زمرہ جات کے محفوظات: سخناب

شجر کی ژالوں سے جس طرح رسم و راہ ٹھہرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
یونہی کچھ اُس کا بھی ہم سے شاید نباہ ٹھہرے
شجر کی ژالوں سے جس طرح رسم و راہ ٹھہرے
وہ دشمنِ جاں بھی اب نہ اترے مقابلے میں
کہو تو جا کر کہاں یہ دل کی سپاہ ٹھہرے
جدا جدا ہی دکھائی دے بخت ہر شجر کا
چمن میں پل بھر کو جس جگہ بھی نگاہ ٹھہرے
یہ ہم کہ جن کا قیام بیرونِ در بھی مشکل
اور آپ ہیں کہ ازل سے ہیں بارگاہ ٹھہرے
مڑے حدِ تشنگی وہ چھو کر بھی ہم جہاں پر
زباں کا بیرونِ لب لٹکنا گناہ ٹھہرے
یہ کِبر پائے دکھا کے پنجوں کا زور ماجدؔ
فضائے صحرا میں جو کوئی کج کلاہ ٹھہرے
ماجد صدیقی

اب کے جھونکے نئی زنجیر لیے پھرتے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
یار کے قُرب کی تاثیر لیے پھرتے ہیں
اب کے جھونکے نئی زنجیر لیے پھرتے ہیں
گل، صبا، ابر، شفق، چاند، ستارے، کرنیں
سب اُسی جسم کی تفسیر لیے پھرتے ہیں
ایک سے کرب کا منظر ہے سبھی آنکھوں میں
آئنے ایک ہی تصویر لیے پھرتے ہیں
شاخ ٹُوٹے تو نہ پھولے کبھی ماجدؔ صاحب!
آپ کس خواب کی تعبیر لیے پھرتے ہیں
ماجد صدیقی

وُہ شوخ مرا دمساز نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 3
یہ بات کُھلی ہے راز نہیں
وُہ شوخ مرا دمساز نہیں
ہم قُرب پہ اُس کے فخر کریں
حاصل یہ ہمیں اعزاز نہیں
کہتے ہیں یہ دل وہ شیشہ ہے
ٹُوٹے تو کوئی آواز نہیں
بج اُٹّھے بِن مضراب کے جو
یہ جیون ایسا ساز نہیں
جو خوش الحان ہوئے اُن پر
کب زنداں کے در باز نہیں
حق بات ہے یہ گر جان سکیں
کنجشک ہیں ہم شہباز نہیں
ماجدؔ ہیں ہمیں جو غم، اُن کے
یہ اشک بھی اَب غمّاز نہیں
ماجد صدیقی

چہرہ ہے وہ کس کا جو سرِکاہکشاں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
ہے کون جو آنکھوں میں مری عرش نشاں ہے
چہرہ ہے وہ کس کا جو سرِکاہکشاں ہے
مدّت سے جو صیّاد کے ہاتھوں میں ہے موزوں
فریاد سے کب ٹوٹنے والی وہ کماں ہے
صحرا سی مری پیاس پہ برسا نہ کسی پل
وہ ابر کہ ہر آن مرے سر پہ رواں ہے
ہم لوگ چلیں ساتھ کہاں اہلِ غرض کے
آتی ہی جنہیں ایک محبت کی زباں ہے
رنگین ہے صدیوں سے جو انساں کے لہو سے
ہر ہاتھ میں کیسا یہ تصادم کا نشاں ہے
ماجدؔ ہے تجھے ناز نکھر آنے پہ جس کے
تہذیب وہ اخبار کے صفحوں سے عیاں ہے
ماجد صدیقی

منظر وہ ابھی تم نے مری جاں! نہیں دیکھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
ہوتے ہیں بدن کیسے گلستاں، نہیں دیکھا
منظر وہ ابھی تم نے مری جاں! نہیں دیکھا
ہم صبح ومساجان بہ لب حبسِ چمن سے
اور ہم پہ عتاب اُن کو کہ زنداں نہیں دیکھا
جس شاخ کو تھی راس نہ جنبش بھی ہَوا کی
پھل جب سے لُٹے پھر اُسے لرزاں نہیں دیکھا
چھلکا ہے جو آنکھوں سے شبِ جور میں اب کے
ایسا تو کبھی رنجِ فراواں نہیں دیکھا
مدّاح وہی اُس کے سکوں کا ہے کہ جس نے
مہتاب سرِغرب پر افشاں نہیں دیکھا
جب تک ہے تصّرف میں فضا اُس کے بدن کی
ہم کیوں یہ کہیں تختِ سلیماں نہیں دیکھا
دیوار کے کانوں سے ڈرا لگتا ہے شاید
ماجدؔ کو کئی دن سے غزل خواں نہیں دیکھا
ماجد صدیقی

لیتے رہے امتحان اپنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 6
ہم تجھ سے ہٹاکے دھیان اپنا
لیتے رہے امتحان اپنا
وہ کچھ نہ بتا کے، جو ہُوا ہے
رکھتی ہے بھرم، زبان اپنا
جُنبش سے ہوا کی ریت پر سے
مٹتا ہی گیا نشان اپنا
حالات بدل چکے تو جانا
برحق تھا ہر اِک گمان اپنا
جتلا کے لچک ذرا سی پہلے
دکھلائے ہُنر کمان اپنا
آیا ہے جو چل کے در پہ تیرے
ماجدؔ ہے اِسے بھی جان اپنا
ماجد صدیقی

اِس قدر کب تھیں ملیں ہم کو سزائیں جتنی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
ہم سے منسوب تھیں بے نام خطائیں جتنی
اِس قدر کب تھیں ملیں ہم کو سزائیں جتنی
زخم بن بن کے اُبھرتی ہیں وُہی چہروں پر
زیرِ حلقوم دبکتی ہیں صدائیں جتنی
مرگِ افکار نہ اِس درجہ کہیں بھی ہو گی
ذہن میں روز بھڑکتی ہیں چتائیں جتنی
سر ہوئے تھے کبھی اِتنے تو نہ عریاں پہلے
آندھیاں لے کے اُڑیں اب کے ردائیں جتنی
داغ تھے زیرِ تب و تاب سبھی پر ماجدؔ
ہم نے دیکھیں سرِ ابدان قبائیں جتنی
ماجد صدیقی

فکر پہنچے گا وہاں دو چار کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
ہم سخن کہتے ہیں جس معیار کا
فکر پہنچے گا وہاں دو چار کا
دھجّیاں اُس کی بکھر کر رہ گئیں
جس ورق پر عکس تھا اقرار کا
کھاٹ چھُڑوانے لگی بیساکھیاں
حال اچّھا ہو چلا بیمار کا
ڈھانپنے کو برق پھر عُریانیاں
ناپ لینے آ گئی اشجار کا
آ پڑا پھل اور زباں کے درمیاں
فاصلہ، ماجدؔ! سمندر پار کا
ماجد صدیقی

درس ہے یہ ہمیں ازبر رکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 9
ہونٹ پھولوں کے لبوں پر رکھنا
درس ہے یہ ہمیں ازبر رکھنا
کوئی احساں ہو گراں بار ہے وُہ
سر پہ اپنے نہ یہ پتّھر رکھنا
عفو پرواز دلاتا ہے نئی
ہے بڑی بات یہ شہپر رکھنا
جگ میں رہنا ہے تو پھر سینے میں
دل نہ رکھنا کوئی ساگر رکھنا
عدل ہی کرنے پہ آئے ہو تو پھر
دونوں پلڑوں کو برابر رکھنا
ماجد صدیقی

چمن سے شور اُٹھا ’’الحذر‘‘ کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 10
ہوا نے یُوں بدن نوچا شجر کا
چمن سے شور اُٹھا ’’الحذر‘‘ کا
اترنا اشک کا نوکِ مژہ پر
سرِ میزان تُلنا ہے گہر کا
ہم ایسوں سے سلوک اُس کا ہے جیسے
تعلق مفلسوں سے اہلِ زر کا
نشیمن ہی نہیں اِک نُچنے والا
لگا ہے اب تو کھٹکا بال و پر کا
ہمیں احوال سن کر کارواں کا
ہُوا ماجدؔ نہ یارا ہی سفر کا
ماجد صدیقی

جی سے جانا بھی ہے آسان کہاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 11
ہار کھانا مری پہچان کہاں
جی سے جانا بھی ہے آسان کہاں
زیست مرہونِ نتائج ہے فقط
اِس کا اپنا کوئی عنوان کہاں
پہرہ دارانِ الم کے ہوتے
دل سے نکِلے کوئی ارمان کہاں
ہے معنون جو نہتّوں سے یہاں
ختم ہوتا ہے وُہ تاوان کہاں
چاند جوہڑ میں اُترتا کب ہے
ہم کہاں اور وہ ذی شان کہاں
ہے جو محبوس بدن میں ماجدؔ
چین پاتی ہے بھلا جان کہاں
ماجد صدیقی

کیا ملے جان بھی جلانے سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 12
ہر کڑے دن کو جی سے جانے سے
کیا ملے جان بھی جلانے سے
ہم قفس تک میں گھر کے آنے سے
باز آئے نہ چہچہانے سے
جس کی خوشبُو ہواؤں تک میں ہے
بھُولتا ہے وُہ کب بھُلانے سے
سنگ پھر جھیل میں گرا کوئی
شور اُٹّھا پھر آشیانے سے
وہ جو بچھڑا تو کب سے ٹھہری ہے
آنکھ محروم جگمگانے سے
وہ کہ غالبؔ نہیں ہے، ماجدؔ ہے
مل ہی لینا تھا اُس یگانے سے
ماجد صدیقی

آنے والے آ نہ سکے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
ہم پہ کرم فرما نہ سکے
آنے والے آ نہ سکے
دے گئے رنج بکھرنے کا
پھُول بھی دل بہلا نہ سکے
کر کے مقّید بھی وہ مجھے
بات مری جھٹلا نہ سکے
میری آس کے آنگن کے
چاند کبھی گہنا نہ سکے
ہم نہ ہوئے تسلیم جنہیں
وہ بھی ہمیں ٹھکرا نہ سکے
ماجدؔ کیا کیا رنج تھے جو
لوگ زباں پر لا نہ سکے
ماجد صدیقی

جس کو اُونچا سُنائی دیتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 14
وُہ اُسے ہی خُدائی دیتا ہے
جس کو اُونچا سُنائی دیتا ہے
کون بَونا بنے چھُڑا کے مجھے
کون میری صفائی دیتا ہے
سر بلندی مجھی سے ہے جس کی
کب مجھے وُہ رہائی دیتا ہے
ہے قرابت اُسی سے مالی کی
پیڑ جو بھی کمائی دیتا ہے
کون ہے وُہ چمن کے آنگن سے
جو مہک کو جُدائی دیتا ہے
ہر ستم کوش کو چلن اُس کا
کتنا ارفع دکھائی دیتا ہے
سنگ کب موم میں ڈھلے ماجدؔ
دل یہ کس کی دہائی دیتا ہے
ماجد صدیقی

