زمرہ جات کے محفوظات: زنداں نامہ
نہ شب کو دن سے شکایت نہ دن کو شب سے ہے
کیا خبر آج خراماں سرِگلزار ہے کون
تو صبح جھوم کے گلزار ہو گئی یکسر
تمہاری یاد سے دل ہمکلام رہتا ہے
ہر اک صدا میں ترے حرفِ لطف کا آہنگ
کوچہء یار سے بے نیلِ مرام آتا ہے
کوئی کرتا ہی نہیں ضبط کی تاکید اب کے
کوئی عاشق کسی محبوبہ سے
یاد کی راہگزر جس پہ اسی صورت سے
مدتیں بیت گئی ہیں تمہیں چلتے چلتے
ختم ہو جائے جو دو چار قدم اور چلو
موڑ پڑتا ہے جہاں دشتِ فراموشی کا
جس سے آگے نہ کوئی میں ہوں نہ کوئی تم ہو
سانس تھامے ہیں نگاہیں کہ نہ جانے کس دم
تم پلٹ آؤ، گزر جاؤ، یا مڑ کردیکھو
گرچہ واقف ہیں نگاہیں کہ یہ سب دھوکا ہے
گر کہیں تم سے ہم آغوش ہوئی پھر سے نظر
پھوٹ نکلے گی وہاں اور کوئی راہگزر
پھر اسی طرح جہاں ہو گا مقابل پیہم
سایہء زلف کا اور جنببشِ بازو کا سفر
دوسری بات بھی جھوٹی ہے کہ دل جانتا ہے
یاں کوئی موڑ کوئی دشت کوئی گھات نہیں
جس کے پردے میں مرا ماہِ رواں ڈوب سکے
تم سے چلتی رہے یہ راہ، یونہی اچھا ہے
تم نے مڑ کر بھی نہ دیکھا تو کوئی بات نہیں
بنیاد کچھ تو ہو
کوئے ستم کی خامشی آباد کچھ تو ہو
کچھ تو کہو ستم کشو، فریاد کچھ تو ہو
بیداد گر سے شکوۂ بیداد کچھ تو ہو
بولو، کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
مرنے چلے تو سطوتِ قاتل کا خوف کیا
اتنا تو ہو کہ باندھنے پائے نہ دست و پا
مقتل میں کچھ تو رنگ جمے جشنِ رقص کا
رنگیں لہو سے پنجۂ صیاد کچھ تو ہو
خوں پر گواہ دامنِ جلّاد کچھ تو ہو
جب خوں بہا طلب کریں ،بنیاد کچھ تو ہو
گرتن نہیں ، زباں سہی، آزاد کچھ تو ہو
دشنام، نالہ، ہاؤ ہو، فریاد کچھ تو ہو
چیخے ہے درد، اے دلِ برباد کچھ تو ہو
بولو کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
بولو کہ روزِ عدل کی بنیاد کچھ تو ہو
(منٹگمری جیل)
یہ فصل امیدوں کی ہمدم
سب کاٹ دو بسمل پودوں کو
بے آب سسکتے مت چھوڑو
سب نوچ لو
بیکل پھولوں کو
شاخوں پہ بلکتے مت چھوڑو
یہ فصل امیدوں کی ہمدم
اس بار بھی غارت جائے گی
سب محنت، صبحوں شاموں کی
اب کے بھی اکارت جائے گی
کھیتی کے کونوں، کھدروں میں
پھر اپنے لہو کی کھاد بھرو
پھر مٹی سینچو اشکوں سے
پھر اگلی رت کی فکر کرو
پھر اگلی رت کی فکر کرو
جب پھر اک بار اُجڑنا ہے
اک فصل پکی تو بھر پایا
جب تک تو یہی کچھ کرنا ہے
(منٹگمری جیل)
گل کھلے جاتے ہیں وہ سایہء در تو دیکھو
Africa Come Back
آجاؤ، میں نے سن لی ترے ڈھول کی ترنگ
آجاؤ، مست ہو گئی میرے لہو کی تال
“آجاؤ ایفریقا“
آجاؤ، میں نے دھول سے ماتھا اٹھا لیا
آجاؤ، میں نے چھیل دی آنکھوں سے غم کی چھال
آجاؤ، میں نے درد سے بازو چھڑا لیا
آجاؤ، میں نے نوچ دیا بے کسی کا جال
’’جاؤ ایفریقا“
پنجے میں ہتھکڑی کی کڑی بن گئی ہے گرز
گردن کا طوق توڑ کے ڈھالی ہے میں نے ڈھال
“آجاؤ ایفریقا“
جلتے ہیں ہر کچھار میں بھالوں کے مرگ نین
دشمن لہو سے رات کی کالک ہوئی ہے لال
“آجاؤ ایفریقا“
دھرتی دھڑک رہی ہے مرے ساتھ ایفریقا
دریا تھرک رہا ہے توبن دے رہا ہے تال
میں ایفریقا ہوں، دھار لیا میں نے تیرا روپ
