زمرہ جات کے محفوظات: کلیاتِ شکیب جلالی ۔ نظمیں

بنامِ اہلِ چمن

چمن میں ‘ اہلِ چمن! فکرِ رنگ و بُو تو کرو

بجھے بجھے سے شگوفوں کو شعلہ رُو تو کرو

ابھی سے جشنِ بہاراں ! ابھی سے شغلِ جُنوں

کلی کلی کو گلستاں میں سُرخ رُو تو کرو

یہیں پہ لالہ و گُل کا ہجوم دیکھو گے

خلوصِ دل سے بہاروں کی آرزو توکرو

یہ کیا کہ گوشہِ صحرا میں تھک کے بیٹھ گئے

اگر قیام کرو‘ نزدِ آبِ جُو تو کرو

گھنیری چھاؤں کی وادی یہیں کہیں ہو گی

کڑکتی دھوپ میں سایے کی جستجو تو کرو

بلندیوں کے مکینو‘ بہت اُداس ہیں ہم

زمیں پہ آ کے کبھی ہم سے گفتگو تو کرو

تمھیں بھی علم ہو‘ اہلِ وفا پہ کیا گزری

تم اپنے خونِ جگر سے کبھی وضو تو کرو

نہیں ہے ریشم و کمخواب کی قبا‘ نہ سہی

ہمارے دامنِ صَد چاک کو رُفو تو کرو

نگارِ صبحِ گریزاں کی تابشوں کو کبھی

ہمارے خانہِ ظلمت کے رُو برو تو کرو

طلوعِ مہرِ درخشاں ابھی کہاں یارو

سیاہیوں کے افق کو لہو لہو تو کرو

شکیب جلالی

عید کی بھیک

حضور! آپ مرے مائی باپ‘ اَن داتا

حضور! عید کا دن روز تو نہیں آتا

حضور! آج تو نذرِ علیؑ‘ نیازِ رسولؐ

حضور! آپ کے گھر میں ہو رحمتوں کا نزول

حضور! آج ملے جان و مال کی خیرات

حضور! آپ کے اہل و عیال کی خیرات

حضور! احمدِؐ مُرسل کی آلؑ کا صدقہ

حضور! فاطمہؑ زہرا کے لال کا صدقہ

حضور! آپ کی اولاد و آبرو کی خیر

حضور! آپ کے بیٹے کی اور بہو کی خیر

حضور! آپ کے بچے جییں ‘ پھلیں پُھولیں

حضور! آپ عزیزوں کی ہر خوشی دیکھیں

حضور! آپ کو مَولا سدا سُکھی رکھے

حضور! آپ کی جھولی خدا بھری رکھے

حضور! نامِ خدا کارِ خیر فرمائیں

حضور! آپ کے دل کی مُرادیں برآئیں

حضور! آج گداگر کو بھیک مل جائے

حضور! کب سے کھڑا ہوں میں ہاتھ پھیلائے

حضور! آنے‘ دو آنے کی بات ہی کیا ہے

حضور! آنکھیں چُرانے کی بات ہی کیا ہے

حضور! میری صداؤں پہ غور تو کیجیے

فقیر یہ نہیں کہتا‘ گلے لگا لیجے

شکیب جلالی

لہو ترنگ

پہلی آواز
ہمیں قبول نہیں زندگی اسیری کی
ہم آج طوق و سلال کو توڑ ڈالیں گے
ہمارے دیس پہ اغیار حکمراں کیوں ہوں
ہم اپنے ہاتھ میں لوح و فلم سنبھالیں گے
فضا مہیب سہی، مرحلے کٹھن ہی سہی
سفینہ حلقۂ طوفاں سے ہم نکالیں گے
نقوشِ راہ اگر تیرگی میں ڈوب گئے
ہم اپنے خوں سے ہزاروں دیے جلالیں گے
دوسری آواز
جو لوگ لے کے اٹھے ہیں علم بغاوت کا
انھیں خود اپنی ہلاکت پہ نوحہ خواں کر دو
بجھاؤ گرم سلاخوں کو ان کی آنکھوں میں
زبانیں کھینچ لو گُدّی سے، بے زباں کر دو
ہدف بناؤ دلوں کو سلگتے تیروں کا
سِناں سے خیموں کو چھیدو، شکستہ جاں کر دو
محل سرا کی حدوں تک کوئی پہونچ نہ سکے
ہر ایک گام پی ایستادہ سولیاں کر دو
پہلی آواز
یہ غم نہیں کہ سرِ دار آۓ جاتے ہیں
ہمیں خوشی ہے وطن کو جگاۓ جاتے ہیں
ہمارے بعد سہی، رات ڈھل تو جاۓ گی
دلوں میں شمعِ جنوں تو جلاۓ جاتے ہیں
ہمارے نقشِ قدم دیں گے منزلوں کا سُراغ
ہمیں شکست نہ ہو گی بتاۓ جاتے ہیں
جواں رہیں گی ہمارے لہو کی تحریریں
سدا بہار شگوفے کھِلاۓ جاتے ہیں
شکیب جلالی