بخت پہنچے نہ یاوری کرنے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 15
وسوسوں میں مرے کمی کرنے
بخت پہنچے نہ یاوری کرنے
شاخِ گل پر گلوں سے کانٹے بھی
جا اُگے ہیں برابری کرنے
جس نے پتّھر ہمیں بنا ڈالا
پھر نہ آیا وہ ساحری کرنے
آ کے صحرا میں دُھوپ کے اُتری
اوس پھولوں سے دوستی کرنے
عدل کب خود پہ حرف آنے دے
کون آئے ہمیں بری کرنے
بس کہیں بھی نہ جب چلے ماجدؔ
بیٹھ رہتے ہیں شاعری کرنے
ماجد صدیقی

کہ جیسے عکس پڑے جھیل میں ستاروں کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 16
وہ رنگ اپنے سخن میں ہے استعاروں کا
کہ جیسے عکس پڑے جھیل میں ستاروں کا
گلی سے جسم کنول سا نظر پڑا تھا جہاں
گزشتہ رات وہاں جمگھٹا تھا کاروں کا
رمِ حیات کہ بیساکھیوں میں اُترا ہے
کسی کو زعم دکھائے گا کیا سہاروں کا
ورق ورق پہ لکھا حال یُوں سفر کا لگے
گماں ہو خاک پہ جیسے لہو کی دھاروں کا
کھُلے نہ ہم پہ کہ ماجدؔ ہمارے حق میں ہی
رہے ہمیشہ گراں کیوں مزاج یاروں کا
ماجد صدیقی

کہ بے قصور نہ بستی میں کوئی گھر دیکھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
وہ فردِ جرم کا غلبہ ہے دربہ در دیکھا
کہ بے قصور نہ بستی میں کوئی گھر دیکھا
بدن میں خوف سے پائی سکت نہ جنبش کی
یہ انکسار بھی باوصفِ بال و پر دیکھا
بس اِتنا یاد ہے قصہ گرانیٔ شب کا
کوئی گلاب نہ کِھلتا دم سحر دیکھا
لہو کی آنچ لیے جو بھی تا بہ لب آیا
وہ حرف بعد میں لکھا بہ آبِ زر دیکھا
ہُوا ہو برق کی مانند سامنا جس سے
جدا نہ ذہن سے ہوتا ہوا وہ ڈر دیکھا
چمن کا حال وہ ماجدؔ! کہے گا کیا جس نے
ہر ایک شاخ کے پہلو میں ہو تبر دیکھا
ماجد صدیقی

ہاتھوں میں جس کے تیر، سرِ دوش جال تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
وہ شخص ہی تو دشت میں صاحب کمال تھا
ہاتھوں میں جس کے تیر، سرِ دوش جال تھا
پائے کسی بھی کنج چمن میں نہ جو پنہ
یہ برگِ زرد بھی کبھی گلشن کی آل تھا
ننگی زمیں تھی اور ہَوا تھی تبر بہ دست
میں تھا اور اِک یہ میرا بدن جو کہ ڈھال تھا
خاکِ وطن پہ گود میں بچّہ تھا ماں کی اور
بیروت کی زمیں پہ برستا جلال تھا
آیا نہ کوئی حرفِ لجاجت بھی اُس کے کام
جس ذہن میں بقا کا سلگتا سوال تھا
جاتا میں جان سے کہ خیال اُس کا چھوڑتا
ماجدؔ یہی تو فیصلہ کرنا محال تھا
ماجد صدیقی

کبھی وُہ رُخ بھی سپردِ قلم کیا جائے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 19
ورق پہ دشتِ طلب کے رقم کیا جائے
کبھی وُہ رُخ بھی سپردِ قلم کیا جائے
فلک سے فصل نے ژالوں کی کب دعا کی ہے
کسی نے کب یہ کہا ہے، ستم کیا جائے
اساس جس کی مسّرت میں التوا ٹھہرے
نہ ہم پہ اور اب ایسا کرم کیا جائے
ستم کشی کہ جو عادت ہی بن گئی اپنی
اِسے نہ رُو بہ اضافہ، نہ کم کیا جائے
ہر ایک سر کا تقاضاہے یہ کہ تن پہ اگر
لگے تو اُس کو بہرحال خم کیا جائے
بہم نہیں ہیں جو موسم کی خنکیاں ماجدؔ
تو کیوں نہ آنکھ کا آنگن ہی نم کیا جائے
ماجد صدیقی

کیوں حق میں ہَوا اُس کے یہ جور روا جانے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 20
وہ برگ کہ جھڑتا ہے اِس راز کو کیا جانے
کیوں حق میں ہَوا اُس کے یہ جور روا جانے
جس بِل سے ڈسا جائے جائے یہ اُدھر ہی کیوں
پوچھے یہ وہی دل سے جو طرزِ وفا جانے
آتے ہوئے لمحوں کی مُٹھی میں شرارے میں
یا اشک ہیں خوشیوں کے، کیا ہے، یہ خدا جانے
ہونٹوں سے فلک تک ہے پُر پیچ سفر کیسا
یہ بات تو میں سمجھوں یا میری دُعا جانے
بھرنا نہ جنہیں آئے اُن ہجر کے زخموں کو
کیوں چھیڑنے آتی ہے پنجرے میں ہوا جانے
ہر روز جلے جس میں ماجدؔ اُسی آتش سے
ہر شخص کے سینے کو ویسا ہی جلا جانے
ماجد صدیقی

کیے لاحق عجب امراض ہم نے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 21
نظر میں پال کر اغراض ہم نے
کیے لاحق عجب امراض ہم نے
ستم کوشی پہ وہ اُترا ہے جب سے
کِیا کیا کچھ نہیں اغماض ہم نے
تقدّس ہی نہ رشتوں میں رہا جب
سنبھالی تب کہیں مقراض ہم نے
بتا دے نیتّوں میں جو بھی کچھ ہو
نہ دیکھا وقت سا نّباض ہم نے
یہ عالم ضبط کا دیکھو کہ ماجدؔ
نہ چہرہ تک کیا غمّاض ہم نے
ماجد صدیقی

سپنے سکُھ کی چھاؤں کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
نقش بنے صحراؤں کے
سپنے سکُھ کی چھاؤں کے
دیدۂ تر کو مات کریں
دشت میں چھالے پاؤں کے
دیکھیں کیا دکھلاتے ہیں
پتّے آخری داؤں کے
پیڑ اکھڑتے دیکھے ہیں
کِن کِن شوخ اناؤں کے
ابریشم سے جسموں پر
برسیں سنگ جفاؤں کے
خرکاروں کے ہاتھ لگیں
لعل بلکتی ماؤں کے
ماجدؔ دیہہ میں شہری ہم
شہر میں باسی گاؤں کے
ماجد صدیقی

وہ بیگانہ ہے میرا آشنا بھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 23
نظر میں ہے نظر سے ہے جُدا بھی
وہ بیگانہ ہے میرا آشنا بھی
ہَوا جن پر بظاہر مہرباں ہے
اُنہی پتّوں سے رہتی ہے خفا بھی
گریزاں ہیں نجانے کیوں ہمِیں سے
زمانہ بھی، مقدر بھی،خدا بھی
ستم باقی رہا اب کون سا ہے
بہت کچھ ہو چکا اب لوٹ آ بھی
ترستی ہے جسے خوں کی روانی
سخن ایسا کوئی ہونٹوں پہ لا بھی
بہت نزدیک سے دیکھا ہے ماجدؔ!
نظر نے عرصۂ کرب و بلا بھی
ماجد صدیقی

کہ میری جان مرے جسم میں جلا دی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
نجانے جرم تھا کیا جس کی یہ سزا دی ہے
کہ میری جان مرے جسم میں جلا دی ہے
رواں دواں ہے ہر اک بازوئے توانا میں
جو رسم خیر سے چنگیز نے چلا دی ہے
کھلی ہے اُس کی حقیقت تو سب ہیں افسردہ
وہ بات جس کو بھرے شہر نے ہوا دی ہے
کمالِ فن ہے یہی عہدِ نو کے منصف کا
کہ جو پُکار بھی اٹھی کہیں، دبا دی ہے
یہی کِیا کہ رہِ شوق میں مری اُس نے
بڑے سکون سے دیوار سی اُٹھا دی ہے
جو آ رہا ہے وہ دن آج سا نہیں ہو گا
تمام عمر اِسی آس پر بِتا دی ہے
جو رہ گیا تھا اُترنے سے آنکھ میں ماجد!ؔ
سخن نے اور بھی اُس دَرد کو جِلا دی ہے
ماجد صدیقی

کسی نے آکر ہمیں ہے کب بے قرار دیکھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 25
نہیں کوئی شہر زلزلے سے دوچار دیکھا
کسی نے آکر ہمیں ہے کب بے قرار دیکھا
الجھ گیا ہے جہاں بھی کانٹوں سے کوئی دامن
بچا بھی گر وہ تو پھراُسے تار تار دیکھا
جگر جو ٹکڑے ہوا تو اُس کی سلامتی کا
رضا پہ بردہ فروش کی، انحصار دیکھا
سگانِ پابند دشت میں جب کبھی کُھلے ہیں
فضا میں آندھی سا ایک اٹھتا غبار دیکھا
رقم جو شیشے پہ بس کے چڑیا ہوئی، کسی نے
کب اُس کے بچوں کا عالمِ انتظار دیکھا
نجانے کتنوں کو ہے وہ نیچا دکھا کے ابھرا
جسے بھی ماجدؔ سرِ نظر تاجدار دیکھا
ماجد صدیقی

شہر میں اب اِس بیماری سے بچنا ہے دشوار بہت

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 26
نطق سلامت ہے تو مہلک جرثوموں کے وار بہت
شہر میں اب اِس بیماری سے بچنا ہے دشوار بہت
اُس چنچل کے ہاتھوں جن پر رہ رہ کر تھی اوس پڑی
جانے پھر کیوں رہنے لگے ہیں وہ جذبے بیدار بہت
نازک وقت پہنچنے پر قائم نہ کسی کا بھی تھا بھرم
جتنی تمنّائیں تھیں دل میں نکلیں وہ نادار بہت
دونوں جرم کے منوانے پر اور نہ ماننے پر تھے تُلے
ہم کہ ہمیں اصرار بہت تھاوہ کہُانہیں انکار بہت
اور تأثر دے کر جس نے میرا خون غلاف کیا
وقت کے ہاتھوں دھل کر چمکی آخر وہ تلوار بہت
وہ قاصد دربانِ درِ محبوب سا جو محتاط رہے
دیدنی ہیں اُس قاصد جیسے نت چھپتے اخبار بہت
ایک ہی بات ہے پنکھ کٹیں یا چونچ پہ مُہر لگے ماجدؔ
مہجوروں کی خاطر ہیں اِس گلشن میں آزار بہت
ماجد صدیقی

