہ دِن یاد ہیں !

مکتب سے جب چھٹی ملتی

ہم سب لڑکے چھوٹے چھوٹے کنکر چنتے

فاختہ جونہی سامنے آتی

سب ہمجولی اپنی اپنی غلیل چلاتے

نندی : (گھبراکر) امی کہتی تھیں یہ اِک مقدس پرندہ ہے

اس کو نہیں مارتے!

ایک دن میرے بھیا کو امی نے مارا تھا

وہ فاختہ مار لایا تھا

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

ارے! وہ سنا تم نے!

عبدل : (حیرت سے) کیا ہے نندی؟ کیا ہے؟

نندی : ریل گاڑی ہے!

دیکھو وہ کیاشے جھلک مارتی ہے!

وہ گھوڑے پہ کون آ رہا ہے؟

عبدل : اکبر! اکبر اپنا دوست ہے نندی!

(اکبر ان دونوں کے قریب آ کر گھوڑا روک لیتا ہے)

اکبر : سلام بھیا! مزے میں ہو، خوب کٹ رہی ہے!

ملو گے ڈیرے میں !

رات کو تم ضرور آنا!

(اکبر چلنے لگتا ہے)

عبدل : اکبر بھیا! ٹھہرو اکبر! بات تو سنتے جاؤ۔

حسنی کہیں ملے تو کہنا رات کو ڈیرے میں آجائے!

اکبر : میں کنچ گھر جار ہا ہوں عبدل

تمھارا پیغام بھیج دُو ں گا!

بڑی اندھیری ہے آج کی شام

آندھی آئے گی!

(اکبر گھوڑے کو ایڑ لگا کر ہوا ہو جاتا ہے)

عبدل : اکبر بھی کیا سوچتا ہو گا؟

حسنی نے بھی کئی دِنوں سے ملنا چھوڑدیا ہے

نندی : اُدھر گرد سی اُڑ رہی ہے!

عبدل : ریت اُڑی ہے کچھ بھی نہیں ہے

نندی : نہیں وہ ادھر آرہے ہیں !

چلو اس بنی کے درختوں میں چھپ جائیں !

رات ہو گئی ہے!

عبدل : ڈرو نہیں میں ساتھ ہوں نندی!

اُس تالاب کے پیپل کے نزدیک نہ جانا!

ٹھہرو نندی میں بھی آیا!!

ناصر کاظمی

تیسرا منظر

سورج پور اور پرانے جنگل کے درمیان ایک بہت بڑا میدان ہے۔ اس میدان میں چیت کا میلہ لگا ہے۔ ٹھٹھ کے ٹھٹھ آس پاس کی بستیوں سے میلہ دیکھنے آئے ہیں ۔ طرح طرح کی دُکانیں سجی ہیں ۔ قسم قسم کے گھوڑے اور مویشی میلے میں نمائش کے لیے لائے گئے ہیں ۔ ناچ رنگ سے ساری بستی گونج رہی ہے۔

زمانہ : ہجرت سے پہلے

وقت : دن چڑھے

کردار

کچھ مرد اور عورتیں ، بندو، نندی

حسنی ، عبدل ، اُوشا ، گھوڑا اور بیل

عورتوں اور مردوں کی ایک ٹولی ناچ کتھا میں ڈُوبی ہوئی ہے۔ عبدل، نندی اور حسنی بھی اس ہجوم میں موجود ہیں ۔

کورس : پھر چیت کا میلہ آیا

من بھایا

ہوآیا

پھر چیت کا میلہ آیا

بندو : چھب سندر گورے گال

جوبن پر چمکیں لال

کھرا ہے مال

زمانہ گوری کا

کورس : پھر چیت کا میلہ آیا

من بھایا

ہو آیا

عورت : ہٹ دُور پرے کل مُوئے

تو میرا جوبن چھوئے

تری اکھیوں ماں ڈالوں سوئے

کل موئے

کورس : پھر چیت کا میلہ آیا

من بھایا

ہو آیا

بندو : ’’ہم تو ترے عِسک ماں مرگئے تنے کھیل کٹاری دِیکھے۔‘‘

(کورس) : ’’اِس بانکے رے ترچھے گھونگٹ ماں توں سارے جگ سے نیاری دِیکھے۔‘‘

ایک آواز : متھے پر جھمر لشکاں مارے۔ مانگ ماں چمکیں ٹوماں

دوسری آواز : سارا گاؤں دہائیاں دیوے سہر ماں پڑ گئیں دھوماں

بندو : جو ں جوں گوری غصّے ہووے منے ہور بی پیاری دِیکھے

کورس : اس بانکے رے ترچھے گھونگھٹ ماں توں سارے جگ سے نیاری دِیکھے

(تھوڑی دُور سے ڈھول اور تماشائیوں کی آوازیں آ رہی ہیں )۔۔۔

دَھنا دَھن دَھن

دَھنا دَھن دَھن

نندی : (عبدل سے)

چلو بیل گھوڑے کی دیکھیں لڑائی

(عبدل ذرا پانی پینے چلا جاتا ہے)

حسنی : کبھی ہم سے بھی کرو پیار

اب یوں نہ کرو انکار

کرو اقرار

پھر چیت کا میلہ آیا

من بھایا

ہوآیا

نندی : چلے جاؤ حسنی!

کئی بارتم سے کہا ہے کہ مجھ سے نہ بولو!

عبدل : کیا ہے نندی! کیا ہے؟

حسنی بھیا اُدھر چلو گے!

ڈھول کی آواز : دھانا دِھن دِھن

دِھنک دِھنک دِھن دِھن دھا

دِھنک دِھنک دِھن دِھن دھا

زندہ دِل تماشائیوں کا ایک ہجوم گھوڑے اور بیل کی لڑائی دیکھ رہا ہے۔ نندی اور عبدل بھی اس ہجوم میں مل جاتے ہیں ۔ حسنی ایک طرف ہجوم میں کھو جاتا ہے اور اپنا دو تارہ زمین پر دے مارتا ہے۔ ایک کالے گھوڑے کی پیٹھ پر سبز مخمل کا تارو ڈالا ہوا ہے۔ پاؤں میں جھانجریں ہیں ۔ اُدھر ایک نیلا بیل ہے جو گاؤں کا سب سے جوان اور خوفناک نارا ہے۔ اس کے سینگوں پر لوہے کے خود چڑھے ہوئے ہیں ۔ کمر پر سرخ رنگ کی قیمتی چادر ہے۔ گھوڑے پر ایک نوجوان اَسوار ہے۔ اس کے ہاتھ میں نیزہ ہے۔ گھوڑے اور بیل کے مالک ایک دوسرے کو للکارتے ہیں ۔ لڑائی شروع ہوتی ہے۔

ڈھول کی آواز : دھانا دِھن دِھن

دھانا دِھن دِھن

دھا نا دِھن دِھَن

دِھنک دِھنک دِھنک دھا

دِھنک دِھنک دِھنک دھا

(گھوڑا اور بیل مقابلے میں آتے ہیں )

گھوڑا : (گھوڑا کہے بیل سے )

میں ہوں ایسا گھوڑا

مست ہو کے جب لہرماں آؤں

جھنجھل اُٹھا کے پیر اٹھاؤں

کئی کوس منٹوں ماں جاؤں

دے جواب او بیل تو میری بات کا!

بیل : سانچے بچن بیل کہے سن گھوڑے میری بات!

اونچی بولی بول کے کھول نہ اپنی ذات

میں ہوں اپنی ماں کا نارا مالک میرا کسان

صحرا کا لقمان

کھڑی دوپہر ہل ماں جوتے پانی دے نہ گھاس

کھنڈی آر سے پھوڑ کے کرے بدن کا ناس

ہاڑھی ہو کہ ساؤنی سب کے کشت اٹھاؤں

پھر بھی اپنے کام سے! کبھی نہ آنکھ چراؤں

دے جواب تو گھوڑے میری بات کا

گھوڑا : او ہریا کے نارے اپنی ذات پچھان!

مری ٹاپ سے تھر تھر کانپیں بڑے بڑے بلوان

کیا پنکھرو کیا حیوان

ماں پر پوت پتا پر گھوڑا

بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا

میں ہوں بلوچی گھوڑا!

میرے سموں کی گھنی گرج سے پھٹ جاوے دھرتی کی کھال!

بیل : دانت چھپا کے بول رے ارجل!

میں ہوں نادیا بیل!!

میرے آگے سے ہٹ جا اوبے پیروں کے پِیر

ایسی ٹکّر پلٹ کے ماروں جان رہے نہ سریر

سنگی ایسی گھما کے ماروں چھلنی ہو سورج کا تھال

او خچر کے لاڈے تو کیا جانے میری چال!

چندر بنسی سورج بنسی کا ہے مجھ میں خون

گھوڑا : ہٹ جا اوملعون!

بیل : میری ماں کل دھرتی کی ماں میں ناروں کا نارا

میں دَھرتی کا پیارا

گھوڑا : او بچھیا کے نارے اُونچا بو ل نہ بول

بیل : او سوری کے جو!

گھوڑا : ہو ترا ہو جابیل کا منہ!

میں ہوں بلوچی گھوڑا

بیل : میں ہوں نادیا بیل!

(لڑائی شروع ہوتی ہے)

دَھانا دِھن دِھن

دَھانا دِھن دِھن

دِھنک دِھنک دِھن دِھن دھا

دِھنک دِھنک دِھن دِھن دھا

دھا تر کٹ دھا

دھا ترکٹ دھا

ترکٹ دھا

ترکٹ دھا

دھا ترکٹ دھا

عبدل : (نندی کے کان میں چپکے سے کہتا ہے )

ناچ کتھا دیکھو گی نندی!

سب اس شور میں کھوئے ہوئے ہیں

میں چلتا ہوں تم مرے پیچھے چلتی آؤ!

(ڈھول کی آواز تیز ہوجاتی ہے)

نندی : میرے بھیا یہاں آگئے تو ۔۔۔

عبدل : نہیں وہ ادھر کیا کرے گا!

عبدل اور نندی ناچ کتھا میں آجاتے ہیں ۔ ان کے پیچھے پیچھے حسنی بھی آتا ہے۔

کورس : پھر چیت کا میلہ آیا

من بھایا

ہوآیا

حسنی : (نندی کو کہتا ہے )

خلقت ناچے پی کے بھنگ

تم بھی ناچو میرے سنگ

نندی : نہیں میں نہ ناچوں گی!

عبدل : ناچو نندی! یہ میلہ ہر روز نہیں ہوتا ہے نندی!

نندی : نہیں میں نہ ناچوں گی عبدل!

نہیں میں نہ ناچوں گی!

بُندو : (حسنی کو کہتا ہے )

ناچ رے بھین ناچ

اوشا کے سنگ ناچ

خوب رہے گا اوشا اور حسنی کا جوڑا

اس میلن میں ناری کا کیا توڑا

(اوشا اور بندو حسنی کو مسکرا کر دیکھتے ہیں )

حسنی : رادھے بن کیا ناچے نچیا منڈل بھئیو اداس

سب نَر ناری میلن دیکھیں میں دیکھوں آکاس

اُوشا : میں تیری رادھا ہوں موہن میں ناچوں تو گا!

مدھر بانسری چھیڑ کے من کی جوت جگا

بندو ساز چھیڑتا ہے اور حسنی ناچنے لگتا ہے۔ ہرنوں کی ایک ڈار چوکڑیاں بھرتی ہوئی قریب سے گزرجاتی ہے۔

حسنی : بینا باجے تنا نوم تنانوم

جھانجھن بولے چھن

نادِھن دِھن نا ڈھولک بولے مدُھر مَدُھر بجے بِین

بہت بڑی سرکار ہے تیری سیّد قطب الدینؒ

بینا باجے تنانوم تنا نوم

جھانجھن بولے چھن

آئیوری سجنی چیتن میلن

سمے دکھاوے میٹھے سپنن

توڑ تاڑ کے چھوٹے دَرپن

دُھومن شاہ کا ناؤں رٹے من

للت، بھیرویں ، شنکرا، ایمن

آئیوری سجنی چیتن میلن

بینا باجے تنانوم تنانوم

جھانجھن بولے چھن

کورس : پھر چیت کا میلہ آیا

من بھایا

ہو آیا

پھر چیت کا میلہ آیا

بندو : دیکھو جی جورا جوری

حسنی : اِک چودہ برس کی چھوری

ملے ہم سے چوری چوری

ہو گوری

کورس پھر چیت کا میلہ آیا

من بھایا

ہو آیا

پھر چیت کا میلہ آیا

ایک نوجوان : مرانام منوہر لال

مری چاندی کی سُکھ پال

کردوں گا مالا مال

گو رُو گھنٹال

کورس : پھر چیت کا میلہ آیا

من بھایا

ہو آیا

پھر چیت کا میلہ آیا

اُوشا : بجے ڈھولک اور مردنگ

دوتارا اور منہ چنگ

تم گاؤ ہمارے سنگ

بہادر جنگ

کورس : پھر چیت کا میلہ آیا

من بھایا

ہو آیا

پھر چیت کا میلہ آیا

ناصر کاظمی

دوسرا منظر

سورج پور کے زمیندار حشمت کا لڑکا عبدل اور اس کا منہ بولا بھائی حسنی دونوں اپنے مکان کے صحن میں کھیل رہے ہیں ۔

کردار

پپو : (عبدل) عمر 6 سال

گٹی : (حسنی) عمر 8 سال

کٹو : گلہری

بندر

بلھا : سورج پور کے نمبردار کا لڑکا۔ عمر 9 سال

نندی : بلھے کی بہن عمر 6 سال

پپو گھر کے صحن میں سے گاتا ہوا باہر ڈیرے میں آجاتا ہے۔

پپو : تو چل قمری میں آتا ہوں

میں ہیرے پنے لاتا ہوں

میں ٹھُم ٹھُم کرتا آتا ہوں

تو چل قمری میں آتا ہوں

آتا ہوں !

آتا ہوں !

(پپو حسنی کو آواز دیتا ہے)

گٹی بھیا! دَوڑ کے آؤ!

یہ دیکھو یہ کیا ہے بھیا!

گُٹّی : ابے کیا ہے؟ کیوں کان کھائے ہیں ؟

پ : (بند مٹھی کو دُور سے دکھا کر آواز دیتا ہے)

گٹی بھیا! ایک چیز ہے!

چھوٹی سی ہے!

گ : (دوڑا ہوا پپو کے پاس آ کر پوچھتا ہے )

بتا دے نا بھیا!

میرے اچھے بھیا نہیں ہو!

پ : نا بھیا جی تم ہی بوجھو!

گ : ۔۔ ۔۔ ادھنی ہے!

پ : ایسی ویسی چیز نہیں ہے!

گ : ابے کھول مٹھی!!

پ : پہلے ہار تو مانو

گ : بھلا تجھ سے میں ہار مانوں !

ذرا اپنی مٹھی کو سورج کے آگے تو لانا!

بتاتا ہوں بس میں ابھی بوجھتا ہوں !

یہ شیشے کی کرچی ہے!

پ : اتاپتا بھی اس کا سن لو

کھانے میں نہ پینے میں

چکھنے میں نہ سونگھنے میں

چھوٹی سی ہے!

بالکل ننھی منی سی ہے،

گوری چٹی بگلے جیسی!

گ : ابے او! یہ اِلّی ہے!

کم بخت تو نے چرائی ہے

پ : ہم نی بتاتے !

ہم نی دکھاتے!

تم ہی بوجھو!

گ : ابے تو دکھاتا ہے یا مارکھائے گا:

پ : پہلے میرا ہاتھ تو چھوڑو!

(پپو بھاگنے لگتا ہے)

گ : (دَوڑ کر اُسے پکڑ لیتا ہے )

ابے سل کھٹیے بتا دے نہیں تو!

پ : پہلے اپنی آنکھیں میچو!

کِن من کانی کون کنا

کِن من کانی کون کنا

ہت تیرے کی دیکھ رہا ہے!

آجا! آجا! آجا

اچھا جی! اب آنکھیں کھولو

(پپو مٹھی کھول دیتاہے)

گ : ارے بس یہی چیز تھی نا!

یہ کنکی کہاں سے ملی ہے؟

ارے باپ رے باپ !

پپو! وہ بندر ادھر آرہا ہے!

وہ بندر تجھے کاٹ کھائے گا۔

پ : کیوں کاٹے گا؟

یہ بندوق نہیں دیکھی کیا؟

تیری غلیل کہاں ہے ؟

گ : ارے تو نہیں باز آتا!

پ : وہ دیکھو وہ کٹو آئی

آؤ اس کو پکڑیں بھیا۱

کٹو کیکر کے تنے پر سے بار بار اُترتی ہے۔ سڑک کے درمیان تک آتی ہے اور پھر بندروں کے ڈر سے یا کوئی آہٹ سن کر لَوٹ جاتی ہے۔

چری ٹیئو، چری ٹیئو۔

چری ٹیئو، چری ٹیئو

اُو اُو! خی خو، اُو اُوخی خو

اُواُو خی خو اُو اُو خی خو

گ : ارے او لٹونی کہاں جا رہا ہے!

پ : وہ کٹو نہیں آتی بھیا!

وہ ہم سے ڈرتی ہے!

گٹی سڑک کی طرف دیکھ کر زور زور سے آواز دیتا ہے۔ اس کا دوست بلھا اپنی بہن نندی کے ساتھ آرہا ہے۔

گ : ارے ہم یہاں ہیں !

یہاں آؤ! نندی اِدھر ! ہم یہاں ہیں !

پ : بلھا بھی تو ساتھ ہے بھیا!

میں اس سے نہیں بولوں گا جی!

گ : ابے چپ رہو وہ مرا دوست ہے ۔

بُلّھا : ہم گھر چلے ہیں گٹی!

(بہن کو غصّے میں آواز دیتا ہے)

نندی! کہاں چلی ہو؟

ٹھہرو اُدھر نہ جاؤ!

پ : دیکھو نندی! یہ کیا چیز ہے ؟

کنکی لوگی ؟

چٹی، کالی، نیلی، پیلی

رنگ رنگ کی کنکیاں ہیں یہ!

بُلّھا : بیٹھا رہ چپکا ہوکر

آیا بڑا کہیں کا!

نندی : نابھیا جی پپو جی کو کچھ نہ کہنا!

بُلّھا : بکواس مت کرو جی!

نندی : پپو جی ہم کل آئیں گے!

کل چھٹی کا دِن ہے پپو

کل آؤں گی!

پپّو : ٹھہرو! نندی وہ دیکھو وہ کٹو آئی!

بلھا، نندی کا ہاتھ پکڑ کر جلدی سے گزر جاتا ہے اور کٹو پھر واپس جا کر کیکر کے تنے پر چڑھ جاتی ہے۔ بندر شور مچاتے ہیں ۔

ناصر کاظمی

پہلا منظر

شام کا وقت ہے۔ ریل گاڑی ایک پہاڑی علاقے میں فراٹے بھرتی ہوئی جا رہی ہے۔ درمیانے درجے کے چھوٹے سے ڈبے میں چند مسافر بیٹھے ہیں ۔ تین آدمی ایک طرف بیٹھے باتیں کر رہے ہیں ۔

زمانہ : ہجرت کے بعد

وقت : ڈھلتا سورج

کردار

احمد : عمر 37 سال

فیاض : عمر 41 سال

مولوی صاحب : عمر75 سال

تصویر حسین، منجن بیچنے والا : عمر تقریباً 40 سال

عبدل : عمر تقریباً 30 سال

(سفر کر رہا ہے۔ راستے میں اس کا گاؤں پڑتا ہے۔ احمد اور فیاض، عبدل کے گاؤں میں رہتے ہیں ، لیکن وہ دونوں عبدل سے ناواقف ہیں ۔)

احمد : میاں یہ تو کہنے کی باتیں ہیں

کچھ بھی نہیں وہم ہے

فیاض : بس جی آپ نے سو باتوں کی ایک بات کہی ہے۔

آئے دِن کہیں جانا نکلنا ہی رہتا ہے

نیل کنٹھ کوئی ایسی چیز نہیں

یہ دائیں اُڑے یا بائیں

ہم نے تو کبھی دھیان دیا ہی نہیں ۔۔۔

احمد : بھلا آج کل کے زمانے میں !

قبلہ! ذرا سوچیے تو سہی!!

مولوی صاحب : تم مری عمر کو پہنچو گے تو پھر پوچھوں گا

تم نے دیکھا ہی ابھی کیا ہے ؟

فیاض : آپ نے اِک دنیا دیکھی ہے

گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے

ٹھیک ہے! لیکن آپ ہی سوچیں کیا یہ وہم نہیں ہے؟

احمد : دیکھیے نا! اُدھر کس قدر دُھوپ ہے!

آپ اِدھر میرے نزدیک آجائیں

کافی جگہ ہے!

فیاض : مولوی صاحب آپ یہاں آجائیں !

اس کھڑکی کے پاس ذرا آرام سے بیٹھیں !

مولوی صاحب : تم مرا غم نہ کرو

میں جہاں بھی ہوں وہیں اچھا ہوں !

فیاض : حضرت آپ تو سچ مچ رُوٹھ گئے ہیں

بحث میں ایسا ہو جاتا ہے

مولوی صاحب : ابھی لونڈے ہو میاں ! بات تو کرنا سیکھو!

میں نے تجھ سے کئی لونڈے دیکھے!

تیرے ابا کے بھی ابا کا زمانہ دیکھا

میں نے تو ایک صدی دیکھی ہے !

فیاض : دیکھیے حضرت! ابا وبا رہنے دیں بس

نہیں تو ۔۔۔

مولوی صاحب : بس مرے منہ نہ لگو

ہنہہ بڑے آئے کہیں کے۔۔۔

فیاض : دیکھیے صاحب! آپ زبان سنبھال کے بولیں

چٹی داڑھی کی عزت کرتا ہوں ورنہ!

چپکے ہو کے بیٹھے رہیے!

مولوی صاحب : میں کہا چپ رہو بس ۔۔۔

احمد : چار دِن کتنی جھڑیاں لگیں پھر بھی گرمی کی شدت وہی ہے!

فیاض : توبہ میری!

دن ہے یا شیطان کی آنت

احمد : بھلا کیا بجا ہے؟

فیاض : پورے پانچ بجے ہیں

احمد : کہاں جائیں گے آپ؟

فیاض : سورج پور ! بس اگلے اسٹیشن سے آگے

عبدل ذرا دُور کونے میں کھڑکی کی طرف بیٹھا ہے۔ وہ سورج پور کا نام سنتے ہی چونک پڑتا ہے اور پھر کسی خیال میں کھو جاتا ہے۔

احمد : ارے پھر تو اک ساتھ اُتریں گے

میں تو نویں شہر جاؤں گا

فیاض : سورج پور اب تھوڑی دُور ہی ہو گا!

احمد : نہیں ! گھر پہنچتے پہنچتے ہمیں رات پڑجائے گی

فیاض : آج تو ساتویں رات ہے خاصاچاند نا ہو گا

ٹھنڈے ٹھنڈے گھر پہنچیں گے

احمد : آپ کو میں نے پہلے بھی دیکھا ہے؟

فیاض : دیکھا ہو گا! نویں شہر میں دیکھا ہو گا!

میں بھی آپ کی صورت تو پہچان رہا ہوں

کہاں ملے یہ دھیان نہیں

احمد : نویں شہر میں کچھ مہینے ہوئے میں نے بنگلہ لیا ہے

وہاں میرے بھائی کا لڑکا ہے

وہ ڈاکٹر ہے!

ارے ہیں ! یہ گاڑی کی رفتار کو کیا ہوا؟

ریل گاڑی ایک ننھے سے اسٹیشن پر رُک جاتی ہے۔ کچھ مسافر رنگ برنگے کپڑے پہنے ایک ڈبے کی طرف تیزی سے دوڑتے ہیں ۔ سورج ڈُوب رہا ہے۔ پھیری والوں اور مسافروں کی ملی جلی آوازیں اور انجن کی شائیں شائیں فضا کو خاموش کردیتی ہے ۔

پہلی آواز : پا ن بیڑی سگرٹ

فیاض : بیڑی والے! او میاں بیڑی والے!

کون سا اسٹیشن ہے بھائی؟

پہلی آواز : بابو جی! یہ سیّد پور ہے!

دوسری آواز : سو — ڈا —- بر–ف —- لے مَن سو — ڈا

فیاض : سگرٹ والے اِدھر تو آنا؟

جلدی! بھاگ کے! گولڈ فلیک کی ڈبیا دینا

چار پان بھی! باقی پیسے واپس کر دو

یہ لو ایک روپیہ!

(احمد کی طرف دیکھ کر) چائے پئیں گے؟

احمد : نہیں اب تو گھر ہی پہنچ کر پئیں گے!

میاں گاڑی چلنے لگی ہے

اب اندر چلے آؤ!!

آوازیں : بیرا گڈی چلنے لا گی دَوڑ کے آجا

تیرا ٹکس کہاں ہے؟

چھجو چاچا میرا بکسا کھڑکی ماں تے پھینک دے جلدی

اچھا اللہ بیلی بیرا!

ہو! چٹھی اَستابی پایئے!

گاڑی چھوٹتی ہے۔ فیاض، احمد کے پاس آ کر بیٹھ جاتا ہے۔ ایک منجن بیچنے والا دو چھوٹی چھوٹی شیشیاں ہاتھ میں لے کر آواز لگاتا ہے۔ عبدل کھڑکی کی طرف منہ کیے خاموش بیٹھا ہے۔

فیاض : یہ تصویر حسین یہاں بھی آ دھمکا ہے

اِ س کی بات پہ دھیان نہ دینا

دھوکے باز کہیں کا ۔۔۔

تصویر حسین : اے دوستو لایا ہوں بڑی دُور سے منجن

دندانِ مبارک پہ لگا لو مرا منجن

’’جس کے منہ سے آوے باس

اس کی دارُو میرے پاس‘‘

یہاں خریدو آٹھ آنے میں

ریل گاڑی سے باہر لوں گا ایک روپیہ!

ہے کوئی بھائی! آٹھ آنے میں

مولوی صاحب!! آٹھ آنے میں

منجن میرا سب سے نرالا

اس کو لے گا دانتوں والا

مولوی صاحب : ’’بتوں کی چاہ گئی ہو برا ضعیفی کا

اِدھر تو پک گئے بال اور اُدھر سدھارے دانت‘‘

اپنا دِن ڈوب چُکا ہے بابا

جاؤ اب آگے سے رستہ چھوڑو!

اس طرف جاؤ ہوا آنے دو!

تصویر حسین : جاتا ہوں چلا جاتا ہوں بِگڑو نہیں بابا

اے دوستو لایا ہوں بڑی دُور سے منجن

دندانِ مبارک پہ لگا لو مرا منجن

فیاض : (آہستہ سے) میں تو جانوں یہ پھڑباز ہے!

مفت میں آٹھ آنے کیوں کھوئیں ؟

احمد : میاں آٹھ آنے کے سگرٹ پئیں گے!

تصویر حسین : چھِک بابا پیسہ لے جا

چھِک بابا پیسہ لے جا

’’وزن برابر سب کو تول

دارُو ہووے یوں انمول

زیرہ مہرچیں ستوا سونٹھ

کہتا اُجلا لے کر گھونٹھ

جو ں جوں لگاوے پاوے سُکھ

تجھ دانتوں کا جاوے دُکھ‘‘

آٹھ آنے میں ! ہے کوئی لینے والا بھائی!

ایک آواز : یہ لو اٹھنی! ایک شیشی دے دینا بھائی!

دوسری آواز : ایک شیشی اِدھر کو بھی لانا

تصویر حسین : منجن میرا سب سے نرالا

اس کو لے گا دانتوں والا

آٹھ آنے میں ! دُنیا لٹ گئی

آٹھ آنے میں

آپ۔۔۔ جناب۔۔۔ آپ — اور آپ ۔۔۔

فیاض : لیجیے سگرٹ پیجیے!

احمد : شُکریہ میں ابھی پی چکا ہوں

(مختصر سا وقفہ)

نویں شہر میں آپ کا گھر کہاں ہے؟

فیاض : وہاں تو اپنا کاروبار ہے

پچھلے دِنوں ہی بھائی نے ہوٹل کھولا ہے!

اب اچھا خاصا چلنے لگا ہے!

سورج پور میں اپنا گھر ہے۔

اُونچی مسجد سے کچھ آگے وہ جو عظمت منزل ہے نا!

وہی ہمارا گھر ہے۔

عبدل : (سوچتا ہے) یہ فیاض ہے! عظمت منزل والوں کا وہ منجھلا لڑکا!

یہ میرے بچپن کا ساتھی!

……………

یہ اب کتنا بدل گیا ہے؟

……………

احمد : کچھ مہینے ہوئے میں نے بستی سے دو میل پر پانچ ایکڑ لیے تھے

وہ عبدل ۔۔۔ وہی کنچ گھر پھر چلایا ہے ہم نے!

وہی شیشہ گر مل گیا ہے

بس اب کام چلنے لگا ہے

فیاض : اچھا اچھا اب میں سمجھا

آپ اکبر کے حصہ دار ہیں !

بڑا ہی نیک انسان ہے اکبر

احمد : تو کیا آپ اکبر سے واقف ہیں ؟

وہ میرا ساتھی ہے !

فیاض : کام تو اچھا خاصاہے پر کاریگر ملنے مشکل ہیں

احمد : اجی اپنے قصبے میں بے کار لوگوں کا توڑا ہے!

ان کو سکھالیں گے، بس دو مہینے کا قصہ ہے

چھ سال کے بعد اس کنچ گھر کو چلایا ہے

منت سے انجینئر کو منایا ہے

کیا آپ عبد ل سے واقف ہیں ؟

فیاض : مدت گزری ! برسوں گزرے!

میں تو اس کے بعد آیا تھا۔

بارہ برس کے بعد آیا تھا۔

پہلے سنگا پور رہتا تھا

ابا جی نے خط لکھا تھا ان کے بلا نے پر آیا ہوں

میں بھی اب تو بڑے سے کام کی سوچ رہا ہوں

عبدل : (سوچتا ہے)

یہ احمد ہے! اکبر میرے دوست کا ساتھی!

کبھی کبھی یہ اکبر سے ملنے آتا تھا

اکبر میرا دوست مجھے کیا بھول گیاہے؟

اکبر، حسنی دونوں ساتھی سوچتے ہوں گے!

میں اور نندی دونوں جل کر ۔۔۔

احمد : (فیاض سے )

آپ بھی اب نویں شہر میں گھر بنالیں

بڑی خوب صورت جگہ ہے

فیاض : جی ہاں ! اپنا ارادہ تو پکا ہے

پھول گلی میں پچھلے برس دوقطعہ زمین لیے تھے

اب تو نیویں کھدنے لگی ہیں

اللہ کو منظو رہوا تو گھر بھی جلدی بن جائے گا!

احمد : اب تو چاروں طرف سے وہاں لوگ بسنے لگے ہیں

نئی طرز کی کوٹھیاں بن رہی ہیں

کھلی صاف شیشہ سی سڑکیں ہیں

سڑکوں کے دونوں طرف سنگتروں کے درختوں کا اک سلسلہ ہے

فیاض : سورج پور اب پھر نہ بسے گا

آج سے سات برس پہلے جب اس جنگل کو آگ لگی تھی

وہ دِن اپنے گاؤں کی بربادی کا دِن تھا

احمد : جہاں کمیوں کے مکاں تھے وہاں ڈاک خانہ بنا ہے

فیاض : ہاں جی! اپنے دیکھتے دیکھتے دُنیا کتنی بدل گئی ہے؟

جہاں وہ اینٹوں کا بھٹہ تھا

جلے ہوئے جنگل کے ٹھُنٹھ پڑے تھے

وہاں یہ شہر بسا ہے!

احمد : جہاں وہ پرانا کنواں تھا وہاں بجلی گھر بن گیا ہے!

عبدل : (نندی سے اپنی آخری ملاقات اس کی آنکھوں میں پھر جاتی ہے)

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

وہ دِن یاد ہیں !

اسی کنویں پر سانجھ سویرے کھیلنے آتے

وہ میلہ! ۔۔۔ وہ ناچ کتھا!

پھر چیت کا میلہ آیا۔۔۔ من بھایا۔ ہو آیا۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

سورج پور اب پھر نہ بسے گا!

سورج پور ۔۔ ۔۔ وہ آگ کی نگری !

وہ اندھیاری رات۔ وہ جنگل!

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

کہاں ہو نندی؟ یاد ہیں وہ دن؟

جب ہم چھوٹے چھوٹے سے تھے!