جشنِ عید

سبھی نے عید منائی مرے گلستاں میں
کسی نے پھول پروۓ، کسی نے خار چُنے
بنامِ اذنِ تکلّم، بنامِ جبرِ سکوت
کسی نے ہونٹ چباۓ، کسی نے گیت بُنے
بڑے غضب کا گلستاں میں جشنِ عید ہوا
کہیں تو بجلیاں کوندیں، کہیں چِنار جلے
کہیں کہیں کوئی فانوس بھی نظر آیا
بطورِ خاص مگر قلبِ داغدار جلے
عجب تھی عیدِ خمستاں، عجب تھا رنگِ نشاط
کسی نے بادہ و ساغر، کسی نے اشک پئے
کسی نے اطلس و کمخواب کی قبا پہنی
کسی نے چاکِ گریباں، کسی نے زخم سئے
ہمارے ذوقِ نظارہ کو عید کے دن بھی
کہیں پہ سایۂ ظلمت کہیں پہ نور ملا
کسی نے دیدہ و دل کے کنول کھِلے پاۓ
کسی کو ساغرِ احساس چکناچور ملا
بہ فیضِ عید بھی پیدا ہوئی نہ یک رنگی
کوئی ملول، کوئی غم سے بے نیاز رہا
بڑا غضب ہے خداوندِ کوثر و تسنیم
کہ روزِ عید بھی طبقوں کا امتیاز رہا
شکیب جلالی

نئی کرن

جہاں پناہ سسکنے لگی چراغ کی لو
شعاعِ تازہ سے چھلنی ہے سینۂ ظلمات
بلند بام ہراسان ہیں رہ نشینوں سے
اک ایسے موڑ پہ آئی ہے گردشِ حالات
جسے بھی دیکھیے لب پر سجائے پھرتا ہے
نرالے دور کا قصہ، اچھوتے دور کی بات
جنہیں تھا حکمِ خموشی وہی پکار اٹھے
ہمیں بھی اذنِ تبسم ہمیں بھی اذنِ حیات
طلب ہوئی ہے جنہیں بے کراں اجالوں کی
سرابِ نجم و قمر سے بہل نہیں سکتے
نئی کرن سے اندھیروں میں برہمی ہی سہی
نئی کرن کو اندھیرے نگل نہیں سکتے
جہاں پناہ جمال سحر کی جوئے رواں
افق افق کو درخشاں بنا کے دم لے گی
پلک پلک سے مٹائے گی داغ اشکوں کے
نظر نظر کو تبسم سکھا کے دم لے گی
خزاں رسیدہ چمن ہوں کہ ریت کے ٹیلے
قدم قدم پہ شگوفے کھِلا کے دم لے گی
ازل سے سینۂ ویراں ہے منتظر جس کا
نفس نفس وہی خوسشبو رچا کے دم لے گی
شکیب جلالی

خداوندانِ جمہُور سے!