درِ زنداں ہمیں پر ہی کھُلا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 27
نجانے کس جنم کی یہ سزا ہے
درِ زنداں ہمیں پر ہی کھُلا ہے
شکستِ آرزو کا رنج دل میں
زباں پر منجمد حرفِ دُعا ہے
وہی ہونا ہے، ہیں آثار جس کے
یہ دل کن وسوسوں میں مبتلا ہے
کسی پیاسے کو جیسے موج دیکھے
کُچھ ایسے ہی ہمیں وُہ دیکھتا ہے
ترستا ہے کسی دستِ طلب کو
گلاب اِک باڑھ سے نت جھانکتا ہے
اُسے چھیڑیں نہ ہم اُکتا کے اُس سے
یہی اُس شوخ کا بھی مُدّعا ہے
عِناں جب ہاتھ میں دل کی ہے اُس کے
وُہ جو کچھ بھی کرے ماجدؔ! روا ہے
ماجد صدیقی

ہم دونوں میں رنجش تھی اور بچے گھر میں سہمے تھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 28
ناداری کی لعنت سے ہم عید کے دن بھی الجھے تھے
ہم دونوں میں رنجش تھی اور بچے گھر میں سہمے تھے
چاند ہنسی کا کُہرِ الم میں، چاند سحر کا ٹھہرا تھا
کیا بتلائیں راہ میں اپنی راحت کے کیا رخنے تھے
گرد، ہَوا، خاشاک اور خس کے وہم نے سارے بند کئے
شوخ اور شنگ رُتوں تک جو بھی جانے والے رستے تھے
جوڑ کے شاخ پہ امیدوں کی تنکا تنکا کاوش کا
چڑیوں جیسے خواب سہانے ہم نے بھی کیا دیکھے تھے
سر سے سُورج کے ڈھلنے تک لطف تھے سب ٹھہراؤ کے
پھر تو جانبِ ظلمت بڑھتے ہر خواہش کے سائے تھے
جیون کے وہ سارے موڑ ہی رہ گئے ماجدؔ! دور بہت
آنکھ میں جب کلیوں کی صورت کھلتے سانجھ سویرے
ماجد صدیقی

پھر نہ آیا نظر میں منظر وُہ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 29
مہرباں جس گھڑی تھا ہم پر وُہ
پھر نہ آیا نظر میں منظر وُہ
تھا جسے اختلاف ناحق سے
اب کہاں پاس اپنے بُوذرؑ وُہ
جس کے دیکھے سے پیاس بجھتی ہو
ملنے آئے گا ہم سے کیونکر وُہ
میں کہ مس ہوں جہاں میں مجھ کو بھی
آنچ دیتا ہے کیمیا گر وُہ
جب سے پیکر مہک اُٹھا اُس کا
بند رکھتا ہے روزن و دَر وُہ
کب سے جاری ہے یہ مہم اپنی
ہم سے لیکن نہیں ہُوا سر وُہ
اُس سے ماجدؔ! کہاں کا سمجھوتہ
موم ہیں ہم اگر تو پتّھر وُہ
ماجد صدیقی

زیست کا اِک اور دن کم ہو گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 30
مہرِ رخشاں رات میں ضم ہو گیا
زیست کا اِک اور دن کم ہو گیا
لکھ رہا تھا جانے کیا کاغذ پہ میں
آنکھ بھر آنے سے جو نم ہو گیا
دل نجانے ہم سخن کس سے ہوا
حرف کا امرت بھی ہے سم ہو گیا
ڈوبتے ہی اِک ذرا اُس ماہ کے
دیکھیے کیا دل کا عالم ہو گیا
کم نہیں یہ مُعجزہ اِس دَور کا
ذرّہ ذرّہ ساغرِ جم ہو گیا
بچ کے ماجدؔ جس سے نکلے تھے کبھی
سر اُسی دہلیز پر خم ہو گیا
ماجد صدیقی

پھر بھی ہمیں کیوں جانے زعم خودی کا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 31
ماتھوں پر تو کچھ الٹا ہی ٹیکا ہے
پھر بھی ہمیں کیوں جانے زعم خودی کا ہے
بُعد کا باعث فرق ہے اُس کی نیّت کا
ورنہ اُس سے کیسا وَیر شرِیکا ہے
جن کو اپنا زور جتانا آ جائے
اِس دنیا میں ہر اعزاز اُنہی کا ہے
پچھلے برس بھی آندھی پیڑ اُجاڑ گئی
اب کی بہار بھی رنگ ثمر کا پھیکا ہے
جس کو تم معمولی شخص سمجھتے ہو
وہ ماجدؔ ہے اگلا عہد اُسی کا ہے
ماجد صدیقی

ریشم کے لچّھے بھی دیکھو سُوت ہوئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 32
مکّاری کو کیا کیا ہیں کُرتوت ہوئے
ریشم کے لچّھے بھی دیکھو سُوت ہوئے
خواب ہوئیں پریاں جتنی ایقان کی تھیں
واہمے کیا کیا اپنی خاطر بھُوت ہوئے
رہتے ہیں محصور مسلسل ہلچل میں
امیدوں کے شہر بھی ہیں بیروت ہوئے
جب سے باغ میں رسم چلی پیوندوں کی
سیدھے سادے تُوت بھی ہیں شہتوت ہوئے
منکر ہونے پر ماجدؔ بدنام ہمیں
جبر سہا تو ہم اچّھوں کے پُوت ہوئے
ماجد صدیقی

ظلمتِ خلوت وگرنہ مستقل آزار تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 33
مل گیا کوئی تو یہ چہرہ سحر آثار تھا
ظلمتِ خلوت وگرنہ مستقل آزار تھا
مجھ میں جانے کیا ہُنر تھا وہ کہ جس کے بُغض سے
میرے گھرکی سمت کھلتا ہر دریچہ نار تھا
کیوں مُصر رہنے لگا اِس پاک دامانی پہ مَیں
وہ خطائیں کیا ہوئیں جِن کا مجھے اقرار تھا
وہ بھی کیا شب تھی کہ جس کے حشرزا انجام پر
کانپتے ہاتھوں میں میرے صبح کا اخبار تھا
کس کی قامت کس سے کتنی پست ہے، اس فرق پر
جس کسی کو شہر میں دیکھا وہی بیمار تھا
رابطہ جب تک رہا ماجدؔ زمیں سے پیڑ کا
برگ برگ اُس کا سراپا مطلعٔ انوار تھا
ماجد صدیقی

بے برگ شجر دیکھوں بکھرے ہوئے پر دیکھوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
منظر سے ذرا ہٹ کر پل بھر جو ادھر دیکھوں
بے برگ شجر دیکھوں بکھرے ہوئے پر دیکھوں
جلتے ہیں، اگر ان کے ٹخنے بھی کوئی چھولے
قامت میں بہت چھوٹے سب اہلِ نظر دیکھوں
لگتا ہے پرندوں سا بکھرا ہوا رزق اپنا
بیٹھوں بھی تو پیروں کو مصروفِ سفر دیکھوں
کس ابر سے نیساں کے آنکھیں ہیں نم آلودہ
کیا کیا ہیں صدف جن میں بے نام گہر دیکھوں
آتا ہے نظر ماجدؔ! کیا کچھ نہ جبینوں پر
ایسے میں بھلا کس کے مَیں قلب و جگر دیکھوں
ماجد صدیقی

مدار جس کا ہماری کٹی زباں پر تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
معاملہ ہی رہائی کا اُس بیاں پر تھا
مدار جس کا ہماری کٹی زباں پر تھا
مثالِ ریگ ہوا نے اُسے بکھیرا ہے
جو لختِ ابر کبھی اپنے گلستاں پر تھا
یہ کربِ عجز تو ماتھا ہی جانتا ہے مرا
گُہر مراد کا کس کس کے آستاں پر تھا
ثمر تو تھے ہی مگر سنگ بھی تھے شاخوں پر
وُہ جن کا بوجھ مسلسل شجر کی جاں پر تھا
نشیبِ خاک سے کیا اُس کی پیروی کرتے
مقدّمہ ہی ہمارا جب آسماں پر تھا
لُٹے بھی گر تو زباں پر نہ ہم کبھی لائے
وہ اِتّہام کہ ہر دَور میں خزاں پر تھا
بھُلا سکے نہ وہ پل اُس کے قُرب کا ماجدؔ!
جب اپنا ہاتھ اندھیرے میں پرنیاں پر تھا
ماجد صدیقی

اپنی صورت بھی ہے کیا سے کیا ہو گئی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 36
مُو بہ مُو تھی جو ظلمت ضیا ہو گئی
اپنی صورت بھی ہے کیا سے کیا ہو گئی
لے کے نکلے غرض تو ہمارے لئے
خلق ساری ہی جیسے خدا ہو گئی
دیکھ ٹانگہ کچہری سے خالی مُڑا
ہے سجنوا کو شاید سزا ہو گئی
اَب نمِ برگ بھی ساتھ لاتی نہیں
اتنی قلّاش کیونکر ہوا ہو گئی
جس پہ تھا مرغ، صّیاد کے وار سے
شاخ تک وُہ شجر سے جدا ہو گئی
عدل ہاتھوں میں آیا تو اپنے لئے
جو بھی شے ناروا تھی روا ہو گئی
ہم نے کیونکر ریا کو ریا کہہ دیا
ہم سے ماجدؔ! یہ کیسی خطا ہو گئی
ماجد صدیقی

جیسے ہربات میں ہو تیرے بدن کی خوشبو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
لفظ در لفظ ہے یُوں اب کے سخن کی خوشبو
جیسے ہربات میں ہو تیرے بدن کی خوشبو
اذن کی آنچ سے بے ساختہ دہکے ہوئے گال
جسم امڈی ہوئی جس طرح چمن کی خوشبو
نقش ہے یاد پہ ٹھہرے ہوئے ہالے کی طرح
وصل کے چاند کی اک ایک کرن کی خوشبو
گلشنِ تن سے ترے لوٹ کے بھی ساتھ رہی
کُنج در کُنج تھی کیا سرو و سمن کی خوشبو
تجھ سے دوری تھی کچھ اس طرح کی فاقہ مستی
جیسے مُدّت سے نہ آئے کبھی اَن کی خوشبو
ذکرِ جاناں سے ہے وُہ فکر کا عالم ماجدؔ!
جیسے آغاز میں باراں کے ہو بن کی خوشبو
ماجد صدیقی