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

میں اور حسنی کھیل رہے تھے

ناصر کاظمی

تعارف

-۱-

بقدرِ شوق نہیں ظرف تنگَنائے غزل

کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے

غالب کا یہ شعر عموماًغزل پر نظم کی برتری ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے حالانکہ یہاں خیال اور ہیئت کے ناگزیر رشتے کی بات کی گئی ہے ۔ ہر سچے فن کار کے ہاں خیال اپنی ہیئت کا تعین خود کرتا ہے۔ جو بات نظم میں کہی جاسکتی ہے وہ نظم ہی میں کہی جاسکتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی موضوع کے لیے ناول درکار ہے تو کوئی بھی اور صنف اس کے اظہار سے قاصر ہو گی۔ ’’کچھ اور چاہیے وسعت‘‘ سے یہ واضح ہے کہ غزل کی یکسر نفی مقصود نہیں ۔ شوق کا جو حصہ بیان ہونے سے رہ گیا ہے وہ غزل میں نہیں سمویا جا سکتا۔ اس کے لیے کوئی ’’ظرف‘‘ چاہیے۔ مختلف اصنافِ سخن وہ امکانی ظروف ہیں جن کے ذریعے خیالات اظہار پاسکتے ہیں ۔

ناصر کاظمی بنیادی طورپر غزل کے شاعر ہیں لیکن انھوں نے نظمیں بھی لکھیں اور مضامین بھی اور ’’سر کی چھایا‘‘ کی صورت میں ایک ڈرامہ تخلیق کیا۔ دراصل ان کا تمام تر تخلیقی سفر نت نئے جہانوں کی جستجو سے عبارت تھا۔

’’سر کی چھایا‘‘ ہیئت کے اعتبار سے ڈرامہ ہے اور روح کے اعتبار سے شاعری۔

ہر منظر گویا کسی نظم کا بند ہے۔ ہر مکالمہ قافیہ ردیف سے آزاد لیکن کسی نہ کسی بحر کا پابند ہے۔ ہر کردار شروع سے آخر تک ایک مخصوص بحر میں گفتگو کرتا ہے۔ مثلاً مرکزی کردار عبدل کی ہر بات اس بحر میں ہے: فعلاً فعلاً فعلاً فعلاً ۔

منظوم ڈرامے پر اکثر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس کی زبان غیرفطری اور مصنوعی، اور امکانات محدود ہوتے ہیں ۔ ٹی ایس ایلیٹ اس کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ہر زندہ اور بڑے نثری ڈرامے کے کردار جو زبان بولتے ہیں وہ عام زندگی میں بولی جانے والی زبان سے اتنی ہی مختلف ہوتی ہے جتنی کہ نظم۔ نظم کی طرح یہ بھی بار بار لکھی گئی ہوتی ہے۔ ادیب اپنے اردگرد بولی جانے والی زبان میں سے بہت کچھ مسترد کرتا ہے اور جو کچھ چنتا ہے اسے بھی ایک خاص ترتیب دیتا ہے۔ اس سلسلے میں کئی نئے الفاظ تخلیق کرتا ہے۔ گویا ادب کی زبان بہت زیادہ نتھری اور منجھی ہوئی ہوتی ہے۔ سان اوکیسے (SEAN O’ CASEY) کہتا ہے کہ اگر گلی یا ڈرائنگ روم میں بولا جانے والا کوئی مکالمہ ہوبہو کسی ڈرامے میں شامل کردیا جائے تو نتیجہ نہایت مضحکہ خیز اور بھونڈا ہو گا۔ ڈی ایچ لارنس ادبی کلام (ART SPEECH) اور روزمرہ بول چال (CONTEMPORARY SPEECH) میں تفریق کرتے ہوئے کہتا ہے کہ صرف ادبی کلام ہی کلام کہلانے کا مستحق ہے (ART SPEECH IS THE ONLY SPEECH)۔

دنیائے ادب کا مطالعہ لارنس کی اس بات کی تائید کرتا ہے۔ مثلاً اگر ہم شیکسپیئر کے کسی ہم عصر کو پڑھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اس کی زبان شیکسپیئر سے کتنی مختلف ہے۔ اس کے ہمعصر حقیقت نگاری کے شوق میں اپنی ہمعصر زبان لکھتے رہے۔ اسی لیے زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ ان کی تحریریں غیرمقبول اور غیرمعروف ہوتی گئیں ۔ زبان تو سدا ارتقائی منازل میں رہتی ہے۔ وقت کی کسوٹی پر وہی تحریر پوری اترتی ہے جو تخلیقی ہو اگر اس اعتبار سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ نثری ڈراموں کی نثر بھی ایسی ہی مصنوعی ہوتی ہے جیسی کہ نظم یا بصورتِ دیگر نظم بھی ایسی ہی فطری ہو سکتی ہے جیسی کہ نثر۔ البتہ شاعری کو ڈرامے کا ذریعہ بنانے کے ضمن میں ایلیٹ نے ایک تنبیہہ بھی کر رکھی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر شاعری سجاوٹ کے لیے ایک اضافی سامانِ آرائش کے طور پر استعمال ہو یا صرف اس لیے کہ ادبی ذوق کے لوگوں کو ڈرامہ دیکھتے وقت شاعری سننے کا لطف بھی فراہم کیا جائے، تو یہ بالکل بے جا ہو گی۔ اسے محض شاعری کی ڈرامائی تشکیل ہونے کی بجائے ڈرامائی حیثیت میں اپنا جواز پیش کرنا چاہیے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایسا کوئی ڈرامہ منظوم نہیں ہونا چاہیے جس کے لیے نثر ڈرامائی طور پر موزوں ہو۔

منظوم ڈرامے کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ نثر بہت سے جذبات اور احساسات کے اظہار سے قاصر ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنھیں کبھی ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو جب ’’ہمارے‘‘ الفاظ مافی الضمیر کے اظہار کے لیے مایوس کن حد تک ناکافی نظر آتے ہیں ۔ ہر وہ شخص جسے کبھی اپنے کسی عزیز کو تعزیتی خط لکھنا پڑا ہو، اس بات سے بخوبی واقف ہو گا۔ ’’ہماری‘‘ زبان کی بے چارگی اس وقت بھی سدِراہ بنتی ہے جب ہمارا سامنا عظیم الشان حسن، کراہت انگیز بدصورتی، شدید تکلیف، غیرمعمولی اچھائی یا خوفناک عیاری سے ہوتا ہے۔ ہم میں سے بیشتر نے دیکھا ہو گا؛ اگر محسوس نہیں کیا کہ شدید غصے یا رنج کے عالم میں کچھ نہ کہہ سکنے کی بے بسی، دم گھٹنے کی سی کیفیت پیدا کر دیتی ہے اور خوشی اتنی بلندیوں کو چھو سکتی ہے کہ ہم الفاظ نہ ملنے کے باعث رو پڑتے ہیں ۔ اس قسم کی صورتِ حال میں صرف شاعری ہی جذبے کا کچھ اظہار کر پاتی ہے کیونکہ شاعری روزمرہ زبان کی بہ نسبت ہماری داخلی سچائی کے قریب تر ہوتی ہے۔ پس شاعری انسانی روح کی ایک مستقل خواہش اور ضرورت ہے اور ڈرامے کا ایک فطری ذریعہ۔

-۲-

پھر کئی لوگ نظر سے گذرے

پھر کوئی شہرِ طرب یاد آیا

ڈرامے کا ڈھانچہ کچھ اِس طرح سے ہے کہ زیادہ تر مناظر کرداروں کے ماضی سے متعلق ہیں ۔ پہلا منظر گاڑی کے ایک ڈبے کا اندرونی منظر ہے۔ احمد، فیاض اور مولوی صاحب باتیں کر رہے ہیں ۔ مرکزی کردار عبدل ایک طرف بیٹھا ہے۔ اس کا آبائی گاؤں سورج پور جو احمد اور فیاض کی منزل ہے، راستے میں پڑتا ہے۔ وہ عبدل کو نہیں پہچانتے مگر ان کی باتیں سن کر عبدل انہی ں پہچان جاتا ہے۔ فیاض اس کے بچپن کا ساتھی ہے اور احمد اس کے دوست اکبر کا کاروبار میں حصہ دار ہے۔ اپنی محبوبہ نندی سے آخری ملاقات اس کی آنکھوں میں پھر جاتی ہے:

کہاں ہو نندی؟ یاد ہیں وہ دن؟

جب ہم چھوٹے چھوٹے سے تھے!

————

میں اور حسنی کھیل رہے تھے!!

اگلے پانچ مناظر عبدل کی یادوں کا حصہ ہیں ۔ دوسرا منظر 24 برس پہلے بچپن کا ہے اور باقی چار نوجوانی کے دَور کے۔ ساتواں منظر ہمیں پھر ریل کے اندر لے آتا ہے۔ عبدل کھڑکی کے پاس بیٹھا سوچ رہا ہے۔ احمد اور فیاض دوسری طرف بیٹھے باتیں کر رہے ہیں ۔ پہلے فیاض اپنے حافظے سے کچھ باتیں بیان کرتا ہے اور پھر احمد:

میں نے وہ رات دیکھی ہے جب آسمان سرخ تھا

اگلے پانچ مناظر احمدکی یادوں پر مشتمل ہیں جو اس ترتیب سے پیش کی گئی ہیں کہ کہانی مکمل طور پر ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ آخری منظر پھر ریل گاڑی کا ہے۔ رات گہری ہوچکی ہے۔ سورج پور بہت نزدیک آچکا ہے۔ احمد اور فیاض بدستور باتیں کر رہے ہیں ۔ عبدل گہری سوچ میں سر جھکائے بیٹھا ہے۔ اسے طرح طرح کے خیال آوازیں دیتے ہیں ۔ اچانک گاڑی رُک جاتی ہے۔ فیاض پہلی بار عبدل سے مخاطب ہوتا ہے۔

کون سا اسٹیشن ہے بھائی؟

آپ یہاں اتریں گے صاحب؟

احمد: نہیں ! یہ تو جنگل ہے!

-۳-

کہتے ہیں کشمکش ڈرامے کی جان ہے۔ ’’سُرکی چھایا‘‘ میں داخلی اور خارجی دونوں کی طرح کی کشمکش دکھائی دیتی ہے۔ خارجی کشمکش پھر دو طرح کی ہے: فرد کے خلاف جیسے عبدل اور بلھے کی اور پھر حسنی اور بلھے کی کشمکش بلکہ چپقلش دوسری، فرد اور معاشرے کی باہمی کشمکش جس کا شکار عبدل، نندی اور حسنی ہوتے ہیں ۔ لیکن ’سر کی چھایا‘ بنیادی طور پر داخلی کشمکش کا ڈرامہ ہے۔ عبدل اس کا شکار پہلی بار اس وقت ہوتا ہے جب لوگ جنگل کو آگ لگا دیتے ہیں ۔

نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن

————

بولو نندی کہاں چھپی ہو؟

باہر جاؤں !

لیکن نندی

نندی مر جائے گی عبدل

————

اگلے منظر میں جب عبدل چھپتا چھپاتا گھر آتا ہے اور اپنے ماں باپ کی گفتگو سنتا ہے تو ایک نئی کشمکش میں پھنس جاتا ہے۔ ’’کبھی وہ بوڑھے ماں باپ کی طرف دیکھتا ہے کبھی بدنامی کا ڈر اسے ستاتا ہے۔ نندی کے بعد وہ اب گاؤں میں ٹھہرنا نہیں چاہتا۔‘‘

آواز: وہ رستہ ہے!

راتوں رات نکل جا عبدل!

عبدل: لیکن یہ میرا گھر!

یہ میرے ماں باپ!

کہاں جاؤں گا؟

نندی! میرے ارمانوں کا آخری سنگم

آواز: اب اس پیڑ سے اڑجا

اس کی جڑیں اب سوکھ چکی ہیں

————

————

اس کے بعد عبدل ساتویں منظر میں نظر آتا ہے۔ وہی پہلا، گاڑی والا منظر۔ اب وہ ایک نئی کشمکش میں مبتلا ہے۔ سورج پور، اس کی مٹی، اس کا گاؤں ، راستے میں پڑتا ہے:

ایک کرن پھر وقت کی سیڑھی سے اُتری ہے

لیکن میں تو —- اس دھرتی میں میرا کوئی نہیں ہے

سات برس کے بعد یہاں سے پھر گزرا ہوں

وہی پہاڑ اور وہی نظارے!

اس وادی میں کیسے اتروں !

اس دھرتی سے میرا ناطہ ٹوٹ چکا ہے۔

اپنے وقت کا اک اک ساتھی چھوٹ چکا ہے

آخری منظر میں عبدل کی کشمکش اور ذات کی تقسیم اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ اُسے طرح طرح کے خیال آوازیں دیتے ہیں اور وہ باری باری ان کا جواب بھی دیتا ہے۔ ’’آواز‘‘ کی ’’تجاویز‘‘ یا ’’آرائ‘‘ کے حق میں یا خلاف فیصلے بھی کرتا ہے۔

آواز:۔ سورج پور اُترو گے عبدل؟

وہاں نہ جانا!

وہاں ترا اب کوئی نہیں ہے!

عبدل: اس دھرتی سے میرا ناطہ ٹوٹ چکا ہے۔

————

آواز: تو نے نندی کو مارا ہے!

تو نے اس کا خون پیا ہے!

تو نے حسنی کو مارا ہے!

تو اپنے ماں باپ کا قاتل

تو ہی بلھے کا قاتل ہے۔

اتنے تن داروں کا خون تری گردن پر!

تو خونی ہے!

توقاتل ہے!

عبدل: تو جھوٹا ہے

نندی اپنی موت مری ہے

حسنی میرا جگر ی دوست تھا

آواز: تو بزدل ہے!

تو نے سورج پور کو اجاڑا

عبدل: تو جھوٹا ہے!

تو بزدل ہے!

اس کے علاوہ ہمیں ایک اور کشمکش کا سراغ بھی ملتا ہے۔ وہ ہے طبقاتی کشمکش۔ چھٹے منظر میں عبدل کی ماں نصیبن، جب اپنے بیٹے کی جان کے بارے میں متفکر ہوتی ہے تو نہایت بے بسی اور غصّے کے عالم میں کہتی ہے:

نہ ہوا اس وقت میری ماں کا جایا

دیکھ لیتی ان زمینداروں کا مان

میرے بیٹے کو اگر کچھ ہو گیا تو شیرمے پی لوں گی ان کے !

پھر آٹھویں منظر میں احمد چکی کی آواز سن کر کہتا ہے:

یہ آٹے کی چکی ابھی تک یونہی چل رہی ہے

یہ چکی میں کیا پس رہا ہے؟

۔۔۔ مگر گاؤں بھر میں دہائی مچی ہے کہ آٹا نہیں

کال ہے، لوگ مرجائیں گے۔

لوگ بھوکوں مرے جا رہے ہیں

————

————

یہ سب نفع خوروں کی سازش ہے

غلّے کا توڑا نہیں !

اپنے کھیتوں کو دیکھو!

ذرا اپنی فصلوں کو دیکھو!

ہری ہیں ، بھری ہیں !

مگر یہ زمیندار، یہ کالی منڈی کے تاجر!

-۴-

سوائے عبدل کے سبھی کردار TYPES ہیں ۔ نندی روایتی محبوبہ ہے جس کے ایک طرف عاشق کی محبت ہے اور دوسری طرف گھر والوں کی عزت۔ محبوب سے ملنے کی شدید خواہش بھی ہے اور ’’ظالم سماج‘‘ کا زبردست خوف بھی جس کی نمائندگی اس کا بھائی بلھا اور اس کے ساتھی کرتے ہیں ۔ عبدل کے ماں باپ روایتی ماں باپ ہیں جنھیں اپنی اولاد کے دلوں سے زیادہ لوگوں کی زبانوں کا خیال ہوتا ہے۔ احمد، حسنی اور اکبر افسانوی دنیا کے جاں نثار ساتھی ہیں ۔

ان سب کے برعکس عبدل دنیائے ادب کے بیشتر رومانوی مرکزی کرداروں سے مختلف نظر آتا ہے، مثلاً نندی کو کھودینے پر نہ تو وہ فرہاد کی طرح سر پھوڑتا ہے نہ مجنوں کی طرح دیوانہ ہو جاتا ہے، نہ رومیو کی طرح زہر پیتا ہے نہ ورتھر کی طرح اپنی کنپٹی میں گولی اتارتا ہے۔ جب جنگل میں آگ لگتی ہے اور نندی بچھڑ جاتی ہے تو عبدل اسے ڈھونڈنے کی سرتوڑ کوشش کرتا ہے لیکن جلد ہی اسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ کامیابی کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ اس کے اندر سے آواز آتی ہے۔

الٹے پاؤں ہٹ جا عبدل

نندی اب نہ ملے گی

اس کی قسمت میں جلنا ہے

الٹے پاؤں ہٹ جا!

اس کا پہلا ردعمل اس کے خلاف ہوتا ہے اور بڑا شدید:

لیکن نندی! اسے اکیلا چھوڑ کے جاؤں !

نہیں نہیں میں جل جاؤں گا!

جل جاؤں گا!

جل جاؤں گا!

لیکن پھر اس کے اندر کا حقیقت پسند انسان اسے سمجھاتا ہے:

آگ کسی کی میت نہیں ہے

اپنی جان بچالے عبدل!

نندی اب نہ ملے گی

اندھی آگ کا رستہ چھوڑ کے راتوں رات نکل جا پیارے

وہ رستہ ہے!

————

اوربالآخر عبدل یہ مشورہ قبول کرلیتا ہے اور دل پر پتھر رکھ کے وہ ’’رستہ‘‘ اختیار کر لیتا ہے:

ناصر یہ وفا نہیں جنوں ہے

اپنا بھی نہ خیرخواہ رہنا

اس کے بعدجب ’’آواز‘‘ اسے قائل کر لیتی ہے کہ اب اس کے ’’پیڑ‘ ‘ کی جڑیں سوکھ چکی ہیں ! اس کے ’’پھل‘‘ کو اندر سے ’’کیڑوں ‘‘ نے چاٹ لیا ہے اور اب اس میں کبھی ’’رس‘‘ نہیں پڑے گا تو وہ گاؤں چھوڑنے کا فیصلہ کرلیتا ہے اور ’’کڑوے نیم کی ٹہنی‘ ‘ چن لیتا ہے۔

سات برس گزر جانے کے بعدبھی اگرچہ اسے ضمیر کی خلش کبھی کبھی تنگ کرتی ہے لیکن اسے یقین ہے کہ نہ تو اس نے بے وفائی کا مظاہرہ کیا تھا نہ بزدلی کا۔ آخری منظر میں جب ’’آواز‘‘ اسے ملامت کا نشانہ بناتی ہے تو وہ اپنا پورا پورا دفاع کرتا ہے۔

-۵-

ریل کے منظر کے علاوہ ’’سر کی چھایا‘‘ کے تمام مناظر ’’سورج پور‘‘ یا اس کے گردونواح کے ہیں اور سورج پور ایک گاؤں ہے۔ چنانچہ ہمیں ہر وہ بات نظر آتی ہے جودیہاتی زندگی اور ماحول میں پائی جاتی ہے۔ مثلاً، مویشی، کنواں ، رہٹ، حقہ، ندی، مرچوں کے کھیت، سرسوں کی پھلچی، کیکر، املی، بڑھ، پیپل اور نیم کے درخت، دھوپ، چھاؤں ، تنبورہ، اِک تارہ، ناچ کتھا، میلے ٹھیلے، لوگوں کی سادگی، قناعت، ضعیف الاعتقادی، قسمت پر یقین وغیرہ وغیرہ۔ لیکن سب سے زیادہ لائقِ توجہ جانور اور پرندے ہیں ۔ مضافات میں پائے جانے والے تقریباً تمام چوپائے اور پرندے موجود ہیں اور بعض تو باقاعدہ کرداروں کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ دوسرے منظر کے آغاز میں کرداروں کی فہرست یوں ہے:

پپو۔ (عبدل) عمر 6 سال

گٹی۔ (حسنی) عمر 8 سال

کٹو۔ گلہری

—- بندر

بلھا۔ سورج پور کے نمبردار کا لڑکا عمر 9 سال

نندی۔ بلھے کی بہن عمر 6 سال

منظر کے دوران میں کٹو کیکر کے تنے پر سے بار بار اترتی ہے، سڑک کے درمیان تک آتی ہے، پھر بندروں کے ڈر سے یا کوئی آہٹ سن کر لوٹ جاتی ہے۔ اور اس منظر کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے: ’’بلھا نندی کا ہاتھ پکڑ کر جلدی سے گزر جاتا ہے اور کٹو پھر واپس کیکر کے تنے پر چڑھ جاتی ہے۔ بند ر شور مچاتے ہیں ۔

تیسرے منظر کے کرداروں میں گھوڑااور بیل بھی شامل ہیں اور باقاعدہ مکالمہ بھی کرتے ہیں ۔ ناچ کتھا میں ’’بندوساز چھیڑتا ہے اور حسنی ناچنے لگتا ہے۔ ہرنوں کی ایک ڈار چوکڑیاں بھرتی ہوئی گزر جاتی ہے۔‘‘

چوتھے منظر میں ’’عبدل سامنے ایک کیکر کے درخت پر گڑسل کو کنکر مارتا ہے‘‘ پھر نندی اور عبدل کے مابین جو مکالمہ ہوتا ہے اس میں اُلّو، نیل کنٹھ، چوہے، کالے ناگ، بھیڑوں اور اونٹوں کا ذکر آتا ہے اور فاختہ تو خاصی دیر موضوعِ گفتگو بنی رہتی ہے۔

ساتویں منظر میں بھوکی گائیں اور ان کے دودھ سے خالی تھن عبدل کے خیال میں آتے ہیں ۔ آٹھویں منظر میں حسنی کے گیتوں میں کونج، چیل، بل بتوریوں اور چڑیوں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ اکبر جنگلی کبوتروں کی ٹکڑیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے اور بندو اُلّو کی آواز کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے۔

یہ پرندے، جانور اور درخت، محض پرندے، جانور اور درخت ہی نہیں ہیں ۔ جاندار ہونے کی حد تک ان کا درجہ انسانوں سے کچھ کم نظر نہیں آتا۔ مثلاً، ساتویں منظر میں فیاض کا کہنا:

ہاں کچھ ایسا ہی قصہ ہے

گھوڑ سواری کھیل نہیں ہے

اپنے پاس بھی دو گھوڑے ہیں

میں نے انہی ں بچوں کی طرح سے پالا ہے

یا جیسے آٹھویں منظر میں حسنی گاتا ہے :

چڑیاں ترسیں گھونٹ کو دھرتی دھول اڑائے

تم رہو اس دیس میں ہم سے رہا نہ جائے

پھر بعض کو تو عام سطح سے کچھ بلندتر مقام دیا گیا ہے۔ مثلاً چوتھے منظر میں فاختہ کے بارے میں نندی کہتی ہے:

امی کہتی تھیں یہ اک مقدس پرندہ ہے اس کونہیں مارتے!

اور آٹھویں منظر میں جب اکبر کبوتروں کو مارنے کی بات کرتا ہے تو بندو کہتا ہے:

بڑا ہی بھولا پنچھی ہے یہ سیّد اس کی ذات

بھرے سمے مت مارو اس کو مانو میری بات

یا ساتویں منظر کا یہ مکالمہ:

فیاض : گھوڑا تو بس قسمت والے کو ملتاہے

اس کے کانوں سے جنت کی ہوا آتی ہے

اس کی ٹاپ سے دھرتی کا دل کانپ اٹھتا ہے

احمد: مگر کالے گھوڑے کی کیا بات ہے

تم نے دیکھا ہے شاید وہ گھوڑا

وہی کالا گھوڑا!

وہ گھوڑا نہیں آدمی ہے!

اس کے علاوہ کچھ کو مبارک یا منحوس بھی گردانا گیا ہے۔ ساتویں منظر ہی میں احمد کہتا ہے:

مرے پاس بھی ایک چینا ہے

اس میں بڑا دم ہے بھائی!

بڑا ہی مبارک ہے یہ چینا گھوڑا

مرے پاس جس دِن سے ہے یوں سمجھ لو کہ بس لکشمی آ گئی

آٹھویں منظر میں حسنی گاتا ہے:

ایک کونج میں ایسی دیکھی اڑے چھوڑ کے ڈار

سانجھ بھئے جس دیس میں اترے وہاں نہ ہو اجیار

پھر الّو کی آواز سن کر بندو کہتا ہے :

یہ بولے جس گاؤں ماں پھر نہ بسے وہ گاؤں

یارو اب نئیں بولنا یہاں کسی کا ناؤں

اور گھوڑوں کی باتیں کرتے ہوئے احمد یہ بھی کہتا ہے:

بعض گھوڑا تو سچ مچ ہی منحوس ہوتا ہے

پرندوں اور جانوروں کے ساتھ ساتھ درخت بھی جاندار اور بعض انسانی خصوصیات کے حامل نظر آتے ہیں ۔ مثلاً چوتھے منظر میں نندی کہتی ہے:

شام کی خامشی میں درختوں پہ کنکر نہیں مارتے

شام کو پیڑ آرام کرتے ہیں عبدل

اور عبدل کہتا ہے: وہ املی کا درخت ابھی تک اسی طرح خاموش کھڑا ہے۔

یہ درخت ان کی یادوں کا محافظ اور محبت کا گواہ ہے۔ اس کے برعکس پیپل کا یہ درخت مخالف کی صورت میں نظر آتا ہے:

عبدل: اس تالاب کے پیپل کے نزدیک نہ جانا!

یہ سب کچھ ایسا بے معنی اور بے سبب بھی نہیں ۔ جغرافیائی حالات انسانی زندگی پر بے حد اثرانداز ہوتے ہیں ۔ کسی خاص قسم کے علاقے میں رہنے والے لوگوں کی بہت سی آسائشیں اور مشکلیں محض اس وجہ سے ہوتی ہیں کہ وہ اُس خاص علاقے میں رہتے ہیں ۔ یہ وہ حالات ہوتے ہیں جن کے ہونے یا نہ ہونے پر نہ صرف یہ کہ انسان کا اختیار بہت کم ہوتا ہے بلکہ یہ اس کی مرضی کے خلاف اس کی زندگی پر اثرانداز ہو سکتی ہیں ۔ انسان بے پناہ محنت اور توجہ سے ایک کام کرتا ہے مگر کوئی معمولی سا واقعہ یا حادثہ سب کیے کرائے پر پانی پھیر دیتا ہے:

کھیر پکائی جتن سے چرخہ دیا جلا

آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا

گویا فطرت میں انسان کی موافق اور مخالف دونوں طرح کی قوتیں کارفرما ہیں ۔ منصوبہ بندی کرتے وقت ان کا خاص دھیان رکھنا چاہیے۔ پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ موافق قوتیں مخالف قوتوں میں بدل جائیں ۔ ایسا یا تو انسان کی اپنی کوتاہی سے یا باہر کے حالات میں یکدم اور بعض اوقات بڑے پیمانے پر تبدیلی آنے کے باعث ہوتا ہے۔ مثلاً، زندگی کرنے کے لیے ’’سورج پور‘‘ ایک مثالی گاؤں تھا۔ عمدہ فصلیں ، صحت مند مویشی، گھنا جنگل، بھرپور ندی، غرض جو چاہیے سو تھا۔ مگر جیسا کہ آخری منظر میں فیاض کی زبانی پتا چلتا ہے :

سات برس میں اس دھرتی کی ایسی کایا پلٹی!

پہلے جنگل راکھ ہوا، پھر کال پڑا

سیلاب تو بس ایسا آیا کہ توبہ میری!

دیہاتی ماحول کے ضمن میں ایک اور قابلِ توجہ بات دیہاتی زبان ہے۔ مشرقی پنجاب کے شہروں ، انبالہ اور پٹیالہ اور گردونواح میں بولی جانے والی زبان، ’’سر کی چھایا‘‘ میں کئی جگہ استعمال کی گئی ہے۔ مثلاً پہلے منظر میں ایک اسٹیشن پر ملی جلی آوازیں :

بیرا گڈی چلنے لاگی دوڑ کے آجا

تیرا ٹکس کہاں ہے؟

چھجو چاچا میرا بکسا کھڑکی ماں تے پھینک دے جلدی

اچھا اللہ بیلی بیرا!

ہو! چٹھی استابی پایئے!

تیسرے منظر میں کورس کی آواز:

اس بانکے رے ترچھے گھونگٹ ماں توں سارے جگ تے نیاری دیکھے

پھر ایک آواز: متھے پر جھمر لشکاں مارے مانگ ماں چمکیں ٹوماں

دوسری آواز: سارا گاؤں دہائیاں دیوے سہر ماں پڑگئیں دھوماں

پھر عورت کا کہنا : ہٹ دور پرے کل موئے

تو میرا جوبن چھوئے

تیری اکھیوں ماں ڈالوں سوئے

کل موئے

بیل اور گھوڑے کا تمام تر مکالمہ اسی زبان میں ہے۔ بندو از اول تا آخر یہی زبان بولتا ہے اور کہیں حسنی اور بلھا بھی۔ نویں منظر میں ’’ناری‘‘ سے اور دسویں منظر میں بلھے سے حسنی کے مکالمے زیادہ تر اسی زبان میں ہیں ۔

-۶-

اڑ گئے شاخوں سے یہ کہہ کر طیور

اس گلستاں کی ہوا میں زہر ہے

ہجرت ’’سر کی چھایا‘‘ کا ایک اہم موضوع ہے۔ ناموافق حالات میں انسان نقل مکانی کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ جیسے آٹھویں منظر میں حسنی کہتا ہے:

چڑیاں ترسیں گھونٹ کو دھرتی دھول اڑائے

تم رہو اس دیس میں ہم سے رہا نہ جائے

لیکن ایسی صورتِ حال بھی پیدا ہو سکتی ہے جب عافیت اور بقا کا واحد راستہ ہجرت ہی ہوتا ہے۔ چھٹے منظر میں ’’آواز‘‘ کہتی ہے:

وہ رستہ ہے!

راتوں رات نکل جا عبدل!

لیکن برسوں کے رشتوں کو یکدم توڑ دینے کا تصور بھی جانکاہ ہے۔

عبدل: لیکن یہ میرا گھر!

یہ میرے ماں باپ !

کہاں جاؤں گا ؟

نندی میرے ارمانوں کا آخری سنگم!

اب ’’آواز‘ ‘ مدلّل طریقے سے عبدل کو قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے:

اب اس پیڑ سے اُڑجا

اس کی جڑیں اب سوکھ چکی ہیں

اس کے پھل کو اندر سے کیڑوں نے چاٹ لیا ہے

ہوا چلے یا پانی برسے

اب اس پھل میں رس نہ پڑ ے گا

چاند کی کرنیں دستک دے کر

الٹے پاؤں پلٹ جائیں گی

چھلکا پیلا پڑجائے گا

اب اس پیڑ سے اڑجا

دور کسی جنگل میں ڈال بسیرا

کڑوے نیم کی ٹہنی چن لے

’’پیڑ‘‘ خاندان اور گھر کی علامت ہے جس کی جڑیں (گاؤں سے رشتہ) سوکھ چکی ہیں ۔ اس کے پھل (مستقبل) کو کیڑوں نے ایسے کھوکھلا کر دیا ہے کہ اب کسی ’’ہوا‘ ‘یا ’’پانی‘‘ سے اس میں ’’رس‘‘ نہیں پڑسکتا ہے۔ ’’چاند کی کرنیں ‘‘ ہمدرد اور تعمیر میں ممد قوتیں ہیں جو آئیں گی ضرور لیکن مایوس ہو کر لوٹ جائیں گی جیسے کسی لاعلاج مریض کو دیکھ کر طبیب۔ چھلکا یعنی ظاہری روپ رفتہ رفتہ ماند پڑجائے گا۔ چنانچہ اب اپنے گاؤں میں عبدل کے پنپنے کا کوئی امکاں باقی نہیں رہا۔ اب چاہے اسے دور کسی جنگل میں بسیر اڈالنا پڑے، سورج پورسے بہرطور نکلنا ہو گا۔ پھل دار درخت کو چھوڑ نا ہو گا چاہے آشیانہ کڑوے نیم کی ٹہنی پر بنانا پڑے۔ حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا، اگر چہ بڑی تلخ ہے۔

ہجرت ہی کے ضمن میں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ بعض اوقات انفرادی اور اجتماعی ترقی اور تعمیر کے لیے ہجرت ضروری ہوتی ہے۔ مثلاً، پہلے منظر میں احمداور فیاض کا یہ مکالمہ:

احمد: (فیاض سے)

آپ بھی اب نویں شہر میں گھر بنالیں

بڑی خوبصورت جگہ ہے

فیاض: جی ہاں !اپنا ارادہ تو پکا ہے

پھول گلی میں پچھلے برس دو قطعۂ زمین لیے تھے۔

اب تو نیویں کھدنے لگی ہیں ۔

اللہ کو منظور ہو ا تو گھر بھی جلدی بن جائے گا!

احمد: اب تو چاروں طرف سے وہاں لوگ بسنے لگے ہیں

نئی طرز کی کوٹھیاں بن رہی ہیں

کھلی صاف شیشہ سی سڑکیں ہیں

سٹرکوں کے دونوں طرف سنگتروں کے درختوں کا اِک سلسلہ ہے۔

یہی احمد سات برس پہلے (آٹھویں منظر میں ) نقل مکانی کی آرزو کرتا ہے مگر حالات اجازت نہیں دیتے:

چلو شہر میں چل کے ڈیرہ لگائیں

مگر بھائی ہم تو پنہ گیر ہیں

شہر میں کیا کریں گے ؟

وہاں ان دنوں کام ملنا بھی مشکل ہے

اپنا کوئی یار ڈپٹی کلکٹر ہی ہوتا

نہیں یا ر اب تو یہیں مر رہیں گے

اسی گاؤں میں گھر بنائیں گے

اب تو یہی تھل بسائیں گے

اب یہی احمد ’’پرانی‘‘ جگہ کو چھوڑ کر ’’نویں ‘‘ شہر میں ایک بہت بڑی حویلی میں رہتا ہے۔ اس کے برعکس حشمت، نصیبن اور بلھے کے ماں باپ جنھوں نے تعصب آمیز محبت کی وجہ سے گاؤں چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا، سیلاب میں بہہ گئے۔ آخری منظر میں فیاض اور احمد کا یہ مکالمہ ان کے رویے پر ’’تبصرہ‘‘ کرتا ہے:

فیاض: بندو اور میں کشتی لے کر سب سے پہلے عبدل کے ڈیرے میں پہنچے

حشمت باوا اور نصیبن گھر سے نہ نکلے

احمد: میں بھی اس رات اکبر کو لے کر گیا تھا مگر وہ نہ مانے!

اجی یہ پرانے زمانے کے بوڑھے کسی کی نہیں مانتے

خیرا چھے تھے وہ لوگ!

دنیا میں اب ایسی شکلیں کہاں ہیں ؟

-۷-

پھر درد نے آگ راگ چھیڑا

لوٹ آئے وہی سمے پرانے

آگ ’’سر کی چھایا‘‘ کی نمایاں ترین خصوصیات میں سے ایک ہے۔ کبھی یہ شدید گرمی کی شکل اختیارکرتی ہے، کبھی کڑی دھوپ کی، کہیں یہ نفرت کا شعلہ ہے، کہیں حسد کا دھواں ، کبھی وصال کی آنچ اور کبھی فراق کی سوزش۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جس گاؤں کی یہ کہانی ہے وہ ’’سورج پور‘‘ ہے۔ موسم گرمیوں کا ہے۔ پہلے منظر کے آغازہی میں احمد فیاض سے کہتا ہے:

دیکھیے نا اُدھر کس قدر دھوپ ہے!

آپ اِدھر میرے نزدیک آجائیں

پھر تھوڑی ہی دیر بعد کہتا ہے:

چار دن کتنی جھڑیاں لگیں پھر بھی گرمی کی شدت وہی ہے!

باتوں باتوں میں سورج پور کا ذکر آتا ہے تو سات برس پرانی آگ اور گاؤں کی بربادی کا تذکرہ ہوتا ہے۔ عبدل سوچتاہے:

سورج پور اب بھی نہ بسے گا

سورج پور! ۔۔۔ وہ آگ کی نگری!

وہ اندھیاری رات ۔۔۔ وہ جنگل!

چوتھے منظر میں زرینہ کا گانا سن کر یا سمینہ کہتی ہے:

اچھا جی اب میں سمجھی!