عُروسِ صبح سے آفاق ہم کنار سہی

شکستِ سلسلہِ قیدِ انتظار سہی

نگاہِ مہرِ جہاں تاب کیوں ہے شرمندہ

شفق کا رنگ شہیدوں کی یادگار سہی

بکھرتے خواب کی کڑیوں کو آپ چُن دیجے

کیا تھا عہد جو ہم نے وہ پائدار سہی

ہجومِ لالہ و ریحاں سے داد چاہتے ہیں

یہ چاک چاک گریباں گلے کا ہار سہی

گِنے جوزخمِ رگِ جاں ‘ شریکِ جشنِ حیات

پیے جو ساغرِ زہراب بادہ خوار سہی

چمن میں رنگِ طرب کی کوئی کمی نہ رہے

ہمارا خونِ جگر غازہِ بہار سہی

تھکن سے چُور ہیں پاؤں ‘ کہاں کہاں بھٹکیں

ہر ایک گام نیا حُسنِ رہ گزار سہی

سُکوں بدوش کنارا بھی اب اُبھر آئے

سفینہ ہاے دل و جاں بھنور کے پار سہی

شکیب جلالی

شہرِ گُل

کچھ نہ تھا شوخیِ رفتارِ صبا کا حاصل
نکہتِ گل کی پھواروں پہ کڑے پہرے تھے
چپمپئ بیل کے سیال نمو پر قدغن
سرو و سوسن کی قطاروں پہ کڑے پہرے تھے
حلقۂ برق میں ارباب گلستاں محبوس
دم بخود راہ گزاروں پہ کڑے پہرے تھے
دفعتاً شور ہوا ٹوٹ گئیں زنجیریں
زمزمہ ریز ہوئیں مہر بلب تصویریں
دو گھڑی کیلئے گھر گھر میں چراغاں سا ہوا
جیسے ضو کاریِ انجم پہ کوئی قید نہیں
بند کلیوں نے تراشیدہ لبوں کو کھولا
پھول سمجھے کہ تبسّم پہ کوئی قید نہیں
گھنگریاں باندھ کے پیروں میں صبا اٹھلائی
جیسے اندازِ ترنّم پہ کوئی قید نہیں
یہ فقط خواب تھا اس خواب کی تعبیر بھی ہے
شہرِ گل میں کوئی ہنستی ہوئی تصویر بھی ہے
شکیب جلالی

ہمارا دَور

گُلوں میں حُسن‘ شگوفوں میں بانکپن ہو گا

وہ وقت دُور نہیں جب چمن چمن ہو گا

جہاں پہ آج بگولوں کا رقص جاری ہے

وہیں پہ سایہِ شمشاد و نسترن ہو گا

فضائیں زرد لَبادے اُتار پھینکیں گی

عروسِ وقت کا زَرکار پیرہن ہو گا

نسیمِ صبح کے جھونکے جواب دہ ہو ں گے

کسی کلی کا بھی ماتھا جو پُر شکن ہو گا

نئے اصول نئی منزلیں تراشیں گے

یہ قافلہ مہ و انجم میں خیمہ زَن ہو گا

بڑے سُکون سے تعمیرِ زندگی ہو گی

کہیں یزید‘ نہ آزر‘ نہ اہرمن ہو گا

بُتانِ عصر کے خالق کو باخبر کردو

نئے زمانے کا ہر فرد بُت شکن ہو گا

دُکھے دلوں کی خراشیں جو کرسکے محسوس

اک ایسا صاحبِ دل صدرِ انجمن ہو گا

ہمارا دَور مساوات لے کے آئے گا

ہمارے دَور میں ہر آدمی مگن ہو گا

شکیب جلالی

زاویے

رات تھی میں تھا اور اک میری سوچ کا جال
پاس سے گزرے تین مسافر دھیمی چال
پہلا بولا مت پوچھو اس کا احوال
دیکھ لو تن پر خون کی فرغل، خون کی شال
دوسرا بولا۔۔ ۔ ۔ اور ہی کچھ ہے میرا خیال
یہ تو خزاں کا چاند ہے گھائل غم سے نڈھال
تیسرا بولا۔۔ ۔ بس یوں سمجھو اس کی مثال
اندھیارے کے بن میں جیسے شب کا غزال
ان کی روح تھی خود کالی پیلی اور لال
میرا وجود ہے ورنہ اب تک ایک سوال
شکیب جلالی

دعوتِ فکر

کس طرح ریت کے سمندر میں
کشتیِ زیست ہے رواں، سوچو
سن کے بادِ صبا کی سرگوشی
کیوں لرزتی ہیں پتیاں۔۔ ، سوچو
پتھروں کی پناہ میں کیوں ہے
آئینہ ساز کی دوکاں، سوچو
اصل سر چشمۂ وفا کیا ہے
وجہِ بے مہریِ بتاؓ سوچو
ذوقِ رعمیر کیوں نہیں مٹتا
کیوں اُجڑتی ہیں بستیاں سوچو
فکر سقراط ہے کہ زہر کا گھونٹ
باعثِ عمرِ جاوداں سوچو
لوگ معنی تلاش ہی لیں گے
کوئی بت ربط داستاں سوچو
شکیب جلالی