عذاب کیا یہ مسلسل ہماری جان پہ ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 38
لبوں پہ گرد ہے اِک زنگ سا زبان پہ ہے
عذاب کیا یہ مسلسل ہماری جان پہ ہے
تمہاری ہاں میں ملائیں گے ہاں نہ کب تک ہم
کچھ اور کوٹئے لوہا ابھی تو سان پہ ہے
نہ اُس شجر کی خبر اِس شجر تلک پہنچے
اِسی خیال سے قدغن ہرِاک اڑان پہ ہے
اُسے یہ ناز ہمارے ہی عجز نے بخشا
بزعمِ خویش قدم جس کا آسمان پہ ہے
پتہ ہے اُس کو نشانوں کے زاویوں کا بھی
وہ جس کی ساری توجہ ابھی کمان پہ ہے
وہ شب کی اوٹ سے کچھ اور ہی نکالے گا
کہ جس کا دھیان دروں پر لگے نشان پہ ہے
اُتر کے دشت میں ماجدؔ رہے نہ یوں شاید
گمان اپنے تحفّظ کا جو مچان پہ ہے
ماجد صدیقی

لکھنے لگے تو لفظ قلم سے چمٹ گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 39
لائے زبان پر تو لبوں میں سمٹ گیا
لکھنے لگے تو لفظ قلم سے چمٹ گیا
طوفاں سے قبل جس پہ رہا برگِ سبز سا
چھُو کر وہ شاخ آج پرندہ پلٹ گیا
غافل ہمارے وار سے نکلا بس اِس قدر
پٹنے لگا تو سانپ چھڑی سے لپٹ گیا
جھپٹا تو جیسے ہم تھے سرنگوں کے درمیاں
دشمن ہماری رہ سے بظاہر تھا ہٹ گیا
ہوتا اُنہیں شکستِ تمنّا کا رنج کیا
بچّے کے ہاتھ میں تھا غبارہ سو پھٹ گیا
ماجدؔ خلا نورد وُہ سّچائیوں کا ہے
اپنی زمیں سے رابطہ جس کا ہو کٹ گیا
ماجد صدیقی

فلک سے فیض کے طالب ہیں پھر شجر اپنے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
لُٹا کے حرصِ نمو میں گل و ثمر اپنے
فلک سے فیض کے طالب ہیں پھر شجر اپنے
نظر، خیال، گماں، تشنگی تمّنا کی
نہ آئے لوٹ کے جتنے تھے نامہ بر اپنے
یتیم جیسے جواں ہو کے بھی یتیم رہے
اُسی طرح کے گماں اور وہی ہیں ڈر اپنے
فضا کے دوش سے کس آن پھینک دیں جانے
مسافتوں سے شکستہ یہ بال و پر اپنے
ملا وُہ یار تو دل یوں مچل اُٹھا ماجدؔ
کہ بعدِ عمر مُڑے جیسے کوئی گھر اپنے
ماجد صدیقی

خزاں کے دور میں ذکرِ بہار کیا کرنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 41
لب و زبان کو ماجدؔ! فگار کیا کرنا
خزاں کے دور میں ذکرِ بہار کیا کرنا
جسے ترستے بجھی ہیں بصارتیں اپنی
اب اُس سحر کا ہمیں انتظار کیا کرنا
نہ کوئی مدّ مقابل ہو جب برابر کا
تو رن میں ایسی شجاعت شمار کیا کرنا
یہ سر خجل ہے ٹھہرتا نہیں ہے شانوں پر
اِسے کچھ اور بھی اب زیر بار کیا کرنا
نہاں نہیں ہے نگاہوں سے جب کِیا اُس کا
کہے پہ اُس کے ہمیں اعتبار کیا کرنا
سبک سری میں جوہم پر کیا ہے دُشمن نے
جواب میں ہمیں ایسا ہی وار کیا کرنا
ماجد صدیقی

کب نصیبوں میں اپنے سحر دیکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 42
گُل تمنّاؤں کے شاخ پر دیکھنا
کب نصیبوں میں اپنے سحر دیکھنا
دیکھنا نطق کلیوں سے چھَنتا ہوا
بے زباں باغ میں ہر شجر دیکھنا
شرط ٹھہری ہے گلشن میں اپنے لئے
کوئی منظر ہو با چشمِ تر دیکھنا
آب جذبوں کی آنکھوں میں سمٹی ہوئی
سیپیوں میں دمکتے گہر دیکھنا
دے گئی اُڑ کے تتلی سکوں کی ہمیں
کُو بہ کُو جھانکنا، در بہ در دیکھنا
دیکھ لینے پہ تجھ عید کے چاند کو
ہم پہ لازم ے بارِ دگر دیکھنا
لوگ ماجدؔ! ہیں معتوب ایسے سبھی
دیکھنا! تم بھی ہو باہنر، دیکھنا
ماجد صدیقی

لمحہ لمحہ ہُوا ہے سال اپنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 43
گفتنی اِس قدر ہے حال اپنا
لمحہ لمحہ ہُوا ہے سال اپنا
تشنہ لب تھے جو کھیت اُن کو بھی
ابر دکھلا گیا جلال اپنا
بیچ کر ہی اٹھے وہ منڈی سے
تھے لگائے ہوئے جو مال اپنا
دیکھتے ہی غرور منصف کا
ہم پہ کُھلنے لگا مآل اپنا
موج یُوں مہرباں ہے ناؤ پر
پھینکنے کو ہو جیسے جال اپنا
ظرف کس کس کا جانچ لے پہلے
کس پہ کھولے کوئی کمال اپنا
رَد کیا ہے ہمیں جب اُس نے ہی
آئے ماجدؔ کہاں خیال اپنا
ماجد صدیقی

پوچھئے گا نہ بات یہ ہم سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 44
کیوں خفا ہیں ہم ابنِ آدم سے
پوچھئے گا نہ بات یہ ہم سے
ہم اور اُس سے صفائیاں مانگیں
باز آئے ہم ایسے اودھم سے
اب تو ہے جاں کا بھی زیاں اِس میں
نشّہِ درد کم نہیں سم سے
جب سے اُبھرے نشیب سے ہم بھی
لوگ رہتے ہیں ہم سے برہم سے
کوئی خواہش بھی لَو نہ دے ماجدؔ
ہو گئے سب چراغ مدّھم سے
ماجد صدیقی

بات دل کی نہ منہ پہ لائیں ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 45
کلبلائیں کہ جاں سے جائیں ہم
بات دل کی نہ منہ پہ لائیں ہم
ہے بھنور بھی گریز پا ہم سے
کس کی آنکھوں میں اب سمائیں ہم
ہے تقاضا کہ بات کرنے کو
چھلنیاں حلق میں لگائیں ہم
مہر سے ضو طلب کرے ماجد!
دل ہے وحشی اِسے سدھائیں ہم
ماجد صدیقی

میرے قدموں میں یہ ہنر کب ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
کامراں شوق کا سفر کب ہے
میرے قدموں میں یہ ہنر کب ہے
ریگِ صحرا سے لفظ ہوں جس کے
خشک ہے وہ زبان، تر کب ہے
آئے بے وقت چاہنے پہ مرے
مہرباں اِس قدر سحر کب ہے
جِتناکرتی پھرے ہوا چرچا
اِتنا شاداب ہر شجر کب ہے
ہے خُود انساں خسارہ جُو، ورنہ
وقت بے رحم اِس قدر کب ہے
دھڑکنوں میں بسا ہے جو ماجدؔ
دل سے جاتا وُہ رُوٹھ کر کب ہے
ماجد صدیقی

پر کرشمہ اور ہی اُس کے مکر جانے میں تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 47
کم نہ تھا وہ بھی جو ارضِ جاں کے ہتھیانے میں تھا
پر کرشمہ اور ہی اُس کے مکر جانے میں تھا
سر نہ خم کر کے سرِ دربار ہم پر یہ کُھلا
لطف بعد انکار کے کیا، گال سہلانے میں تھا
حق طلب ہونا بھی جرم ایسا تھا کچھ اپنے لیے
جاں کا اندیشہ زباں پر حرف تک لانے میں تھا
سر بہ سجدہ پیڑ تھے طوفانِ ابروباد میں
اور دریا محو اپنا زور دکھلانے میں تھا
سانحے کی تازگی جاں پر گزر جانے لگی
کرب کچھ ایسا ستم کی بات دہرانے میں تھا
جاں نہ تھی صیّاد کو مطلوب اتنی جس قدر
اشتیاق اُس کا ہمارے پَر کتروانے میں تھا
پھر تو ماجد کھو گئے ہم بھی فنا کے رقص میں
خوف سب گرداب کے ہم تک چلے آنے میں تھا
ماجد صدیقی

دل اٹھا لائے سرِ بازار ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 48
کیا دکھاتے اور حالِ زار ہم
دل اٹھا لائے سرِ بازار ہم
ہر سفر ہے اب تو ہجرت کا سفر
تھے کبھی اِس شہر میں انصار ہم
دل سے دل کو راہ اب ہوتی نہیں
بھولتے جاتے ہیں سب اقدار ہم
حرف و معنی بیچنے پر آ گئے
یوں بھی اب ہونے لگے زردار ہم
منتقل کر لائے اک اک سانس میں
جس میں الجھے تھے وہی منجدھار ہم
ڈھل چکی جب چودھویں کی رات بھی
کیوں نہ ہوں ماجدؔ، زوال آثار ہم
ماجد صدیقی

بدن کو لگتا ہے زہر، سایہ ہر اک شجر کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 49
کُھلا ہے در، دل پہ جب سے مارِسیہ کے ڈر کا
بدن کو لگتا ہے زہر، سایہ ہر اک شجر کا
ہمیں گوارا ہے عمر جیسے بھی کٹ رہی ہے
کسی سے کرنا ہے ذکر کیا کرب کے سفر کا
کھلی تھی جیسے بساط پہلے ہی ہم پہ اپنی
نہ پوچھ پائے پتہ جبھی یارکے نگر کا
حقیر دشمن دکھائی دیتا ہو جس کسی کو
سلوک کھلیان سے وہ پوچھے کبھی شرر کا
نمک کو جیسا مقام حاصل ہے کھیوڑے میں
ہمارے ہاں بھی ہے حال ایسا ہی کچھ ہنر کا
ہمیں ہی اقرار اب نگاہوں کے عجز کا ہے
ہمِیں نے دیکھا تھا خواب ماجدؔ کبھی سحرکا
ماجد صدیقی

ثبوت ورنہ سزا کو نہ کچھ گناہ میں تھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 50
کھنچا تھا ہم سے وہی جس کی بارگاہ میں تھے
ثبوت ورنہ سزا کو نہ کچھ گناہ میں تھے
جہاں جہاں سے ملے رنج جس قدر بھی ہمیں
وفا کی راہ میں وہ سب کے سب نگاہ میں تھے
تھے سر بلند جو بد نیتی کی زد میں تھے
جو چاہکَن تھے گرفتار خود ہی چاہ میں تھے
قدم ہی ایک نہ تھے نوکِ تیغ پر اپنے
نجانے اور بھی کیا مرحلے نباہ میں تھے
نہ دسترس میں ہُوا حسن جب تلک اُس کا
عجیب وسوسے جذبات کی سپاہ میں تھے
بدن تھا اُس کا کہ اِک سلطنت بہم تھی ہمیں
مزے تھے اور ہی جو اُس جلال و جاہ میں تھے
گلہ ہے برق سے ماجدؔ نہ آشیاں سے ہمیں
شجر نحیف تھا خود جس کی ہم پناہ میں تھے
ماجد صدیقی