تو بھی جلی ہوئی ہے

پھر عبدل کہتا ہے:

ریت کے تارے آگ کی ہولی کھیل رہے ہیں

پانچواں منظر تو ہے ہی ’’آگ کا منظر‘‘ —- سات برس پہلے والا۔

عبدل: کیسے بھاگوں ؟

آگ —- آگ —- آگ

چاروں جانب آگ کا دریا

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

آواز: آگ کسی کی میت نہیں ہے

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

چھٹے منظر میں ’’جنگل کی آگ کے شعلے ابھی تک بھڑک رہے ہیں ۔۔۔‘‘

آٹھویں منظر میں : ’’۔۔۔ الاؤ کی آگ بھڑک رہی ہے‘‘ حسنی گاتا ہے:

رنگ برنگے گربڑے آگ کے پنکھ لگائے

گھپ اندھیری سانجھ ماں کس نے یہاں اڑائے

نویں منظر میں آگ اندر کی آگ بن جاتی ہے:

بھانبڑ جلے سریر ماں رنگ اچھالیں نین

من دیپے جس رین ماں یہی نہ ہو وہ رین

یا حسد کی آگ:

دھرتی اوپر نیلا گگن، گگن پہ ناچیں پھول

ان کی چھایا دیکھ کے جل میں جلیں بھنبھول

مگر کچھ ہی دیر بعد آگ اپنی اصل صورت میں سامنے آجاتی ہے:

احمد : ارے وہ اُدھر آگ!

اس آگ کے پاس ۔۔۔ اک آدمی زاد!

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

حسنی: دھڑ دھڑ جلے سوکھی لکڑی جگر جگر انگار

آگ کی اٹھتی لاٹ سے نکلیں سرخ انار

یہ آگ ناری کا پردہ بھی ہو سکتی ہے اور دفاع بھی:

اگنی برن کی اوٹ ماں ، اپنا بدن چھپا

او ناری او مورکھ ناری اپنا ناؤں بتا

پھر عذاب کی شکل بھی ہو سکتی ہے:

ناری: ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

بجلی پڑے ان محلوں پر، تم پر پڑو انگار

منظر جب ختم ہوتا ہے ’’تو آگ کے شعلے آسمان تک بلند ہو رہے ہیں ۔۔۔‘‘

دسویں منظر میں بھی ’’چاروں طرف سے جنگل دہڑ دہڑ جلتا ہے‘‘۔ پھر جب احمد پوچھتا ہے :

آگ کس نے لگائی تھی بھائی!

ملا کچھ پتہ ؟

تو ذہن میں یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ فساد کی جڑکون ہے؟ اصل قصور کس کا ہے؟

گیارھویں منظر میں آگ تعمیری کام کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ یہاں وہ انسان کی مطیع اور دوست ہے:

شیشہ گر: ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

یہ چمنی ہے! چمنی میں ایندھن جلتا ہے۔

ایندھن کولے کا ہوتا ہے۔ لکڑی اور پتھر کا کولہ!

یہ بھٹی ہے! بھٹی میں شیشہ پگھلتا ہے اور سانچوں میں گرتا رہتا ہے۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

بارھویں منظر میں گرمیوں کی دوپہر ہے اور ’’عورت ‘ کا گانا‘‘ آگ سے معمور ہے:

کنچن روپ دکھائے

سرگم سا (سارے گاما سا)

جل میں آگ لگائے

چھم چھم ناچے کھڑی دوپہری

دھوپ کی تانیں گہری گہری

سرگم سا

جل میں آگ لگائے

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

اورجب اکبر کہتا ہے: ہمارے مفتی گذر گئے ہیں

یہ آخری شمع رہ گئی تھی

تو آگ ٹھنڈک اور روشنی کا تاثر لیے ہوئے ہے۔

-۸-

چڑھتے سورج کی ادا کو پہچان

ڈوبتے دن کی ندا غور سے سن

یہ شعر ناصر کاظمی کی جس غزل کا ہے، انہی ں اس قدر پسند تھی کہ جب ان کے آخری انٹرویو میں ان سے شعر سنانے کی فرمائش کی گئی تو انھوں نے اس کا انتخاب کیا۔ کہا کہ ’’بعض وجوہ کی بنا پر مجھے پسندہے کہ طلوع و غروب کے مناظر ہیں ۔ حیرت و عبرت کہ دنیا میں کیا ہوتا ہے۔ کس طرح چیزیں ڈوبتی ابھرتی ہیں ۔ کس طرح صبح شامیں ہوتی ہیں ۔۔۔‘‘

اِتفاق کی بات ہے کہ ’’سر کی چھایا‘‘ میں بھی یہ طلوع و غروب اور چیزوں کا ڈوبنا ابھرنا بہت واضح طور پر دکھائی دیتا ہے :

رواں دواں لیے جاتا ہے وقت کا دھارا

’’سر کی چھایا‘’ جس کی ابتدا ’’کس قدر دھوپ‘‘ اور لوگوں سے بھرپور، بارونق گاؤں میں ہوتی ہے، ایسے مقام پر آ کر ختم ہوتی ہے، جہاں بے اختیار یہ شعر یاد آتا ہے۔

جنگل میں ہوئی ہے شام ہم کو

بستی سے چلے تھے منہ اندھیرے

ڈرامے کا آغاز ہی اس جملے سے ہوتا ہے:

’’شام کا وقت ہے ۔۔۔‘‘

’’وقت —- ڈھلتا سورج‘‘

جب فیاض پوچھتا ہے، ’’سورج پور اب تھوڑی دور ہی ہو گا؟‘‘ تو احمد کا جواب ہے، ’’نہیں گھر پہنچتے پہنچتے ہمیں رات پڑجائے گی۔‘‘ تھوڑی دیر بعد جب ’’گاڑی ایک ننھے سے اسٹیشن پر رک جاتی ہے، تو ’’سورج ڈوب رہا ہے۔‘‘ پھرمولوی صاحب باتوں باتوں میں کہتے ہیں :

بتوں کی چاہ گئی ہو برا ضعیفی کا

اِدھر تو پک گئے بال اور اُدھر سدھارے دانت

اپنا دن ڈوب چکا بابا!

یہاں دن ڈوبنے کے اور معنی ہیں ۔

صرف دوسرا اور تیسرا منظر ’’دن چڑھے‘‘ کا ہے۔ چوتھا منظر پھر شام کا۔

عبدل نندی سے پہلی بات یہی کرتا ہے:

آؤ میں تم کو گھر چھوڑ آؤں

دیکھو سورج کتنا نیچے اتر گیا ہے!

جب اکبر ملتا ہے تو اس کے جملے یہ ہیں :

بڑی اندھیری ہے آج کی شام

آندھی آئے گی

اب شام کے ساتھ ساتھ تاریکی اور آندھی بھی شریک ہو گئی۔ جب گھوڑ سواروں کے آنے پر گرد اڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہے تو نندی کہتی ہے:

چلو اس بنی کے درختوں میں چھپ جائیں

رات ہو گئی ہے!

پانچواں منظر ایسے شروع ہوتا ہے: ’’اندھیرے جنگل میں عبدل نندی کو ڈھونڈتا ہے ۔۔۔ خاصی رات ہو گئی ہے۔‘‘ چھٹے منظر کا آغاز یہ ہے: ’’آدھی رات گذر چکی ہے۔‘‘ ساتواں منظر پھر ریل گاڑی کا ہے اور پہلا جملہ ہے، ’’سورج ڈوب رہا ہے۔‘‘ آٹھویں منظر میں بھی ’’شام ہو رہی ہے‘‘۔ نواں منظر ۔۔۔ ’’اندھیری رات ہے۔ سناٹا ایک حادثے کی طرح پھیلتا جا رہا ہے ۔۔۔‘‘ دسویں منظر میں ’’رات ہو گئی ہے‘‘ البتہ گیارھویں منظر میں صبح کا وقت ہے، اور بارھویں میں ’’گرمیوں کی دوپہر ہے‘‘۔ آخری منظر کی ابتدا ’’رات ہو گئی ہے‘‘ سے ہوتی ہے اور انتہا:

کوئی آواز بھی تو نہیں !

کوئی بتی نہیں !

یہ تو جنگل ہے سنسان جنگل!!

-۹-

ہم نے محفوظ کیا حسنِ بہار

عطرِ گل صرفِ خزاں تھا پہلے

ناصر کاظمی سے ایک بار سوال کیا گیا کہ آپ نے شعر کیوں اور کیسے کہنا شروع کیا تو انھوں نے اس کا ایک سبب یہ بتایا کہ انہی ں یوں لگتا تھا کہ جو خوبصورت چیزیں وہ فطرت میں دیکھتے ہیں ، ان کے بس میں نہیں آتیں ؛ ان کی گرفت سے نکل جاتی ہیں اور ہمیشہ کے لیے چلی جاتی ہیں ۔ جو وقت مر جاتا ہے وہ دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتا۔ شاعری میں زندہ ہو سکتا ہے۔

دیکھا جائے تو یہ جذبہ ہر تخلیق کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے، خواہ شاعری ہو یا نثر، مصوری اور سنگتراشی ہو یا موسیقی۔ جو لمحہ جتنا خوبصورت اور قیمتی ہو گا، اسے پھیلانے اور محفوظ کرنے کی خواہش اتنی ہی شدید ہو گی۔ تخلیق کار کامیاب ہو یا ناکام، اس لمحے کی یاد نہ صرف باقی رہتی ہے بلکہ تڑپاتی رہتی ہے۔ اس لحاظ سے حسن پرستی پر ماضی پرستی کا گمان ہونا کچھ ایسا عجب نہیں ۔

ہر ڈرامہ نگاریا ناول نویس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کرداروں کے ذریعے اپنے خیالات، یادوں اور خوابوں کی تشہیر کرناچاہتا ہے۔ یعنی مخلوق کے پردے میں خالق خود بول رہا ہوتا ہے۔ یہ بات ایک حدتک درست ہے۔ تخلیق کا تخلیق کار سے ایسا ہی تعلق ہوتا ہے جیسا پھل کا درخت سے یا خوشبو کا پھول سے۔ اگر ناصرکا ظمی کے ایک اچھے قاری کو مصنف کا نام بتائے بغیر ’’سر کی چھایا‘‘ پڑھنے کو دی جائے تو وہ جلد ہی جان جائے گا کہ یہ کس کی تخلیق ہے۔

رفتگاں کی یاد، ہجرت کا تجربہ، فراق، اداسی، فطرت سے لگاؤ، جانوروں اور پرندوں سے محبت، سیروسیاحت، گھوڑ سواری اور موسیقی کا شوق وغیرہ، ناصر کاظمی کی زندگی اور شاعری کی چند نمایاں اور اہم ترین خصوصیات ہیں اور ’’سر کی چھایا‘‘ میں بھی انتہائی شدت کے ساتھ کارفرما نظر آتی ہیں ۔

’’سر کی چھایا‘‘ محض ایک پڑھی جانے والی منظوم کہانی نہیں بلکہ باقاعدہ سٹیج پر پیش کیا جانے والا ڈرامہ ہے۔ یہ حقیقی سٹیج اور اس کے تقاضوں کو مدِنظر رکھ کر لکھا گیا ہے۔

بقول ولسن نائٹ، ڈرامے کو کاغذ کے اوراق سے جیتے جاگتے سٹیج پر منتقل کرنا کسی نازک فرنیچر یا بھاری مشینری کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا سا عمل ہے۔ اگر اسے جوں کا توں لے جایا جائے تو ٹوٹ پھوٹ لازمی ہے۔ اس کے مختلف حصوں یا پرزوں کو الگ الگ کر کے احتیاط سے لے جانا پڑے گا اور پھر انہی ں جوڑ کر دوبارہ تشکیل کرنا ہو گا۔ چنانچہ ہدایت کار ڈرامے کو نئے سرے سے تخلیق کرنے کا اہل ہونا چاہیے۔ ایسا تبھی ممکن ہے جب وہ ڈرامے کی مابعد الطبیعاتی اساس سے واقف ہو۔ وہ اسے محض ایک اچھی کہانی نہ سمجھے جس میں کہیں ڈرامائی صورت ہائے احوال ہوں ۔ اسے چاہیے کہ سب سے پہلے انتہائی توجہ سے ڈرامے کی مدلل تعبیر اور تفسیر کرے۔ تفصیلات پر غور و فکر بے ثمر ثابت ہو گا جب تک ان میں رشتہ قائم کرنے والا وحدانی خیال بے نقاب نہ کیا جائے۔ محض سطح سے کام نہیں نکالا جا سکتا۔ باطنی معانی میں اترنا ضروری ہے۔ ہم کوئی ڈرامہ پیش نہیں کر سکتے جب تک اس کا مکمل احاطہ نہ کر لیں اور اسے ایک وحدت کے طور پر نہ دیکھنے لگیں ۔ انفرادی لمحوں کی بجائے پورا ڈرامہ نظر میں ہونا چاہیے۔ ایک صورتِ حال دوسری صورتوں کی وضاحت یا عکاسی کرتی ہوئی دکھائی دے۔ فوری اور لمحاتی تاثر کافی نہیں ہوتا۔

’’سر کی چھایا‘‘ کی مابعدالطبیعاتی اساس کیا ہے؟ اس کے باطنی معانی کیا ہیں اور وہ وحدانی خیال کیا ہے جو اس کے اجزاء میں ایک پائیدار رشتہ قائم کرتا ہے؟

عبدل تمام حساس انسانوں کا نمائندہ ہے ۔ اس کا کرب ہم سب کا کرب ہے۔ اس کی کہانی ہر انسان کی کہانی ہے۔ انسان —- جسے چننے اور مسترد کرنے پر اختیار ہے لیکن یہی اختیار اس کی سب سے بڑی مجبوری بھی ہے۔ ’’کچھ حاصل کرنے کا مطلب بہت کچھ کھو دینا بھی ہے۔ ایک طرف دیکھنے کے معنی ہیں باقی ہر طرف سے منہ موڑ لینا۔ ایک جگہ پاؤں رکھنے کا مطلب سینکڑوں جگہ پاؤں نہ رکھنا ہے۔ پھر جو کچھ حاصل ہوتا ہے اسے بھی تو ثبات نہیں ۔ زندگی ہر لحظہ دستبردار ہوتے رہنے کا نام ہے۔ اپنی آرزوئوں ، صلاحیتوں اور قوتوں سے، اپنے خوابوں ، ساتھیوں اور پیاروں سے؛‘‘ اور بالآخر کیفیت اس شعر کے مصداق ہوجاتی ہے:

شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بلا رہا ہوں

جو قافلہ میرا ہمسفر تھا مثالِ گردِ سفر گیا وہ

حافظہ انتہائی قیمتی نعمتوں میں سے ہے لیکن یہ اتنا بڑا عذاب بھی بن سکتا ہے کہ انسان اس کے چھن جانے کی دُعا مانگے۔ محبوب کی یاد دل دھڑکنے کا سبب بھی ہو سکتی ہے اور دم نکلنے کا باعث بھی۔ آگہی سکون بھی بخشتی ہے اور ایک دائمی آشوب بھی۔ دوربینی شکست کو فتح میں بھی بدل دیتی ہے مگر بعض اوقات جنگ سے پہلے ہی ہتھیار پھینکنے کا باعث بن جاتی ہے۔ دوراندیشی عمل کے لیے بھی محرک بنتی ہے اور بے عملی کو بھی جنم دیتی ہے۔ مستقبل کی فکر کبھی تو پیغامِ بیداری بن جاتی ہے اور کبھی ایسی مایوسی پیدا کرتی ہے کہ تمام جدوجہد لا حاصل اور بے ثمر نظر آتی ہے۔ خیالِ یارکڑی دھوپ کے سفر میں سر پر چادر کا کام دیتا ہے تو شب کی تنہائیوں میں کانٹوں کا بستر بھی بن جاتا ہے۔

تو کیا قنوطیت، یاسیت اور بے عملی ’’سر کی چھایا‘‘ کی اساس ہے؟ ہر گز نہیں ؟ عبدل تمام مشکلات، مخالفتوں اور حادثوں کے باوجود زندگی کو ایک نعمت سمجھتا ہے وہ اگرچہ شدید محبت کرنے کا اہل ہے اور اپنی محبوبہ کے ساتھ جل مرنے کو بھی تیار ہو جاتا ہے لیکن اس کے اندر کا حقیقت پسند انسان ہمیشہ غالب آجاتا ہے۔ اس کے خواب بہت حسین اور شیریں ہیں مگر وہ دنیا کو ان پر قربان نہیں کرتا:

کچھ آدمی کی بھی مجبوریاں ہیں دنیا میں

ارے وہ دردِ محبت سہی تو کیا مر جائیں

نندی کو حاصل کرنے کے لیے وہ جان کی بازی لگا دیتا ہے لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ:

وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں

عبدل کی کہانی سے ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ زندگی سے فرار کی کوشش دُکھ اور پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ ماضی میں پناہ لینا ممکن نہیں ۔ عبدل، احمد اور فیاض بار بار یادوں کی دنیا میں جاتے ہیں لیکن جلد یا بدیر حقیقت کی دنیا (گاڑی) میں واپس آجاتے ہیں یا یوں کہا جائے کہ انہی ں واپس آنا پڑتا ہے۔ آٹھویں منظر میں احمد نامساعد حالات کے باوجود شکست ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔ مایوسی کی باتیں کرتے ہوئے ایک نئے عزم اور امید کے ساتھ کہتا ہے:

اسی گاؤں میں گھر بنائیں گے

اب تو یہی تھل بسائیں گے

پھر گیارھویں منظر میں جب اکبر اس سے کہتا ہے:

تو اِتنی جلدی ہی کیا ہے احمد؟

میرا تو دِل کانپتا ہے جب بھی خیال آتا ہے دوستوں کا

یہ حصے وِصے کی بات چھوڑو!

جو کام کرنا ہے کرتے جاؤ!

تو اس کا جواب ہے:

میں قانون کی رو سے کہتا ہوں

ورنہ مرا دل بھی دکھتا ہے

حسنی بھی اپنا بڑا یار تھا

اور عبدل تمھارا بڑا دوست تھا

بلکہ دونوں تمھارے ہی ساتھی —-

مگر خیر! چھوڑو یہ باتیں !

ذراکنچ گھر تو دکھا دو!

آخری دو سطریں انتہائی اہم ہیں بلکہ زیر بحث موضوع کے بارے میں فیصلہ کن۔ بیتے ہوئے حسین لمحے کسے عزیز نہیں ہوتے؟ مگر کنچ گھر (حال اور مستقبل) زیادہ اہم ہے۔ زندگی ماضی اور مستقبل میں توازن قائم کرنے کا نام ہے۔ ماضی سے سبق سیکھ کر، قوت حاصل کر کے مستقبل کو سنوارنا ہی عینِ حیات ہے:

ہر نفس شوق بھی ہے منزل کا

ہر قدم یادِ رفتگاں بھی ہے

اور دیکھا جائے تو ’’برگِ نے‘ ‘ کا یہ شعر ’’سر کی چھایا‘‘ کا عنوان بن سکتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ گاڑی کے سفر نے زندگی کے سفر کو مجسم اور متحرک شکل دے دی ہے۔ مسافر اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے بھی بیتاب ہیں اور یادوں میں بھی کھو کھو جاتے ہیں ۔ لیکن جونہی ماضی غالب آنے لگتا ہے، گاڑی رک جاتی ہے اور وہ بھی تاریک اور سنسان جنگل میں ۔ گاڑی ایک لحاظ سے تصور کی علامت بھی ہے جو ماضی میں زیادہ دور نکل جائے تو غیر فعال ہو کر رہ جاتا ہے۔

وجہِ تسکیں بھی ہے خیال اس کا

حد سے بڑھ جائے تو گراں بھی ہے

باصر سلطان کاظمی

اگست 1981

یاد آئے پھر کتنے زمانے اِنٹر کانٹی نینٹل میں

رات ملے کچھ یار پرانے اِنٹر کانٹی نینٹل میں
یاد آئے پھر کتنے زمانے اِنٹر کانٹی نینٹل میں
کتنے رنگا رنگ مسافر شانہ بہ شانہ رقص کناں
چھوڑ گئے کتنے افسانے اِنٹر کانٹی نینٹل میں
اِن ہنستے ہونٹوں کے پیچھے کتنے دُکھ ہیں ہم سے پوچھ
ہم نے دیکھے ہیں ویرانے اِنٹر کانٹی نینٹل میں
میخواروں کی صف سے پرے کچھ ایسے عالی ظرف بھی تھے
بھر نہ سکے جن کے پیمانے اِنٹر کانٹی نینٹل میں
میں کس کارن پچھلے پہر تک تنہا بیٹھا رہتا ہوں
کون میرے اِس دَرد کو جانے اِنٹر کانٹی نینٹل میں
یہ کیا حال بنا لائے یہ کیسا روگ لگا لائے
تم تو گئے تھے جی بہلانے اِنٹر کانٹی نینٹل میں
ناصر تم لوگوں سے چھپ کر چپکے چپکے رات گئے
کیوں جاتے ہو جی کو جلانے اِنٹر کانٹی نینٹل میں
ناصر کاظمی

چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے

چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے

یہ قوم کے شاہین ہیں جرأت کے ستارے

اُڑتے ہیں یہ شاہیں تہِ افلاک جہاں تک

اِک آگ کا دریا نظر آتا ہے وہاں تک

مشرق کے کنارے کبھی مغرب کے کنارے

چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے

اِک جست میں دشمن کے نشیمن کو جلایا

جو سامنے آیا اُسے اِک پل میں گرایا

ہیں اِن کے پر و بال میں بجلی کے شرارے

چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے

بھولے سے کبھی اِن کے نشانے نہیں چوکے

فی النار کیے آن میں طیارے عدو کے

کچھ ڈھیر کیے خاک پہ کچھ راہ میں مارے

چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے

ہو اَمن کا موسم تو یہ خوشبو ہیں صبا ہیں

اور جنگ میں دشمن کے لیے قہرِ خدا ہیں

محفوظ ہے یہ پاک وطن اِن کے سہارے

چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے

(۱۱ دسمبر ۱۹۷۱)

ناصر کاظمی

اے غازیانِ صاحبِ کردار دیکھنا

اے غازیانِ صاحبِ کردار دیکھنا

بچ کر نہ جائے لشکرِ کفار دیکھنا

سارے جہاں کی تم پہ نظر ہے بڑھے چلو

ہر گام سوئے فتح و ظفر ہے بڑھے چلو

خالی نہ جائے کوئی بھی اب وار دیکھنا

بچ کر نہ جائے لشکرِ کفار دیکھنا

راہِ خدا میں بدر کے اصحاب کی طرح

بڑھنا ہے تم کو نوح کے سیلاب کی طرح

کرنا ہے آج کفر کو مسمار دیکھنا

بچ کر نہ جائے لشکرِ کفار دیکھنا

رکھنا ہے تم کو ملتِ اسلام کا بھرم

شیرانہ ہر محاذ پہ آگے بڑھے قدم

ایمان پر ہے کفر کی یلغار دیکھنا

بچ کر نہ جائے لشکرِ کفار دیکھنا

اللہ اور رسولؐ کا پیغام ہے وہی

اسلام اور دشمنِ اسلام ہے وہی

اے پیروانِ حیدرِ کرار دیکھنا

بچ کر نہ جائے لشکرِ کفار دیکھنا

بارہ کروڑ ہونٹوں پہ ہے ایک ہی صدا

اے ارضِ پاک تیرا نگہبان ہے خدا

ظاہر ہوئے ہیں فتح کے آثار دیکھنا

بچ کر نہ جائے لشکرِ کفار دیکھنا

(۸ دسمبر ۱۹۷۱ ۔ اُستاد امانت علی خاں ، فتح علی خاں )

ناصر کاظمی

میرے سر مرے دل کی صدائیں

ترے گن گائیں

تیری وفا کے گیت سنائیں

ترے گن گائیں

تو غازی تو مردِ میداں

ساری قوم ہے تجھ پر نازاں

تیرے ساتھ ہیں سب کی دُعائیں

ترے گن گائیں

تو ہے عظمت پاک وطن کی

شان ہے تجھ سے پاک چمن کی

پاک چمن کی پاک ہوائیں

ترے گن گائیں

دھوم ہے تیری عالم عالم

گھر گھر چمکا فتح کا پرچم

گھر گھر میں خوشیاں لہرائیں

ترے گن گائیں

میرے سر سنگیت کی کلیاں

مہک رہی ہیں جن سے گلیاں

کیسے کیسے رُوپ دکھائیں

ترے گن گائیں

(۱۰ نومبر ۱۹۶۵ ۔ کلا رتی راگ، آوازیں ۔ اُستاد نزاکت علی خان، سلامت علی خان۔ طبلے پر سنگت۔ شوکت حسین)

ناصر کاظمی

تو ہے دِلوں کی روشنی تو ہے سحر کا بانکپن

تو ہے دِلوں کی روشنی تو ہے سحر کا بانکپن

تیری گلی گلی کی خیر اے مِرے دل رُبا وطن

پھول ہیں تیرے ماہتاب ذرّے ہیں تیرے آفتاب

تیرے ایک رنگ میں تیری بہار کا شباب

داغِ خزاں سے پاک ہے تیرے چمن کا پیرہن

تیری گلی گلی کی خیر اے مِرے دل رُبا وطن

تیرے علم ہیں سربلند عرصہِ کارزار میں

تیرے جواں ہیں سربکف وادی و کوہسار میں

اَبر و ہوا کے ہم قدم تیرے دلیر صف شکن

تیری گلی گلی کی خیر اے مرے دل رُبا وطن

تیری ہوائیں مشکبو تیری فضائیں گلفشاں

تیرے ستارہ و ہلال عظمت و امن کا نشاں

دُھوم تری نگر نگر شان تری دمن دمن

تیری گلی گلی کی خیر اے مرے دل رُبا وطن

(۹ نومبر ۱۹۶۵ ۔ بسنت بہار۔ آوازیں ۔ اُستاد نزاکت علی خاں ، سلامت علی خاں ۔ طبلے پر سنگت —- شوکت حسین)

ناصر کاظمی

فوجی بینڈ

اے ارضِ پاک تو ہے دارالاماں ہمارا

دائم ہے تیرے دم سے نام و نشاں ہمارا

تو پاک سر زمیں ہے تو منزلِ یقیں ہے

پرچم کا تیرے سایا ہے سائباں ہمارا

دشمن نہ چھو سکیں گے اب تیری سرحدوں کو

بیدار ہو چکا ہے اب کارواں ہمارا

تاروں کی سلطنت میں اُڑتے ہیں اپنے شاہیں

حیرت سے دیکھتا ہے منہ آسماں ہمارا

پربت کی چوٹیوں پر چمکے علم ہمارے

گہرے سمندروں میں ہے آشیاں ہمارا

ہر شاخ اِس چمن کی شمشیرِ حیدری ہے

حملہ نہ سہ سکے گی بادِ خزاں ہمارا

روکے نہ رُک سکے گی تیغِ جہاد اپنی

تھامے نہ تھم سکے گا سیلِ رواں ہمارا

سینچا ہے خونِ دل سے اِن کیاریوں کو ہم نے

تازہ رہے گا ہر دَم یہ گلستاں ہمارا

(پیشکش سلور پولیس لاہور ۔ ۱۴ اکتوبر ۱۹۶۵ ۔ آواز۔ سلیم رضا)

ناصر کاظمی

عقیدتوں کا سلام تجھ پر

عقیدتوں کا سلام تجھ پر

عقیدتوں کا سلام تجھ پر

عزیزِ ملت نشانِ حیدر

بجا ہے یہ احترام تیرا

رہے گا تا حشر نام تیرا

تری شہادت سے اے سپاہی

ملی ہے قرآن کو گواہی

عزیزِ ملت نشانِ حیدر

محاذ پر جاگتا رہا تو

پہاڑ بن کر ڈٹا رہا تو

وطن کو پائندہ کر گیا تو

وفا کو پھر زندہ کر گیا تو

عزیزِ ملت نشانِ حیدر

سلام کہتا ہے شہر تجھ کو

سلام کہتی ہے نہر تجھ کو

سلام کہتے ہیں تجھ کو ہمدم

سلام کہتا ہے سبز پرچم

عزیزِ ملت نشانِ حیدر

رہِ وفا کا شہید ہے تو

نویدِ صبحِ اُمید ہے تو

یہ زندگی جو تجھے ملی ہے

یہ زندگی رشکِ زندگی ہے

عزیزِ ملت نشانِ حیدر

(۷ اکتوبر ۱۹۶۵ ۔ موسیقی ۔ کالے خان۔ آوازیں ۔ منیر حسین اور ساتھی)

ناصر کاظمی

چینی دُھن پر

تو ہی ہماری جان ہے

تو قوتِ ایمان ہے

تو ہی ہماری آن ہے

اے پاک وطن

تجھ سے ہماری شان ہے

تجھ سے ہماری آبرو

قریہ بہ قریہ کو بہ کو

اے جان و دل کی آرزو

اے پاک وطن

تجھ سے ہماری شان ہے

تری زمیں کے پاسباں

شمس و قمر کے رازداں

تری بہاریں جاوداں

اے پاک وطن

تجھ سے ہماری شان ہے

قلب و نظر کی روشنی

تو ہے نویدِ زندگی

تو ہے جلالِ حیدری

اے پاک وطن

تجھ سے ہماری شان ہے

(یکم اکتوبر ۱۹۶۵ ۔ موسیقی۔ کالے خان، تقریباً چالیس آوازیں )

ناصر کاظمی

پاک ارضِ وطن کے جیالے

پاک ارضِ وطن کے جیالے

یہ جواں ہیں بڑی شان والے

پاک بے باک اِن کی جوانی

جرأتوں عظمتوں کی نشانی

وقت لکھے گا اِن کی کہانی

آنے والی سحر کے اُجالے

یہ جواں ہیں بڑی شان والے

اِن سے عزت ہمارے وطن کی

اِن سے رنگینیاں انجمن کی

یہ ہیں خوشبو وفائے چمن کی

پاک ماؤں کی گودی کے پالے

یہ جواں ہیں بڑی شان والے

ماہ و خورشید کے ہمسفر ہیں

یہ جواں فاتحِ بحر و بر ہیں

پاک سرحد پہ سینہ سپر ہیں

فتح نصرت کا پرچم سنبھالے

یہ جواں ہیں بڑی شان والے

میری آواز کی شان ہیں یہ

میرے گیتوں کا ارمان ہیں یہ

میرے سنگیت کی جان ہیں یہ

میری آواز اِن کے حوالے

یہ جواں ہیں بڑی شان والے

(۱۸ ستمبر ۱۹۶۵ ۔ ملکہِ موسیقی روشن آرا بیگم)

ناصر کاظمی

پاک فوج کے جواں تو ہے عزم کا نشاں

پاک فوج کے جواں تو ہے عزم کا نشاں

تیرے عزم کے حضور سرنگوں ہیں آسماں

تیرے دم سے جاوداں زندگی کی داستاں

شادماں رواں دواں

پاک فوج کے جواں تو ہے عزم کا نشاں

تیری ایک ضرب سے کوہسار کٹ گئے

دشمنوں کے مورچے ہٹ گئے اُلٹ گئے

زلزلے پلٹ گئے

پاک فوج کے جواں تو ہے عزم کا نشاں

ہم عنانِ کہکشاں پرفشاں ترے جہاز

ہم رکابِ آسماں تیری فوجِ ترک تاز

تو ہے زندگی کا راز

پاک فوج کے جواں تو ہے عزم کا نشاں

پانیوں کی سلطنت میں ضوفشاں ترے علم

وقت کی کتاب میں تیرا نام ہے رقم

تو ہے ملک کا بھرم

پاک فوج کے جواں تو ہے عزم کا نشاں

(۱۶ ستمبر ۱۹۶۵ موسیقی ۔ کالے خان۔ آوازیں ۔ سلیم رضا، نورجہاں بیگم اور ساتھی۔)

ناصر کاظمی

ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر

ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر

وادیوں میں گھاٹیوں میں سربکف

بادلوں کے ساتھ ساتھ صف بہ صف

دشمنوں کے مورچوں پہ ہر طرف

ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر

بے مثال ارضِ پاک کے جواں

لازوال سرحدوں کے پاسباں

بڑھ رہے ہیں خاک و خوں کے درمیاں

ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر

ساتھیو بلا رہی ہے زندگی

خون میں نہا رہی ہے زندگی

موت کو بھگا رہی ہے زندگی

ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر

ڈرنے والے ہم نہیں ہیں جنگ سے

گاڑیوں سے توپ اور تفنگ سے

ڈٹ کے ہم لڑیں گے ڈھنگ ڈھنگ سے

ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر

موج موج بڑھ رہے ہیں لشکری

لشکرِ غنیم میں ہے ابتری

گونجنے لگی صدائے حیدری

ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر

(۸ ستمبر ۱۹۶۵ موسیقی۔ سلیم حسین آوازیں ۔سلیم رضا، منیر حسین اور ساتھی)

ناصر کاظمی

ہمارے پاک وطن کی شان

ہمارے پاک وطن کی شان

ہمارے شیر دلیر جوان

خدا کی رحمت اِن کے ساتھ

خدا کا ہاتھ ہے اِن کا ہاتھ

ہے اِن کے دَم سے پاکستان

ہمارے شیر دلیر جوان

ستارے جرأت ہمت کے

وطن کی عظمت شوکت کے

عدو کی غارت کا سامان

ہمارے شیر دلیر جوان

یقینِ محکم کی تصویر

شجاعت نصرت کی تفسیر

اخوت اور عمل کی جان

ہمارے شیر دلیر جوان

(ناصر کاظمی کی ڈائری سے ۔ ۷/۹/۱۹۶۵ ۔ موسیقی ۔ کالے خان۔آوازیں۔سلیم رضا، منیر حسین اور ساتھی۔)

ناصر کاظمی

فوری تحفہ

اس سے پہلے کہ ہم زمین کے ہوں زمین ہماری تھی۔

سو سال سے زیادہ مدت تک وہ ہماری تھی

اس سے پیشتر کہ ہم اس کے باسی بنے ’’میساکوٹس‘‘ اور ’’ورجینیا‘‘ ہمارے تھے

لیکن ہم انگلستان کے تھے، نوآباد تھے،

ہمارے پاس وہ تھا جو ابھی ہمیں ملا نہیں تھا،

ہمارے پاس متاعِ نایافت کے سوا کچھ نہ تھا

ہم کسی چیز کو رو کے ہوئے تھے جس نے ناتواں بنا دیا

اور آخرکار ہمیں احساس ہوا کہ یہ ہم خود تھے

ہم اپنے آپ کو اپنی سرزمین سے دور کھینچے ہوئے تھے،

پھر انجام کار ہم نے اپنے آپ کو سپرد کرنے ہی میں عافیت جانی۔

ہم جیسے بھی تھے ہم نے اپنے آپ کو یکسر سپرد کر دیا

(یہ تحفہ بہت سی جنگوں کی صورت میں تھا)

اُس سر زمین کو جو مغرب کی سمت مبہم طور پر چلی جا رہی تھی،

اُس سر زمین کو جس میں نہ کہانیاں تھیں نہ فن نہ وسعت،

جیسی وہ تھی اور جیسی وہ مستقبل میں ہونے والی تھی۔

ناصر کاظمی

بروکلین گھاٹ کو عبور کرتے ہوئے

-۱-

اے مدکے چڑھتے ہوئے دھارے ! میں تجھے دیکھ رہا ہوں —-روبرو!