میں تو ہوں ،میری چال ہے تیری ببر چال
“آجاؤ ایفریقا“
آؤ ببر کی چال
“آجاؤ ایفریقا“
(منٹگمری جیل ۔ ؎۱افریقی حریت پسندوں کا نعرہ)
رنگِ رخسار کی پھوہار گری
درد آئے گا دبے پاؤں
اور کچھ دیر میں ، جب پھر مرے تنہا دل کو
فکر آ لے گی کہ تنہائی کا کیا چارہ کرے
درد آئے گا دبے پاؤں لیے سرخ چراغ
وہ جو اک درد دھڑکتا ہے کہیں دل سے پرے
شعلہء درد جو پہلو میں لپک اٹھے گا
دل کی دیوار پہ ہر نقش دمک اٹھے گا
حلقہء زلف کہیں، گوشہء رخسار کہیں
ہجر کا دشت کہیں، گلشنِ دیدار کہیں
لطف کی بات کہیں، پیار کا اقرار کہیں
۔۔
دل سے پھر ہو گی مری بات کہ اے دل اے دل
یہ جو محبوب بنا ہے تری تنہائی کا
یہ تو مہماں ہے گھڑی بھر کا، چلا جائے گا
اس سے کب تیری مصیبت کا مداوا ہو گا
مشتعل ہو کے ابھی اٹھیں گے وحشی سائے
یہ چلا جائے گا، رہ جائیں گے باقی سائے
رات بھر جن سے ترا خون خرابا ہو گا
جنگ ٹھہری ہے کوئی کھیل نہیں ہے اے دل
دشمنِ جاں ہیں سبھی، سارے کے سارے قاتل
یہ کڑی رات بھی ، یہ سائے بھی ، تنہائی بھی
درد اور جنگ میں کچھ میل نہیں ہے اے دل
لاؤ سلگاؤ کوئی جوشِ غضب کا انگار
طیش کی آتشِ جرار کہاں ہے لاؤ
وہ دہکتا ہوا گلزار کہاں ہے لاؤ
جس میں گرمی بھی ہے ، حرکت بھی توانائی بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہو نہ ہو اپنے قبیلے کا بھی کوئی لشکر
منتظر ہو گا اندھیرے کی فصیلوں کے اُدھر
ان کو شعلوںکے رجز اپنا پتا تو دیںگے
خیر، ہم تک وہ نہ پہنچیں بھی، صدا تو دیں گے
دور کتنی ہے ابھی صبح، بتا تو دیں گے
(منٹگمری جیل)
دریچہ
گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں
ہر ایک اپنے مسیحا کے خوں کا رنگ لیے
ہر ایک وصلِ خداوند کی امنگ لیے
کسی پہ کرتے ہیں ابرِ بہار کو قرباں
کسی پہ قتل مہِ تابناک کرتے ہیں
کسی پہ ہوتی ہے سرمست شاخسار دو نیم
کسی پہ بادِ صبا کو ہلاک کرتے ہیں
ہر آئے دن یہ خداوندگانِ مہر و جمال
لہو میں غرق مرے غمکدے میں آتے ہیں
اور آئے دن مری نظروں کے سامنے ان کے
شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیں
(منٹگمری جیل)
ہم بادہ کشوں کے حصے کی، اب جام میں کمتر جاتی ہے
منتِاین و آں تو چھوٹے گی
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتوںکی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوںکی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی
جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلے آئے ،لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرفِ غزل ، دل میں قندیلِغم
اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوںمیں مارے گئے
نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری الفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جا ملے
قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عُشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کرچلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
اے روشنیوںکے شہر
سبزہ سبزہ، سوکھ رہی ہے پھیکی، زرد دوپہر