کب زمیں سے ہے آسمان ملا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 51
کیا ہے گر تُو نہ ہم سے آن ملا
کب زمیں سے ہے آسمان ملا
کھنچ کے اس سے گلا نہ گھونٹ اپنا
وقت سے تُو بھی اپنی تان ملا
ظلم سے حق طلب ہوا جو بھی
پھر نہ اُس شخص کا نشان ملا
ابنِ آدم سمجھ کے شیطاں بھی
جب ملا ہم سے بدگمان ملا
کچھ فلک مرتبت ہیں وہ بھی جنہیں
جو ملا وجۂ کسرِ شان ملا
دیر تھی منہ بھنور کا کھلنے کی
پھر نہ کشتی نہ بادبان ملا
جس پہ جھک کر ملا تھا اوج ہمیں
پھر نہ ماجدؔ وہ آستان ملا
ماجد صدیقی

یادوں میں کسی نے پھر کہرام مچانا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 52
کچھ دیر میں چندا کو جب بام پہ آنا ہے
یادوں میں کسی نے پھر کہرام مچانا ہے
پوچھے گا مروّت سے کب حال ہمارا وہ
پتھر ہے جو سینے پر کب اس نے ہٹانا ہے
اِس حبس کے موسم میں، ہر حرف تمنّا کا
گرحلق سے ابھرا بھی، خوں ہی میں سمانا ہے
ہے وقت کے کِیسے میں جتنا زرِ ناخالص
حصے میں ہمارے ہی آخر کو وہ آنا ہے
قابیل سے ملتا ہے جس کا بھی کوئی رشتہ
ہابیل پہ اُس نے ہی رعب اپنا جمانا ہے
ابجد نہ جنہیں آئے الفاظ کی ندرت کا
کہتے ہیں وُہ ماجدؔ کا انداز پرانا ہے
ماجد صدیقی

کتبوں جیسے لوگ ہیں ہر سُو پتھر بنتا جاؤں مَیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 53
کس سے اپنی بپتا چھیڑوں کس کو حال سناؤں مَیں
کتبوں جیسے لوگ ہیں ہر سُو پتھر بنتا جاؤں مَیں
نطق ہی ایک متاع تھی اپنی سو بے وَقر ہے برسوں سے
کون سی ایسی بات ہے جس پر محفل میں اِتراؤں مَیں
ہر پل ایک بدلتی رُت ہے رگ رگ میں ہے زہر نیا
کینچلیوں سے لگتے ہیں جو حرف زباں پر لاؤں مَیں
چہرہ چہرہ ایک اداسی صورت صورت صحرا ہے
کس گلشن پر ابر بنوں اور کون سے دشت پہ چھاؤں مَیں
نشوونمو کے حق میں دیکھے جو بھی خواب اُدھورے تھے
بِن پھل پات شجر ہوں ماجدؔ! گرد سے اٹتا جاؤں مَیں
ماجد صدیقی

اُبھر رہے ہیں شرارے سے کیوں نگاہوں میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 54
کوئی تو آگ ہے اُتری جواب کے آہوں میں
اُبھر رہے ہیں شرارے سے کیوں نگاہوں میں
پہنچ گئے ہیں یہ کس مہرباں کی سازش سے
سکوں کی آس لیے، جبر کی پناہوں میں
اُفق سے دل کی تمناؤں کے جو اُبھرا تھا
پلٹ کے چاند وہ آیا نہ اپنی باہوں میں
بچے گا دام سے کیا اُس کے کوئی زندانی
ستم نے کانچ بچھائے ہوئے راہوں میں
ہمارا جرم ہوئی موسموں سے نم طلبی
شمار بات نہ کیا کیا ہوئی گناہوں میں
وہ مرغ باز ہُوا نام پر قفس جن کے
ہمیں بھی جانیے اُنہی کے خیر خواہوں میں
ہے جب سے جبر کا پہرہ سروں پہ اے ماجدؔ
نہ نفرتوں میں مزہ ہے نہ لطف چاہوں میں
ماجد صدیقی

دہن صدف کا فلک کی جانب کھلا ہوا رہ گیا ہو جیسے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 55
عجیب صورت ہے نامرادی ابرِ نیساں چھٹا ہو جیسے
دہن صدف کا فلک کی جانب کھلا ہوا رہ گیا ہو جیسے
مرے خدااس جہاں میں میرے لیے ہی قحط الرّجال کیوں ہے
مری زباں کو سمجھنے والا نہ کوئی رمز آشنا ہو جیسے
تُلا کھڑا ہے شکم اُڑانے پہ یوں پرخچے مری انا کے
پلنگ بعدِ شکار اپنے شکار سے کھیلتا ہو جیسے
شجر امیدوں کا سیلِ اشکِ الم سے یوں کھوکھلا ہوا ہے
جڑوں کو روتا درخت کوئی کنارِ دریا کھڑا ہو جیسے
بہ دشتِ خواہش دکھائی دینے لگی ہے یورش وہ وسوسوں کی
کہ زہر دانتوں میس اپنے مارِسیاہ نے بھر لیا ہو جیسے
کوئی مسیحا نفس ہو مجھ کو وہ اِس ترحمّ ے دیکھتا ہے
خدا نکردہ وہی بروئے زمین میرا خدا ہو جیسے
گمان کیا تھا مگر تمنّا کا حال ماجدؔ یہ کیا ہُوا ہے
کہ تودۂ برف کوئی اوجِ ہمالیہ سے گرا ہو جیسے
ماجد صدیقی

برق بھی ایک اِسی آب اِسی خاک میں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 56
عجز مانا کہ بڑا دیدۂ نمناک میں ہے
برق بھی ایک اِسی آب اِسی خاک میں ہے
حرف کب جور پہ اُس کے کوئی آنے دے گا
طنطنہ خَیر سے جو اُس بتِ چالاک میں ہے
وقت شاطر ہے چلا بھی تو چلے گا آخر
چال ایسی جو کسی فہم نہ ادراک میں ہے
عرصۂ کرب و بلا سے سرِ آسامؔرواں
اک عجب چیخ سی اِس گنبدِافلاک میں ہے
کیا کہوں جرم میں اِس زمزمہ پردازی کے
کون سا تیر کمانوں میں مری تاک میں ہے
حق بجانب بھی ٹھہرتا ہے وہی بعدِستم
وصف طرفہ یہ مرے عہد کے سفّاک میں ہے
ڈھلنے پائی نہ نشیمن میں ابھی تک ماجدؔ!
وہ تمنّا کہ سمائی خس و خاشاک میں ہے
ماجد صدیقی

دن مجھے بھی کوئی تو دے ایسا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 57
عرش قدموں میں ہو، لگے ایسا
دن مجھے بھی کوئی تو دے ایسا
مجھ سے بھی ہیں قرابتیں اُس کی
کاش وہ شخص بھی کہے ایسا
جس سے میرا بدن دو نِیم ہوا
وار دوراں نہ پھر کرے ایسا
دل یہ کہتا ہے خِرمن خواہش
راکھ بن کر اُڑے، جلے ایسا
جس سے واضح ہو وحشتِ انساں
کوئی نکلا نہ ایکسرے ایسا
ہو تاسّف پہ ختم جو ماجدؔ
مول خطرہ کوئی نہ لے ایسا
ماجد صدیقی

جو کچھ بھی طے کریں وہ مرے رُوبرو کریں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 58
عزت وہ دیں مجُھے کہ مرا دل لہو کریں
جو کچھ بھی طے کریں وہ مرے رُوبرو کریں
پل میں نظر سے جو مہِ نخشب سا کھو گیا
کس آس میں ہم اُس کی بھلا جستجو کریں
سُوجھے نہ راہِ ترکِ محبت ہی اک اُنہیں
کچھ اور بھی علاج مرے چارہ جُو کریں
پہنچیں نہ ایڑیاں بھی اُٹھا کر جو مجھ تلک
رُسوا وہ لوگ کیوں نہ مجھے کُو بہ کُو کریں
پیروں تلے ہیں اُس کے سبھی کے سروں کے بال
اب منصفی کو کس کے اُسے رُوبروکریں
اُس کے ستم کا خوف ہی اُس کا ہے احترام
چرچا جبھی تو اُس کا سبھی چار سُو کریں
وہ عجز کیا کہ جس پہ گماں ہو غرور کا
ماجدؔ ہم اختیار نہ ایسی بھی خُو کریں
ماجد صدیقی

دن تھے جو بُرے وہ کٹ رہے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 59
طوفان غموں کے چھٹ رہے ہیں
دن تھے جو بُرے وہ کٹ رہے ہیں
اُبھرے تھے نظر میں جو الاؤ
اک ایک وہ اب سمٹ رہے ہیں
اِدبار کے سائے جس قدر تھے
اُمید کی ضو سے گھٹ رہے ہیں
اب جاں کا محاذ پُرسکوں ہے
دشمن تھے جو سر پہ ہٹ رہے ہیں
چہروں سے اُڑے تھے رنگ جتنے
ماجدؔ! وہ سبھی پلٹ رہے ہیں
ماجد صدیقی

اشک سا خاک میں سماتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 60
شاخ پر جو بھی پھول آتا ہے
اشک سا خاک میں سماتا ہے
شیر کس انتقام کی آتش
خون پی پی کے نِت بُجھاتا ہے
کیا یہ شب ہے کہ جس میں جگنو بھی
دُور تک راستہ سُجھاتا ہے
جانے قصّہ ہے کیا قفس میں جسے
نت پرندہ زباں پہ لاتا ہے
اَب تو ماجدؔ بھی چند قبروں کو
چُومتا ہے گلے لگاتا ہے
ماجد صدیقی

دھوپ جیسے کبھی چھاؤں سے ملے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 61
شاہ اِس طرح گداؤں سے ملے
دھوپ جیسے کبھی چھاؤں سے ملے
سیدھے ہاتھوں نہ ملے کُچھ بھی یہاں
جو ملے اوج وہ داؤں سے ملے
آنچ سب میں تھی لہو جلنے کی
جتنے پیغام ہواؤں سے ملے
پُوچھتا کون ہے شہروں میں اُنہیں
ولولے جو ہمیں گاؤں سے ملے
کیا کریں ہم اِسے روشن ماجدؔ!
فیض اب کون سا ناؤں سے ملے
ماجد صدیقی