اے مغرب کے بادلو —-اے پہر دوپہر میں ڈوبنے والے سورج —-میں تمھیں بھی دیکھ رہا ہوں ۔

اے عام لباس میں ملبوس مرد و زن کے ہجوم —-! تو میرے لیے کس قدر تجسس انگیز ہے!

مسافر کشتیوں میں سوار سینکڑوں لوگ، جو گھروں کو لوٹ رہے ہیں ،

میرے لیے اس قدر تجسس انگیز ہیں کہ آپ تصوّر بھی نہیں کر سکتے ،

اور اے وہ لوگو، جو آج سے برسوں بعد اسی طرح کشتیوں پر سوار ہو کر ایک ساحل سے دوسرے ساحل کی طرف جاؤ گے تم میرے لیے اور بھی تجسس انگیز ہو اور میں چشمِ تصور میں تمھیں اپنے سامنے اس طرح مجسم پاتا ہوں کہ تم اندازہ ہی نہیں کر سکتے ۔

-۲-

میں شب و روز لمحہ بہ لمحہ تمام اشیائے عالم سے غیرمحسوس طور پر فیضانِ حیات حاصل کرتا ہوں ،

کائنات کا نظام کس قدر سادہ، ٹھوس اور مربوط ہے، جہاں میں جدا —-ہرفرد جدا —- پھر بھی سب اسی نظام کا حصہ،

ماضی اور مستقبل کی جیتی جاگتی تصویریں ،

اور گلیوں میں راہ چلتے ہوئے، یاد ریا کو عبور کرتے ہوئے،

معمولی سے معمولی مناظر اور خفیف سے خفیف آوازوں سے پیدا ہونے والی جمالی کیفیات میرے ذہن پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتی ہیں ۔

میں بہتے جل کی تیز دھارا میں تیرتا ہوا کہیں کا کہیں نکل جاتا ہوں ،

یہ سب محسوسات میرے اور آنے والے لوگوں کے درمیان ایک رابطہ قائم کرتے ہیں ۔

وہ بھی یقینی طور پر زندگی، محبت، بصارت اور سماعت جیسی نعمتوں سے ہماری طرح بہرہ ور ہوں گے۔ دوسرے لوگ بھی اسی گھاٹ کے دروازوں میں داخل ہوں گے۔

اور ساحل ساحل پار اتریں گے،

وہ بھی مد کے چڑھتے ہوئے پانی کا نظارہ دیکھیں گے،

وہ بھی منہاٹن کے شمال اور مغرب میں جہازوں کو آتے جاتے اور اس کے جنوب اور مشرق میں بروکلِن کی پہاڑیوں کو دیکھیں گے،

وہ ان چھوٹے بڑے جزیروں کا نظارہ کریں گے ؛

نصف صدی بعد، وہ لوگ بھی ان سب چیزوں کو دیکھیں گے، جبکہ اسی طرح آدھ ایک گھنٹے میں سورج ڈوبنے والا ہو گا،

آج سے ایک صدی یا کئی صدیوں کے بعد، وہ لوگ ان چیزوں کو دیکھیں گے،

اور ڈوبتے ہوئے سورج، مدکے چڑھتے ہوئے اور جزر کے اترتے ہوئے پانی کے نظاروں سے اسی طرح لطف اندوز ہوں گے۔

-۳-

زمان ومکان کی کوئی حقیقت نہیں —- سب مسافت سمٹ کر رہ جاتی ہے،

اے آئندہ نسل کے، بلکہ کئی آنے والی نسلوں کے زن و مرد،

میں بھی تمھار ہمدم ہوں ،

دریا اور آسمان کو دیکھ کر جوا حساسات تمھارے دلوں میں جنم لیتے ہیں ، ان سے میں بھی آشنا ہوں ،

جس طرح تم میں سے کوئی بھی زندہ انبوہ کا ایک فرد ہے، اسی طرح میں بھی تھا،

جس طرح تم اس دریا کے روح پر ور نظارے اور بہتے ہوئے پانی کی ضوفشانیوں سے تازہ دم ہوتے ہو، اسی طرح میرے دل میں بھی تروتازگی پیدا ہوتی تھی،

جس طرح تم جنگلے پر جھکے ہوئے محسوس کرتے ہو کہ تم پانی کے ساتھ بہے چلے جا رہے ہو،

اسی طرح میں بھی کھڑا ہو جاتا تھا اور اپنے آپ کو پانی کے ساتھ رواں دواں محسوس کرتا۔

میں نے بھی اس قدیم دریا کو بار بار عبور کیا،

میں بھی سال کے آخری مہینے میں مرغابیوں کو فضا میں بہت بلندی پر یوں محوِ پرواز دیکھتا کہ ان کے جسم متحرک ہوتے لیکن پر ساکت ہوتے،

میں ان پرندوں کے جسم کے بعض حصوں کو شوخ زردی سے روشن اور باقی حصوں کو گھمبیر سائے میں ڈوبا ہوا دیکھتا ،

یہ پرندے فضا میں آہستہ آہستہ چکر کاٹتے رہتے اور پھر رفتہ رفتہ جنوب کی طرف پرواز کرنے لگتے،

میں موسم گرما کے نیلگوں آسمان کا عکس پانی میں دیکھتا،

میری آنکھیں کرنوں کے جگمگاتے راستے کو دیکھ کر چکا چوند ہوجاتیں ،

سورج سے چمکتے پانی میں روشنی کی خوبصورت مرکز گریز لکیروں کو اپنے سر کے ارد گرد رقصاں دیکھتا ،

جنوب اور جنوب مغرب کی پہاڑیوں پر ہلکی سی دھند چھائی ہوئی ہوتی،

میں بھی سفید بادلوں کو دیکھتا ، جن میں بنفشی رنگ کی جھلک نظر آتی،

میں بھی خلیج کے نچلے حصے سے جہازوں کو آتے ہوئے دیکھتا،

یہ جہاز رفتہ رفتہ میری طرف بڑھتے چلے آتے اور میں ان مسافروں کو دیکھتا جو مجھ سے قریب ہوتے،

میں دو مستولوں والی اور ایک مستول والی کشتیوں کے سفید بادبان اور لنگرانداز جہازوں کو دیکھتا،

ان کے ملاح مستولوں ، رسیوں اور چپوؤں پر کام میں جتے ہوئے نظر آتے یا جہاز کو اتھلے پانی سے نکالنے کے لیے چپوؤں کو چلاتے ہوئے صاف نظر آتے،

گول گول مستول، حرکت کرتے ہوئے جہاز اور ان پر سانپ کی مانند بل کھاتے ہوئے جھنڈوں کو دیکھتا،

چھوٹی بڑی دخانی کشتیاں سرگرم سفر ہوتیں اور ان کے کپتان اپنی جگہوں پر مستعددکھائی دیتے،

متحرک جہاز کے پیچھے پانی کی ایک سفید لکیر دکھائی دیتی اور اس کے پہیوں کے گھومنے سے تھرتھراہٹ کی آواز سنائی دیتی ۔

تمام قوموں کے پرچم دیکھتا، جو غروبِ آفتاب کے وقت اتار لیے جاتے،

شام کے جھٹپٹے میں لہروں کے کنارے صدف کی مانند نظر آتے، ایسا محسوس ہوتا جیسے فطرت کے ہاتھ دریا سے پیالے بھر بھر کے نکال رہے ہیں ، ان لہروں کے سروں پر رنگین کلغیاں نظر آتیں اور ہر طرف لہروں کی آب وتاب دکھائی دیتی،

پانی کی سطح رفتہ رفتہ دھند لکے میں غائب ہو جاتی، گودی کے قریب پتھر سے بنے ہوئے مال گوداموں کی خاکستری دیواریں ،

دریا پر سایوں کا ہجوم، جہازوں کو کھینے والے بڑے سٹیمر کے دونوں طرف چھوٹی کشتیاں مثلاً خشک گھاس لانے والی کشتیاں ، جہازوں سے سامان اتارنے والی کشتیاں ،

دریا کے اس پار ڈھلائی کے کارخانوں کی چمنیوں سے بلند ہونے والے شعلے رات کی تاریکی میں اور بھی نمایاں ہو جاتے،

اور ان کی کھلتی بندہوتی سرخ اور زرد روشنی تاریکی کے پس منظر میں مکانوں کے بالائی حصوں اور گلیوں کے ان حصوں میں نظر آتی جہاں مکانات کا سلسلہ منقطع ہو جاتا۔

-۴-

یہ سارے مناظر میرے لیے ویسے ہی تھے جیسے اب تمھارے لیے ہیں ،

میں نے ان شہروں سے اور تیز بہتے ہوئے شاندار دریاؤں سے جی بھر کے پیار کیا،

جن مردوں اور عورتوں کو میں نے دیکھا میں نے ان سے قربت محسوس کی،

مجھے دوسرے لوگوں کا بھی قرب حاصل ہو گا —- وہ لوگ جو مجھے دیکھنے کے لیے ماضی میں جھانکتے ہیں ، کیونکہ میں نے انہی ں دیکھنے کے لیے مستقبل میں جھانکا تھا،

(وہ وقت آ کر رہے گا، خواہ آج ہی شب وروز کے کسی لمحے میں میرے دل کی دھڑکنیں بند ہوجائیں )۔

-۵-

پھر ہمارے درمیان حدِ فاصل کیا ہے؟

ہمارے درمیان بیسیوں یا سینکڑوں سا ل کا وقفہ کیا حقیقت رکھتا ہے؟

اس کی حقیقت کچھ بھی ہو یہ حدِ فاصل نہیں بن سکتا —- مسافت حدِ فاصل نہیں بن سکتی، جگہ حدِ فاصل نہیں بن سکتی،

میں بھی کبھی زندہ تھا اور کئی پہاڑیوں والا برکلن میرا تھا،

میں بھی جزیرہ منہاٹن کے بازاروں میں گھوما ہوں اور اس کے چاروں طرف بکھرے پانی میں نہایا ہوں ،

میں نے اپنی ذات میں یک بیک ابھرتے ہوئے عجیب و غریب سوالوں کو محسوس کیا ہے ۔

دن کے وقت لوگوں کے ہجوم میں کبھی کبھی یہ سوال میرے ذہن میں ابھرتے،

رات گئے گھر کو لوٹتے ہوئے یا بستر پر لیٹے ہوئے میں ان خیالات میں گم ہو جاتا،

میں ہمیشہ انہی خیالات میں غلطاں و پیچاں رہتا،

میری شناخت بھی میرے وجود سے کی جاتی تھی،

میں جانتا تھا کہ میرے وجود سے میری شناخت ہوتی ہے اور آئندہ بھی میری ذات کی شناخت میرے وجود سے ہو گی۔

-۶-

یہ کیفیت صرف آپ کی ذات تک محدود نہیں ہے کہ کبھی کبھی تاریک خیالات آپ کے ذہن پر چھا جاتے ہیں ،

میرے ذہن پر بھی اسی طرح تاریک خیالات مسلط ہوتے رہتے ہیں ،

مجھے بھی اپنی زندگی کے بہترین افعال لغو اور مشکوک نظر آنے لگتے ہیں ،

میرے دل میں رہ رہ کر یہ سوال اُبھرتا کیا میرے عظیم خیالات درحقیقت بے معنی ہیں ؟

صرف آپ ہی کو معلوم نہیں کہ شر کی حقیقت کیا ہے،

میں بھی جانتا ہوں کہ شر کی حقیقت کیا ہے،

میں بھی متضاد خیالات کا شکار رہا،

میں بے تکی باتیں کرتا، شرم سے چہرہ سرخ ہو جاتا، نفرت کرتا، جھوٹ بولتا، چوری کرتا اور کِینہ پروری کرتا،

میں اپنی مکاری، غصہ، شہوت اور جنسی خواہشات کے بارے میں زبان کھولنے کی جرأت نہیں کر سکتا،

میں بھی متلون مزاج، مغرور، حریص ، کم ظرف، مکار، بزدل اور کِینہ پرور تھا، بھیڑیے، سانپ اور سؤر کی خبیث عادات کی مجھ میں کمی نہیں تھی،

پر فریب نظروں اور لغو باتوں کے علاوہ جنسی خواہشات میرے دل و دماغ پر چھائی ہوئی تھیں ،

انکار، نفرت، التوا، کمینگی اور سستی جیسے عناصر میرے اعمال میں شامل تھے،

میں سب باتوں میں نوعِ انسان کے ساتھ برابر کا شریک تھا، انہی جیسے دن گزارتا اور انہی جیسے اتفاقی واقعات سے دوچار ہوتا،

جب نوجوان لوگ مجھے اپنی طرف آتے ہوئے یا کہیں سے گزرتے ہوئے دیکھتے تو نہایت صاف اور بلند آواز میں مجھے میرے خاص نام سے پکارتے ،

جب میں کھڑا ہو جاتا تو وہ اپنے بازو میری گرد ن میں حمائل کر دیتے یا جب میں بیٹھتا تو ان کے جسم بے پروائی کے انداز میں میرے جسم سے مس ہوتے،

میں اپنے کئی محبوبوں کو بازاروں ، مسافر کشتیوں یا عوامی اجتماعات میں دیکھتا، لیکن ان سے بات نہ کرتا،

میں باقی لوگوں کی طرح زندگی گزارتا، انہی کی طرح ہنستا، کھیلتا، کھاتا، پیتا اور نیند کے مزے لوٹتا ایسا کردار ادا کرتا، جس سے کسی ایکٹر یا ایکٹریس کے فن کا مظاہرہ ہوتا،

وہی پرانا کردار، جس کی تشکیل خود ہمارے ہاتھوں میں ہے، اس سے خواہ ہم انتہائی بلندی پر پہنچ جائیں خواہ انتہائی پستی کی طرف چلے جائیں یا کبھی بلندی اور کبھی پستی کی طرف مائل ہوں ۔

-۷-

میں نے تمھیں قریب سے قریب تر ہو کر دیکھا ہے،

اب تم جتنا میرے متعلق خیال کرتے ہو، میں بھی تمھارے متعلق اتنا ہی سوچتا تھا —- میں نے یہ خیالات قبل از وقت ہی اپنے ذہن میں محفوظ کرلیے تھے،

تم نے ابھی جنم بھی نہیں لیا تھا کہ میں گھنٹوں بڑی سنجیدگی سے تمھارے خیالوں میں گم رہتا۔

کس کو معلوم تھا کہ مجھ پر کیا کیا چیزیں گہرا اثر ڈالتی ہیں ؟

کون جانتا ہے کہ اس قدر مسافت کے باوجود میں تمھیں اپنی چشمِ بصیرت سے صاف دیکھ رہا ہوں حالانکہ تم مجھے نہیں دیکھ سکتے ؟

-۸-

آہ، منہاٹن جو جہازوں کے مستولوں سے پٹا پڑا ہے، کیا میرے لیے اس سے شاندار اور قابلِ تعریف کوئی چیز ہو سکتی ہے؟

یہ دریا، غروبِ آفتاب کا یہ منظر، مد کی ابھرتی ہوئی لہریں جن کے کنارے صدف جیسے ہیں ؟

مرغابیاں جن کے جسم متحرک ہیں ، دھندلکے میں خشک گھاس سے لدی ہوئی کشتیاں اور رات گئے تک جہازوں سے سامان اتارنے والی کشتیاں ؟

کون سے دیوتا ان لوگوں سے بڑھ کر ہو سکتے ہیں جو گرم جوشی سے میرا ہاتھ پکڑتے ہیں اور جب میں قریب جاتا ہوں تو پیاری آواز میں مجھے میرے خاص نام سے پکارتے ہیں ؟

جب جب کسی عورت یا مرد سے میری آنکھیں چار ہوتی ہیں تو ہمارے باہمی ربط سے بڑھ کر اور کس چیز میں لطافت ہو سکتی ہے؟

وہ کون سی چیز ہے جو میری ذات کو تمھارے وجود میں مدغم کرتی ہے اور میرے خیالات کو تمھارے خیالات سے ہم آہنگ کرتی ہے؟

ہم خود ہی ان خیالات کا تجزیہ کر سکتے ہیں ، کیا ہم اس پر قادر نہیں ہیں ؟

میں نے جس چیز کا ذکر کیے بغیر وعدہ کیا تھا، کیا تم نے اسے قبول نہیں کر لیا؟

کیا یہ حقیقت نہیں کہ مطالعہ سے اس کا علم نہیں ہو سکتا تھا اور تبلیغ سے اسے سر انجام نہیں دیا جا سکتا تھا؟

-۹-

اے دریا اپنی روانی سے کام رکھ! مد کی حالت میں موجیں مارتا رہ اور جزر کی حالت میں پرسکون ہو کر چل !

اے صدف جیسے کنارے اور رنگین کلغی رکھنے والی لہرو، خوب اٹکھیلیاں کرو!

اے غروبِ آفتاب کے وقت کے رنگین بادلو، اپنی عظمت کی مجھے بھی جھلک دکھاتے جاؤ اور ان مردوں اور عورتوں کو بھی جو آئندہ نسلوں میں جنم لیں گے!

اے بے شمار مسافرو، ساحل ساحل پار اترتے رہو!

منہاٹن کے اونچے مستولو، اپنے سر اور بلند کرو! بروکلن کی خوبصورت پہاڑیو اپنے سر اور بلند کرو!

اے میرے ششدر اور جستجو پسند دماغ اپنی سرگرمیوں کو تیز تر کر دے! اسی طرح سوالات اور جوابات کی ادھیڑ بن میں لگارہ!

کائنات کے اسرار کا حل تلاش کرنے میں یونہی سر مارتا رہ!

اے محبت میں سرشار اور پیاسی آنکھو، یونہی گھر، بازار اور لوگوں کے ہجوم کو دیکھتی رہو!

اے نوجوانوں کی آوازو، یونہی مترنم لہجے میں بلند ہوتی رہو اور مجھے میرے خاص نام سے پکارتی رہو!

اے میری دیرینہ زندگی، یونہی وہ کردار ادا کرتی رہ جس سے کسی فنکار کی عظمت ظاہر ہوتی ہے

وہ پرانا کردار ادا کرتی رہ، جس کی بلندی یا پستی ہم سب کے دائرہِ اختیار میں ہے!

اے میرے اشعار کو پڑھنے والو، ذرا سوچو تو سہی کیا میں نامعلوم طریقوں سے تمھیں دیکھ رہا ہوں یا نہیں ؟

پاؤں جمالو، دریا کے اوپر جنگلے پر جھک جاؤ، انہی ں سہارا دو جو بے پروائی کے انداز میں اپنے جسم کو تمھارے جسم سے مس کیے ہوئے ہیں اور پھر یوں محسوس کرو جیسے تم بھی پانی کے ساتھ بہے جا رہے ہو،

اے سمندری پرندو، اڑتے رہو! ایک طرف کو جھک کر اڑان جاری رکھو یا فضا کی بلندیوں میں لمبے لمبے چکر کاٹتے رہو!

اے آبِ رواں ، موسمِ گرما کے آسمان کے عکس کو اپنے سینے میں اتار لے اور اس وقت تک اسے محفوظ رکھ، جب تک نظارہ کرنے والوں کی نیچے جھکی ہوئی آنکھیں سیر نہ ہو جائیں !

اے روشنی کی لہرو، سورج کی شعاعوں سے چمکتے پانی میں میرے عکس سے اسی طرح منعطف ہوتی رہو!

اے جہازو، خلیج کے نچلے حصے سے آتے رہو! اے سفید بادبان والی چھوٹی بڑی کشتیو! کبھی اوپر سے نیچے اور کبھی نیچے سے اوپر کو چلتی رہو!

اے تمام اقوام کے قومی پرچمو، یونہی ہوا میں لہراتے رہو! حسبِ معمول غروبِ آفتاب کے وقت اترتے رہو!

اے ڈھلائی کے کارخانوں کی چمنیو، اپنے شعلوں کو یونہی فضا میں بلند کرتی رہو! رات کی تاریکی میں اپنے سیاہ سائے ڈالتی رہو! مکانوں کے بالائی حصوں پرا پنی سرخ اور زرد روشنی پھینکتی رہو!

موجودہ دور کے اور مستقبل کے موہوم پیکرو، اپنی حقیقت ظاہر کرتے رہو!

تم روح کے لیے حجاب کا کام دیتے ہو، یونہی روح پر چھائے رہو!

محبتِ الٰہی کی خوشبو میرے لیے اور تمھارے جسموں کو تمھارے لیے معطر کرتی رہے!

اے شہرو، اپنی رونق کو اور دوبالا کرو! اے وسیع اور بھرپور دریاؤ، تمھارے جہاز اسی طرح سامان لاتے رہیں اور تم اس طرح اپنے نظارے جاری رکھو!

اپنی وسعت کو اور زیادہ کرو، روح کو غذا بہم پہنچانے کے لیے شاید تم سے بڑھ کو کوئی چیز نہیں ،

اے فطرت کے بے زبان اور حسین مبلغو، تم نے بہت عرصہ تک انتظار کیا ہے، تم ہمیشہ انتظار میں محو رہتے ہو،

ہم نہایت گرمجوشی سے تمھارا استقبال کرتے ہیں اور ہمارے جذبات تمھارے حق میں کبھی سرد نہیں پڑیں گے،

تم ہمیں کبھی دھوکا نہیں دو گے یا ہم سے کبھی کنارہ کشی اختیار نہیں کرو گے،

ہم تمھیں اپنے کام میں لاتے ہیں ، اور تمھیں کبھی نظرانداز نہیں کرتے —- ہم تمھیں ہمیشہ کے لیے اپنے سینوں میں محفوظ رکھتے ہیں ،

ہم تمھاری گہرائی کو نہیں پا سکتے —- ہم تم سے محبت کرتے ہیں —- تم جامع کمالات ہو،

تمھاری بنیادیں ابد پر استوار ہیں ،

تم کسی کے لیے بڑے اور کسی کے لیے چھوٹے پیمانے پر روحانی غذا بہم پہنچانے کا سبب ہو۔

ناصر کاظمی

وی تی —-

انہد مرلی شور مچایا

مرشد نے سب بھید بتائے

عقل و ہوش و حواس اُڑائے

مدہوشی میں ہوش سکھا کر

منزل کا رستہ دکھلایا

انہد مرلی شور مچایا

جلوئہ وحدتِ کامل دیکھا

نقشِ دوئی کو باطل دیکھا

عالم کے اَسرار کو سمجھا

دھیان گیان کے راز کو پایا

انہد مرلی شور مچایا

نورِ حقائق ہوا نمایاں

سرِ حقیقت ہو گئے آساں

فاش ہوا ہر نکتہِ پنہاں

قرب و بعد کا فرق مٹایا

انہد مرلی شور مچایا

سن کر اس مرلی کی باتیں

اُلجھے راز انوکھی باتیں

بھولے سبھی صفاتیں ذاتیں

وحدت نے وہ رنگ جمایا

انہد مرلی شور مچایا

(ترجمہ از خواجہ غلام فرید، نومبر ۱۹۶۸ ۔ جشنِ فرید منعقدہ ملتان میں پڑھا گیا)

ناصر کاظمی

پی، فو، جن

اُس کے ریشمی پھرن کی سرسراب خاموش ہے

مر مر کی پگڈنڈی دھول سے اَٹی ہوئی ہے

اُس کا خالی کمرہ کتنا ٹھنڈا اور سونا ہے

دروازوں پر گرے ہوئے پتوں کے ڈھیر لگے ہیں

اُس سندری کے دھیان میں بیٹھے

میں اپنے دکھیارے من کی کیسے دِھیر بند ھاؤں

ناصر کاظمی

جاڑے کی رات

مرا بستر کیسا سونا ہے

میں راتوں جاگتا رہتا ہوں

جب خنکی بڑھنے لگتی ہے

اور رین پون لہراتی ہے

یہ پردے سر سر کرتے ہیں

ساگر سا شور مچاتے ہیں

میں سوچتا ہوں کبھی یہ لہریں

ترے پاس مجھے پھر لے جائیں !!

(والٹ وٹمین کے شعری مجموعے ’’لیوزآف گراس‘‘ مطبوعہ 1891-92ء سے ’’کراسنگ بروکلین فیری‘‘ کا ترجمہ۔ 1965ء میں ناصر کا ظمی نے امریکن سنٹر لاہور کے ایما پر کنیتھ ایس لن کے مرتب کردہ مضامین کے مجموعے ’’دی امیریکن سوسائٹی‘‘ کا ترجمہ کیا، جو اُردو مرکز لاہور کے زیراہتمام شائع ہوا۔ چائن وتنائی نظم اسی کتاب ’’دی امیریکن سوسائٹی‘‘ سے اخذ کی گئی ہیں ۔)

ناصر کاظمی

اُس کا در چٹے پانی پر کھلتا تھا

اُس کا در چٹے پانی پر کھلتا تھا

کاٹھ کے پل کے آمنے سامنے

وہاں وہ ننھی منی سندری

سدا اکیلی رہتی تھی

اور اُس کا کوئی یار نہ تھا —-

نظم: تزے۔ یے

(والٹ وٹمین کے شعری مجموعے ’’لیوزآف گراس‘‘ مطبوعہ 1891-92ء سے ’’کراسنگ بروکلین فیری‘‘ کا ترجمہ۔ 1965ء میں ناصر کا ظمی نے امریکن سنٹر لاہور کے ایما پر کنیتھ ایس لن کے مرتب کردہ مضامین کے مجموعے ’’دی امیریکن سوسائٹی‘‘ کا ترجمہ کیا، جو اُردو مرکز لاہور کے زیراہتمام شائع ہوا۔ تزے۔ یے نظم اسی کتاب ’’دی امیریکن سوسائٹی‘‘ سے اخذ کی گئی ہیں ۔)

ناصر کاظمی

اے ارضِ وطن

تو جنت میرے خوابوں کی

تری مٹی کے ہر ذرّے میں

خوشبو ہے نئے گلابوں کی

تو جنت میرے آبا کی

گل ریز ہے تیرا ہر گوشہ

زرخیز ہے تیری ہر وادی

تو دولت میری نسلوں کی

ترے دامن میں پوشیدہ ہے

تقدیر سنہری فصلوں کی

تو ساحل میری کشتی کا

ہر آن بدلتے موسم میں

تو حاصل میری کھیتی کا

تو محنت ہے مزدُوروں کی

آبادی میں ، ویرانی میں

تو طاقت ہے مجبوروں کی

تو جنت ماہی گیروں کی

تو سندر بن مرے گیتوں کا

تو ٹھنڈی رات جزیروں کی

تو چاند اندھیری راتوں کا

اُمید کے تنہا جنگل میں

تو جگنو ہے برساتوں کا

تو سرمایہ مری غربت کا

میں تیرے دَم سے زندہ ہوں

تو پرچم ہے مری ہمت کا

ترے جنگل ، پربت ہرے رہیں

یہی رنگ رہے تری جھیلوں کا

چشمے پانی سے بھرے رہیں

تری مانگ جواں رہے پھولوں سے

ترے ننھے پودے ہنستے رہیں

تری گود بھری رہے جھولوں سے

تو میرا لہو میں تیرا لہو

تو میرا شجر میں تیرا ثمر

جو تیرا عدو وہ میرا عدو

اے ارضِ وطن مجھے تیری قسم

جب تجھ کو ضرورت ہو میری

شمشیر بنے گا میرا قلم

میں تیرے لیے پھر آؤں گا

ہر عہد میں تیری نسلوں کو

خوشیوں کے گیت سناؤں گا

(۱۹۷۱ ۔ لاہور ٹی وی)

ناصر کاظمی

قائدِاعظم

دُنیا کو یاد تیری حکایت ہے آج بھی

ہر ایک دل میں تیری محبت ہے آج بھی

کانوں میں گونجتی ہے ابھی تک تری صدا

آنکھوں کے سامنے تری صورت ہے آج بھی

تیرا کلام انجمن افروز کل بھی تھا

تیرا پیام شمعِ ہدایت ہے آج بھی

تزئینِ باغ تشنہِ تکمیل ہے ابھی

میرے وطن کو تیری ضرورت ہے آج بھی

ناصر کاظمی

ہر محاذِ جنگ پر

اے خدائے دو جہاں

تیرے حکم سے بہار اور خزاں

تو نے خاکِ مردہ کو شجر دیے

رَس بھرے ثمر دیے

بحر کو صدف، صدف کو بے بہا گہر دیے

تازہ موسموں کے ساتھ

طائروں کو تازہ بال و پر دیے

بے گھروں کو گھر دیے

اے مرے کریم رب!

کس زباں سے تیرا شکر ہو ادا

تو نے ہم کو یہ نیا وطن دیا

ہم نے یہ نیا وطن ترے ہی نام پر لیا

اس نئے چمن میں کتنے رنگ رنگ پھول ہیں

کیسے کیسے شہر اور کیسے کیسے لوگ ہیں

کیسے کیسے شاعر اور نغمہ گر

کتنے اہلِ علم اور باکمال

کس قدر جری دلیر نوجواں

جن کے دل سے جاوداں ہے اس چمن کی داستاں

اے مرے کریم ربّ تو نے اپنے بندوں کو ہزارہا ہنر دیے

اور مجھے قلم دیا

اے علیم تیرے عِلم کے حضور

میرے عِم اور ہنر کی کیا بساط

آج مجھ کو اتنی مہلت اَور دے کہ لکھ سکوں وہ داستاں

جو اپنے خوں سے لکھ رہے ہیں سرحدوں کے پاسباں

یہ صف شکن دلیر ہیں مرے قلم کی آبرو

انہی کے دَم سے آج پھر مرا قلم ہے سرخرو

قلم جو لفظِ تازہ کا شکاری تھا

قلم جو حرف و صوت کا پجاری تھا

وہی قلم بلند ہو کے اب جہاد کا علم بنا

وہی قلم مجاہدوں کے ہاتھ میں وہ برقِ شعلہ خو بنا

جو دُشمنوں کی صف پہ ٹوٹ ٹوٹ کر گرا

اب اپنے کاغذوں پہ چشمِ خوں فشاں کا نم نہیں

اب اپنے کاغذوں پہ جاتے موسموں کا غم نہیں

یہ کاغذ اپنے ہاتھ میں وہ کار گاہِ رزم ہے

جہاں پہ فتحِ قوم کا نشان میری نظم ہے

یہ کاغذ اپنے ہاتھ میں وہ بحر بے کنار ہے

جہاں ہر ایک موج فتح مند ذوالفقار ہے

یہ کاغذ اپنے ہاتھ میں ہے وہ فضائے بیکراں

جہاں ہوا کے پاسباں ہیں ہر طرف شررفشاں

مرے قلم کی روشنائی تیرگی کو زہر ہے

مرے قلم کے سحر سے چھڑی ہے داستان،

رزمِ خندق و حنین کی

علیؓ کی ذُوالفقار سے جو بچ گئے

وہ زد میں ہیں حسینؓ کی

مرے قلم وہ معرکے دکھا مجھے

جہاں ہمارے غازیوں نے ظلم وجور کے ہر اِک نشان کو مٹا دیا

مری جبیں کی ہر شکن کو زندہ کر

کہ اب عدو ہماری تیغِ ضوفشاں کی زد میں ہے

مرے یقیں کو تازہ کر

کہ اب عدو ہماری ضربِ جاوداں کی زد میں ہے

یہ جنگ آج کفر و دیں کی جنگ ہے

یہ میری قوم کے یقیں کی جنگ ہے

یہ میری پاک سر زمیں کی جنگ ہے

یہ جنگ آج حق پرست ملتوں کی جنگ ہے

یہ جنگ آج صلح جو صداقتوں کی جنگ ہے

ترے کرم سے اے مرے کریم ربّ

مرا قلم ہے سرخرو

مرا قلم ہے میرے فن کی آبرو

مری صدا میں آج آتے موسموں کا نور ہے

مری نوا میں آج صبحِ فتح کا ظہور ہے

کہ میری پاک سر زمیں کا

ایک ایک فرد پوری قوم ہے

پوری قوم آج ایک فرد ہے

عدو کا رنگ زرد ہے

مرا وطن یونہی رہے گا تا ابد

مرا چمن یونہی رہے گا تا ابد

ارضِ پاک تیرے صبر کی قسم!

تیرے غازیوں ، شہیدوں کی قسم!