دیواروںکو چاٹ رہا ہے تنہائی کا زہر
دور افق تک گھٹتی، بڑھتی ، اُٹھتی، گرتی رہتی ہے
کہر کی صورت بے رونق دردوں کی گدلی لہر
بستا ہے اس کہر کے پیچھے روشنیوں کا شہر
اے روشنیوں کے شہر
کون کہے کس سمت ہے تیری روشنیوں کی راہ
ہر جانب بے نور کھڑی ہے ہجر کی شہر پناہ
تھک کر ہرسو بیٹھ رہی ہے شوق کی ماند سپاہ
آج مرا دل فکر میں ہے
اے روشنیوں کے شہر
شب خوں سے منھ پھیر نہ جائے ارمانوں کی رو
خیر ہو تیری لیلاؤں کی، ان سب سے کہہ دو
آج کی شب جب دیے جلائیں، اونچی رکھیں لو
(لاہور جیل)
دشنام تو نہیں ہے، یہ اکرام ہی تو ہے
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
شوخیِ رنگِ گلستاں ہے وہی
واسوخت
سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے
بے شک ستم جناب کے سب دوستانہ تھے
ہاں، جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی!
ہاں، ہم ہی کاربندِ اصولِ وفا نہ تھے
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے
کیوں دادِ غم، ہمیں نے طلب کی، برا کیا
ہم سے جہاں میں کشتہء غم اور کیا نہ تھے
گر فکرِ زخم کی تو خطاوار ہیں کہ ہم
کیوں محوِ مدح خوبیء تیغِ ادا نہ تھے
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے ، بہت لادوا نہ تھے
لب پر ہے تلخیء مئے ایام ، ورنہ فیض
ہم تلخیء کلام پہ مائل ذرا نہ تھے
دل کی حالت سنبھل چلی ہے
وہ رات جو کہ ترے گیسوؤں کی رات نہیں
ملاقات
یہ رات اُس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے ، تجھ سے عظیم تر ہے
عظیم تر ہے کہ اس کی شاخوں
میں لاکھ مشعل بکف ستاروں
کے کارواں، گھِر کے کھو گئے ہیں
ہزار مہتاب، اس کے سائے
میں اپنا سب نور، رو گئے ہیں
یہ رات اُس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
مگر اسی رات کے شجر سے
یہ چند لمحوں کے زرد پتے
گرے ہیں، اور تیرے گیسوؤں میں
الجھ کے گلنار ہو گئے ہیں
اسی کی شبنم سے خامشی کے
یہ چند قطرے، تری جبیں پر
برس کے ، ہیرے پرو گئے ہیں
۔ ۲ ۔
بہت سیہ ہے یہ رات لیکن
اسی سیاہی میں رونما ہے
وہ نہرِ خوں جو مری صدا ہے
اسی کے سائے میں نور گر ہے
وہ موجِ زر جو تری نظر ہے
وہ غم جو اس وقت تیری باہوں
کے گلستاں میں سلگ رہا ہے
(وہ غم، جو اس رات کا ثمر ہے)
کچھ اور تپ جائے اپنی آہوں
کی آنچ میں تو یہی شرر ہے
ہر اک سیہ شاخ کی کماں سے
جگر میںٹوٹے ہیں تیر جتنے
جگر سے نوچے ہیں، اور ہر اک
کا ہم نے تیشہ بنا لیا ہے
الم نصیبوں، جگر فگاروں
کی صبح، افلاک پر نہیں ہے
جہاں پہ ہم تم کھڑے ہیں دونوں
سحر کا روشن افق یہیں ہے
یہیںپہ غم کے شرار کھل کر
شفق کا گلزار بن گئے ہیں
یہیں پہ قاتل دکھوں کے تیشے
قطار اندر قطار کرنوں
کے آتشیں ہار بن گئے ہیں
یہ غم جو اس رات نے دیا ہے
یہ غم سحر کا یقیں بنا ہے
یقیں جو غم سے کریم تر ہے
سحر جو شب سے عظیم تر ہے
(منٹگمری جیل)
شبِ سیہ سے طلب حسنِ یار کرتے رہے
دل تھا کہ پھر بہل گیا، جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی
سزا، خطائے نظر سے پہلے، عتاب جرمِ سخن سے پہلے
اے حبیبِ عنبر دست!