دکھاتا ہے چلن صّیاد کیا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 62
ستم کرنے لگا ایجاد کیا کیا
دکھاتا ہے چلن صّیاد کیا کیا
فلک کی بے کراں پہنائیوں میں
بھٹکتی ہے مری فریاد کیا کیا
زمانہ باپ ہے شیریں کا جس نے
ہٹائے راہ سے فرہاد کیا کیا
کہا جب کچھ خلافِ طبع اُس کے
کِیا اُس نے بھی پھر ارشاد کیا کیا
مجھے تشنہ سمجھ کر، خستّوں پر
اُتر آئے ہیں ابر و باد کیا کیا
جھلکتے ہیں تِرے شعروں میں ماجدؔ
نجانے مانی و بہزاد کیا کیا
ماجد صدیقی

آنکھ کا آنگن ہمیشہ نم رہا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 63
سر پہ سایہ ابر کا گو کم رہا
آنکھ کا آنگن ہمیشہ نم رہا
جس سے کچھ اُمید تھی اُس پیڑ پر
بانجھ پن کا ہی سدا موسم رہا
وہ بھی کیا منظر تھا جس کو دیکھ کر
دل پہ سکتے کا سا اک عالم رہا
برق کا ماجدؔ کبھی صّیاد کا
ایک کھٹکا سا ہمیں پیہم رہا
ماجد صدیقی

تیر کھانے ہیں پھر جگر پہ ہمیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 64
سر جھکانا ہے اُس کے در پہ ہمیں
تیر کھانے ہیں پھر جگر پہ ہمیں
بھیج کر اُس نے کب خبر لی ہے
زندگانی کے اِس سفر پہ ہمیں
تتلیوں سی لگے نہ ہاتھ لگے
اعتبار اب نہیں سحر پہ ہمیں
آنکھ اٹھنے نہ دے کسی جانب
زہر کا سا گماں ہے زر پہ ہمیں
ہم سے کہہ کر وہ اپنے آنے کی
ٹانک دیتا ہے بام و در پہ ہمیں
جانے کیونکر گماں صحیفوں کا
ہونے لگتا ہے چشمِ تر پہ ہمیں
جانے کس خوف کی لگے ماجدؔ
چھاپ سی اک نگر نگر پہ ہمیں
ماجد صدیقی

لیکن نہ زبانوں پر تم رنجِ سفر لانا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 65
سمٹی ہے پروں میں جو اُس شب کی سحر لانا
لیکن نہ زبانوں پر تم رنجِ سفر لانا
بھائے نہ اُنہیں کچھ بھی جُز کلمۂ تر لانا
اور ہم کہ ہمیں آئے ہونٹوں پہ شرر لانا
سینچی ہے گلستاں نے جو شاخِ شجر اس پر
لازم نہ بھلا کیونکر ہو برگ و ثمرلانا
پنجرے میں صبا لا کر خوشبو، یہی کہتی ہے
مشکل ہے گلستاں سے کچھ اور خبر لانا
موسم کی تمازت پر ہے فرض کہ ہرنوں کو
جو گھاٹ کہ مقتل ہو صحرا میں، اُدھر لانا
بھاڑے ہی پہ کرنا ہے یہ کام ہمیں ماجدؔ
دریا میں اترنا ہے اور ساتھ گہر لانا
ماجد صدیقی

ہر ایک شہر ہے شیدا اب اُس کے ناؤں کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 66
سخن سرا تھا جو لڑکا سا ایک، گاؤں کا
ہر ایک شہر ہے شیدا اب اُس کے ناؤں کا
ہوا نہ حرفِ لجاجت بھی کامیاب اپنا
چلا نہ اُس پہ یہ پتا بھی اپنے داؤں کا
پسِ خیال ہو بن باس میں وطن جیسے
بہ دشتِ کرب، تصوّر وہی ہے چھاؤں کا
کسے دکھاؤں بھلا میں یہ انتخاب اپنا
گلہ کروں بھی تو اب کس سے آشناؤں کا
تلاشِ رزق سے ہٹ کر کہیں نہ چلنے دیں
ضرورتیں کہ جو چھالا بنی ہیں پاؤں کا
بلک رہا ہوں کہ کہتے ہیں جس کو ماں ماجدؔ
اُلٹ گیا ہے مرا طشت وہ دعاؤں کا
ماجد صدیقی

کتابِ عمر میں لو یہ بھی ایک باب آیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 67
سرِ سپیدۂ مُو، پردۂ خضاب آیا
کتابِ عمر میں لو یہ بھی ایک باب آیا
گماں یہ ہے کہ ستارے زمیں پہ اُتریں گے
سرِ ورق جو کبھی دل کا اضطراب آیا
قدم اُکھڑنے تلک تھیں صلابتیں ساری
پھر اُس کے بعد تو ہر حادثہ شتاب آیا
کبھی اُٹھا کے نہ دیکھا خود آئنہ جس نے
وہ شخص پاس مرے بہرِ احتساب آیا
ملائے آنکھ نہ مجھ دشت سے جبھی ماجدؔ
برس کے پھر کسی دریا یہ ہے سحاب آیا
ماجد صدیقی

اُداس شام مگر ایک ہی کے گھر اُترے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 68
سحر تو ایک سی گُرگ و غزال پر اُترے
اُداس شام مگر ایک ہی کے گھر اُترے
سنی پکار نہ آئی صدا سسکنے کی
نجانے کون سی گھاٹی میں ہم سفر اُترے
نکل کے چاند سے کیوں راہ بھول جاتی ہے
وُہ چاندنی کہ جو بیوہ کے بام پر اُترے
انہی پہ سانپ نگلتے ہیں ناتوانوں کو
سفیر بن کے سکوں کے ہیں گو شجر اُترے
مری بھی رُوح کا ساگر ہُوا کرم فرما
مری بھی آنکھ میں دیکھو تو ہیں گہر اُترے
سمیٹ لائے جہاں بھر کے رتجگے ماجدؔ
وہ ذہن جس پہ فلک سے کوئی ہُنر اُترے
ماجد صدیقی

بے اماں ہیں مرے نگر کیا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 69
سنسناتے ہیں بام و در کیا کیا
بے اماں ہیں مرے نگر کیا کیا
تجھ سے بچھڑے تو دیکھنا یہ ہے
آنکھ اُگلے گی اب گہر کیا کیا
آنچ ہی سے بدلتے موسم کی
سہم جانے لگے شجر کیا کیا
دیکھنے کو مآل خواہش کا
دل کو درپیش ہیں سفر کیا کیا
چہچہوں کے بلند ہوتے ہی
کاگ جھپٹے ہیں شاخ پر کیا کیا
اذن پرواز کو ترستے ہیں
گرد خوردہ یہ بال و پر کیا کیا
ہم سے کہنے میں حالِ دل ماجدؔ
ہچکچاتا ہے نامہ بر کیا کیا
ماجد صدیقی

پھر بھی خاموش میرا خُدا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 70
سر کہیں اور جھُکنے لگا ہے
پھر بھی خاموش میرا خُدا ہے
گرد ہے نامرادی کی پیہم
اورِادھر میرا دستِ دعا ہے
ہاتھ میں برگ ہے پھر ہوا کے
پھر ورق اک الٹنے لگا ہے
محو ہیں ابر پھر قہقہوں میں
پھر نشیمن کوئی جل اٹھا ہے
معتبر ہی جو ٹھہرے تو مجھ پر
جو ستم بھی کرو تم، روا ہے
خود کلامی سی ہے ایک، ورنہ
شاعری میں دھرا اور کیا ہے
میرے حصے کا من و سلویٰ
جانے ماجدؔ کہاں رُک گیا ہے
ماجد صدیقی

نہیں لیکن لبِ اظہار رکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 71
سلگنا جان میں آزار رکھنا
نہیں لیکن لبِ اظہار رکھنا
عقیدت کے چڑھاوے چاہئیں تو
بڑے مخصوص سے اطوار رکھنا
کرم بھی ہو جو محتاجوں پہ کرنا
اُنہیں پہلے ذرا بے زار رکھنا
تأثر مہربانی کا نظر میں
خشونت کے بھی ساتھ آثار رکھنا
ہر اِک منظر نیا دوزخ بنے گا
یہاں مت دیدۂ بیدار رکھنا
اماں کو، پنجۂ انسان سے بھی
پڑے ہیں آہنی اوزار رکھنا
بڑا مشکل ہے اَب ماجدؔ چمن میں
سلامت اپنے برگ و بار رکھنا
ماجد صدیقی

جو کیا ہے صاحبو! اچّھا کیا اچّھا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 72
سامنے غیروں کے اپنے یار کو رُسوا کیا
جو کیا ہے صاحبو! اچّھا کیا اچّھا کیا
رفعتوں کی سمت تھیں اونچی اڑانیں آپ کی
اور میں بے چارگی سے آپ کو دیکھا کیا
آسماں ٹوٹا نہ گر، پھٹ جائے گی خود ہی زمیں
آنگنوں کے حبس نے یہ راز ہے افشا کیا
کل تلک کھُل جائے گا یہ بھید سارے شہر پر
ڈھانپنے کو عیب اپنے تم نے بھی کیا کیا کیا
گو سرِ ساحل تھا لیکن سیل ہی ایسا تھا کچھ
گال اپنے دیر تک ماجدؔ بھی سہلایا کیا
ماجد صدیقی

رکھنے لگے اغیار میں اپنا بھرم اچّھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 73
سمجھیں وُہ ہمارے لیے ابرو میں خم اچّھا
رکھنے لگے اغیار میں اپنا بھرم اچّھا
کہتے ہیں وہ آلام کو خاطر میں نہ لاؤ
ٹھہرے گا تمہارے لیے اگلا جنم اچّھا
وجداں نے کہی بات یہ کیا حق میں ہمارے
چہرہ یہ مرا اور لباس اُس کا نم اچّھا
جو شاخ بھی کٹتی ہے کٹے نام نمو پر
دیکھو تو چمن پر ہے یہ کیسا کرم اچّھا
کس درجہ بھروسہ ہے اُنہیں ذات پہ اپنی
وہ لوگ کہ یزداں سے جنہیں ہے صنم اچّھا
یہ لفظ تھے کل ایک جنونی کی زباں پر
بسنے سے ہے اِس شہر کا ہونا بھسم اچّھا
غیروں سے ملے گا تو کھلے گا کبھی تجھ پر
ماجدؔ بھی ترے حق میں نہ تھا ایسا کم اچّھا
ماجد صدیقی