جب تلک ہے دَم میں دَم

جب تلک ہے اپنی سرحدوں پہ یورشِ ستم

عدو سے پنجہ آزما رہیں گے ہم

ہر محاذِ جنگ پر

قلب وچشم وگوش کے محاذ پر

عقل وتاب وہوش کے محاذ پر

خواب اور خیال کے محاذ پر

شعر اور ساز کے محاذ پر

شہر شہر گاؤں گاؤں

گلیوں اور کھیتوں میں

جنگلوں ، پہاڑوں میں

وادیوں ، جزیروں اور جھیلوں میں

میگھنا سے راوی تک

سبز اور سنہرے دیس کے چمکتے رمنوں میں

نشر گاہوں ، درس گاہوں

کارخانوں ، دفتروں میں اور گھروں میں

بحروبر میں اور فضا میں

دُشمنوں کے راستوں میں

دشمنوں کی بستیوں میں

ہر نئے محاذ پر

ہر محاذِ جنگ پر

ایک ہزار سال تک لڑیں گے ہم

ایک ہزار سال تک لڑیں گے ہم

ایک ہزار سال تک لڑیں گے ہم

(۱۲ دسمبر ۱۹۷۱ ۔ لاہور ٹی وی)

ناصر کاظمی

آج تری یادوں کا دن ہے

تیری یاد سے مشرق مغرب

جاگ رہے ہیں شہر ہمارے

تیرے نام سے گونج رہے ہیں

علم اور حکمت کے گہوارے

کہیں لیک تیرے ہاتھوں کی

کہیں تری باتوں کی خوشبو

کہیں چمک تیری آنکھوں کی

کہیں تری آواز کا جادُو

عزم ترا کہسار کی عظمت

تیری فکر سمندر گہرا

دو دھاری تلوار کی ضربت

لمبا قد اور جسم اکہرا

تو نے کھوئی ہوئی باتوں کو

مایوسی میں یاد دلایا

تو نے سوئی ہوئی راتوں کو

بیداری کا خواب دکھایا

تیری یاد سے مہک رہے ہیں

گلشن ، بن ، بستی ، ویرانے

ہونٹ ہونٹ پر نام ہے تیرا

گلی گلی تیرے افسانے

قائدِاعظم میرے دل میں

تیری محبت زندہ رہے گی

نام ترا تابندہ رہے گا

یاد تری پائندہ رہے گی

(۱۱ ستمبر ۱۹۶۹ ۔ لاہو ر ٹی وی)

ناصر کاظمی

ہنستے پھولو ہنستے رہنا

ہنستے پھولو ہنستے رہنا

تم ہو پاک وطن کا گہنا

دُھوم ہے گھر گھر آج تمھاری

خوشبو کی نہریں ہیں جاری

شاخوں نے پھر گہنا پہنا

ہنستے پھولو ہنستے رہنا

پھول ہیں تھوڑے ، خار بہت ہیں

پردے میں اغیار بہت ہیں

اپنا بھید کسی سے نہ کہنا

ہنستے پھولو ہنستے رہنا

تم ہو شہیدوں کا نذرانہ

تم کو قسم ہے سر نہ جھکانا

آپس کے دُکھ مل کر سہنا

ہنستے پھولو ہنستے رہنا

راوی اور چناب کے پیارو

جہلم ، سندھ کی آنکھ کے تارو

آج سے میرے دل میں رہنا

ہنستے پھولو ہنستے رہنا

(۱۵ نومبر ۱۹۶۵)

ناصر کاظمی

تیرگی ختم ہوئی

تیرگی ختم ہوئی ، صبح کے آثار ہوئے

شہر کے لوگ نئے عزم سے بیدار ہوئے

شب کی تاریکی میں جو آئے تھے رہزن بن کر

صبح ہوتے ہی وہ رُسوا سرِبازار ہوئے

جگمگانے لگیں پھر میرے وطن کی گلیاں

ظلم کے ہاتھ سمٹ کر پسِ دیوار ہوئے

ہم پہ احساں ہے ترا شہر کی اے نہرِ عظیم

تو نے سینے پہ سہے ، شہر پہ جو وار ہوئے

شاخ در شاخ چمکنے لگے خوشبو کے چراغ

عالمِ خاک سے پیدا نئے گلزار ہوئے

ناصر کاظمی

تو ہے عزیزِ ملت

تو ہے عزیزِ ملت تو ہے نشانِ حیدر

احساں ہے تیرا ہم پر اے قوم کے دلاور

تو عزم کا ستارہ ، تو ہے ہلالِ جرأت

تو خادمِ وطن ہے ، تجھ سے وطن کی عزت

گاتے ہیں تیرے نغمے راوی ، چناب، جہلم

تاروں کی سلطنت پر اُڑتا ہے تیرا پرچم

سلہٹ سے تا کراچی پھیلے ہیں تیرے شہپر

تو ہے عزیزِ ملت تو ہے نشانِ حیدر

رَن کچھ کے معرکے میں جوہر دکھائے تو نے

واہگہ کی سرحدوں سے لشکر ہٹائے تو نے

توپوں کے منہ کو موڑا ، ٹینکوں کا مان توڑا

جو تیری زد میں آیا تو نے نہ اُس کو چھوڑا

زندہ کیا وطن کو تو نے شہید ہو کر

تو ہے عزیزِ ملت تو ہے نشانِ حیدر

اُونچی تری اُڑانیں ، کاری ترے نشانے

تونے جلا کے چھوڑے دُشمن کے آشیانے

باندھا ہے وہ نشانہ دُشمن کے گھر میں جا کر

تو نے گرائے ہنٹر اِک آن میں جھپٹ کر

بجلی ہیں تیرے بمبر ، شاہیں ہیں تیرے سیبر

تو ہے عزیزِ ملت تو ہے نشانِ حیدر

ساندل کے آسماں سے روکے ہیں تو نے حملے

راوی کی وادیوں پر احساں ہیں تیرے کتنے

چھنب اور جوڑیاں میں گاڑا ہے تو نے جھنڈا

اے دوارکا کے غازی زندہ ہے نام تیرا

ہیبت سے تیری لرزاں کہسار اور سمندر

تو ہے عزیزِ ملت تو ہے نشانِ حیدر

وہ شہر بلھے شاہ کا بستا ہے تیرے دَم سے

خوشحال خاں کی نگری ہے تیرے دَم قدم سے

داتا کا شہر تو نے پائندہ کر دیا ہے

اقبال کے وطن کو پھر زندہ کر دیا ہے

ہر دیس ، ہر نگر میں چرچا ہے تیرا گھر گھر

تو ہے عزیزِ ملت تو ہے نشانِ حیدر

(۲۹ ستمبر ۱۹۶۵)

ناصر کاظمی

تو ہے مری زندگی

تو ہے مری زندگی اے مرے پیارے وطن

تو ہے مری روشنی اے مرے پیارے وطن

اے مری خلدِ بریں تیری بہاروں کی خیر

اے مرے عزم و یقیں تیرے دیاروں کی خیر

تیرے ستاروں کی خیر

تو ہے مری زندگی اے مرے پیارے وطن

پاک ترے آبشار پاک ہیں تیرے جبل

پاک تیری کھیتیاں پاک ترے پھول پھل

جلوئہ صبحِ ازل

تو ہے مری زندگی اے مرے پیارے وطن

تیری فضا پر کھلے چاند ستاروں کے راز

عرش کی محراب میں پڑھتے ہیں شاہین نماز

پاک دل و پاک باز

تو ہے مری زندگی اے مرے پیارے وطن

ناصر کاظمی

صدائے کشمیر

صدائے کشمیر آ رہی ہے ، ہماری منزل قریب تر ہے

یہ عدل و انصاف کی گھڑی ہے، ستم کی میعاد مختصر ہے

لہو شہیدوں کا رنگ لایا

نئی سحر کی اُمنگ لایا

غرور کا اَبر چھٹ رہا ہے

رُخِ حوادث پلٹ رہا ہے

یہ پیڑ اب تیر بن گئے ہیں

چنار شمشیر بن گئے ہیں

خدا کا قہر و عذاب آیا

عدو کا روزِ حساب آیا

گھروں سے نکلے ہیں اہلِ ایماں

کسی کے بس کا نہیں یہ طوفاں

گزر کے چشموں سے، بحر و بر سے

ہر ایک گھر تک پہنچ گئی ہے

سری نگر تک پہنچ گئی ہے

یہ تیغ تھامے نہ تھم سکے گی

عدو کی محفل نہ جم سکے گی

علم ہمارا نہ جھک سکے گا

یہ سیل روکے نہ رُک سکے گا

(۲۴ اکتوبر ۱۹۶۵ ۔ آزاد کشمیر ریڈیو)

ناصر کاظمی

سرگودھا میرا شہر

زندہ دِلوں کا گہوارہ ہے سرگودھا میرا شہر

سب کی آنکھوں کا تارا ہے سرگودھا میرا شہر

سورج سے گھر ، چاند سی گلیاں ، جنت کی تصویر

بانکے چھیل چھبیلے گبھرو غیرت کی شمشیر

سبک چال نخریلے گھوڑے، کڑیل نیزہ باز

آنکھیں تیز کڑکتی بجلی تاروں کی ہمراز

زندہ دِلوں کا گہوارہ ہے سرگودھا میرا شہر

تھل ، جنگل ، پربت اور بیلے ہرے بھرے شاداب

سونا سی لہراتی فصلیں ، نہریں بھی خوش آب

سرحد سرحد اس کے سپاہی آگے بڑھتے جائیں

ان کے ساتھ خدا کی رحمت اور بہنوں کی دُعائیں

زندہ دِلوں کا گہوارہ ہے سرگودھا میرا شہر

ہر دَم اس کے جیٹ طیارے اُڑنے کو تیار

تیز ہوا بازوں کا دستہ چوکس اور ہشیار

دُشمن کے کتنے طیارے پل میں کیے برباد

سرگودھا کے شہبازوں کو وقت کرے گا یاد

زندہ دِلوں کا گہوارہ ہے سرگودھا میرا شہر

(۱۵ ستمبر ۱۹۶۵)

ناصر کاظمی

سیالکوٹ توزندہ رہے گا

زندہ رہے گا زندہ رہے گا ، سیالکوٹ تو زندہ رہے گا

زندہ قوموں کی تاریخ میں نام ترا تابندہ رہے گا

جموں اور کشمیر سے پہلے تو ہے نصرت کا دروازہ

دُشمن بھی اب کر بیٹھا ہے تیری جرأت کا اندازہ

زندہ رہے گا زندہ رہے گا ، سیالکوٹ تو زندہ رہے گا

شاعرِ مشرق کا تو مسکن ، تجھ پہ بزرگوں کا ہے سایا

جس نے تجھ پر ہاتھ اُٹھا یا ، تو نے اُس کا نام مٹایا

زندہ رہے گا زندہ رہے گا ، سیالکوٹ تو زندہ رہے گا

دوسری جنگِ عظیم کے بعد نہیں دیکھی ہے ایسی لڑائی

سرحد سرحد دیکھ چکی ہے دُنیا دُشمن کی پسپائی

زندہ رہے گا زندہ رہے گا ، سیالکوٹ تو زندہ رہے گا

تیری سرحد سرحد پر دُشمن کا قبرستان بنا ہے

تیری جانبازی کا سکہ دُنیا نے اب مان لیا ہے

زندہ رہے گا زندہ رہے گا، سیالکوٹ تو زندہ رہے گا

پاک فوج ہے تیری محافظ ایک وار بس اَور دکھادے

اُٹھ اور نام علیؑ کا لے کر دُشمن کو مٹی میں ملا دے

زندہ رہے گا زندہ رہے گا ، سیالکوٹ تو زندہ رہے گا

(۹ ستمبر ۱۹۶۵)

ناصر کاظمی

وطن

اے وطن تجھ سے نیا عہدِ وفا کرتے ہیں

مال کیا چیز ہے ، ہم جان فدا کرتے ہیں

سرخ ہو جاتی ہے جب صحنِ چمن کی مٹی

اسی موسم میں نئے پھول کھلا کرتے ہیں

اے نگہبانِ وطن تیرا نگہباں ہو خدا

شہر کے لوگ ترے حق میں دُعا کرتے ہیں

ناصر کاظمی

گلشن پاک ہمارا

گلشن پاک ہمارا

تن من دھن سے پیارا

ہم کو ناز ہے اس گلشن پر

ہم نے کتنی جانیں دے کر

اس کا رنگ اُبھارا

گلشن پاک ہمارا

بستے شہر زمیں کے سہرے

تہذیبوں کے روشن چہرے

گھر گھر چاند ستارا

گلشن پاک ہمارا

پاک فضا ، پرچم نورانی

بیداری کی زندہ نشانی

نصرت کا گہوارہ

گلشن پاک ہمارا

ناصر کاظمی

ساقی مجھے پھر فکرِ جہاں نے گھیرا

ساقی مجھے پھر فکرِ جہاں نے گھیرا
ساقی مجھے پھر فکرِ جہاں نے گھیرا
ساقی مجھے پھر فکرِ جہاں نے گھیرا
میخانہ سلامت رہے دائم تیرا
تجھ سا کوئی ساقی ہے نہ مجھ سا مے خوار
بھر دے بھر دے پیالہ بھر دے میرا
ناصر کاظمی

موتی تری گفتار کے چنتا ہی رہوں

موتی تری گفتار کے چنتا ہی رہوں
موتی تری گفتار کے چنتا ہی رہوں
موتی تری گفتار کے چنتا ہی رہوں
سر تیری ہر اِک بات پر دُھنتا ہی رہوں
اے کاش یہیں دَورِ فلک تھم جائے
تو کہتا رہے اور میں سنتا ہی رہوں
ناصر کاظمی

کیا نقل کروں شامِ غریباں کی بہار

کیا نقل کروں شامِ غریباں کی بہار
کیا نقل کروں شامِ غریباں کی بہار
کیا نقل کروں شامِ غریباں کی بہار
باقی تھے ابھی دھوپ کے کم کم آثار
بیٹھا تھا سرِ خیمہ کبوتر کوئی
مہتاب سے پر لال لہو سی منقار
ناصر کاظمی

تر آنکھ کروں معدِن گوہر کھل جائے

تر آنکھ کروں معدِن گوہر کھل جائے
تر آنکھ کروں معدِن گوہر کھل جائے
تر آنکھ کروں معدِن گوہر کھل جائے
لوں سانس تو دروازہِ خاور کھل جائے
چپ بیٹھا ہوں مجلس میں عزا کی لیکن
رُومال ہٹاؤں تو سمندر کھل جائے
ناصر کاظمی

گر مدحتِ شبیر کا دفتر کھل جائے

گر مدحتِ شبیر کا دفتر کھل جائے
گر مدحتِ شبیر کا دفتر کھل جائے
گر مدحتِ شبیر کا دفتر کھل جائے
اک مشرقِ نو سینے کے اندر کھل جائے
تصویر اگر کرب و بلا کی کھینچوں
اِک عرصہ قیامت کے برابر کھل جائے
ناصر کاظمی

لہو لہو ہے زبانِ قلم بیاں کے لیے

لہو لہو ہے زبانِ قلم بیاں کے لیے
لہو لہو ہے زبانِ قلم بیاں کے لیے
لہو لہو ہے زبانِ قلم بیاں کے لیے
یہ گل چنے ہیں شہیدوں کی داستاں کے لیے
کھڑے ہیں شاہ کمربستہ امتحاں کے لیے
پھر ایسی رات کب آئے گی آسماں کے لیے
دیا بجھا کے یہ کہتے تھے ساتھیوں سے حسینؑ
جو چاہو ڈھونڈ لو رَستا کوئی اماں کے لیے
کہا یہ سن کے رفیقوں نے یک زباں ہو کر
یہ جاں تو وقف ہے مولائے انس و جاں کے لیے
ہمیں تو منزلِ آخر ہے آستانِ حسینؑ
یہ سر جھکے گا نہ اب اور آستاں کے لیے
ستارے ڈوب گئے وقت ڈھونڈتا ہے پناہ
کڑی ہے آج کی شب دَورِ آسماں کے لیے
گواہی باقی ہے اصغر کی لے چلے ہیں حسینؑ
ورق اک اور بھی ہے زیبِ داستاں کے لیے
لٹا ہے دشتِ غریبی میں کارواں کس کا
کہ خاک اُڑاتی ہے منزل بھی کارواں کے لیے
کہاں کہاں نہ لٹا کاروانِ آلِ نبیؐ
فلک نے ہم سے یہ بدلے کہاں کہاں کے لیے
یہ دشتِ کرب و بلا ہے جنابِ خضر یہاں
ہے شرط تشنہ لبی عمرِ جاوداں کے لیے
بہے ہیں کس قدر آنسو چھپے ہیں کتنے ہی داغ
یہ جمع و خرچ ہے باقی حساب داں کے لیے
سکوتِ اہل سخن بھی ہے ایک طرزِ سخن
یہ نکتہ چھوڑ دیا میں نے نکتہ داں کے لیے
سخن کی تاب کہاں اب کہ دل ہے خوں ناصر
زبانِ تیر چلی ایک بے زباں کے لیے
(۱۸ مارچ ۱۹۷۰ ۔ پاکستان ٹیلیویژن لاہور)
ناصر کاظمی

تزئینِ کائنات برنگِ دِگر ہے آج

تزئینِ کائنات برنگِ دِگر ہے آج

جشنِ ولادتِ شہِ جن و بشر ہے آج

صدیوں سے فرشِ راہ تھے جس کے لیے نجوم

آغوشِ آمنہ میں وہ رشکِ قمر ہے آج

صبح ازل کو جس نے دیا حسنِ لازوال

وہ موجِ نور زینتِ دیوار و در ہے آج

کس کے قدم سے چمکی ہے بطحا کی سر زمیں

ظلمت کدوں میں شورِ نویدِ سحر ہے آج

اے چشمِ شوق شوکتِ نظارہ دیکھنا

ماہِ فلک چراغِ سرِ رہ گزر ہے آج

شوقِ نظارہ نے وہ تراشا ہے آئنہ

جس آئنے میں جلوہِ آئینہ گر ہے آج

جچتی نہیں نگاہ میں دُنیا کی رونقیں

کیا پوچھتے ہو دھیان ہمارا کدھر ہے آج

ناصر درِ حضورؐ سے جو چاہو مانگ لو

وا خاص و عام کے لیے بابِ اثر ہے آج

(۱۹ مئی ۱۹۷۰)

ناصر کاظمی

دل کی دُنیا میں ہے روشنی آپؐ سے

دل کی دُنیا میں ہے روشنی آپؐ سے

ہم نے پائی نئی زندگی آپؐ سے

کیوں نہ نازاں ہوں اپنے مقدر پہ ہم

ہم کو ایماں کی دولت ملی آپؐ سے

کل بھی معمور تھا آپ کے نور سے

ہے منوّر جہاں آج بھی آپؐ سے

دُشمنوں پر بھی در رحمتوں کا کھلا

راہ و رسمِ محبت چلی آپؐ سے

دل کا غنچہ چٹکتا ہے صلِ علیٰ

اپنے گلشن میں ہے تازگی آپؐ سے

سب جہانوں کی رحمت کہا آپؐ کو

کتنا خوش ہے خدا ، یانبی آپؐ سے

ختم ہے آپ پر شانِ پیغمبری

یہ روایت مکمل ہوئی آپؐ سے

(۱۱ فروری ۱۹۷۱)

ناصر کاظمی

شجر حجر تمھیں جھک کر سلام کرتے ہیں

شجر حجر تمھیں جھک کر سلام کرتے ہیں

یہ بے زبان تمھیں سے کلام کرتے ہیں

زمیں کو عرشِ معلی ہے تیرا گنبدِ سبز

تری گلی میں فرشتے قیام کرتے ہیں

مسافروں کو ترا دَر ہے منزلِ آخر

یہیں سب اپنی مسافت تمام کرتے ہیں

جنھیں جہاں میں کہیں بھی اماں نہیں ملتی

وہ قافلے یہاں آ کر قیام کرتے ہیں

نظر میں پھرتے ہیں تیرے دیار کے منظر

اسی نواح میں ہم صبح و شام کرتے ہیں

سکونِ دل کی انہی سے اُمید ہے ناصر

جو اپنا فیض غریبوں پہ عام کرتے ہیں

(۲۵ فروری ۱۹۷۵ ۔ لاہور ٹی وی)

ناصر کاظمی

پیامِ حق کا تمھیں منتہی سمجھتے ہیں

پیامِ حق کا تمھیں منتہی سمجھتے ہیں

تمھاری یاد کو ہم زندگی سمجھتے ہیں

تمھارے نور سے معمور ہیں وجود و عدم

اسی چراغ کو ہم روشنی سمجھتے ہیں

قدم پڑا ہے جہاں آپ کے غلاموں کا

ہم اُس زمین کو تختِ شہی سمجھتے ہیں

یہ آپ ہی کا کرم ہے کہ آج خاک نشیں

مقامِ بندگی و قیصری سمجھتے ہیں

سمجھ سکیں گے وہ کیا رُتبہِ نبیِؐ کریم

جو آدمی کو فقط آدمی سمجھتے ہیں

ناصر کاظمی

اے ختمِ رُسلؐ اے شاہِ زمن اے پاک نبی رحمت والے

اے ختمِ رُسلؐ اے شاہِ زمن اے پاک نبی رحمت والے

تو جانِ سخن موضوعِ سخن اے پاک نبی رحمت والے

اے عقدہ کشائے کون و مکاں ترے وصف نہیں محتاجِ بیاں

عاجز ہے زباں ، قاصر ہے دہن اے پاک نبی رحمت والے

اے بدر و حنین کے راہ نما ، اے فاتحِ خیبر کے مولا

ترا ایک اشارہ کفر شکن اے پاک نبی رحمت والے

تری یاد ہماری شمعِ یقیں ، ترا نام ہمارا نقشِ نگیں

ترے نور سے ہے ملت کا چمن اے پاک نبی رحمت والے

میں کچھ بھی نہیں مجھے کیا ہے غم جب تیرا کرم ہے شاہِ کرم

شاداب ہے میرے تن کا بن اے پاک نبی رحمت والے

ناصر کاظمی

تضمین براشعارِ غالب

یہ کون طائرِ سد رہ سے ہم کلام آیا

یہ کون طائرِ سد رہ سے ہم کلام آیا

جہانِ خاک کو پھر عرش کا سلام آیا

جبیں بھی سجدہ طلب ہے یہ کیا مقام آیا

’’زباں پہ بارِ خدایا! یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے‘‘

خطِ جبیں ترا اُمّ الکتاب کی تفسیر

کہاں سے لاؤں ترا مثل اور تیری نظیر

دکھاؤں پیکرِ الفاظ میں تری تصویر

’’مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغِ اسیر

کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لیے‘‘

کہاں وہ پیکرِ نوری ، کہاں قبائے غزل

کہاں وہ عرش مکیں اور کہاں نوائے غزل

کہاں وہ جلوئہ معنی ، کہاں ردائے غزل

’’بقدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل

کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے‘‘

تھکی ہے فکرِ رسا اور مدح باقی ہے

قلم ہے آبلہ پا اور مدح باقی ہے

تمام عمر لکھا اور مدح باقی ہے

’’ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے

سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے‘‘

ناصر کاظمی

ساتواں رنگ

بال کالے ، سفید برف سے گال

چاند سا جسم ، کوٹ بادل کا

لہریا آستین ، سرخ بٹن

کچھ بھلا سا تھا رنگ آنچل کا

اب کے آئے تو یہ ارادہ ہے

دونوں آنکھوں سے اس کو دیکھوں گا

ناصر کاظمی

گجر پھولوں کے

اک کرن چشم و چراغِ دلِ شب

کیوں اسے خونِ رگِ دل نہ کہوں

رقص کرتی ہے کبھی شیشوں پر

کبھی روزن سے اُتر آتی ہے

کبھی اِک جامہِ آویزاں کی

نرم سلوٹ کے خنک گوشوں میں

گیت بنتی ہے گجر پھولوں کے

ناصر کاظمی

بارش کی دُعا

اے داتا بادل برسا دے

فصلوں کے پرچم لہرا دے

دیس کی دولت دیس کے پیارے

سوکھ رہے ہیں کھیت ہمارے

ان کھیتوں کی پیاس بجھا دے

اے داتا بادل برسا دے

یوں برسیں رحمت کی گھٹائیں

داغ پرانے سب دُھل جائیں

اب کے برس وہ رنگ جما دے

اے داتا بارش برسا دے

کھیتوں کو دانوں سے بھر دے

مردہ زمیں کو زندہ کر دے

تو سنتا ہے سب کی دعائیں

داتا ہم کیوں خالی جائیں

ہم کو بھی محنت کا صلہ دے

اے داتا بادل برسا دے

(دو فروری ۱۹۶۷)

ناصر کاظمی

نیا سفر

اندھیروں کی نگری سے پھوٹی کرن

مہکنے لگا خاک دانِ کہن

اُٹھا محملِ وقت کا سارباں

نئی منزلوں کو چلے کارواں

سریلی ہواؤں نے چھیڑا وہ راگ

لگی اوس سے خیمہِ گل میں آگ

صبا گل کی نس نس میں بسنے لگی

اُجالوں کی برکھا برسنے لگی

نئے پھول نکلے نئے روپ میں

زمیں جھم جھمانے لگی دھوپ میں

ترنجِ فلک کی ضیا پھیل کر

زرِ گل بچھانے لگی خاک پر

فضا جگمگائی گلِ سنگ سے

ہوا پھر گئی گردشِ رنگ سے

پہاڑوں سے لاوا نکلنے لگا

جگر پتھروں کا پگھلنے لگا

چمن در چمن وہ رمق اب کہاں

وہ شعلے شفق تا شفق اب کہاں

کراں تا کراں ظلمتیں چھا گئیں

وہ جلوے طبق در طبق اب کہاں

بجھی آتشِ گل اندھیرا ہوا

وہ اُجلے سنہرے ورق اب کہاں

سریلی ہواؤں میں رَس گھول کر

طیور اُڑ گئے بولیاں بول کر

زمیں بٹ گئی ، آسماں بٹ گیا

چمن بٹ گیا ، آشیاں بٹ گیا

نکلنے لگا آبشاروں سے دُود

ہوا قلزمِ ماہ جل کر کبود

پہاڑوں میں میداں میں جنگل میں آگ

سمندر میں خشکی میں جل تھل میں آگ

گرجنے لگیں آگ کی بدلیاں

جھلسنے لگیں پیاس سے کھیتیاں

وہ آندھی چلی دَورِ آلام کی

کہ رُکنے لگی نبض ایام کی

اُٹھے یوں نجیبانِ انجم سپاہ

گرا ہار کر تاش کا بادشاہ

رہِ جستجو مختصر ہو گئی

ہمالہ کی چوٹی بھی سر ہو گئی

پرانی بہاریں قفس میں گئیں

وہ انساں گئے اور وہ رسمیں گئیں

نئی گردشوں میں گھرا آسماں

زمینِ کہن پر گرا آسماں

’’ہوا ایک جنگل میں آ کر گزر

کسو کو نہیں یاں کسو کی خبر‘‘

ہوا نوحہ گر دشتِ شب کا نقیب

صدا اس کی پرہول ، صورت عجیب

یہ وحشی جہاں محوِ فریاد ہو

وہاں کوئی بستی نہ آباد ہو

جہاں گھر بنائے یہ خانہ خراب

وہاں کے مکینوں کو آئے نہ خواب

سرِ شام بستی میں رونے لگے

مگر دن نکلتے ہی سونے لگے

پرانی حویلی کی دیوار پر

کرے ہاؤ ہو ہاؤ ہو رات بھر

پھڑکتا رہا اور روتا رہا

بھرے شہر کی نیند کھوتا رہا

کسی منچلے نے جو دیکھا اُدھر

اُڑایا اُسے کنکری مار کر

اُٹھی اک صدا بام کے متصل

جسے سن کے پھٹ جائے پتھر کا دِل

لیے چونچ میں کنکری اُڑ گیا

گھنے جنگلوں کی طرف مڑ گیا

بلندی سے آخر گرایا اُسے

کسی آبجو میں بہایا اُسے

نہ پھر شہر کی سمت آیا کبھی

وہ نوحہ نہ اُس نے سنایا کبھی

اِدھر فکر سے جان گھلنے لگی

خیالوں کی کھڑکی سی کھلنے لگی

نظر آیا ملکِ سخن کنکری

غزل کنکری اور بھجن کنکری

گھلی کنکری اور پانی ہوئی

پئے گوشِ عبرت کہانی ہوئی

پلٹ کر جو دیکھا سماں اور تھا

کہ پردے میں فتنہ نہاں اور تھا

نیا شور لے کر جمودی اُٹھے

سخن ور گئے اور نمودی اُٹھے

چٹخنے لگے یوں زباں پر سخن

جلے جیسے سوکھے درختوں کا بن

’’نہ بلبل غزل خواں نہ طیروں کا شور

سبھی دیکھتے میر کے منہ کی اَور‘‘

نہاں رازِ مطلوب و طالب رہا

ہر آواز پر میر غالب رہا

بجھے یوں اجالوں میں تیرہ ضمیر

پریشاں ہو جیسے دُھوئیں کی لکیر

نہ چشمِ بصیرت نہ ذوقِ ہنر

ہوئیں ساری اقدار زیر و زبر

رہ و رسمِ اجداد سے کٹ گئے

ہم اپنی روایات سے کٹ گئے

یہاں میر و غالب کا فن کیا کرے

سخن ساز عرضِ سخن کیا کرے

اُجڑتا رہا بوستانِ ادب

مگر پھول کھلتے رہے زیرِ لب

تصوّر کی تیغِ دو دَم چوم کر

چھپے کنج میں ہم ، قلم چوم کر

مجھے شورِ چرخ و زمیں لے گیا

تصوّر کہیں سے کہیں لے گیا

بدلنے لگی آسمانوں کی لے

نیا چاند اُترا سرِ برگِ نے

زمیں اجنبی آسماں اجنبی

سفر اجنبی کارواں اجنبی

خنک نیلے نیلے بحیرے کہیں

بحیروں کے اندر جزیرے کہیں

خنک پانیوں پر سفینے رواں

سفینوں پہ اُڑتے ہوئے بادباں

شرابور رستے ، معطر فضا

شجر خوب صورت ، ثمر خوش نما

سنیلے مکاں اور سجیلے مکیں

مکیں جن کی چھب دل رُبا دل نشیں

کہیں بدلیاں گیت گاتی ہوئیں

کہیں بارشیں گنگناتی ہوئیں

کسی مدھ بھری صبح کی آس میں

شتر مرغ دبکے ہوئے گھاس میں

کہیں پیچ در پیچ بیلوں کے جال

کہیں گھاٹیوں میں رمیدہ غزال

فضا در فضا پھول سی تتلیاں

پروں پر اُٹھائے ہوئے گلستاں

کہیں منزلوں کے دھواں دھار گھیر

کہیں سونے سنسان رستوں کے پھیر

کہیں گردِ مہتاب اُڑتی ہوئی

نشیبوں میں بل کھا کے اُڑتی ہوئی

ہوا تازہ رس پھول چنتی ہوئی

زمیں اَن سنے راگ بنتی ہوئی

ستارے گئے ظلمتوں کو لیے

چٹخنے لگے شاخچوں پر دِیے

کھلا جنت صبح کا در کھلا

بہ آوازِ اللہ اکبر کھلا

مہکنے لگیں دھان کی کھیتیاں

کہ ابرِ بہاری برس کر کھلا

چلے مدتوں کے رُکے راہ رو

کوئی پا برہنہ ، کوئی سر کھلا

جنھیں پانیوں میں اُترنا پڑے

وہ ہاتھوں میں رکھتے ہیں خنجر کھلا

لرزنے لگی تنگنائے سخن

کہ شاہینِ معنی کا شہپر کھلا

نئی رُت نے چھیڑا نیا ارغنوں

فضا میں جھلکتا ہے لمحوں کا خوں

ہوئے نغمہ زن طائرانِ چمن

کہ عرصے میں اُترے ہیں اہلِ سخن

وہ درویشِ گلگوں قبا آ گئے

وہ رندانِ خونیں نوا آگئے

نئے دن کا سورج دَمکنے لگا

زمیں کا ستارہ چمکنے لگا

(جولائی ۔ ۵۴)

ناصر کاظمی

شہر غریب

رات سنسان آدمی نہ دیا

کس سے پوچھوں تری گلی کا پتا

شہر میں بے شمار رَستے ہیں

کیا خبر تو کدھر گیا ہو گا

آج کس رُو سیاہ آندھی نے

سبز تاروں کا کھیت لوٹ لیا

تھم گئے ریت کے رواں چشمے

سو گیا گیت ساربانوں کا

آ رہی ہے یہ کس کے پاؤں کی چاپ

پھیلتا جا رہا ہے سناٹا

یہ مرے ساتھ چل رہا ہے کون

کس نے مجھ کو ابھی پکارا تھا

سامنے گھورتی ہیں دو آنکھیں

اور پیچھے لگی ہے کوئی بلا

ڈُوبی جاتی ہیں وقت کی نبضیں

آ رہی ہے کوئی عجیب ندا

اک طرف بے اماں اجاڑ مکاں

اک طرف سلسلہ مزاروں کا

سرنگوں چھتریاں کھجوروں کی

بال کھولے کھڑی ہو جیسے قضا

یہ دِیا سا ہے کیا اندھیرے میں

ہو نہ ہو یہ مکان ہے تیرا

دل تو کہتا ہے در پہ دستک دوں

سوچتا ہوں کہ تو کہے گا کیا

جانے کیوں میں نے ہاتھ روک لیے

یہ مجھے کس خیال نے گھیرا

کسی بے نام وہم کی دیمک

چاٹنے آ گئی لہو میرا

دشتِ شب میں اُبھر کے ڈوب گئی

کسی ناگن کی ہولناک صدا

تیرے دیوار و در کے سایوں پر

مجھ کو ہوتا ہے سانپ کا دھوکا

بوٹا بوٹا ہے سانپ کی تصویر

پتا پتا ہے سانپ کا ٹیکا

آسماں جیسے سانپ کی کنڈلی

تارا تارا ہے سانپ کا منکا

آ رہی ہے لکیر سانپوں کی

ہر گلی پر ہے سانپ کا پہرا

سانپ ہی سانپ ہیں جدھر دیکھو

شہر تیرا تو گڑھ ہے سانپوں کا

تیرے گھر کی طرف سے میری طرف

بڑھتا آتا ہے ایک سایا سا

دھوپ سا رنگ برق سی رفتار

جسم شاخِ نبات سا پتلا

پھول سا پھن چراغ سی آنکھیں

یہ تو راجا ہے کوئی سانپوں کا

ہاں مری آستیں کا سانپ ہے یہ

کیوں نہ ہو مجھ کو جان سے پیارا

ایک ہی پل میں یوں ہوا غائب

جیسے پانی سے عکس بجلی کا

کٹ گئی پھر مرے خیال کی رَو

شیشہِ خواب کار ٹوٹ گیا

ناگہاں سیٹیاں سی بجنے لگیں

رات کا شہر پل میں جاگ اُٹھا

آنکھیں کھلنے لگیں دریچوں کی

سانس لینے لگی خموش فضا

میں تو چپ چاپ چل رہا تھا مگر

شہر والوں نے جانے کیا سمجھا

تیری بستی میں اتنی رات گئے

کون ہوتا بھلا یہ میرے سوا

ارے یہ میں ہوں تیرا شہر غریب

تو گلی میں تو آ کے دیکھ ذرا

سوچتا ہوں کھڑا اندھیرے میں

تو نے دروازہ کیوں نہیں کھولا

میرا ساتھی مرا شریکِ سفر

رہ گیا پچھلی رات کا تارا

کہاں لے آئی تو مجھے تقدیر

میں کہاں آ گیا ہوں میرے خدا

یہاں پھلتا نہیں کوئی آنسو

یہاں جلتا نہیں کسی کا دیا

تیرا کیا کام تھا یہاں ناصر

تو بھلا اس نگر میں کیوں آیا

(۱۹۵۴)