کسی کے دستِ عنایت نے کنجِ زنداں میں
کیا ہے آج عجب دل نواز بندوبست
مہک رہی ہے فضا زلفِ یار کی صورت
ہوا ہے گرمیء خوشبو سے اس طرح سرمست
ابھی ابھی کوئی گزرا ہے گل بدن گویا
کہیں قریب سے ، گیسو بدوش ، غنچہ بدست
لیے ہے بوئے رفاقت اگر ہوائے چمن
تو لاکھ پہرے بٹھائیں قفس پہ ظلم پرست
ہمیشہ سبز رہے گی وہ شاخِ مہرووفا
کہ جس کے ساتھ بندھی ہے دلوں کی فتح و شکست
یہ شعرِ حافظِ شیراز ، اے صبا! کہنا
ملے جو تجھ سے کہیں وہ حبیبِ عنبر دست
"خلل پذیر بود ہر بنا کہ مے بینی
بجز بنائے محبت کہ خالی از خلل است”
(سنٹرل جیل حیدر آباد ٨٢)
ہم لوگ سرخرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں
شکر ہے زندگی تباہ نہ کی
دیباچہ
ایک زمانہ ہوا جب غالب نے لکھا تھا کہ جو آنکھ قطرے میں دجلہ نہیں دیکھ سکتی دیدہ بینا نہیں بچوں کا کھیل ہے۔اگر غالب ہمارے ہم عصر ہوتے تو غالبا کوئی نہ کوئی ناقد ضرور پکار اٹھتا کہ غالب نے بچوں کے کھیل کی تو ہین کی ہے یا یہ کہ غالب ادب میں پروپگینڈا کے حامی معلوم ہوتے ہیں۔ شاعر کی آنکھ قطرے میں دجلہ دیکھنے کی تلقین کرنا صریح پروپگینڈا ہے۔اس کی آنکھ کو تو محض حسن سے غرض ہے اور حسن اگر قطرے میں دکھائی دے جائے تو وہ قطرہ دجلہ کا ہو یا گلی کی بدرو کا، شاعر کو اس سے کیا سروکار یہ دجلہ دیکھنا دکھانا حکیم فلسفی یا سیاستداں کا کام ہو گا شاعر کا کام نہیں ہے۔اگر ان حضرات کا کہنا صحیح ہوتا تو آبروئے شیوہ اہل ہنر، رہتی یا جاتی، اہل ہنر کا کام یقینا بہت سہل ہو جاتا، لیکن خوش قسمتی یا بد قسمتی سے فن سخن (یا کوئی اور فن)بچوں کا کھیل نہیں ہے۔اس کے لیے تو غالب کا دیدہ بینا بھی کافی نہیں۔اس لیے کافی نہیں کہ شاعر یا ادیب کو قطرے میں دجلہ دیکھنا ہی نہیں دکھانا ہی ہوتا ہے۔مزید برآں اگر غالب کے دجلہ سے زندگی اور موجودات کا نظام مراد لیا جائے تو ادیب خود بھی اسی دجلہ کا ایک قطرہ ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ دوسرے ان گنت قطروں سے مل کر اس دریا کے رخ، اس کے بہاؤ، اس کی ہیت اور اس کی منزل کے تعین کی ذمہ داری بھی ادیب کے سر آن پڑتی ہے۔
