چمن میں ‘ اہلِ چمن! فکرِ رنگ و بُو تو کرو
بجھے بجھے سے شگوفوں کو شعلہ رُو تو کرو
ابھی سے جشنِ بہاراں ! ابھی سے شغلِ جُنوں
کلی کلی کو گلستاں میں سُرخ رُو تو کرو
یہیں پہ لالہ و گُل کا ہجوم دیکھو گے
خلوصِ دل سے بہاروں کی آرزو توکرو
یہ کیا کہ گوشہِ صحرا میں تھک کے بیٹھ گئے
اگر قیام کرو‘ نزدِ آبِ جُو تو کرو
گھنیری چھاؤں کی وادی یہیں کہیں ہو گی
کڑکتی دھوپ میں سایے کی جستجو تو کرو
بلندیوں کے مکینو‘ بہت اُداس ہیں ہم
زمیں پہ آ کے کبھی ہم سے گفتگو تو کرو
تمھیں بھی علم ہو‘ اہلِ وفا پہ کیا گزری
تم اپنے خونِ جگر سے کبھی وضو تو کرو
نہیں ہے ریشم و کمخواب کی قبا‘ نہ سہی
ہمارے دامنِ صَد چاک کو رُفو تو کرو
نگارِ صبحِ گریزاں کی تابشوں کو کبھی
ہمارے خانہِ ظلمت کے رُو برو تو کرو
طلوعِ مہرِ درخشاں ابھی کہاں یارو
سیاہیوں کے افق کو لہو لہو تو کرو