ناصر کاظمی

مطلعِ ثانی

دل کھینچتی ہے منزلِ آبائے رفتنی

جو اس پہ مرمٹے وہی قسمت کے تھے دھنی

وہ شیر سو رہے ہیں وہاں کاظمین کے

ہیبت سے جن کی گرد ہوئے کوہِ آہنی

شاہانِ فقر وہ مرے اجدادِ باکمال

کرتی ہے جن کی خاک بھی محتاج کو غنی

سر خم کیا نہ افسر و لشکر کے سامنے

کس مرتبہ بلند تھی اُن کی فروتنی

کرتی تھی ان کے سایہِ محمود میں قیام

قسمت مآبی ، خوش نسبی ، پاک دامنی

شب بھر مراقبے میں نہ لگتی تھی اُن کی آنکھ

دن کو تلاشِ رزق میں کرتے تھے جاں کنی

تھی گفتگو میں نرم خرامی نسیم کی

ہر چند وہ دلیر تھے تلوار کے دھنی

جاتے ہیں اب بھی اس کی زیارت کو قافلے

اُس در کے زائروں کو نہیں خوفِ رہزنی

اُس آستاں کی خاک اگر ضوفشاں نہ ہو

برجوں سے آسمان کے اُڑ جائے روشنی

انبالہ ایک شہر تھا ، سنتے ہیں اب بھی ہے

میں ہوں اُسی لٹے ہوئے قریے کی روشنی

اے ساکنانِ خطہِ لاہور! دیکھنا

لایا ہوں اُس خرابے سے میں لعلِ معدنی

جلتا ہوں داغِ بے وطنی سے مگر کبھی

روشن کرے گی نام مرا سوختہ تنی

خوش رہنے کے ہزار بہانے ہیں دہر میں

میرے خمیر میں ہے مگر غم کی چاشنی

یارب! زمانہ ممتحنِ اہلِ صبر ہے

دے اس دنی کو اور بھی توفیقِ دُشمنی

ناصر یہ شعر کیوں نہ ہوں موتی سے آبدار

اس فن میں کی ہے میں نے بہت دیر جانکنی

ہر لفظ ایک شخص ہے ، ہر مصرع آدمی

دیکھو مری غزل میں مرے دل کی روشنی

ناصر کاظمی

مطلعِ اوّل

ہر کوچہ اِک طلسم تھا ہر شکل موہنی

قصہ ہے اس کے شہر کا یارو شنیدنی

تھا اِک عجیب شہر درختوں کی اوٹ میں

اب تک ہے یاد اس کی جگا جوت روشنی

سچ مچ کا اِک مکان پرستاں کہیں جسے

رہتی تھی اس میں ایک پری زاد پدمنی

اُونچی کھلی فصیلیں ، فصیلوں پہ برجیاں

دیواریں سنگِ سرخ کی ، دروازے چندنی

جھل جھل جھلک رہے تھے پسِ چادرِ غبار

خیمے شفق سے لال ، چتر تخت کندنی

فوّارے چھوٹتے ہوئے مر مر کے صحن میں

پھیلی تھی جس کے گرد گلِ بانس کی بنی

ہر بوستاں کے پھول تھے اس عیش گاہ میں

ہر دیس کے پرندوں نے چھائی تھی چھاؤنی

جھرمٹ کبوتروں کے اُترتے تھے رنگ رنگ

نیلے ، اُجال ، جوگیے ، گلدار ، کاسنی

پٹ بیجنا سی انکھڑیاں گلِ چاندنی سے تاج

چونچوں میں خس کی تیلیاں پنجوں میں پینجنی

سارنگیاں سی بجتی تھیں جب کھولتے تھے پر

یکبار گونج اُٹھتی تھی سنسان کنگنی

اِستادہ اصطبل میں سبک سیر گھوڑیاں

ٹاپوں میں جن کی گرد ہو گردونِ گردنی

رہتی تھی اس نواح میں ایسی بھی ایک خلق

پوشاک جس کی دُھوپ تھی، خوراک چاندنی

کل رات اس پری کی عروسی کا جشن تھا

دیکھی تھی میں نے دُور سے بس اس کی روشنی

ہر ملک ہر دیار کے خوش وضع میہماں

بیٹھے تھے زیبِ تن کیے ملبوس درشنی

جلنے لگیں درختوں میں خوشبو کی بتیاں

پھر چھیڑ دی ہوائے نیستاں نے سمفنی

ہاتھوں میں رنگترے لیے سر پر صراحیاں

کچی نکور باندیاں نکلیں بنی ٹھنی

کشمش ، چھوارے ، کاغذی بادام ، چار مغز

رکھے تھے رنگ رنگ کے میوے چشیدنی

مرغابیاں تلی ہوئیں ، تیتر بھنے ہوئے

خستہ کباب سیخ کے اور نان روغنی

صندل، کنول، سہاگ پڑا ، سہرا ، عطر ، پھول

لائی سجا کے تھال میں اک شوخ کامنی

شیشے اُچھال اُچھال کے گاتے تھے مغچے

بیٹھی تھی شہ نشین پہ اک دختِ اَرمنی

رقاصِ رنگ ناچتے پھرتے تھے صف بہ صف

دُولہا بنا گلال ، بسنتی دُلہن بنی

سازوں کی گت پلٹ گئی ، طبلے ٹھٹک گئے

پی کر شراب ناچ رہی تھی وہ کنچنی

انگارہ سا بدن جو دَمکتا تھا بار بار

گل منہ پہ ڈھانپ لیتے تھے کرنوں کی اوڑھنی

ہر دانگ باجنے لگے باجے نشاط کے

مردنگ ، ڈھول ، تان پرا ، سنکھ سنکھنی

آکاش سے برس پڑے رنگوں کے آبشار

نیلے ، سیہ ، سفید ، ہرے ، لال ، جامنی

اتنے میں ایک کفرِ سراپا نظر پڑا

پھرتی تھی ساتھ ساتھ لگی جس کے چاندنی

ماتھے پہ چاند ، کانوں میں نیلم کی بالیاں

ہاتھوں میں سرخ چوڑیاں ، شانوں پہ سوزنی

پلکیں دراز خطِ شعاعی سی تیز تیز

پتلی ہر ایک آنکھ کی ہیرے کی تھی کنی

ٹھوڑی وہ آئنہ سی کہ بس دیکھتے رہیں

جوبن کے گھاٹ پر وہ کنول دو شگفتنی

گردن بھڑکتی لو سی کہ جی چاہے جل مریں

کالے سیاہ بال کہ بدمست ناگنی

وہ اُنگلیاں شفق سی کہ ترشے ہوئے قلم

اُجلے روپہلے گال کہ ورقے نوشتنی

کندن سا رُوپ ، دھوپ سا چہرہ ، پون سی چال

دامن کشیدنی ، لب و عارض چشیدنی

صورت نظر نواز ، طبیعت ادا شناس

سو حسن ظاہری تو کئی وصف باطنی

پردے اُٹھا دیے تھے نگاہوں نے سب مگر

دل کو رہا ہے شکوئہ کوتاہ دامنی

اُڑ اُڑ کے راج ہنسوں نے جنگل جگا دیا

گھوڑوں کی رَتھ میں بیٹھ گئے جب بنا بنی

منہ دیکھتے ہی رہ گئے سب ایک ایک کا

منہ پھیر کر گزر گئی وہ راج ہنسنی

منظر مجھے ہوس نے دکھائے بہت مگر

ٹھہرا نہ دل میں حسن کا رنگِ شکستنی

تارا سحر کا نکلا تو ٹھنڈی ہوا چلی

نیند آ گئی مجھے کہ وہاں چھاؤں تھی گھنی

ناصر کاظمی

میں تجھ کو اپنا سمجھا تھا

تیرا قصور نہیں میرا تھا
میں تجھ کو اپنا سمجھا تھا
دیکھ کے تیرے بدلے تیور
میں تو اُسی دن رو بیٹھا تھا
اب میں سمجھا اب یاد آیا
تو اُس دن کیوں چپ چپ سا تھا
تجھ کو جانا ہی تھا لیکن
ملے بغیر ہی کیا جانا تھا
اب تجھے کیا کیا یاد دِلاؤں
اب تو وہ سب کچھ ہی دھوکا تھا
وہی ہوئی ہے جو ہونی تھی
وہی ملا ہے جو لکھا تھا
دل کو یونہی سا رنج ہے ورنہ
تیرا میرا ساتھ ہی کیا تھا
کس کس بات کو روؤں ناصر
اپنا لہنا ہی اِتنا تھا
ناصر کاظمی

میں دریا دریا روتا تھا

تنہائی کا دُکھ گہرا تھا
میں دریا دریا روتا تھا
ایک ہی لہر نہ سنبھلی ورنہ
میں طوفانوں سے کھیلا تھا
تنہائی کا تنہا سایا
دیر سے میرے ساتھ لگا تھا
چھوڑ گئے جب سارے ساتھی
تنہائی نے ساتھ دیا تھا
سوکھ گئی جب سکھ کی ڈالی
تنہائی کا پھول کھلا تھا
تنہائی میں یادِ خدا تھی
تنہائی میں خوفِ خدا تھا
تنہائی محرابِ عبادت
تنہائی منبر کا دِیا تھا
تنہائی مرا پائے شکستہ
تنہائی مرا دستِ دُعا تھا
وہ جنت مرے دل میں چھپی تھی
میں جسے باہر ڈھونڈ رہا تھا
تنہائی مرے دِل کی جنت
میں تنہا ہوں میں تنہا تھا
ناصر کاظمی

وہ جنگل کتنا گہرا تھا

پون ہری ، جنگل بھی ہرا تھا
وہ جنگل کتنا گہرا تھا
بوٹا بوٹا نور کا زینہ
سایا سایا راہ نما تھا
کونپل کونپل نور کی پتلی
ریشہ ریشہ رس کا بھرا تھا
خوشوں کے اندر خوشے تھے
پھول کے اندر پھول کھلا تھا
شاخیں تھیں یا محرابیں تھیں
پتا پتا دستِ دُعا تھا
گاتے پھول ، بلاتی شاخیں
پھل میٹھے ، جل بھی میٹھا تھا
جنت تو دیکھی نہیں لیکن
جنت کا نقشہ دیکھا تھا
ناصر کاظمی

بارش میں سورج نکلا تھا

روتے روتے کون ہنسا تھا
بارش میں سورج نکلا تھا
چلتے ہوئے آندھی آئی تھی
رستے میں بادل برسا تھا
ہم جب قصبے میں اُترے تھے
سورج کب کا ڈوب چکا تھا
کبھی کبھی بجلی ہنستی تھی
کہیں کہیں چھینٹا پڑتا تھا
تیرے ساتھ ترے ہمراہی
میرے ساتھ مرا رستہ تھا
رنج تو ہے لیکن یہ خوشی ہے
اب کے سفر ترے ساتھ کیا تھا
ناصر کاظمی

یہ ملنا بھی کیا ملنا تھا

پل پل کانٹا سا چبھتا تھا
یہ ملنا بھی کیا ملنا تھا
یہ کانٹے اور تیردامن
میں اپنا دُکھ بھول گیا تھا
کتنی باتیں کی تھیں لیکن
ایک بات سے جی ڈرتا تھا
تیرے ہاتھ کی چائے تو پی تھی
دل کا رنج تو دل میں رہا تھا
کسی پرانے وہم نے شاید
تجھ کو پھر بے چین کیا تھا
میں بھی مسافر تجھ کو بھی جلدی
گاڑی کا بھی وقت ہوا تھا
اک اُجڑے سے اسٹیشن پر
تو نے مجھ کو چھوڑ دیا تھا
ناصر کاظمی

میرا کون یہاں رہتا تھا

میں اِس شہر میں کیوں آیا تھا
میرا کون یہاں رہتا تھا
گونگے ٹیلو! کچھ تو بولو
کون اِس نگری کا راجا تھا
کن لوگوں کے ہیں یہ ڈھانچے
کن ماؤں نے اِن کو جنا تھا
کس دیوی کی ہے یہ مورت
کون یہاں پوجا کرتا تھا
کس دُنیا کی کوتا ہے یہ
کن ہاتھوں نے اِسے لکھا تھا
کس گوری کے ہیں یہ کنگن
یہ کنٹھا کس نے پہنا تھا
کن وقتوں کے ہیں یہ کھلونے
کون یہاں کھیلا کرتا تھا
بول مری مٹی کی چڑیا
تو نے مجھ کو یاد کیا تھا
ناصر کاظمی

پچھلے سفر کا دھیان آیا تھا

میں ترے شہر سے پھر گزرا تھا
پچھلے سفر کا دھیان آیا تھا
کتنی تیز اُداس ہوا تھی
دل کا چراغ بجھا جاتا تھا
تیرے شہر کا اسٹیشن بھی
میرے دل کی طرح سونا تھا
میری پیاسی تنہائی پر
آنکھوں کا دریا ہنستا تھا
ریل چلی تو ایک مسافر
مرے سامنے آ بیٹھا تھا
سچ مچ تیرے جیسی آنکھیں
ویسا ہی ہنستا چہرہ تھا
چاندی کا وہی پھول گلے میں
ماتھے پر وہی چاند کھلا تھا
جانے کون تھی اُس کی منزل
جانے کیوں تنہا تنہا تھا
کیسے کہوں رُوداد سفر کی
آگے موڑ جدائی کا تھا
ناصر کاظمی

پھر تری یاد نے گھیر لیا تھا

تھوڑی دیر کو جی بہلا تھا
پھر تری یاد نے گھیر لیا تھا
یاد آئی وہ پہلی بارش
جب تجھے ایک نظر دیکھا تھا
ہرے گلاس میں چاند کے ٹکڑے
لال صراحی میں سونا تھا
چاند کے دل میں جلتا سورج
پھول کے سینے میں کانٹا تھا
کاغذ کے دل میں چنگاری
خس کی زباں پر انگارہ تھا
دل کی صورت کا اک پتا
تیری ہتھیلی پر رکھا تھا
شام تو جیسے خواب میں گزری
آدھی رات نشہ ٹوٹا تھا
شہر سے دُور ہرے جنگل میں
بارش نے ہمیں گھیر لیا تھا
صبح ہوئی تو سب سے پہلے
میں نے تیرا منہ دیکھا تھا
دیر کے بعد مرے آنگن میں
سرخ انار کا پھول کھلا تھا
دیر کے مرجھائے پیڑوں کو
خوشبو نے آباد کیا تھا
شام کی گہری اونچائی سے
ہم نے دریا کو دیکھا تھا
یاد آئیں کچھ ایسی باتیں
میں جنھیں کب کا بھول چکا تھا
ناصر کاظمی

میں اک بستی میں اُترا تھا

چھوٹی رات سفر لمبا تھا
میں اک بستی میں اُترا تھا
سرما ندی کے گھاٹ پہ اُس دن
جاڑے کا پہلا میلا تھا
بارہ سکھیوںں کا اک جھرمٹ
سیج پہ چکر کاٹ رہا تھا
نئی نکور کنواری کلیاں
کورا بدن کورا چولا تھا
دیکھ کے جوبن کی پھلواری
چاند گگن پر شرماتا تھا
پیٹ کی ہری بھری کیاری میں
سرج مکھی کا پھول کھلا تھا
ماتھے پر سونے کا جھومر
چنگاری کی طرح اُڑتا تھا
بالی رادھا بالا موہن
ایسا ناچ کہاں دیکھا تھا
کچھ یادیں کچھ خوشبو لے کر
میں اُس بستی سے نکلا تھا
ناصر کاظمی

دھرتی سے آکاش ملا تھا

نئے دیس کا رنگ نیا تھا
دھرتی سے آکاش ملا تھا
دُور کے دریاؤں کا سونا
ہرے سمندر میں گرتا تھا
چلتی ندیاں گاتے نوکے
نوکوں میں اِک شہر بسا تھا
نوکے ہی میں رَین بسیرا
نوکے ہی میں دن کٹتا تھا
نوکا ہی بچوں کا جھولا
نوکا ہی پیری کا عصا تھا
مچھلی جال میں تڑپ رہی تھی
نوکا لہروں میں اُلجھا تھا
ہنستا پانی روتا پانی
مجھ کو آوازیں دیتا تھا
تیرے دھیان کی کشتی لے کر
میں نے دریا پار کیا تھا
ناصر کاظمی

تاروں کا جنگل جلتا تھا

چاند ابھی تھک کر سویا تھا
تاروں کا جنگل جلتا تھا
پیاسی کونجوں کے جنگل میں
میں پانی پینے اُترا تھا
ہاتھ ابھی تک کانپ رہے ہیں
وہ پانی کتنا ٹھنڈا تھا
آنکھیں اب تک جھانک رہی ہیں
وہ پانی کتنا گہرا تھا
جسم ابھی تک ٹوٹ رہا ہے
وہ پانی تھا یا لوہا تھا
گہری گہری تیز آنکھوں سے
وہ پانی مجھے دیکھ رہا تھا
کتنا چپ چپ کتنا گم سم
وہ پانی باتیں کرتا تھا
ناصر کاظمی

یہ کیسا شعلہ بھڑکا تھا

دَم ہونٹوں پر آ کے رُکا تھا
یہ کیسا شعلہ بھڑکا تھا
تنہائی کے آتشداں میں
میں لکڑی کی طرح جلتا تھا
زرد گھروں کی دیواروں کو
کالے سانپوں نے گھیرا تھا
آگ کی محل سرا کے اندر
سونے کا بازار کھلا تھا
محل میں ہیروں کا بنجارا
آگ کی کرسی پر بیٹھا تھا
اک جادوگرنی وہاں دیکھی
اُس کی شکل سے ڈر لگتا تھا
کالے منہ پر پیلا ٹیکا
انگارے کی طرح جلتا تھا
ایک رسیلے جرم کا چہرہ
آگ کے سپنے سے نکلا تھا
پیاسی لال لہو سی آنکھیں
رنگ لبوں کا زرد ہوا تھا
بازو کھنچ کر تیر بنے تھے
جسم کماں کی طرح ہلتا تھا
ہڈی ہڈی صاف عیاں تھی
پیٹ کمر سے آن ملا تھا
وہم کی مکڑی نے چہرے پر
مایوسی کا جال بنا تھا
جلتی سانسوں کی گرمی سے
شیشہِ تن پگھلا جاتا تھا
جسم کی پگڈنڈی سے آگے
جرم و سزا کا دوراہا تھا
ناصر کاظمی

دیر کے بعد تجھے دیکھا تھا

دُھوپ تھی اور بادل چھایا تھا
دیر کے بعد تجھے دیکھا تھا
میں اِس جانب تو اُس جانب
بیچ میں پتھر کا دریا تھا
ایک پیڑ کے ہاتھ تھے خالی
اک ٹہنی پر دِیا جلا تھا
دیکھ کے دو چلتے سایوں کو
میں تو اچانک سہم گیا تھا
ایک کے دونوں پاؤں تھے غائب
ایک کا پورا ہاتھ کٹا تھا
ایک کے اُلٹے پیر تھے لیکن
وہ تیزی سے بھاگ رہا تھا
اُن سے اُلجھ کر بھی کیا لیتا
تین تھے وہ اور میں تنہا تھا
ناصر کاظمی

دیواروں سے ڈر لگتا تھا

تجھ بن گھر کتنا سونا تھا
دیواروں سے ڈر لگتا تھا
بھولی نہیں وہ شامِ جدائی
میں اُس روز بہت رویا تھا
تجھ کو جانے کی جلدی تھی
اور میں تجھ کو روک رہا تھا
میری آنکھیں بھی روتی تھیں
شام کا تارا بھی روتا تھا
گلیاں شام سے بجھی بجھی تھیں
چاند بھی جلدی ڈوب گیا تھا
سناٹے میں جیسے کوئی
دُور سے آوازیں دیتا تھا
یادوں کی سیڑھی سے ناصر
رات اک سایا سا اُترا تھا
ناصر کاظمی

میں ترا رستہ دیکھ رہا تھا

تو جب دوبارہ آیا تھا
میں ترا رستہ دیکھ رہا تھا
پھر وہی گھر ، وہی شام کا تارا
پھر وہی رات ، وہی سپنا تھا
تجھ کو لمبی تان کے سوتے
میں پہروں تکتا رہتا تھا
ایک انوکھے وہم کا جھونکا
تیری نیند اُڑا دیتا تھا
تیری ایک صدا سنتے ہی
میں گھبرا کر جاگ اٹھتا تھا
جب تک تجھ کو نیند نہ آتی
میں ترے پاس کھڑا رہتا تھا
نئی انوکھی بات سنا کر
میں تیرا جی بہلاتا تھا
یوں گزرا وہ ایک مہینہ
جیسے ایک ہی پل گزرا تھا
ایک وہ دن جب بیٹھے بیٹھے
تجھ کو وہم نے گھیر لیا تھا
صبح کی چائے سے پہلے اُس دن
تو نے رختِ سفر باندھا تھا
آنکھ کھلی تو تجھے نہ پا کر
میں کتنا بے چین ہوا تھا
اب نہ وہ گھر نہ وہ شام کا تارا
اب نہ وہ رات نہ وہ سپنا تھا
آج وہ سیڑھی سانپ بنی تھی
کل جہاں خوشبو کا پھیرا تھا
مرجھائے پھولوں کا گجرا
خالی کھونٹی پر لٹکا تھا
پچھلی رات کی تیز ہوا میں
کورا کاغذ بول رہا تھا
ناصر کاظمی

بس یونہی رستا بھول گیا تھا

مجھ کو اور کہیں جانا تھا
بس یونہی رستا بھول گیا تھا
دیکھ کے تیرے دیس کی رچنا
میں نے سفر موقوف کیا تھا
کیسی اندھیری شام تھی اُس دن
بادل بھی گھر کر چھایا تھا
رات کی طوفانی بارش میں
تو مجھ سے ملنے آیا تھا
ماتھے پر بوندوں کے موتی
آنکھوں میں کاجل ہنستا تھا
چاندی کا اک پھول گلے میں
ہاتھ میں بادل کا ٹکڑا تھا
بھیگے کپڑے کی لہروں میں
کندن سونا دمک رہا تھا
سبز پہاڑی کے دامن میں
اُس دن کتنا ہنگامہ تھا
بارش کی ترچھی گلیوں میں
کوئی چراغ لیے پھرتا تھا
بھیگی بھیگی خاموشی میں
مَیں ترے گھر تک ساتھ گیا تھا
ایک طویل سفر کا جھونکا
مجھ کو دُور لیے جاتا تھا
ناصر کاظمی

دھوپ کا شیشہ دُھندلا سا تھا

گرد نے خیمہ تان لیا تھا
دھوپ کا شیشہ دُھندلا سا تھا
نکہت و نور کو رخصت کرنے
بادل دُور تلک آیا تھا
گئے دِنوں کی خوشبو پا کر
میں دوبارہ جی اُٹھا تھا
سوتی جاگتی گڑیا بن کر
تیرا عکس مجھے تکتا تھا
وقت کا ٹھاٹھیں مارتا ساگر
ایک ہی پل میں سمٹ گیا تھا
جنگل ، دریا ، کھیت کے ٹکڑے
یاد نہیں اب آگے کیا تھا
نیل گگن سے ایک پرندہ
پیلی دھرتی پر اُترا تھا
ناصر کاظمی

تارا تارا جاگ رہا تھا

پچھلے پہر کا سناٹا تھا
تارا تارا جاگ رہا تھا
پتھر کی دیوار سے لگ کر
آئینہ تجھے دیکھ رہا تھا
بالوں میں تھی رات کی رانی
ماتھے پر دن کا راجا تھا
اک رُخسار پہ زلف گری تھی
اک رُخسار پہ چاند کھلا تھا
ٹھوڑی کے جگمگ شیشے میں
ہونٹوں کا سایا پڑتا تھا
چندر کرن سی انگلی انگلی
ناخن ناخن ہیرا سا تھا
اِک پاؤں میں پھول سی جوتی
اِک پاؤں سارا ننگا تھا
تیرے آگے شمع دھری تھی
شمع کے آگے اک سایا تھا
تیرے سائے کی لہروں کو
میرا سایا کاٹ رہا تھا
کالے پتھر کی سیڑھی پر
نرگس کا اک پھول کھلا تھا
ناصر کاظمی

شہر کے نیچے شہر بسا تھا

پتھر کا وہ شہر بھی کیا تھا
شہر کے نیچے شہر بسا تھا
پیڑ بھی پتھر، پھول بھی پتھر
پتا پتا پتھر کا تھا
چاند بھی پتھر، جھیل بھی پتھر
پانی بھی پتھر لگتا تھا
لوگ بھی سارے پتھر کے تھے
رنگ بھی اُن کا پتھر سا تھا
پتھر کا اک سانپ سنہرا
کالے پتھر سے لپٹا تھا
پتھر کی اندھی گلیوں میں
میں تجھے ساتھ لیے پھرتا تھا
گونگی وادی گونج اُٹھتی تھی
جب کوئی پتھر گرتا تھا
ناصر کاظمی

دھوپ کا ہاتھ بڑھا آتا تھا

دن کا پھول ابھی جاگا تھا
دھوپ کا ہاتھ بڑھا آتا تھا
سرخ چناروں کے جنگل میں
پتھر کا اک شہر بسا تھا
پیلے پتھریلے ہاتھوں میں
نیلی جھیل کا آئینہ تھا
ٹھنڈی دھوپ کی چھتری تانے
پیڑ کے پیچھے پیڑ کھڑا تھا
دھوپ کے لال ہرے ہونٹوں نے
تیرے بالوں کو چوما تھا
تیرے عکس کی حیرانی سے
بہتا چشمہ ٹھہر گیا تھا
تیری خموشی کی شہ پا کر
میں کتنی باتیں کرتا تھا
تیری ہلال سی اُنگلی پکڑے
میں کوسوں پیدل چلتا تھا
آنکھوں میں تری شکل چھپائے
میں سب سے چھپتا پھرتا تھا
بھولی نہیں اُس رات کی دہشت
چرخ پہ جب تارا ٹوٹا تھا
رات گئے سونے سے پہلے
تو نے مجھ سے کچھ پوچھا تھا
یوں گزری وہ رات بھی جیسے
سپنے میں سپنا دیکھا تھا
ناصر کاظمی

پیڑوں پر سونا بکھرا تھا

شام کا شیشہ کانپ رہا تھا
پیڑوں پر سونا بکھرا تھا
جنگل جنگل، بستی بستی
ریت کا شہر اُڑا جاتا تھا
اپنی بے چینی بھی عجب تھی
تیرا سفر بھی نیا نیا تھا
تیری پلکیں بوجھل سی تھیں
میں بھی تھک کر چُور ہوا تھا
تیرے ہونٹ بھی خشک ہوئے تھے
میں تو خیر بہت پیاسا تھا
کھڑکی کے دھندلے شیشے پر
دو چہروں کا عکس جما تھا
جگمگ جگمگ کنکریوں کا
دشتِ فلک میں جال بچھا تھا
تیرے شانے پر سر رکھ کر
میں سپنوں میں ڈوب گیا تھا
یوں گزری وہ رات سفر کی
جیسے خوشبو کا جھونکا تھا
ناصر کاظمی

تو کہیں باہر گیا ہوا تھا

میں جب تیرے گھر پہنچا تھا
تو کہیں باہر گیا ہوا تھا
تیرے گھر کے دروازے پر
سورج ننگے پاؤں کھڑا تھا
دیواروں سے آنچ آتی تھی
مٹکوں میں پانی جلتا تھا
تیرے آنگن کے پچھواڑے
سبز درختوں کا رمنا تھا
ایک طرف کچھ کچے گھر تھے
ایک طرف نالہ چلتا تھا
اک بھولے ہوئے دیس کا سپنا
آنکھوں میں گھلتا جاتا تھا
آنگن کی دیوار کا سایہ
چادر بن کر پھیل گیا تھا
تیری آہٹ سنتے ہی میں
کچی نیند سے چونک اُٹھا تھا
کتنی پیار بھری نرمی سے
تو نے دروازہ کھولا تھا
میں اور تو جب گھر سے چلے تھے
موسم کتنا بدل گیا تھا
لال کھجوروں کی چھتری پر
سبز کبوتر بول رہا تھا
دُور کے پیڑ کا جلتا سایہ
ہم دونوں کو دیکھ رہا تھا
ناصر کاظمی

میں اِک سپنا دیکھ رہا تھا

تو جب میرے گھر آیا تھا
میں اِک سپنا دیکھ رہا تھا
تیرے بالوں کی خوشبو سے
سارا آنگن مہک رہا تھا
چاند کی دھیمی دھیمی ضو میں
سانولا مکھڑا لو دیتا تھا
تیری نیند بھی اُڑی اُڑی تھی
میں بھی کچھ کچھ جاگ رہا تھا
میرے ہاتھ بھی سلگ رہے تھے
تیرا ماتھا بھی جلتا تھا
دو رُوحوں کا پیاسا بادل
گرج گرج کر برس رہا تھا
دو یادوں کا چڑھتا دریا
ایک ہی ساگر میں گرتا تھا
دل کی کہانی کہتے کہتے
رات کا آنچل بھیگ چلا تھا
رات گئے سویا تھا لیکن
تجھ سے پہلے جاگ اُٹھا تھا
ناصر کاظمی

پہلے تیرا نام لکھا تھا

میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکھا تھا
میں وہ صبرِ صمیم ہوں جس نے
بارِ امانت سر پہ لیا تھا
میں وہ اسمِ عظیم ہوں جس کو
جن و ملک نے سجدہ کیا تھا
تو نے کیوں مرا ہاتھ نہ پکڑا
میں جب رستے سے بھٹکا تھا
جو پایا ہے وہ تیرا ہے
جو کھویا وہ بھی تیرا تھا
تجھ بن ساری عمر گزاری
لوگ کہیں گے تو میرا تھا
پہلی بارش بھیجنے والے
میں ترے درشن کا پیاسا تھا
ناصر کاظمی

دیباچہ

-۱-

میں سکول میں پڑھتا تھا۔ نیا نیا شعر کہنا شروع کیا تھا۔ ایک محبوب مشغلہ پاپا کی غیر موجودگی میں، ان کے کمرے میں، ہر قسم کے نئے اور پرانے رسالے ’کھنگالنا‘ تھا (غیرنصابی کتابیں پڑھنے کا دور ابھی نہیں آیاتھا)۔ ایک روز ’نیا دور‘ کے دو مختلف شماروں میں پاپا کی کئی غزلیں ایک ساتھ ملیں۔ ان کے بارے میں انوکھی بات یہ تھی کہ یہ سب کی سب ایک ہی زمین میں تھیں۔ حیرت ہوئی کہ پاپا، جو ایک غزل میں ایک ہی قافیہ ایک سے زائد بار باندھنے سے گریز کرنے کو کہا کرتے تھے، خود ایک ہی زمین میں اتنی غزلیں لکھ گئے، اور کئی قافیے کئی کئی دفعہ استعمال کیے۔ اچنبھے کی دوسری بات یہ تھی کہ ان غزلوں کی زبان اتنی سادہ تھی کہ ’پہاڑ اور گلہری‘ اور ’گائے اور بکری‘ کی یاد تازہ ہو جاتی تھی اور لب و لہجہ روزمرہ گفتگو کے اتنا قریب کہ لگتا تھا جیسے نثر کو اوزان کا پابند کر دیا گیا ہو۔ شعر کہنا بہت آسان دکھائی دینے لگا۔ کئی بار تو بے اختیار ہنسی بھی آگئی:

سینے پر دو کالی کلیاں
پیٹ کی جھیل میں کنول کھلا تھا

پاپا ریڈیو سٹیشن سے لوٹے تو میں نے انھیں دیکھتے ہی کہا، ’’کچھ غزلیں پڑھیں آج۔ اوپر آپ کا نام تھا۔ آپ ہی کی ہیں؟‘‘

’’ہاں ہاں میری ہیں۔ بالکل میری —- کیوں؟‘‘ انہوں نے رسالے دیکھتے ہوئے کہا اور سٹپٹا کر مجھے دیکھنے لگے۔ پہلے تو انھیں خیال ہوا کہ شاید میں مذاق کر رہا ہوں لیکن پھر مجھے انتہائی سنجیدہ پاکر انھیں تشویش ہونا شروع ہوئی کہ کل تک تو برخوردار بھلا چنگا تھا۔

’’بہت سیدھی سیدھی غزلیں ہیں —- پھیکی پھیکی —- کچھ زیادہ ہی آسان اور سادہ‘‘ میں نے ڈرتے ڈرتے کہنا شروع کیا۔ ’کوئی بھی لکھ سکتا ہے —- بات نہیں بنی۔‘‘

اب سوچتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں کہ ناصر کاظمی سے یہ بات اور وہ بھی’ پہلی بارش‘ کے بارے میں، اس اندازسے —- میں نے کہہ دی ؟! پھر اپنی جہالت کو معصومیت کا نام دے کر دل کو تسلی دیتا ہوں۔ نابالغ، نماز روزے کے علاوہ بھی بہت سی پابندیوں سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ ان کے لیے حدود میں رہنا ناممکن ہوتا ہے کیونکہ وہ حدود سے واقف ہی نہیں ہوتے۔ جہاں تک بیباکی کا تعلق ہے تو ناواقفیت بھی اس کا اتنا ہی اہم منبع ہے جتنا کہ علم (اگرچہ جو جرأت لاعلمی سے پھوٹے وہ گستاخی اور ہٹ دھرمی کہلاتی ہے اور جو علم کے نتیجے میں پیدا ہو وہ خوداعتمادی اور یقین کی علامت خیال کی جاتی ہے)۔ پھر نابالغوں اور ناواقفوں کو ایک اور رعایت بھی تو حاصل ہے۔ علم کا باب وا کرنے کی ایک کلید بیباکی ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ جاننے اور سیکھنے میں شرم محسوس نہ کرو۔ پاپا بھی یہی تلقین کیا کرتے تھے۔ سوالوں کے جواب چاہو اور جواب سن کر سوال کرو۔ سوال کتنے ہی مضحکہ خیز اور بچگانہ کیوں نہ ہوں۔

تو ذکر تھا ’پہلی بارش‘ کی غزلوں کا۔ میری بات پر پاپا کا رد عمل ایسا تھا گویا وہ کچھ بتانے یا سمجھانے بلکہ کچھ بھی کہنے کو بے سود سمجھ رہے ہوں۔

مذکورہ واقعے کے کئی برس بعد اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے جب پاپا نے اپنا کلام اکٹھا کرکے ترتیب دینا شروع کیا تو میں نے دیکھا کہ ایک ڈائری کے پہلے صفحے پر ’پہلی بارش‘ جلی حروف میں لکھا ہوا تھا اور اگلے اوراق میں ویسی ہی ہم زمین غزلیں۔ پاپا یہ غزلیں ایک پرانی ڈائری (جو میرے پاس اب بھی محفوظ ہے) سے نقل کر رہے تھے۔ اس پرانی ڈائری میں یہ غزلیں من و عن اسی طرح لکھی ہوئی تھیں جیسے میں رسالے میں پڑھ چکا تھا۔ مگر اب کئی اشعار قلم زد یا تبدیل کیے جا چکے تھے، کچھ نئے اشعار کا اضافہ کر دیا گیا تھا اور دو تین غزلیں خارج کردی گئیں تھیں۔ اب مجھے محسوس ہوا کہ یہ مجموعہ غزلوں کے ان مجموعوں سے بہت مختلف تھا جن سے میری آشنائی تھی۔ میں نے پاپا سے کہا کہ وہ اسے چھپوا کیوں نہیں دیتے تو ان کا جواب صرف اتنا تھا، ’’ابھی لوگ اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘‘

پاپا اکثر ہم سے، ہماری عمر کے اس دور کے مطابق جس سے ہم گزر رہے ہوتے، سوال کیا کرتے، ہمارا امتحان لیا کرتے۔ ایک روز رات کو اپنے لکھنے پڑھنے کے اوقات میں مجھے بلایا اور کہا، ’’اس شعر کے کیا معنی تمھاری سمجھ میں آتے ہیں؟‘‘

دل کی صورت کا اک پتّہ
تیری ہتھیلی پر رکھا تھا

میں سوچنے لگا۔ پان کا پتّہ میرے ذہن میں آ رہا تھا لیکن غزل کے شعر کے معنی، ایک پہیلی کے حل کی طرح بتاتے ہوئے ڈر لگ رہا تھا۔

’’دل کی صورت کا پتہ نہیں دیکھا کبھی؟‘‘

’’پان!‘‘ میں نے فوراً جواب دیا۔

’’ٹھیک۔ اب اس شعر کو دیکھو:

کاغذ کے دل میں چنگاری

خس کی زباں پر انگارہ تھا‘‘

’’سگریٹ۔ ماچس۔‘‘

’’خوب اب یہ شعر:

چاند کے دل میں جلتا سورج

سورج کے دل میں کانٹا تھا‘‘

یہ ’پہیلی‘ میں نہ بوجھ سکا۔ آخر انہوں نے خود ہی بتایا: ’فرائڈ انڈا‘۔

میں بہت محظوظ ہوا۔’ ’تو کیا یہ پہیلیاں ہیں؟‘‘

’’ہاں۔ پہیلیاں بھی۔‘‘ وہ مسکرانے لگے۔

یہ ’بھی ‘ وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ میرے لیے اہم سے اہم تر ہوتا چلا گیا۔ ہر شے اپنے علاوہ (یعنی جو کچھ وہ دکھائی دیتی ہے یا سمجھی جاتی ہے، اس کے علاوہ) اور ’بھی‘ بہت کچھ نظر آتی۔ پاپا کا یہ شعر ہر وقت ذہن میں پھرنے لگا:

پھول کو پھول کا نشاں جانو

چاند کو چاند سے اُدھر دیکھو

پھر ایک روز دل کی صورت کا پتّہ ایک ہتھیلی پر رکھا دیکھا۔ سربکف لوگوں کے بارے میں تو سنا تھا، دل بدست بھی دیکھ لیا۔ پھر ’چاند‘ کے دل میں جلتا سورج، ’سورج‘ کے دل میں کانٹا، کاغذی پیکر کے دل میں چنگاری اور ’خس‘ کی زباں پر انگارہ بھی دیکھا۔ اب ان اشعار میں پہیلیاں کم اور کہانیاں زیادہ نظر آنے لگیں۔ میری حیرت کے صحرا میں ’پہلی بارش‘ سے نت نئے گل ہائے معانی کھِلے۔ جن باتوں پر پہلے ہنسی آتی تھی، اب آنسوؤں کے دریا بہتے۔ میر پر پاپا کا مضمون جو کبھی ’سویرا‘ میں شائع ہوا تھا (اور اب ان کے نثری مجموعے، خشک چشمے کے کنارے میں شائع ہوا ہے)، پڑھا۔ اس شعر: ’یاں پلیتھن نکل گیا واں غیر/ اپنی ٹکی لگائے جاتا ہے‘ کے حوالے سے پاپا کی خیال آرائی پڑھ کر مجھے اپنا پہلی بار ’پہلی بارش‘ پڑھنا بہت یاد آیا۔ لکھتے ہیں:’ ’بظاہر یہ شعر آدمی کے سستے اور عمومی جذبات کو اس قدر برانگیختہ کر سکتا ہے کہ معقول قاری بھی ان کی رو میں بہہ کر اس طرح قہقہے لگانے لگے کہ اسے اپنے مبتذل ہونے پر کوئی شک نہ رہے، ردِعمل کے طور پر ایسا معقول قاری بالکل ویران ہو سکتا ہے اور انھی ویران لمحوں میں یہ شعر اپنا آپ دکھاتا ہے۔ اس میں بھونڈے قہقہوں کی گونج کے ساتھ وہ المناک تجربہ اپنی پوری شدت کے ساتھ سمویا ہوا ہے جس پر دھاڑیں مار مار کر رویا بھی جا سکتا ہے۔‘‘

’پہلی بارش‘، دوبارہ، سہ بارہ پڑھی۔ یوں لگا جیسے کتاب اب سمجھ میں آگئی۔ جس طرح کسی غزل کے اشعار اپنا جداگانہ وجود رکھتے ہوئے بھی آپس میں کسی طور منسلک ہوتے ہیں اسی طرح ’پہلی بارش‘ کی غزلیں بھی انفرادی طور پر مکمل غزلیں ہونے کے ساتھ ساتھ مل کر ایک وحدت کو تشکیل دیتی دکھائی دیں۔ یہ وحدت طویل نظم کے قریب کی کوئی چیز معلوم دی۔ ہر غزل گویا اس نظم کا ایک بند تھی جس کے اشعار ایسے مربوط نظر آئے جیسے کسی زینے کے مدارج یا کسی منزل کے مراحل ۔ ایسا محسوس ہوا گویا شاعر کوئی کہانی سنا رہا ہو۔ بار بار پڑھنے پر یہ کہانی واضح ہوتی چلی گئی۔

-۲-

صدیوں پرانی روایت ہے کہ شعراء (مغربی ومشرقی) طویل نظم کی ابتدا خدا یا دیوی دیوتاؤں (اپنے اپنے ایمان یا اعتقاد کے مطابق) سے خطاب کر کے کرتے ہیں۔ ’پہلی بارش‘ اور روایتی طویل نظم کا ایک اور مشترک وصف، آغاز ہے:

میں نے جب لکھنا سیکھا تھا

پہلے تیرا نام لکھا تھا

اس شعر کے بارے میں پاپا خود کہا کرتے تھے کہ اس کا شمار چند بہترین حمدیہ اشعار میں ہو گا۔

اس کے علاوہ پہلی غزل ’کہانی‘ کے ’مرکزی کردار‘ کا تعارف بھی ہے۔ شروع ہی میں پڑھنے والا جان لیتا ہے کہ یہ ایک ایسے تخلیقی شخص کی کہانی ہے جو اللہ کو ماننے والا اور اس کی کتاب کا بغور مطالعہ کرنے والا ہے۔ اللہ ہی کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے وہ قرآنی آیات پڑھ کر اوندھے منہ گر نہیں جاتا (اندھا دھند ایمان نہیں لے آتا) بلکہ تدبر کرتا ہے اور غور و فکر کے ذریعے ان آیات کو اپنے رگ و پے کا حصہ بناتا ہے۔ وہ آدم کے مقام اور کائنات میں اس کے کردار سے بخوبی واقف ہے:

میں وہ صبرِ صمیم ہوں جس نے

بارِ امانت سر پہ لیا تھا

میں وہ اسمِ عظیم ہوں جس کو

جن و ملک نے سجدہ کیا تھا

یہ شخص نہ صرف اللہ سے سوال کرنے بلکہ شکوہ کرنے کی بھی جرأت رکھتا ہے:

تو نے کیوں مِرا ہاتھ نہ پکڑا

میں جب رستے سے بھٹکا تھا

پہلی بارش بھیجنے والے

میں تِرے درشن کا پیاسا تھا

یہ اشعار غزلوں کے اس سلسلے میں بیان کی جانے والے کہانی کے موضوع کی طرف بھی ایک واضح اشارہ ہیں۔

یہاں اگر میں یہ کہوں کہ پاپا کی اپنی شخصیت بھی کچھ ایسی ہی تھی تو بے جانہ ہو گا ۔ اپنے دعوے کی حمایت میں اُنہی کے دو بیانات درج کرتا ہوں۔ ’سویرا‘ کے ایک مذاکرے میں ’میرا ہم عصر‘ (مطبوعہ، ’خشک چشمے کے کنارے‘) کے تحت لکھتے ہیں، ’’۔۔۔ میں عصر کے قرآنی معانی پر توجہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ اب اگر سلیم احمد صاحب یہ اعتراض کریں کہ میں ادب کے معاملے میں قرآن مجید کو بیچ میں کیوں لاتا ہوں تو میری گزارش ہے کہ میں قرآن کو ادب سمجھ کر پڑھتا ہوں اور اپنی زبان کے بعض لفظوں کے اصل معانی پر اس لیے بھی زور دیتا ہوں کہ دورِ غلامی نے ہماری قومی علامتوں کا اس قدر مذاق اڑایا ہے کہ اب ہم ہر معاملے میں اہلِ مغرب کے دست نگر ہو کر رہ گئے ہیں۔ مثال کے طور پر مولوی، مولانا، حضرت، یہ الفاظ مغرب زدہ لوگوں کے لیے محض گالی یا پھبتی کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘

اپنی زندگی کے آخری ایام میں ٹیلیویژن کے لیے انتظار حسین کو انٹرویو دیتے ہوئے، غزل سنانے کی فرمائش کیے جانے پر انہوں نے کہا: ’’۔۔۔ لایئے تمھیں کچھ شعر سنا دیتا ہوں ۔ یہ غزل، اس میں تھوری سی خطابت ہے؛ مگر یہ ہے کہ بعض وجوہ سے مجھے پسند ہے؛ کہ طلوع و غروب کے مناظر ہیں؛ حیرت و عبرت، کہ دنیا میں کیا ہوتا ہے؛ کس طرح چیزیں ڈوبتی ہیں، ابھرتی ہیں؛ کس طرح صبح شامیں ہوتی ہیں؛ اور کچھ قرآنِ کریم کے پڑھنے والوں کے لیے بھی —- یہ کچھ دو چار شعر میں عرض کردیتا ہوں:

سازِ ہستی کی صدا غور سے سن

کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سن

دن کے ہنگاموں کو بیکار نہ جان

شب کے پردوں میں ہے کیا غور سے سن

کیوں ٹھہر جاتے ہیں دریا سرِشام

روح کے تار ہلا غور سے سن

یاس کی چھاؤں میں سونے والے

جاگ اور شورِ درا غور سے سن

کبھی فرصت ہو تو اے صبحِ جمال

شب گزیدوں کی دعا غور سے سن

کچھ تو کہتی ہیں چٹک کر کلیاں

کیا سناتی ہے صبا غور سے سن

برگِ آوارہ بھی اک مطرب ہے

طائرِ نغمہ سرا غور سے سن

دل سے ہر وقت کوئی کہتا ہے

میں نہیں تجھ سے جدا غور سے سن

(برگِ نے)

یہاں اگر کوئی یہ کہے کہ شاعر کی شخصیت اور اس کے نظریات اور عقائد کی روشنی میں اس کے کلام کو دیکھنا، بے لاگ (objective) مطالعے کے تقاضوں کے خلاف ہے تو میں جواب میں پاپا ہی کے الفاظ پیش کروں گا۔ مذکورہ بالا انٹرویو ہی میں انہوں نے کہا تھا، ’’بات یہ ہے کہ جس طرح عطر کی شیشی آپ کھولتے ہیں تو خوشبو آپ کو آتی ہے؛ تو پھول اور باغ تو کہیں نظر نہیں آتے؛ تو شاعری میں میری، یہ تمام واقعات براہِ راست تو آپ کو نظر نہیں آئیں گے، البتہ یہ ہے کہ وہ جو یادیں ہیں، جو زمانہ تھا ہماری غلامی کا، اور جس میں ہم جینے کے لیے کوشش کر رہے تھے، ان کی تگ و دو کومیری شاعری کے آہنگ میں، رنگوں میں، لفظوں میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔‘‘ آگے چل کر اس سوال کے جواب میں کہ تمھارا کمٹمنٹ (commitment) کیا ہے، انہوں نے کہا، ’’—- کمٹمنٹ ،میں نے اس طرح بعض بیانات کی صورت میں تو شاید بہت کم کیا ہو، لیکن میرے کلام میں آپ کو —- میرا تو خیال ہے کہ میں نے جو لفظ لکھا ہے وہ کمٹمنٹ سمجھ کر لکھا ہے۔ پاکستان کی پچیس سالہ تاریخ کو آپ دیکھیں اور میرے کلام کو دیکھیں تو ضرور اس میں وہ چیزیں دھڑکتی ہوئی نظر آئیں گی۔‘‘

سجاد باقر رضوی کی کتاب کے دیباچے، ’شہری فرہاد‘ میں وہ لکھتے ہیں، ’’شاعر کی شاعری اور اس کے نظریات کی ملاقات کسی مقام پر تو ہونی چاہیے۔ اس ضمن میں باقاعدہ مثالیں تو مغرب کے ادب ہی میں ملیں گی لیکن اردو ادب بھی ایسی مثالوں سے خالی نہیں ۔ میرؔ نے اپنے تذکرے میں، غالبؔ نے اپنے خطوط میں، حالیؔ نے مقدمہ شعر و شاعری میں، پھر ہمارے زمانے میں فراقؔ صاحب نے اپنے مضامین میں شاعری کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، ان کا عکس ان کی شاعری میں بھی موجود ہے —- شاعر اپنے نظریات کو مسلسل تجربات، مشاہدات اور مطالعے کے بعد مرتب کرتا ہے اور شاعری میں انھیں ذائقہ بنا دیتا ہے۔ شاعر کا مطالعہ اور اس کے نظریات خام لوہے کی طرح ہوتے ہیں جو شعر میں دمِ شمشیر بن کر اپنا جوہر دکھاتا ہے۔‘‘

یہاں یہ باتیں، ممکن ہے کچھ لوگوں کو غیر متعلقہ لگیں لیکن میرے خیال میں ان کا ذہن نشین ہونا نہ صرف ’پہلی بارش‘ بلکہ ناصر کاظمی کی پوری شاعری کو سمجھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے

-۳-

وہ کوئی اپنے سوا ہو تو اس کا شکوہ کروں

جدائی اپنی ہے اور انتظار اپنا ہے

(دیوان)

’پہلی بارش‘ کے شاعر کی کہانی یہ بتاتی ہے کہ انسان اس دنیا میں نہ صرف اکیلا آتا ہے اور یہاں سے اکیلا جاتا ہے ، بلکہ وہ یہاں رہتا بھی اکیلا ہی ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد، اپنے اندر جھانک کر، اپنی ذات کی مسلسل نشوونما (یازکا) کرتے رہنے سے ہی وہ سکون کی منزل (یا جنّت) تک پہنچ سکتا ہے۔ انسان کی ضرورتیں اسے دوسروں کے پاس بھی لے جاتی ہیں اور ان سے جدا بھی کرتی ہیں۔ ہر تعلق اور دوستی کی ایک میعاد ہوتی ہے ۔یہ میعاد تمام عمر پر بھی محیط ہوسکتی ہے، بشرطیکہ فریقین ایک دوسرے کی نشوونما میں اضافے کا باعث بنتے رہیں (اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اپنی نشوونما کے لیے بھی کوشش کرتے رہیں۔ ظاہر ہے جو خود رک گیا، وہ کسی کو کیا آگے بڑھائے گا)۔ لیکن جب روز کے ملنے والے دوست ایک دوسرے کی نشوونما میں مزیدکوئی کردار ادا نہیں کرسکتے تو ان کا ملنا کم ہونے لگتا ہے ۔ انھیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہو رہے ہیں یا ہو چکے ہیں:

دوست بچھڑتے جاتے ہیں

شوق لیے جاتا ہے دُور

(برگِ نے)

———-

اب اُن سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ناصِر

وہ ہم نوا جو مِرے رتجگوں میں شامل تھے

(دیوان)

محبت کا معاملہ اس سے کچھ مختلف نہیں۔ محبوب کے بغیر ایک پل نہ جی سکنے والا، یوں بھی سوچتا ہے:

یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عُمر

جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو

(دیوان)

———-

شوق کیا کیا دکھائے جاتا ہے

دل تجھے بھی بھلائے جاتا ہے

(دیوان)

اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ:

رشتہِ جاں تھا کبھی جس کا خیال

اُس کی صورت بھی تو اب یاد نہیں

(برگِ نے)

وہ رشتہ جو ازخود، بتدریج اور غیر محسوس طور پر ٹوٹے؛ وہ دوستی جو اپنے تمام امکانات کو چھان ڈالے، Explore اور Exhaust کر لے، اس کا دکھ یا ملال نہیں ہوتا، لیکن جو تعلق ادھورا رہ جائے؛ درمیان میں کسی حادثے، رنجش، بدگمانی، غلط فہمی، رقابت یا ’ظالم سماج‘ کی وجہ سے منقطع ہو جائے، بہت تڑپاتا ہے:

کہاں ہے تو کہ تِرے انتظار میں اے دوست

تمام رات سلگتے ہیں دل کے ویرانے

(برگِ نے)

————-

یاد آتا ہے روز و شب کوئی

ہم سے روٹھا ہے بے سبب کوئی

(برگِ نے)

’پہلی بارش‘ کے آغاز میں کیفیت ’تو من شدی، من توشدم‘ کے مصداق نظر آتی ہے۔ دو روحوں کا پیاسا بادل گرج گرج کر برستا ہے، دو یادوں کا چڑھتا دریا ایک ہی ساگر میں گرتا ہے اور دل کی کہانی کہتے کہتے رات کا آنچل بھیگ جاتا ہے۔ سفر کی رات خوشبو کے جھونکے کی مانند گزر جاتی ہے۔ دن کی ٹھنڈی دھوپ میں، ’’تیری ہلال سی انگلی پکڑے / میں کوسوں پیدل چلتا تھا‘‘ اور پچھلے پہر کے سناٹے میں، ’’تیرے سائے کی لہروں کو / میرا سایا کاٹ رہا تھا‘‘، غرض، ’’وقت کا ٹھاٹھیں مارتا ساگر / ایک ہی پل میں سمٹ گیا تھا‘‘، لیکن فراق کی منزل دور نہ تھی:

کیسی اندھیری شام تھی اس دن

بادل بھی گھر کر چھایا تھا

رات کی طوفانی بارش میں

تو مجھ سے ملنے آیا تھا

بھیگی بھیگی خاموشی میں

میں تِرے گھر تک ساتھ گیا تھا

ایک طویل سفر کا جھونکا

مجھ کو دُور لیے جاتا تھا

یہ کیسی خاموشی ہے؟ کیا باتیں ختم ہو گئیں؟ کیا تمام یادوں اور سپنوں کا تبادلہ ہو چکا؟ یا یہ باتوں کے درمیان محض ایک وقفہ ہے؟

یہ کیسا سفر ہے؟ غمِ روزگار کی مجبوری، زمانے کی عائدکردہ پابندی یا ذات کی داخلی احتیاج؟ اگلی غزل میں ان سارے سوالوں کے جواب مل جاتے ہیں۔ مطلع میں ’دوبارہ‘ کا لفظ بہت اہم ہے۔ یہاں اس کا مطلب دوسری بار نہیں بلکہ ایک با معنی (significant) وقفے کے بعد آنا ہے۔ گھر وہی، شام کا تارا وہی، رات وہی، سپنا وہی، مگر اب ’تیرے‘ لیے لمبی تان کر پہروں سونا ممکن ہے ]اس کے برعکس ’’تیری نیند بھی اڑی اڑی تھی‘‘ (غزل نمبر2)[ ۔’مجھ ‘سے بے نیاز ہونے کے عمل میں یہ مقام آچکا ہے۔ پھر اس نیند کو بھی’ ’ایک انوکھے وہم کا جھونکا‘‘ اُڑا اُڑا دیتا ہے اور ایک دن یہ، وہم ’تجھ‘ کو گھیر لیتا ہے اور ’تو‘، ’مجھ‘ کو سوتا چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔

لیکن یہ وہم کیا تھا؟ ایک نظر یہ یہ ہے کہ ہر خیال وہم ہوتا ہے —- ’’یہ توہم کا کارخانہ ہے / یاں وہی ہے جو اعتبار کیا‘‘ —- جبکہ دوسرے زاویے سے دیکھیں تو وہم بھی ایک خیال ہی ہوتا ہے۔ دراصل ہم وہی دیکھتے ہیں جو دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہر بات کے دو رُخ ہوتے ہیں۔ جب ہم کسی سے دُورہوناچاہتے ہیں تو اُس کی باتوں کے وہی معانی ہماری سمجھ میں آتے ہیں جو ہمارے اور اس کے درمیان فاصلہ بڑھاتے ہوں (چاہے وہ ہمیں دل و جان سے چاہتا ہو) بصورتِ دیگر وہ معانی جو ہمیں اس کے قریب لے جاتے ہوں (خواہ وہ ہم سے کتنا ہی بیزار ہو)۔ اُس کے دل کی بات ہمیں بہت بعد میں پتا چلے گی۔ ’پہلی بارش‘ میں بھی آخری غزل میں ایک ایسا ہی انکشاف ملتا ہے:

تیرا قصور نہیں میرا تھا

میں تجھ کو اپنا سمجھا تھا

————-

اب میں سمجھا اب یاد آیا

تو اُس دن کیوں چپ چپ سا تھا

سو یہ اہم نہیں کہ یہ وہم کیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ربط ٹوٹ چکا ہے۔ اس کا علم ابھی پوری طرح اس لیے نہیں ہوا کیونکہ جسمانی فاصلہ ابھی کم ہے۔ ایک مثال اس بات کی وضاحت کر سکے گی۔ اگر دو برابر کے پہیے، ایک ٹائی راڈ (tie-rod) سے جڑے، ایک ہموار اور سیدھے راستے پر چلے جا رہے ہوں اور یہ ٹائی راڈ ٹوٹ جائے (بغیر جھٹکے کے) تو تب بھی وہ ساتھ ساتھ اسی طرح چلتے جائیں گے اور کسی کو یہ احساس نہیں ہو گا کہ ان کا آپس میں تعلق منقطع ہو چکا ہے۔ ذرا کہیں ناہموار سطح آئی اور یہ دونوں یا تو آپس میں ٹکرائے یا پھر مخالف سمتوں میں لڑھک کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔ اگرچہ گھومتے گھومتے وہ دوبارہ بھی ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں لیکن ملنے کے لیے نہیں بلکہ پھر بچھڑنے کے لیے۔

دوسری قابلِ غور بات یہ ہے کہ ’میری ‘کیفیت میں ہنوز کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ’تو‘ نے ممکن ہے خوب تجزیے اور غوروفکر کے بعد رختِ سفر باندھا ہو لیکن میرے خیال میں تجھے وہم ہی ہوا ہے۔ تیرے آنے پر میں ’تیرا‘ منتظر تھا اور ’وہی‘ سپنا دیکھ رہا تھا۔ تُو سو جاتا تو پہروں تجھے تکتا رہتا، تیری ایک صدا سنتے ہی گھبرا کر جاگ اٹھتا اور جب تک تجھ کو نیند نہ آ جاتی، تیرے پاس کھڑا رہتا؛ ماحول کو دلچسپ بنانے کی خاطر اور تیرے بیزار ہو جانے کے ڈر سے، نئی انوکھی بات سنا کر تیرا جی بہلاتا، اس آرزو میں اور اس امید پر کہ تیرے دل میں جانے کا خیال نہ آئے۔ میرے لیے وقت اتنی تیزی سے گزر گیا کہ ایک مہینہ ایک پل کے برابر محسوس ہوا۔ میرے لیے ابھی اس تعلق میں بہت کچھ باقی تھا، تیری طلب کم نہ ہوئی تھی، اسی لیے :

آنکھ کھلی تو تجھے نہ پا کر

میں کتنا بے چین ہوا تھا

———-

آج وہ سیڑھی سانپ بنی تھی

کل جہاں خوشبو کا پھیرا تھا

اگلی غزل ’میری‘ اور ’تیری‘ ان کیفیات کو مزید نمایاں کرتی ہے:

تجھ بِن گھر کتنا سُونا تھا

دیواروں سے ڈر لگتا تھا

بھُولی نہیں وہ شامِ جدائی

میں اُس روز بہت رویا تھا

تجھ کو جانے کی جلدی تھی

اور میں تجھ کو روک رہا تھا

’تجھ‘ سے بچھڑ کر ’میری‘ حالت غیر ہو جاتی ہے۔ طرح طرح کے خیال ستاتے ہیں۔ سناٹے میں کوئی دُور سے آوازیں دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ باہر کے مناظر کچھ کے کچھ دکھائی دیتے ہیں۔ نیند بھی خوف اور وسوسوں سے خالی نہیں ہوتی۔ بارھویں غزل میں ایسے ہی ایک فریبِ خیال (hallucination) یا ڈراؤنے خواب کا بیان ہے۔

تیرھویں غزل میں کہانی کا مرکزی کردار یا’ہیرو‘ تنہائی کے آتش دان میں لکڑی کی طرح جلتا دکھائی دیتا ہے۔ اپنی خوشی اور تسکین کے لیے وہ اپنے سے باہر دیکھنے کا عادی اور محتاج ہے۔ ابھی اس نے اپنے اندر جھانکنا شروع نہیں کیا۔ اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ دوزخ اس مقام کو بھی کہتے ہیں جہاں فرد یا معاشرے کی نشوونما رک جائے۔ اس وقت ’ہیرو‘ کی یہی کیفیت ہے۔ اسے جینا محال نظر آتا ہے —- ’’دم ہونٹوں پر آ کے رُکا تھا / یہ کیسا شعلہ بھڑکا تھا۔‘‘ زندگی میں اس کی کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی۔ اب اسے باہر بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا:

میری آنکھیں بھی روتی تھیں

شام کا تارا بھی روتا تھا

گلیاں شام سے بجھی بجھی تھیں

چاند بھی جلدی ڈوب گیا تھا

لیکن خوش قسمتی سے اس کا دم نکل نہیں جاتا بلکہ حیات سے اس کا رشتہ بحال ہو جاتا ہے:

قیامت رہا اضطراب اُن کے غم میں

جگر پھر گیا رات ہونٹوں تک آ کر

(میرؔ)

جاں کنی کے عالم میں اسے دوزخ کی ایک واضح جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ’آگ کے سپنے‘ سے ’ایک رسیلے جرم کا چہرہ‘ نمودار ہوتا ہے۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ زندگی جیسی نعمت سے لاپروائی برتنے کا مجرم بن رہا ہے۔ اسے اپنی وہ امکانی حالت نظر آتی ہے جو مسلسل، بے مقصد جلتے کڑھتے رہنے سے ہوسکتی ہے:

پیاسی لال لہو سی آنکھیں

رنگ لبوں کا زرد ہوا تھا

بازو کھنچ کر تیر بنے تھے

جسم کماں کی طرح ہلتا تھا

ہڈی ہڈی صاف عیاں تھی

پیٹ کمر سے آن ملا تھا

وہم کی دیمک نے چہرے پر

مایوسی کا جال بُنا تھا

جلتی سانسوں کی گرمی سے

شیشہِ تن پگھلا جاتا تھا

مایوسی جہنم کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ لفظ ابلیس؛ ’بلس‘ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں، مایوسی۔ ’ابلیس‘ وہ جو مایوس ہو گیا۔ وہ آدم کے ارض پر خلیفہ بنائے جانے پر مایوس (disappoint) ہوا؛ اور جو خود مایوس ہو جائے وہ دوسروں کو بھی مایوس کرتا ہے، ان کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے؛ اور جنھیں اس سے پناہ نہ مل سکے، جو اس کے بہکاوے میں آجائیں، ان کا مقدر بھی دوزخ ہے۔

’پہلی بارش‘ کا ہیرو اس انجام سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ وہ اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں جسمانی زندگی کی حدیں ختم ہونے لگتی ہیں اور موت دکھائی دینے لگتی ہے۔ سزا اور جزا کی منزل آجاتی ہے۔ اسے حیات بعدالموت کا وجود محسوس ہونے لگتا ہے۔ وہ ڈر جاتا ہے۔ اسے زندگی کا وقفہ بہت غنیمت نظر آتا ہے۔ اس کے اندر جینے کی شدید خواہش اور طلب پیدا ہوتی ہے —- ’’پیاسی کونجوں کے جنگل میں / میں پانی پینے اترا تھا۔‘‘

کونج یا قاز ایک ایسا پرندہ ہے جو موسمِ سرما میں گرم خطوں میں چلا آتا ہے ۔ ان کے غول کے غول دریا کے کناروں پر ملتے ہیں اور یہ قطار باندھ کر اڑتے ہیں۔ گویا یہ حرارت اورپانی یعنی حیات کے لیے ناگزیر عناصر کا طالب اور متلاشی رہتا ہے۔ ایک تخلیقی آدمی کی زندگی بھی تلاش اور جستجو سے عبارت ہوتی ہے۔ نادیدہ کے درشن کی پیاس اور ناآفریدہ کی تخلیق کی لگن اسے سرگرداں پھراتی ہے۔ یہ دنیا اس کے لیے ’پیاسی کونجوں کا جنگل‘ ہے۔ کونجوں اور تخلیقی انسانوں کی ہم سفری اور ہم نوائی کا ذکر، ناصر کاظمی اور انتظار حسین کے مکالمے، ’نیااسم‘ (مطبوعہ ’سویرا‘) کے پیش لفظ میں نہایت واضح اور بھرپور طور پر ملتا ہے :

’’جب چلتے چلتے ہنگامِ زوال آیا، دل نڈھال ہوا اور حال بے حال ہوا۔ ایک سوار نے سمندِ عزم کی باگ چھوڑی اور بولاکہ اس بیابان میں سفر بے اثر ہے، خاک پھانکنا بے ثمر ہے۔ خیال ترک کریں اور پلٹ کر بچھڑوں سے جا ملیں۔

ہم سفر بولا کہ جس راستے کو ہم نے چھوڑا وہ ہم پر بند ہوا۔ آگے کی راہیں کھلی ہیں، شوقِ سفر شرط ہے اور ہر قدم راستہ بھی ہے اور منزل بھی۔

انہوں نے باگیں سنبھالیں اور پھر چلنا شروع کر دیا۔ اوپر تانبا آسمان، نیچے چٹیل میدان، سنسان بیابان، دھوپ میں جلتے بلتے پتھریلے ٹیلے، ریت کے رستے، اکادکا بے برگ درخت، کوئی راہ گیر نظر نہ آیا کہ سراغ منزل کا لیتے اور پتا پانی کا پاتے۔ دُور کبھی دھول اڑتی نظر آتی تو خیال گزرتا کہ اس دشتِ بے آب میں اور مسافر بھی ہیں کہ اپنے طور کڑے کوسوں کا سفر کرتے ہیں۔

دن ڈھلنے لگا تو دلِ فزوں نڈھال ہوا۔ گلا پیاس سے خشک ہوا اور ابلق پسینے میں شرابور اور تھکن سے چور ہوئے کہ اتنے میں سرپہ پیاسی آوازوں کی لکیر ہویدا ہوئی ۔ دیکھا کہ قازوں کی ایک قطار ہے کہ قائیں قائیں چیختی ہے اور فضا میں تیرتی جاتی ہے۔ اس آواز کو انہوں نے غیب کی ندا جانا اور پانی کا پیغام سمجھا۔ گھوڑوں کو ایڑ دی اور قازوں کی ندا کے ہم رکاب یوں سرپٹ دوڑے کہ ابلقوں کی ٹاپوں سے دشت گونجا اور چنگاریاں اڑیں۔‘‘

یہ پیش لفظ مذکورہ غزل میں داخلے کا راستہ بن سکتاہے۔ اس غزل میں آگ کے مقابلے میں پانی دکھائی دیتا ہے۔ جھلستے اور جلتے رہنے کے بعد یہ پانی اسے اتنا ٹھنڈا لگتا ہے کہ اس کے ہاتھ دیر تک کانپتے رہتے ہیں۔ وہ پانی میں جھانکتا ہے تو اسے اپنے بھیتر کی گہرائیاں اور وسعتیں نظر آتی ہیں۔ اس کی آنکھیں جھانکتی ہی چلی جاتی ہیں۔ زندگی کے تقاضوں اور مرحلوں کے بارے میں سوچ سوچ کر اس کا جسم تھک کر چور ہو جاتا ہے۔ پانی اسے للکارتا ہے۔ پانی اتنا چپ چپ اور گم سم ہے گویا باتیں کر رہا ہو ](مجھ سے باتیں کرتی ہے / خاموشی تصویروں کی (دیوان)[۔ وہ پہلی بار اپنے آپ سے ہم کلام ہوتا ہے۔

اب وہ ایک نئے دیس میں اترتا ہے جہاں کا ’رنگ‘ (اس کے لیے) نیا ہے۔ یہاں ’دھرتی سے آکاش ملا تھا‘، جس کے معنی یہ ہیں کہ یہاں ارض و سما کے قوانین میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے؛ وہ ایک دوسرے میں سرایت (interpenetrate )کرتے ہیں (انسانوں نے ارض و سما کو ہمیشہ بالکل الگ الگ اور ایک دوسرے سے لاتعلق قرار دیا ہے، حالانکہ ارض و سما کے بہت گہرے رشتے ہیں۔ ہر طرح کی نعمتوں کا نزول سما سے ارض پر ہوتا ہے)۔ یہاں انسانوں کے لیے نہ صرف افقی بلکہ عمودی یا ارتفاعی ترقی کے لامتناہی اور لامسدود امکانات کھُلے ہیں۔ وہ جس حد تک چاہیں آگے جا سکتے ہیں اور جتنا چاہیں بلند ہوسکتے ہیں۔

یہاں دُور کے دریاؤں کا ’سونا‘، ہرے سمندر میں گرتا ہے۔ چلتی ندیاں ہیں اور گاتے نوکے۔ پانی کی بہتات کا یہ عالم ہے کہ سارا شہر گویا نوکوں ہی میں بسا ہے۔ یہاں پانی اور زندگی واضح اور مکمل طور پر ایک ہو جاتے ہیں۔ شاید’پانی‘ ہی کی طلب اسے یہاں لائی ہے۔ وہ ابھی تک تشنہ ہے —- ’’ہنستا پانی، روتا پانی / مجھ کو آوازیں دیتا تھا۔‘‘ نئے دیس میں اترنا ایک نئے جیون کا آغاز کرنے کے مترادف لگتا ہے۔ ’وہ گھر‘، ’وہ رات‘ اور ’وہ سپنا‘ اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ ’تیرا دھیان‘ مفلوج کرنے کی بجائے سہارا دیتا ہے۔ اسے زندگی کے دریا کی لہروں کامقابلہ کرنے کی جرأت اور شکتی دیتا ہے —- ’’تیرے دھیان کی کشتی لے کر/میں نے دریا پار کیا تھا۔‘‘

اس کے بعد وہ اک بستی میں اترتا ہے جو غالباً اسی نئے دیس میں ہے۔ سُرما ندی کے گھاٹ پہ جاڑے کا پہلا میلہ ہے۔ رقص و سرود کی محفل سجی ہے۔ کچھ یادیں اور کچھ خوشبو لے کر وہ اس بستی سے نکلتا ہے۔ لیکن:

تھوڑی دیر کو جی بہلا تھا

پھر تِری یاد نے گھیر لیا تھا

یاد آئی وہ پہلی بارش

جب تجھے ایک نظر دیکھا تھا

یاد آئیں کچھ ایسی باتیں

میں جنھیں کب کا بھول چکا تھا

اگلی غزل میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا ’تیرے‘ شہر سے پھر گزر ہوتا ہے۔ ہوا اتنی تیز اور اداس ہوتی ہے کہ اس کا چراغِ دل بجھا جاتا ہے۔ اس کا دل ہنوز سُونا ہے اور تنہائی پیاسی۔ جنت ابھی دور ہے۔ اسی عالم میں ’تجھ‘ سے مشابہ ایک مسافر ریل چلنے پر اس کے مقابل آبیٹھتا ہے۔ یہ مشابہت کچھ دیر کے لیے وجہِ تسکین بنتی ہے لیکن جدائی کا موڑ ہر سفر میں ہوتا ہے۔ ’تیری‘ طرح تیرا ’بدل‘ بھی بچھڑ جاتا ہے:

کوئی بھی ہمسفر نہ تھا شریکِ منزلِ جنوں

بہت ہوا تو رفتگان کا دھیان آ کے رہ گیا

(دیوان)

وہ شخص جس سے تعلق اپنی فطری انجام کو پہنچ کر ٹوٹا ہو، جس سے دوستی اپنے تمام امکانی مراحل طے کرچکی ہو، عرصہِ دراز کے بعد ملے تو ایک انجانی سی خوشی ہوتی ہے:

پھر ایک طویل ہجر کے بعد

صحبت رہی خوشگوار کچھ دیر

(برگِ نے)

کوئی نیا موضوع نہ بھی چھڑے، کوئی نئی بات نہ بھی ہو، یادیں ہی تازہ ہو کر نئی بہار دکھا دیتی ہیں۔ ماضی اتنی قوت اور شدت سے رگ و پے میں داخل ہوتا ہے کہ مردہ لمحے زندہ ہو جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے گویا کوئی کھوئی ہوئی قیمتی متاع پھر مل گئی ہو۔ حالانکہ دل نے کبھی اس سے دوبارہ ملنے کی تمنا نہیں کی ہوتی، پھر بھی اس سے ملاقات ہونے پر ایسی خوشی ہوتی ہے جیسے کوئی خواہش پوری ہو گئی ہو۔ ظاہر ہے، اس سے جدا ہونے پر کوئی زخم لگا ہوتا تو اب ہرا ہوتا۔ یادوں کے پھول ہوتے ہیں، مہک اٹھتے ہیں۔

اس کے برعکس، عجیب بات ہے کہ ایسا شخص جس کے فراق میں آدمی ماہیِ بے آب کی طرح تڑپتا رہا ہو، جس کی ایک جھلک دیکھنے کو آنکھیں پتھرا گئی ہوں، مل جائے تو رنج کم نہیں ہوتا۔ بقول حفیظ ہوشیارپوری:

اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے

تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے

’دیوان‘ میں بھی ایک شعر ہے:

تجھ سے مل کر بھی دل کو چین نہیں

درمیاں پھر وہی سوال پڑا

Heraclitus نے کتنا درست کہا ہے: ’’ہم ایک ہی دریا میں دو بار قدم نہیں رکھ سکتے۔‘‘ وقت ہر لحظہ ہم میں اور کائنات میں تبدیلیاں لاتا چلا جاتا ہے۔ ہمیں پرانی قیود سے رہا کر کے نئے تقاضوں کی زنجیروں میں باندھ دیتا ہے۔ ہمارے شوق، حاجتیں، پسند نا پسند بدلتے رہتے ہیں مگر وہ تعلق جو ادھورا رہ جاتا ہے، ویسے کا ویسا رہتا ہے۔ جو دوست بچھڑ جاتا ہے، ہمیں اسی طرح یاد رہتا ہے جیسا کہ وہ تھا۔ وہ ہمارے ذہنوں میں پروان نہیں چڑھتا۔ چنانچہ جب ہم اس سے ملتے ہیں تو وہ حقیقت میں تو کچھ کا کچھ ہوچکا ہوتا ہے لیکن ہماری نظریں اُسی کو ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں جس سے ہم جدا ہوئے تھے۔ وہ کہیں ہو تو ملے۔ رنج اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس کے ملنے کی جو ایک موہوم سی امید ہوتی ہے وہ بھی دم توڑ دیتی ہے۔ وہ مل کر بھی نہیں ملا:

کوئی اور ہے نہیں تو نہیں مرے روبرو کوئی اور ہے

بڑی دیر میں تجھے دیکھ کر یہ لگا کہ تو کوئی اور ہے

(دیوان)

اب یہ اور بات ہے کہ ہم اس ملاقات میں دل کی تسلی کے لیے بھی کوئی پہلو ڈھونڈ لیں:

دیارِ دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا

ملا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دکھا گیا

(دیوان)

مگر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ آمنا سامنا ملاقات نہیں کہلا سکتا اور اگر اسے ملاقات کہا بھی جائے تو بھی:

چاند نکلا تھا مگر رات نہ تھی پہلی سی

یہ ملاقات ملاقات نہ تھی پہلی سی

(دیوان)

اور دو چار بار ایسا ’آمنا سامنا‘ اور ہو جائے تو کیفیت بالآخر یہ ہو جاتی ہے:

برابر ہے ملنا نہ ملنا ترا

بچھڑنے کا تجھ سے قلق اب کہاں

(برگِ نَے)

’پہلی بارش‘ کے مرکزی کردار کو بھی ایسی ہی ایک اتفاقی اور غیر متوقع ’ملاقات ‘ کا بھرپور تجربہ ہوتا ہے:

پل پل کانٹا سا چبھتا تھا

یہ ملنا بھی کیا ملنا تھا

کتنی باتیں کی تھیں لیکن

ایک بات سے جی ڈرتا تھا

تیرے ہاتھ کی چائے تو پی تھی

دل کا رنج تو دل میں رہا تھا

کسی پرانے وہم نے شاید

تجھ کو پھر بے چین کیا تھا

میں بھی مسافر تجھ کو بھی جلدی

گاڑی کا بھی وقت ہوا تھا

اک اجڑے سے اسٹیشن پر

تو نے مجھ کو چھوڑ دیا تھا

———–

تیرے ساتھ ترے ہمراہی

میرے ساتھ مرا رستا تھا

رنج تو ہے لیکن یہ خوشی ہے

اب کے سفر تِرے ساتھ کیا تھا

وہ ملاقات کی بدلی ہوئی نوعیت سے نہ صرف پوری طرح واقف ہو جاتا ہے بلکہ اسے قبول کر لیتا ہے اور محض کچھ دیر کی جسمانی ہمراہی کو غنیمت جانتا ہے ۔ وہ جان چکا ہے کہ ہم سفری کی آرزو نہ صرف بے سود بلکہ باعثِ رنج بھی ہے۔

تعلق کی اصل نوعیت کا شعور، اپنی داخلی اور خارجی تبدیلیوں کا علم اور قبولیت اسے دوزخ سے مکمل طور پر نکال لیتے ہیں۔ اس آگہی کی بدولت اسے ’’جنت کا نقشہ‘‘ دکھائی دیتا ہے جہاں ہریالی ہی ہریالی ہے، نور ہی نور، رس ہی رس، مٹھاس ہی مٹھا س؛ جہاں کوئی وسوسے پیدا کرنے والا نہیں بلکہ ’’سایا سایا راہ نما‘ ‘ہے۔ جہاں ’’گاتے پھول‘ ‘ہیں اور ’’بلاتی شاخیں ‘ ‘ہیں اور ’’پتا پتا دستِ دعا ہے‘‘۔

اور یہ جنت اسے جلد ہی مل بھی جاتی ہے۔ تنہائی میں دریا دریا روتے ہوئے اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ ’’تنہائی کا تنہا سایا‘‘ دیر سے اس کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ اسے خیال آتا ہے کہ جب سارے ساتھی چھوڑ گئے تھے تو تنہائی کا پھول کھلا تھا۔ تنہائی میں یادِ خدا بھی تھی اور خوفِ خدا بھی۔ تنہائی محربِ عبادت بھی تھی اور منبر کا دیا بھی؛ اس کا پائے شکستہ بھی تھا اور دستِ دعا بھی۔ غرض اس کا سب کچھ تنہائی میں تھا، اس کاسب کچھ تنہائی تھی۔ وہ جنت جسے وہ باہر ڈھونڈ رہا تھا، اس کے دل میں چھپی تھی۔ وہ تسلیم کر لیتا ہے کہ وہ تنہا تھا اور تنہا ہے۔ اس کے دل کی جنت تنہائی ہے۔

جنت کی دریافت اور حصول کے بعد وہ ’تجھ‘سے اپنے تعلق کا ایک بار پھر جائزہ لیتا ہے۔ اب اسے یہ رشتہ اپنے صحیح رنگوں میں نظر آتا ہے۔ وہ اعتراف کرتا ہے کہ قصور اس کا ہی تھا جو وہ ’تجھ ‘ کو اپنا سمجھا تھا۔ اب پتا چلا کہ’ ’وہ سب کچھ ہی دھوکا تھا،‘‘ حقیقت کچھ اور ہی تھی۔ آخر میں وہ اپنی ’تقدیر‘ کو قبول کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے:

وہی ہوئی ہے جو ہونی تھی

وہی ملا ہے جو لکھا تھا

دل کو یونہی سا رنج ہے ورنہ

تیرا میرا ساتھ ہی کیا تھا

کس کس بات کو روؤں ناصر

اپنا لہنا ہی اتنا تھا

لیکن اس سے یہ مطلب نہیں نکالا جا سکتا کہ وہ اس بات کا قائل ہے کہ کائنات میں ازل سے ابد تک جو کچھ ہونا ہے وہ پہلے سے طے شدہ ہے، لکھا جا چکا ہے اور اس میں کوئی تبدیلی یاترمیم نہیں کی جاسکتی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس نے پہلی ہی غزل میں کہا تھا، اور وہ بھی خدا کو مخاطب کر کے کہ وہ ایسا صبرِ صمیم ہے جس نے اپنی مرضی سے، اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے بارِ امانت سر پہ لیا تھا۔ وہ جانوروں کی طرح ایک ہی بات کرنے پر، ایک ہی راہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں۔ اسے انتخاب کرنے کا استحقاق (privilege) حاصل ہے۔ وہ ایسا اسمِ عظیم ہے جس کو جِن و ملک نے سجدہ کیا تھا۔ اور جب وہ یہ کہتا ہے کہ ’’جو پایا ہے وہ تیرا ہے / جو کھویا وہ بھی تیرا تھا‘‘، تو اس سے لاچاری کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ وہ تو صرف یہ کہنا چاہتا ہے کہ سب کچھ اللہ کی ملکیت ہے؛ انسان اس میں سے کچھ پا لیتا ہے، کچھ کھو دیتا ہے۔ اس کی خواہشوں کی تکمیل کا دارومدار اس کے اپنے فیصلوں اور اپنی کوششوں پر ہے:

دیکھ کے تیرے دیس کی رچنا

میں نے سفر موقوف کیا تھا

———-

نئی انوکھی بات سنا کر

میں تیرا جی بہلاتا تھا

———–

تجھ کو جانے کی جلدی تھی

اور میں تجھ کو روک رہا تھا

——–

ایک ہی لہر نہ سنبھلی ورنہ

میں طوفانوں سے کھیلا تھا

انسان کے خیالات، اس کا اندازِنظر، اس کی زندگی کو دوزخ بنا سکتے ہیں اور جنت بھی ۔ جنت تلاش کرنے پر ملتی ہے:

وہ جنت مرے دل میں چھپی تھی

میں جسے باہر ڈھونڈ رہا تھا

اس کا نظریہ تقدیر یہ ہے کہ ہر شے کی حدود ہوتی ہیں اور ان حدود سے جھگڑنا، انھیں توڑنے کی کوشش کرنا نہ صرف بے سود بلکہ مضر بھی ہے اور ان کو جاننے اور تسلیم کر لینے ہی میں فلاح ہے:

ان سے الجھ کر بھی کیا کرتا

تین تھے وہ اور میں تنہا تھا

———-

میں بھی مسافر تجھ کو بھی جلدی

گاڑی کا بھی وقت ہوا تھا

———-

اب تجھے کیا کیا یاد دلاؤں

اب تو وہ سب کچھ ہی دھوکا تھا

———

دل کو یونہی سا رنج ہے ورنہ

تیرا میرا ساتھ ہی کیا تھا

’’وہی ہوئی ہے جو ہونی تھی‘ ‘سے مراد ہے کہ جو کچھ ہو سکتا تھا وہی ہوا ہے۔ عِلّت اور معلول میں ایک ناگزیررشتہ ہوتا ہے۔’ ’وہی ملا ہے جو لکھا تھا‘ ‘اور’ ’اپنا لہناہی اتنا تھا‘‘ کے معنی ہیں کہ جو بویا تھا وہی کاٹا، جو کیا تھا اس کاہی صلہ ملا۔ انسان کو ملی ہوئی صلاحیتوں کے کئی (مگر تعداد میں مقرر) امتزاجات ممکن ہیں، مگر وہ ان میں سے ایک ہی کا انتخاب کر سکتا ہے اور کچھ چننے کے لیے بہت کچھ چھوڑنا بھی پڑتا ہے۔ انسان کا اختیار اس کی مجبوری بھی ہے اور اس کی مجبوری ہی میں اس کا اختیار مضمر ہے۔ زندگی ہر لحظہ چننے اور مسترد کرتے رہنے کا نام ہے لیکن انسان ایک بار فیصلہ کر لے اور اس کے مطابق عمل پیرا ہو تو پھر اس عمل کے عواقب کو ٹالا نہیں جا سکتا۔ انتخاب سے پہلے آدمی کے سامنے کئی راہیں کھلی ہوتی ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک پر چل نکلنے کے بعد باقی تمام اس کے لیے بند ہو جاتی ہیں۔ اب اگر بعد کو اسے یہ علم یا احساس ہو کہ اس کا فیصلہ غلط تھا، یا اسے چھوڑی ہوئی راہوں میں کشش محسوس ہونے لگے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مجبور اور بے بس ہے۔ انسان ہر وقت ہر جگہ نہیں ہو سکتا۔ وہ سب کچھ کر نہیں سکتا، وہ سب کچھ ہونہیں سکتا۔

-۴-

آشنا درد سے ہونا تھا کسی طور ہمیں

تُو نہ مِلتا تو کسی اور سے بچھڑے ہوتے

(ب س ک)

’پہلی بارش ‘ محض دو اشخاص کے ملنے اور بچھڑنے کی کہانی نہیں ہے۔ ’میں‘اور ’تو‘ علامتیں ہیں داخل اور خارج کی؛ نمائندے ہیں فرد اور معاشرے کے۔ ’’انسان کو معاشرے اور تنہائی دونوں کی ضرورت ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے زوج ہیں یا اس کی زکا دونوں کی صحیح ترکیب ہی سے ممکن ہے۔ شاید اسی لیے انسان دوسرے انسان سے جدا ہو کر، تنہاہوکر، رفع حاجت کے لیے جاتے ہیں۔ وہاں وہ خود اپنے آپ سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ وہاں ان کو عجیب عجیب باتیں سوجھتی ہیں جن تک ان کے شعور کی رسائی نہیں ہوتی۔ مارٹن لوتھرنے اس امر کا اعتراف کیا ہے۔ محبت کی پرورش کے لیے بھی تنہائی اور خاموشی کی ضرورت ہے۔‘‘ (اقتباس از ’ناصر کاظمی: ایک دھیان‘ از شیخ صلاح الدین)

لیکن عام آدمی تو تنہائی سے بھاگتا ہے۔ وہ اسیرِ بزم ہوتا ہے۔ ’’تنہائی عام آدمی کو اس لیے ڈراتی ہے کہ اس میں دنیا کے ہنگاموں کا شور ماند پڑجاتا ہے اور کان خاموشی کا نغمہ سننے کی تاب نہیں لا پاتے، اس کے لیے دل کے کان کھولنے پڑتے ہیں۔ عام آدمی کو یہ عمل حالتِ نزع کے ممثل نظر آتا ہے۔ وہ گھبراجاتا ہے، تنہائی سے نکل بھاگتا ہے اپنے آپ کو ہجوم میں گم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘ (ایضاً)

چنانچہ خیالات اور جذبات کی پرورش کے لیے قدرت نے انسان کو لازماً بلکہ جبراً تنہائی اور خاموشی کے لمحات میں ڈالنے کا انتظام کر رکھا ہے۔ حادثات، بیماریاں، پیاروں کا بچھڑنا وغیرہ، ایسے واقعات ہیں جو اسے درد سے آشنا کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے مختلف اور کٹا ہوا محسوس کرتا ہے۔ لوگوں کی صحبت میں اس کا جی نہیں لگتا۔ بعض اوقات تو اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ درد اسے کانٹے کی طرح مسلسل، ہمہ وقت چبھتا رہتا ہے۔ زندگی بوجھل اور کٹھن ہو جاتی ہے۔ ایسے میں یا تو وہ ہتھیار ڈال دیتا ہے اور موت کے راستے پر چل نکلتا ہے یا پھر اس کے اندر کا تخلیقی انسان جسے ناصر کاظمی ’شاعر‘ کہتے ہیں، بیدار ہوتا ہے؛ اس کی بہت سی خفتہ اور نہفتہ صلاحتیں بروئے کار آتی ہیں، اور وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرتا ہے:

درد کانٹا ہے اس کی چبھن پھول ہے

درد کی خامشی کا سخن پھول ہے

(دیوان)

ناصر کاظمی کے ہاں شاعری کے معنی بہت وسیع تھے۔ اپنے اسی آخری انٹرویو میں کہتے ہیں: ’’مجھے غزل، قطعہ، رباعی، آزاد نظم وغیرہ سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ تمھیں پتا ہے کہ شاعری صرف مصرعے لکھنے کا نام نہیں۔ شاعری تو ایک نقطہِ نظر ہے زندگی کو دیکھنے کا، چیزوں کو دیکھنے کا؛ ان کو موزوں طریقے سے بیان کرنے کا نام شاعری ہے۔‘‘ اسی گفتگو کا ایک اور ٹکڑا ملا حظہ ہو:

ناصر: آپ یہ دیکھیے کہ بعض لوگ مختلف شعبوں میں پڑے ہیں اور وہ شاعر ہیں، تخلیقی لوگ ہیں۔ ننھے ننھے مزدور —- میں نے تو دفتروں میں بعض کلرکوں کو دیکھا ہے اور بعض ریڈیو میں، بعض ادھر اُدھر اور اداروں میں؛ وہ بڑے تخلیقی لوگ ہیں؛ وہ بڑے خاموش خادم ہیں۔ اس سے بڑا کون شاعر ہے —- انجن ڈرائیور سے بڑا، جو کتنے ہزار اور کتنے سو مسافروں کو لاہور سے کراچی لے جاتا ہے اور کراچی سے واپس لاتا ہے۔ مجھے یہ آدمی بہت پسند ہے۔ اورایک کانٹے والا، پھاٹک بند کرنے والا؛ یہ بھی شاعر ہیں، میری برادری کے لوگ۔ اپنا اپنا role ہے۔ آپ کو پتا ہے اگر وہ پھاٹک کھول دے، جب گاڑی آرہی ہو، تو کیا قیامت آئے؟ بس شاعر کا بھی یہی کام ہے کہ کس وقت پھاٹک بند کرناہے؛ جب گاڑی گزرتی ہے، اس وقت۔

انتظار: لیکن ایسے شاعر بھی تو تم نے دیکھے ہوں گے کہ جب پھاٹک کو بند رہنا چاہیے، اس وقت کھول دیتے ہیں اور جب کھولنا چاہیے، بند کردیتے ہیں۔

ناصر: کیونکہ وہ صرف اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھ سکتے۔ شاعر جو ہے وہ ساری انسانیت کے بارے میں سوچتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ جب اوروں کا بھلا ہو گا تو اس کا اپنا بھلا خودبخود ہو گا۔ ‘‘

گویا انسان جو بھی، جہاں بھی ہو، تخلیقی ہو سکتا ہے؛ اسے تخلیقی ہونا چاہیے، یہی اس کی معراج ہے۔ لیکن اس معراج کو پانے کے لیے اسے تنہائی کے جوکھم سے گزرنا پڑے گا۔ ناصر کاظمی نے اپنے ایک ریڈیو فیچر، ’شاعر اور تنہائی‘ (مطبوعہ ’خشک چشمے کے کنارے‘) میں لکھاتھا: ’’روزِازل سے تنہائی شاعر کا مقدر ہے ]یہاں مقدر سے مراد مجبوری نہیں بلکہ اس کے قرآنی معانی پر توجہ دینا ہو گی۔ ’’وَخلقَ کُلَّ شٗئیً فَقَدَّ رَہٗ تَقدِیرًا‘‘ (اللہ نے ہر شے پیدا کی اور اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ مقرر کر دیا) —- ہر شے کے خواص اور امکانات اس کی تقدیر ہیں۔ اقبال کے ہاں بھی یہ لفظ انھیں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔[ تخلیق کی لگن اسے خلوتوں میں لیے پھرتی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ انسانی تہذیب کا سورج تنہائی کے غاروں ہی سے طلوع ہوا۔ اس لیے تنہائی تخلیقی زندگی کے لیے ایک ناگزیر مرحلہ ہے۔ تخلیقی انسان زندگی کے لیے تنہائی کے دکھ اٹھاتا ہے اور جب اس بھری دنیا میں وہ اکیلا رہ جاتا ہے تو اپنے معبودِ حقیقی کے حضور یوں فریاد کرتا ہے:

تیری خدائی سے ہے میرے جُنوں کو گِلہ

اپنے لیے لامکاں میرے لیے چار سو

انسان اپنے چار سو سے باہر نہیں نکل سکتا۔ آزادی انسان کی ازلی آرزو ہے لیکن تنہائی سے عہدنامہ کیے بغیر یہ آزادی ممکن نہیں۔

دنیا کی ہر شے تنہائی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ اس عالم کی تمام مخلوقات تنہائی کے پردوں ہی میں نشوونما پاتی ہیں۔ انسان شعور رکھتا ہے، اس لیے وہ تمام مخلوقات کے مقابلے میں سب سے زیادہ حساس ہے۔ شعور و آگہی کا یہ آشوب اسے آسمان و زمین کی وسعتوں میں حیران و سرگرداں لیے پھرتا ہے۔ شاعر کی تنہائیوں نے اس دنیا کے گوشے گوشے کو ایک حیاتِ تازہ بخشی ہے اور اس کی تنہائی کا یہ سفر ابد تک جاری رہے گا۔۔۔‘‘

’پہلی بارش‘ کے مرکزی کردار کی زندگی میں بھی ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب اس کے اندر کا شاعر بیدار ہوتا ہے اور اسے ایک نئی دنیا تخلیق کرنے پر؛ ایک نیا طرزِ زیست دریافت کرنے اور اپنانے پر مجبور کرتا ہے —- ’’پچھلی رات کی تیز ہوا میں / کورا کاغذ بول رہا تھا۔‘‘ وہ جب تک غیرتخلیقی زندگی بسر کرتا رہا، کمزور، خوف زدہ اور محتاج رہا؛ تنہائی اس کے لیے دوزخ تھی جس میں وہ ’’لکڑی کی طرح جلتا تھا‘‘، لیکن جب اسے شعور ملا، اس کا احساس جاگا، اس کے اندر تخلیقی سوتے پھوٹے، وہ قوی، جرأت مند اور خودمختار ہو گیا؛ اس نے اپنی جنت کو پالیا، لیکن کہیں باہر نہیں بلکہ:

وہ جنت مرے دل میں چھپی تھی

میں جسے باہر ڈھونڈ رہا تھا

تنہائی مرے دل کی جنت

میں تنہا ہوں میں تنہا تھا

باصر سلطان کاظمی

اگست 1983

متفرق اشعار

یہ آئنہ تری خاطر سنبھال کر رکھا

جو دل دُکھا بھی تو ہونٹوں نے پھول برسائے

خوشی کو ہم نے شریکِ ملال کر رکھا

……

ہم سبو گھر سے نکلتے ہی نہیں اب ناصر

میکدہ رات گئے اب بھی کھلا ہوتا ہے

………

اہلِ خرد کے ماضی و حال

چند کتابیں چند خیال

دُکھ کی دُھوپ میں یاد آئے

تیرے ٹھنڈے ٹھنڈے بال

………

ترے بغیر بھی خالی نہیں مری راتیں

ہے ایک سایہ مرے ساتھ ہمنشیں کی طرح

………

قصے تری نظر نے سنائے نہ پھر کبھی

ہم نے بھی دل کے داغ دکھائے نہ پھر کبھی

اے یادِ دوست آج تو جی بھر کے دل دُکھا

شاید یہ رات ہجر کی آئے نہ پھر کبھی

……

چاند نکلا تھا مگر رات نہ تھی پہلی سی

یہ ملاقات، ملاقات نہ تھی پہلی سی

رنج کچھ کم تو ہوا آج ترے ملنے سے

یہ الگ بات کہ وہ بات نہ تھی پہلی سی

۱۳ اپریل ۱۹۶۴

………

آپ کیوں رُک گئے چلتے چلتے

آپ کو میں نے بلایا تو نہ تھا

۱۸ اپریل ۱۹۷۱

………

میں تو بیتے دِنوں کی کھوج میں ہوں

تو کہاں تک چلے گا میرے ساتھ

۱۹۶۴

………

چین سے بیٹھنے نہیں دیتی

موسمِ یاد کی اُداس ہوا

………

پھیلتی جاتی ہے ناصر رنجِ ہستی کی رِدا

اور سمٹتے جا رہے ہیں پاؤں پھیلانے کو ہم

……

تمام عمر یونہی ہم نے دُکھ اُٹھایا ہے

زیادہ خرچ کیا اور کم کمایا ہے

……

چار گھڑی یاروں کا میلہ، پھر خاموشی

پہروں تنہا بیٹھ کے رونا پھر خاموشی

اس سے تو ہم سوئے ہی رہتے صبح نہ ہوتی

نیند اُڑا کر اُڑ گئی چڑیا، پھر خاموشی

۱۹۶۳

………

ہوا بھی چل رہی ہے اور جاگتی ہے رات بھی

کوئی اگر کہے تو ہم سنائیں دل کی بات بھی

۲۰ جنوری ۱۹۶۷

………

میں دیکھتا ہوں تو بس دیکھتا ہی رہتا ہوں

وہ آئنے میں بھی اپنے ہی رنگ چھوڑ گیا

۲۱ جون ۱۹۶۷

………

یوں تو اے ہم سخنو بات نہیں کہنے کی

بات رہ جائے گی یہ رات نہیں رہنے کی

۱ فروری ۱۹۶۷

………

نالہِ آخر شب کس کو سناؤں ناصر

نیند پیاری ہے مرے دور کے فن کاروں کو

۱۹۵۵

………

کہیں کہیں کوئی روشنی ہے

جو آتے جاتے سے پوچھتی ہے

کہاں ہے وہ اجنبی مسافر

کہاں گیا وہ اُداس شاعر

۳۰ دسمبر ۱۹۷۱

ناصر کاظمی

وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے

وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے
وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں
جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے
میں اُن کی راہ دیکھتا ہوں رات بھر
وہ روشنی دِکھانے والے کیا ہوئے
یہ کون لوگ ہیں مرے اِدھر اُدھر
وہ دوستی نبھانے والے کیا ہوئے
وہ دل میں کھبنے والی آنکھیں کیا ہوئیں
وہ ہونٹ مسکرانے والے کیا ہوئے
عمارتیں تو جل کے راکھ ہو گئیں
عمارتیں بنانے والے کیا ہوئے
اکیلے گھر سے پوچھتی ہے بے کسی
ترا دِیا جلانے والے کیا ہوئے
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
ناصر کاظمی

سخن کدہ مری طرزِ سخن کو ترسے گا

زباں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا
سخن کدہ مری طرزِ سخن کو ترسے گا
نئے پیالے سہی تیرے دَور میں ساقی
یہ دَور میری شرابِ کہن کو ترسے گا
مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی
وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا
انہی کے دم سے فروزاں ہیں ملتوں کے چراغ
زمانہ صحبتِ اربابِ فن کو ترسے گا
بدل سکو تو بدل دو یہ باغباں ورنہ
یہ باغ سایہِ سرو و سمن کو ترسے گا
ہوائے ظلم یہی ہے تو دیکھنا اِک دن
زمین پانی کو سورج کرن کو ترسے گا
ناصر کاظمی

عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

گئے دِنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ
بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دُھن سنا کر
ستارئہ شام بن کے آیا برنگِ خوابِ سحر گیا وہ
خوشی کی رُت ہو کہ غم کا موسم نظر اُسے ڈھونڈتی ہے ہر دم
وہ بوئے گل تھا کہ نغمہِ جاں مرے تو دل میں اُتر گیا وہ
نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یونہی ذرا سی کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ
کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی بدل چلا دَورِ آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ
بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ہزار رستے ہیں اہلِ دل کے
یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ
شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دِنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہمسفر تھا مثالِ گردِ سفر گیا وہ
مرا تو خوں ہو گیا ہے پانی ستمگروں کی پلک نہ بھیگی
جو نالہ اُٹھا تھا رات دل سے نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ
وہ میکدے کو جگانے والا وہ رات کی نیند اُڑانے والا
یہ آج کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ
وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ
وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تو نے منزلوں کا
تری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ
وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر
تری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ
ناصر کاظمی

کہ انتخابِ سخن ہے یہ اِنتخابوں میں

رقم کریں گے ترا نام اِنتسابوں میں
کہ انتخابِ سخن ہے یہ اِنتخابوں میں
مری بھری ہوئی آنکھوں کو چشمِ کم سے نہ دیکھ
کہ آسمان مقید ہیں ان حبابوں میں
ہر آن دل سے اُلجھتے ہیں دو جہان کے غم
گھرا ہے ایک کبوتر کئی عقابوں میں
ذرا سنو تو سہی کان دھر کے نالہِ دل
یہ داستاں نہ ملے گئی تمھیں کتابوں میں
نئی بہار دِکھاتے ہیں داغِ دل ہر روز
یہی تو وصف ہے اس باغ کے گلابوں میں
پون چلی تو گل و برگ دف بجانے لگے
اُداس خوشبوئیں لو دے اُٹھیں نقابوں میں
ہوا چلی تو کھلے بادبانِ طبعِ رسا
سفینے چلنے لگے یاد کے سرابوں میں
کچھ اِس ادا سے اُڑا جا رہا ہے ابلقِ رنگ
صبا کے پاؤں ٹھہرتے نہیں رکابوں میں
بدلتا وقت یہ کہتا ہے ہر گھڑی ناصر
کہ یادگار ہے یہ وقت اِنقلابوں میں
ناصر کاظمی

آئے ہیں اِس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں

کچھ یادگارِ شہرِ ستمگر ہی لے چلیں
آئے ہیں اِس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں
یوں کس طرح کٹے گا کڑی دُھوپ کا سفر
سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں
رنجِ سفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو
تھوڑی سی خاکِ کوچہِ دلبر ہی لے چلیں
یہ کہہ کے چھیڑتی ہے ہمیں دل گرفتگی
گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں
اِس شہرِ بے چراغ میں جائے گی تو کہاں
آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں
ناصر کاظمی

لگی ہے آگ کہیں رات سے کنارے پر

دُھواں سا ہے جو یہ آکاش کے کنارے پر
لگی ہے آگ کہیں رات سے کنارے پر
یہ کالے کوس کی پرہول رات ہے ساتھی
کہیں اماں نہ ملے گی تجھے کنارے پر
صدائیں آتی ہیں اُجڑے ہوئے جزیروں سے
کہ آج رات نہ کوئی رہے کنارے پر
یہاں تک آئے ہیں چھینٹے لہو کی بارش کے
وہ رن پڑا ہے کہیں دُوسرے کنارے پر
یہ ڈھونڈتا ہے کسے چاند سبز جھیلوں میں
پکارتی ہے ہوا اب کسے کنارے پر
اس اِنقلاب کی شاید خبر نہ تھی اُن کو
جو ناؤ باندھ کے سوتے رہے کنارے پر
ہیں گھات میں ابھی کچھ قافلے لٹیروں کے
ابھی جمائے رہو مورچے کنارے پر
بچھڑ گئے تھے جو طوفاں کی رات میں ناصر
سنا ہے اُن میں سے کچھ آ ملے کنارے پر
ناصر کاظمی

یہ سفر ہے میلوں کا

دیس سبز جھیلوں کا
یہ سفر ہے میلوں کا
راہ میں جزیروں کی
سلسلہ ہے ٹیلوں کا
کشتیوں کی لاشوں پر
جمگھٹا ہے چیلوں کا
رنگ اُڑتا جاتا ہے
شہر کی فصیلوں کا
دیکھ کر چلو ناصر
دشت ہے یہ فیلوں کا
ناصر کاظمی

میری زِندگی ہے تو

غم ہے یا خوشی ہے تو
میری زِندگی ہے تو
آفتوں کے دَور میں
چَین کی گھڑی ہے تو
میری رات کا چراغ
میری نیند بھی ہے تو
میں خزاں کی شام ہوں
رُت بہار کی ہے تو
دوستوں کے درمیاں
وجہِ دوستی ہے تو
میری ساری عمر میں
ایک ہی کمی ہے تو
میں تو وہ نہیں رہا
ہاں مگر وہی ہے تو
ناصر اِس دیار میں
کتنا اجنبی ہے تو
ناصر کاظمی

بڑی دیر میں تجھے دیکھ کر یہ لگا کہ تو کوئی اور ہے

کوئی اور ہے نہیں تو نہیں مرے رُوبرو کوئی اور ہے
بڑی دیر میں تجھے دیکھ کر یہ لگا کہ تو کوئی اور ہے
یہ گناہگاروں کی سر زمیں ہے بہشت سے بھی سوا حسیں
مگر اس دیار کی خاک میں سببِ نمو کوئی اور ہے
جسے ڈھونڈتا ہوں گلی گلی وہ ہے میرے جیسا ہی آدمی
مگر آدمی کے لباس میں وہ فرشتہ خو کوئی اور ہے
کوئی اور شے ہے وہ بے خبر جو شراب سے بھی ہے تیز تر
مرا میکدہ کہیں اَور ہے مرا ہم سبو کوئی اور ہے
ناصر کاظمی