یوں کہیے کہ شاعر کا کام محض مشاہدہ ہی نہیں، مجاہدہ بھی اس پر فرض ہے۔گردو پیش کے مضطرب قطروں میں دجلہ کا مشاہدہ اس کی بینائی پر ہے، اسے دوسروں کو دکھانا اس کی فنی دسترس پر، اس کے بہاؤ میں دخل انداز ہونا اس کے شوق کی صلابت اور لہو کی حرارت پر۔اور یہ تینوں کام مسلسل کاوش اور جد و جہد چاہتے ہیں۔
نظام زندگی کسی حوض کا ٹھہرا ہوا سنگ بستہ مقید پانی نہیں ہے، جسے تماشائی کی ایک غلط انداز نگاہ احاطہ کرسکے۔ دور دراز، اوجھل دشوار گزار پہاڑیوں میں برفیں پگھلتی ہیں، چشمے ابلتے ہیں، ندی نالے پتھروں کو چیر کر، چٹانوں کو کاٹ کر آپس میں ہمکنار ہوتے ہیں اور پھر یہ پانی کتنا بڑھتا، گھاٹیوں، وادیوں، جنگلوں اور میدانوں میں سمٹتا اور پھیلتا چلا جاتا ہے۔جس دیدہ بینا نے انسانی تاریخ میں زندگی کے یہ نقوش و مراحل نہیں دیکھے اس نے دجلہ کا کیا دیکھا ہے۔پھر شاعر کی نگاہ ان گزشتہ اور حالیہ مقامات تک پہنچ بھی گئی لیکن ان کی منظر کشی میں نطق و لب نے یاوری نہ کی یا اگلی منزل تک پہنچنے کے لیے جسم و جاں جہد وطلب پہ راضی نہ ہوئے تو بھی شاعر اپنے فن سے پوری طرح سرخرو نہیں ہے۔
غالبا اس طویل و عریض استعارے کو روز مرہ الفاظ میں بیان کرنا غیر ضروری ہے۔مجھے کہنا صرف یہ تھا کہ حیات انسانی کی اجتماعی جد و جہد کا ادراک، اور اس جدو جہد میں حسب توفیق شرکت، زندگی کا تقاضا ہی نہیں فن کا بھی تقاضا ہے۔
فن اسی زندگی کا ایک جزو اور فنی جدو جہد اسی جد و جہد کا ایک پہلو ہے۔یہ تقاضا ہمیشہ قائم رہتا ہے اس لیے طالب فن کے مجاہدے کا کوئی نروان نہیں، اس کا فن ایک دائمی کوشش ہے اور مستقل کاوش۔اس کوشش میں کامرانی یا ناکامی تو اپنی اپنی توفیق اور استطاعت پر ہے لیکن کوشش میں مصروف رہنا بہر طور ممکن بھی ہے اور لازم بھی۔یہ چند صفحات بھی اسی نوع کی ایک کوشش ہیں۔ممکن ہے کہ فن کی عظیم ذمہ داریوں سے عہد بر آہونے کی کوشش کے مظاہرے میں بھی نمائش یا تعلی اور خود پسندی کا ایک پہلو نکلتا ہو لیکن کوشش کیسی بھی حقیر کیوں نہ ہو زندگی سے یا فن سے فرار اور شرمساری پر فائق ہے۔
اس مجموعے کی ابتدائی تین نظمیں نقش فریادی کی آخری اشاعت میں شامل ہیں۔یہ تکرار اس لیے کی گئی ہے کہ اسلوب اور خیال کے اعتبار سے یہ نظمیں نقش فریادی کی نسبت اس مجموعہ سے زیادہ ہم آہنگ ہیں۔
فیض احمد فیض
سنٹرل جیل، حیدرآباد(سندھ)