مرا سرِیر زمانے میں جب دو لخت نہ تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 74
سیاہ زیرِ فلک اِس قدر بھی بخت نہ تھا
مرا سرِیر زمانے میں جب دو لخت نہ تھا
بہ اوجِ شاخ جُھلانے ہمیں بھی آتی تھی
وہ دن بھی تھے کہ روّیہ ہوا کا سخت نہ تھا
ہوئے شکار کسی کی حقیر خواہش کے
وگرنہ پاس کچھ ایسا گراں بھی رخت نہ تھا
یہ جانتا تھا فلک بھی کہ آشیاں کے سوا
چمن میں اپنے تصرّف میں کوئی تخت نہ تھا
اِسے یہ رنگ سلاخوں نے دے دیا ورنہ
چمن میں تو مرا لہجہ کبھی کرخت نہ تھا
گیا اجاڑ ہمیں اُس کا روٹھنا ماجدؔ
وہ شخص جو کہ بظاہر ہمارا بخت نہ تھا
ماجد صدیقی

بڑا ہی دور سِر اَوج طور اُترا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 75
زمیں پہ جب بھی کبھی اُس کا نور اُترا ہے
بڑا ہی دور سِر اَوج طور اُترا ہے
جو پھوٹتا ہے کبھی تلخیوں کی شدّت سے
لہو کی تہ میں کچھ ایسا سرور اُترا ہے
مرے سکوں کا پیمبر اسی میں ہو شاید
ابھی ابھی لبِ دریا جو پُور اُترا ہے
رہا ہے ایک سا موسم نہ بادوباراں کا
چڑھا ہے جو بھی وہ دریا ضرور اُترا ہے
نگاہِ حرص لگی ہے اُسی پرندے پر
تلاشِ رزق میں ہو کر جو چُور اُترا ہے
سنی نہ ہم نے کبھی ایسی شاعری واعظ
سخن میں آپ کے کیا عکسِ حور اُترا ہے
تجھے بھی اہلِ ہوس پر کچھ اعتماد سا ہے
ترے بھی ذہن میں ماجدؔ فتور اُترا ہے
ماجد صدیقی

جیسے افواہ کوئی گاؤں میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 76
زہر پھیلا ہے وُہ فضاؤں میں
جیسے افواہ کوئی گاؤں میں
چھین لی تھی کمان تک جس سے
آ گئے پھر اُسی کے داؤں میں
پھر جلی ہے کوئی چِتا جیسے
بُو ہے بارود کی ہواؤں میں
کشتیٔ آرزو گھری دیکھی
جانے کتنے ہی ناخداؤں میں
نت گھمائے جو دائروں میں ہمیں
کیسی زنجیر ہے یہ پاؤں میں
آگ برسی اُسی پرندے پر
دم بھی جس نے لیا نہ چھاؤں میں
اَب تو ماجدؔ سکونِ دل کے لئے
چل کے رہیے کہیں خلاؤں میں
ماجد صدیقی

کس کا رہنے لگا خیال ہمیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 77
روز و شب ہے یہ کیا ملال ہمیں
کس کا رہنے لگا خیال ہمیں
پھر کوئی شوخ دل کے درپے ہیں
اے غمِ زندگی سنبھال ہمیں
تیغ دوراں کے وار سہنے کو
ڈھونڈنی ہے کوئی تو ڈھال ہمیں
شہ پیادوں سے جس سے مر جائیں
جانے سُوجھے گی کب وہ چال ہمیں
کسمساتا ہے جسم جس کے لئے
ملنے پایا نہ پھر وہ مال ہمیں
بار شاخوں سے جھاڑ کر ماجدؔ
گرد دیتے ہیں ماہ و سال ہمیں
ماجد صدیقی

شجر پھر ہے پتے لُٹانے لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 78
رُتوں سے نئی مات کھانے لگا
شجر پھر ہے پتے لُٹانے لگا
انا کو پنپتے ہوئے دیکھ کر
زمانہ ہمیں پھر سِدھانے لگا
جو تھا دل میں ملنے سے پہلے ترے
وہی ولولہ پھر ستانے لگا
چھنی ہے کچھ ایسی اندھیروں سے نم
کہ سایہ بھی اب تو جلانے لگا
دیا جھاڑ ہی شاخ سے جب مجھے
مری خاک بھی اب ٹھکانے لگا
وُہ انداز ہی جس کے تتلی سے تھے
تگ و دو سے کب ہاتھ آنے لگا
نہ پُوچھ اب یہ ماجدؔ! کہ منجدھار سے
کنارے پہ میں کس بہانے لگا
ماجد صدیقی

کہ باج بن کے خوشی زندگی سے کٹنے لگی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 79
ریاستوں میں کہاں ارضِ جاں یہ بٹنے لگی
کہ باج بن کے خوشی زندگی سے کٹنے لگی
اُدھر فساد سبک اور گھنے اندھیروں میں
اِدھر گماں کہ سیاہی فلک سے چھٹنے لگی
شباب پر ہے سفر واپسی کا ہر جانب
مہک بھی باغ میں اب سُوئے گل پلٹنے لگی
یہ کیسا جبر ہے، طوفانِ تیرگی کیا ہے
کہ روشنی تھی جہاں بھی وہیں سمٹنے لگی
نگل رہی ہے مجھے خاکِ زیرِ پا جیسے
مری درازیٔ قامت ہے خود ہی گھٹنے لگی
کہاں گئی وہ متانت وہ شستگی ماجدؔ!
ہر ایک سمت یہ وحشت سی کیوں جھپٹنے لگی
ماجد صدیقی

تھے جو کل یار وہ اغیار بنے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 80
رابطے جان کا آزار بنے
تھے جو کل یار وہ اغیار بنے
واہمہ ہجر کا اُس سے ملتے
جانے کیوں راہ کی دیوار بنے
ہاتھ لتھڑے تھے لہو سے جن کے
مرنے والوں کے عزادار بنے
جاں فزا کھوج تھا جن کا ماجدؔ
سب ہلاکت کے وہ اوزار بنے
ماجد صدیقی

سانس آنے کا اعتبار گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 81
رُوٹھ کر جب سے اپنا یار گیا
سانس آنے کا اعتبار گیا
اَبکے جو بھی کماں سے نکلا تھا
تیر سیدھا وُہ دل کے پار گیا
جو بھی پہنچا کسی بلندی پر
توڑ کر جبر کا حصار گیا
بُرد باری اساس تھی جس کی
دل وہ بازی بھی آج ہار گیا
شاخِ نازک سا دل ترا ماجدؔ!
بوجھ کیا کیا نہیں سہار گیا
ماجد صدیقی

ساری آوازیں لگیں بھرّائیاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 82
رتجگوں کی آنچ سے کُملائیاں
ساری آوازیں لگیں بھرّائیاں
کل جو گزرا تھا گلی سے کون تھا
پُوچھتی ہیں اُس سے یہ ہمسائیاں
آنکھ سے پھُوٹی وہ نم اب کے برس
جم گئیں منظر بہ منظر کائیاں
رہ بہ رہ شہروں میں میلہ حشر سا
اور گھر گھر قبر سی تنہائیاں
ہاتھ سے اک بار جو ماجدؔ گئیں
کب بھلا وہ ساعتیں لوٹ آئیاں
ماجد صدیقی

دل کو تسکین کہاں سے آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 83
روز اک آنچ سی جاں سے آئے
دل کو تسکین کہاں سے آئے
کس توقع پہ لیا نام ترا
ایک خوشبو سی دہاں سے آئے
ضبط سے جسم پگھلتے ہوں جہاں
ہو کے ہم لوگ وہاں سے آئے
جسم آیا ہے کھنڈر ہونے کو
کیا خبر اور خزاں سے آئے
اتنا روئے ہیں مسلسل کہ ہمیں
اب تو دہشت سی فغاں سے آئے
لُطفِ مضموں بھی جُدا ہے ماجدؔ
کیا مزہ تیری زباں سے آئے
ماجد صدیقی

تیر پر اُس کے مرا جب تن لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 84
ذات میں اپنی یہ گُل، گلشن لگا
تیر پر اُس کے مرا جب تن لگا
اے نظر چھُپنے سے اُس مہتاب کے
کس قدر سُونا ترا آنگن لگا
پر تو کاٹے ہیں قفس میں جھونک کر
اَب صدا پر بھی مری قدغن لگا
وُہ بھی انساں تھا جواں بیٹی جسے
حِرص کے آنگن میں بکھرا دھن لگا
کیا سراپا تھا وہ جس کو دیکھ کر
جی سے جانا بھی ہمیں احسن لگا
دیکھ لے ماجدؔ کرشمے عجز کے
ابر بھی چڑیوں کو ہے ناگن لگا
ماجد صدیقی

وہ شخص جِسے اب بھی مرا نام نہ آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 85
ڈرتا ہے کہ اُس پر کوئی الزام نہ آئے
وہ شخص جِسے اب بھی مرا نام نہ آئے
آنگن میں شبِ تار کی چیخیں ہیں یہ کیسی
ہے کون پرندہ جسے آرام نہ آئے
ہم خود ہی سمجھتے ہیں تصوّر میں کچھ ایسا
چندا تو کبھی چل کے سرِبام نہ آئے
اٹھا تھا جو ناؤکے الٹتے سرِ دریا
کانوں میں کہیں پھر وہی کہرام نہ آئے
فیضان بھی ایسا ہی عطا ہونا تھا ان سے
جو لوگ کہ لینے ہمیں دو گام نہ آئے
دیکھی تھی جو اس دل نے کسی موڑ پہ ماجدؔ
ایسی بھی کسی گھر میں کوئی شام نہ آئے
ماجد صدیقی

اُس کا اب تک ہے اعتراف ہمیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 86
دی دکھائی خطا جو صاف ہمیں
اُس کا اب تک ہے اعتراف ہمیں
جا سکے گی نہ تم سے جھُٹلائی
بات جس پرہے اختلاف ہمیں
کون ہے جو درست کروائے
ہند سے آ کے شین قاف ہمیں
نیتِ حاسداں سے بچنے کو
دے کوئی آہنی غلاف ہمیں
جِن محّبوں کو ہم بھُلا بیٹھے
کیوں وہ ماجدؔ کریں معاف ہمیں
ماجد صدیقی

یہ سہم سا خواب خواب کیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 87
دہشت ہے کہ اضطراب کیا ہے
یہ سہم سا خواب خواب کیا ہے
کھولا ہے یہ راز رہزنوں نے
کمزور کا احتساب کیا ہے
دھرتی یہ فلک سے پُوچھتی ہے
پاس اُس کے اَب اور عذاب کیا ہے
مشکل ہوئی اب تمیز یہ بھی
کیا خُوب ہے اور خراب کیا ہے
کہتے ہیں جو دل میں آئے ماجدؔ!
ایسا بھی ہمیں حجاب کیا ہے
ماجد صدیقی

وہی سہم سا وہی خوف سا ہے خیال میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 88
دمِ صید فرق پڑے جو پائے غزال میں
وہی سہم سا وہی خوف سا ہے خیال میں
بڑی بے نیاز رعونتوں کا شکار ہیں
وہ نزاکتیں کہ دبی ہیں اپنے سوال میں
اِسے کس صلابتِ عزم کی میں عطا کہوں
یہ جو تازگی سی ہے آرزو کے جمال میں
وہ تو اُڑ گیا کہ پناہ جس کو بہم ہوئی
پہ لگا جو تیر، لگا درخت کی چھال میں
وہ نشہ کہ بعدِ شکار آئے پلنگ کو
وہی رم امڈنے لگا ہے فکرِ مآل میں
تجھے کیا خیال ہے یہ بھی ماجدِبے خبر!
کہ گھری ہوئی تری جاں بھی ہے کسی جال میں
ماجد صدیقی

باکرہ ماں کی طرح پیٹ چھپائے رکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 89
دھیان اوروں کا حقیقت سے ہٹائے رکھنا
باکرہ ماں کی طرح پیٹ چھپائے رکھنا
کیا خبر آ ہی نہ جائے وہ سرِ صبح کہیں
دل میں موہوم سی امید جگائے رکھنا
درس منبر سے بھی رہ سہہ کے ملا اِتنا ہی
جو بھی خواہش ہو اُسے کل پہ اُٹھائے رکھنا
دل سے بالک کے لئے آ ہی گیا ہے ہم کو
ہڈیاں آس کی چُولھے پہ چڑھائے رکھنا
جو نہ کہنا ہو سرِ بزم وہ کہہ دیں ماجدؔ
کچھ بھرم ہم کو محّبت کا نہ آئے رکھنا
ماجد صدیقی

اُس کا پیکر ہے مگر یاد آیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 90
دشت میں رہ کا شجر یاد آیا
اُس کا پیکر ہے مگر یاد آیا
پھر تمّنا نے کیا ہے رُسوا
پھر مسیحاؤں کا در یاد آیا
اُس کی آنکھوں سے لہو تک اُس کے
طے کیا تھا جو سفر یاد آیا
جب بھی بچّہ کوئی مچلا دیکھا
مجھ کو سپنوں کا نگر یاد آیا
ہم کو پنجرے سے نکلنا تھا کہ پھر
برق کو اپنا ہُنر یاد آیا
ابر ڈھونڈوں گا کہاں سر کے لئے
لُطف ماں باپ کا گر یاد آیا
کیا کرم اُس کا تھا ماجدؔ کہ جسے
یاد آنا تھا نہ ، پر یاد آیا
ماجد صدیقی

ہمارا ذکر وہاں اب کے غائبانہ تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 91
دیارِ یار جو اپنا کبھی ٹھکانہ تھا
ہمارا ذکر وہاں اب کے غائبانہ تھا
مجھی پہ اُس کا نزولِ غضب ہوا کیونکر
مرا ہی خطۂ جاں اُس کا کیوں نشانہ تھا
اثر پکار میں کچھ تھا نہ گھر کے جلنے تک
پھر اُس کے بعد تو ہمدرد اک زمانہ تھا
کبھی نہ دل سے گیا قُربِ رعد کا کھٹکا
بلند شاخ پہ جس دن سے آشیانہ تھا
اُنہی کے سامنے جھکتے تھے عدل والے بھی
سلوک جن کا سرِ ارض غاصبانہ تھا
کسی کو دیکھتے ماجدؔ بصدقِ دل کیسے
وہ جن کا اپنا چلن ہی منافقانہ تھا
ماجد صدیقی

بول ہوں جیسے ہونٹوں پر بیواؤں کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 92
دل سے یُوں اٹُھتے ہیں حرف دعاؤں کے
بول ہوں جیسے ہونٹوں پر بیواؤں کے
بُعد نجانے تا بہ نشیمن کتنا ہے
تیور ہیں کچھ اور ہی تُند ہواؤں کے
اب کے آس کا عالم ہی کچھ ایسا ہے
ہاتھ میں سکے جیسے آخری داؤں کے
پل پل چھینیں چہروں سے نم راحت کی
حلق میں اٹکے کنکر خشک صداؤں کے
پیشانی میں عجز کی میخیں اُتری ہیں
اور زباں کی نوک پہ وِرد خداؤں کے
رفتہ رفتہ پیار کا ابجد بھول گئے
شہر میں جو جو لوگ بھی آئے گاؤں کے
ماجدؔ نقش برآب سمجھتے تھے جس کو
نقش کھُدے ہیں دل پر اُس کے ناؤں کے
ماجد صدیقی

کسی اژدر سے جیسے سامنا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 93
درِ ہجراں وہ دل پر آ کھُلا ہے
کسی اژدر سے جیسے سامنا ہے
جدھر ہے زندگی اور موت بھی ہے
پرندہ پھر اُسی جانب اُڑا ہے
اُدھر مہتاب سا چہرہ ہے اُس کا
اِدھر بے چین ساگر شوق کا ہے
جلائے جسم و جاں کو دمبدم جو
پسِ خواہش وہ پیکر آگ سا ہے
گیا ہے اَب کے یُوں وہ داغ دے کر
کہ جیسے پیڑ سے پتا گرا ہے
یہ وہ جانیں جنہیں نسبت ہے اُس سے
ہمیں کیا وہ بُرا ہے یا بھلا ہے
زباں پر نام ہے اُس کا کہ ماجدؔ
سرِ مژگاں کوئی آنسو رُکا ہے
ماجد صدیقی

جتنے امکاں تھے راحت کے گھٹنے لگے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 94
دن کچھ اِس طور سے اب کے کٹنے لگے
جتنے امکاں تھے راحت کے گھٹنے لگے
تیز ہیں جب سے ناخن نئی سوچ کے
ایک اک تہ سکوں کی الُٹنے لگے
غیر کی چال سے رن پڑا ہے یہ کیا
بھائیوں ہی سے بھائی نمٹنے لگے
جھڑ کے بھی شاخ سے جانے کس حرص میں
خشک پتے ہوا سے لپٹنے لگے
بول اعدا کے ماجدؔ وہ جانے تھے کیا
ذہن میں جو سرنگوں سے پھٹنے لگے
ماجد صدیقی

بن کے ٹُوٹا وہی بلا ہم پر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 95
حاسدوں کو جو طیش تھا ہم پر
بن کے ٹُوٹا وہی بلا ہم پر
بغض جو ہمرہوں کے دل میں تھا
دُور جا کر کہیں کھُلا ہم پر
جس سے رکھتے تھے آس شفقت کی
ہاتھ آخر وُہی اٹھا ہم پر
لے نہ لیں جاں بھی خاک زادے یہ
مہرباں گر نہ ہو خدا ہم پر
لائے کب خیر کی خبر ماجدؔ
کب یہ احساں کرے ہوا ہم پر
ماجد صدیقی

کون ہے جو دل مرا بہلا سکے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 96
حسن شاخوں کا انہیں لوٹا سکے
کون ہے جو دل مرا بہلا سکے
آسماں کے، اِس زمیں کے، دہر کے
دل یہ کس کس کے ستم گنوا سکے
اُس ہوا کی خنکیاں کس کام کی
روح کے گھاؤ نہ جو سہلا سکے
سانس تک بھی قرض کا لیتا ہے جب
آدمی کس بات پر اِترا سکے
آس دوشیزہ ہے وہ جس کو کبھی
ہم نہ انگوٹھی کوئی پہنا سکے
خود سرِ دربارِ شہ عریاں ہے جو
ذوق کیا خلعت ہمیں دلوا سکے
ماجد صدیقی

رسم یہ منصوری ہے اِسے دُہراتے رہنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 97
حق سمجھو جو بات زباں پر لاتے رہنا
رسم یہ منصوری ہے اِسے دُہراتے رہنا
برگ اور بار جھڑے تو کیا ہے، باغ کے پیڑو!
آنگن میں اُمید کے تم اِٹھلاتے رہنا
اِس کی شہ پر کاہے کو جی میلا کیجے
موسم کی تو خُو ہے یہی، گدراتے رہنا
سُن ہو جاؤگے للکار ستم کی سنتے
عزم کا جادو اپنے لہو میں جگاتے رہنا
ظلم کو سخت دلی کی آنچ سے ہی پیش آنا
اپنے کیے پر پھر چاہے پچھتاتے رہنا
دیکھنا وقت لگے زخموں کو مٹا ہی نہ ڈالے
رنج کی شدّت اِس شاطر کو جتاتے رہنا
لاکھ زباں پر جبر کے پہرے لگتے رہیں پر
ماجدؔ دل کا حال ہمیں ہے سناتے رہنا
ماجد صدیقی

بڑا دشوار ہے حق بات کہنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 98
چمن کی تیرگی کو رات کہنا
بڑا دشوار ہے حق بات کہنا
جو دھبے گرد کے اشجار پر ہیں
انہیں دھبے نہ کہنا پات کہنا
جو انساں کل فرشتہ تھا نظر میں
اُسے بھی پڑ گیا بد ذات کہنا
شریکِ راحت یاراں نہ ہونا
بجائے آفریں ہیہات کہنا
زباں پر حرفِ حق آئے اگر تو
اُسے تم تنُدیٔ جذبات کہنا
نہ خفت ماننا کوئی تم اپنی
ہماری جیت ہی کو مات کہنا
یہ دنیا ہے یہاں رہنے کو ماجدؔ
پڑے سچ جھوٹ سب اِک سات کہنا
ماجد صدیقی

منظر ہے پھر نگاہ میں پھٹتے حباب کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 99
چھیڑا یہ کس نے ذکر ہَوا کے عتاب کا
منظر ہے پھر نگاہ میں پھٹتے حباب کا
برسے تو پیڑ پیڑ جڑوں سے اکھیڑ دے
یہ بھی تو اِک چلن ہے اُمڈتے سحاب کا
کس سے کہوں کہ اس کی چمن میں خطا ہے کیا
نُچنے پہ آ گیا ہے بدن کیوں گلاب کا
دیکھی جہاں کہیں بھی کوئی جانِ ناتواں
پنجہ وہیں پہ آ کے پڑا ہے عقاب کا
ماجدؔ ہیں ہم وہ گوشۂ صحرا کہ جس کی اور
پھرنے کو رُخ نہیں ہے کسی جُوئے آب کا
ماجد صدیقی

آگ اُٹھتی لگے لبوں سے مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 100
چُپ لگی ہے وُہ کچھ دنوں سے مجھے
آگ اُٹھتی لگے لبوں سے مجھے
حُزن کا پھر فساد خون میں ہے
واسطہ پھر ہے رتجگوں سے مجھے
میرا ورثہ کراؤ نام اپنے
اور بہلاؤ جھنجھنوں سے مجھے
کیوں ہے منُسوب اَب خدا سے بھی
وہ شکایت کی تھی بُتوں سے مجھے
باز ہونے پہ بھی درِ زنداں
فیض پہنچا نہ کچھ پروں سے مجھے
لُٹ چکا ہوں میں اتنی بار کہ اَب
خوف آئے نہ رہزنوں سے مجھے
لوگ پہچانتے ہیں اَب ماجدؔ!
غم کی بے طرح شدّتوں سے مجھے
ماجد صدیقی