عکس اور میں

آب جُو میں اک طلسمی عکس ابھرا تھا ابھی

دہکے عارض۔۔ ۔ آئینے میں تیز شعلوں کی ضیا

احمریں لب۔ ۔ ۔ ۔ زخمِ تازہ موجِ خوں سے آشنا

تیکھے ابرو۔۔ ۔ کالی راتوں کا ملائم ڈھیر سا

بہتی افشاں۔ ۔ ۔ ۔ جگمگاتی مشعلوں کا قافلہ

گہری آنکھیں۔ ۔ ۔ ۔ دور تک منظر سہانے خواب کا

آب حو میں اک طلسمی عکس ابھرا تھا ابھی

نقرئی پانی کے جو آنچل میں جھلمل کر رہی تھی، کون تھی

حور تھی تخئیل کے رمنوں کی یا وہ جل پری تھی، کون تھی۔۔ ۔ ؟

اس پہیلی کی گرہ کھلنے سے پہلے ہی نگاہوں پر مری

ریشمیں قدموں کی آہٹ سے خلا کی سبز چلمن آگری

آب جو میں اک طلسمی عکس ابھرا تھا ابھی

یا کفِ ساحل پہ میرے نقش پا تھے اور بس

شکیب جلالی

اِنفرادیت پرست

ایک انساں کی حقیقت کیا ہے

زندگی سے اسے نسبت کیا ہے

آندھی اُٹھے تو اُڑا لے جائے

موج بپھرے تو بہا لے جائے

ایک انساں کی حقیقت کیا ہے

ڈگمگائے تو سہارا نہ ملے

سامنے ہو پہ کنا را نہ ملے

ایک انساں کی حقیقت کیا ہے

کُند تلوار قلم کر ڈالے

سرد شعلہ ہی بھسم کر ڈالے

زندگی سے اسے نسبت کیا ہے

ایک انساں کی حقیقت کیا ہے

شکیب جلالی

سفیر

میں روشنی کا مُغنّی کرن کرن کا سفیر
وہ سیلِ مہ سے کہ رودِ شرار سے آئے
وہ جامِ مے سے کہ چشمِ نگار سے آئے
وہ موجِ باد سے یا آبشار سے آئے
وہ دستِ گل سے کہ پائے فگار سے آئے
وہ لوحِ جاں سے کہ طاقِ مزار سے آئے
وہ قصرِ خواب سے یا خاک زار سے آئے
وہ برگِ سبز سے یا چوبِ دار سے آئے
جہاں کہیں ہو دلِ داغ دار کی تنویر
وہیں کھلیں مری بانہیں، وہیں کٹے زنجیر
شکیب جلالی

لرزتا دیپ

دودِ شب کا سرد ہاتھ

آسماں کے خیمۂ زنگار کی

آخری قندیل گُل کرنے بڑھا

اور کومل چاندنی

ایک دربستہ گھروندے سے پرے

مضمحل پیڑوں پہ گر کر بجھ گئی

بے نشاں سائے کی دھیمی چاپ پر

اونگھتے رستے کے ہر ذرے نے پل بھر کیلئے

اپنی پلکوں کی بجھی درزوں سے جھانکا

اور آنکھیں موندلیں

اس سمے طاق شکستہ پر لرزتے دیپ سے

میں نے پوچھا

ہم نفس

اب ترے بجھنے میں کتنی دیر ہے؟

شکیب جلالی

گریزپا

دھیرے دھیرے گررہی تھیں نخلِ شب سے چاندنی کی پتّیاں

بہتے بہتے اَبر کا ٹکڑا کہیں سے آگیا تھا درمیاں

مِلتے مِلتے رہ گئی تھیں مخملیں سبزے پہ دو پرچھائیاں

جس طرح سپنے کے جُھولے سے کوئی اندھے کنویں میں جاگرے

ناگہاں کَجلا گئے تھے شرمگیں آنکھوں کے نُورانی دِیے

جس طرح شورِ جَرَس سے کوئی واماندہ مسافر چونک اُٹھے

یک بیک گھبرا کے وہ نکلی تھی میرے بازوؤں کی قید سے

لب سُلگتے رہ گئے تھے ‘ چِھن گیا تھا جام بھی

اور میری بے بسی پر ہنس پڑی تھی چاندنی

آج تک احساس کی چلمن سے الجھا ہے یہ مبہم سا سوال

اُس نے آخر کیوں بُنا تھا بہکی نظروں سے حَسیں چاہت کا جال؟

شکیب جلالی

جاگتی آنکھیں

کس کو گماں تگھا‏ اک نقطے کی آغوش اتنی کشادہ ہو گی

جس میں انت سرے تک رنگ بھری پہنائی

گھل مل کر رہ جاۓ گی

کس کو خبر تھی، انجانے پن کی گرد لبادہ ہو گی

جس کے صدیوں کی سر بستہ دانائی

اپنی چھب دکھلاۓ گی

کس کو یقیں تھا، دور کے لمس کی تاثیر اتنی زیادہ ہو گی

جس سے سنگیں پیکر میں جامِد رعنائی

روح کی ندرت پاۓ گی

ایسی انھونی باتوں میں سچ کی کرنیں ٹانک چکا ہوں

میں ان جاگتی آنکھوں کے گمبھیر طلسم میں جھانک چکا ہوں

شکیب جلالی

یاد

رات اک لڑکھڑاتے جھونکے سے
ناگہاں سنگ سرخ کی سل پر
آئینہ گر کے پاش پاش ہوا
اور ننھی نکیلی کرچوں کی
ایک بوجھاڑ دل کو چیر گئی
شکیب جلالی

دلاسہ

ہم ملے کب تھے

جدائی پر جو ہوں ویراں نگاہ و غم بجاں

ہات میں ہو نرم ہات

لب ہوں لب پر مہرباں

اس پہ کیا موگوف ہے ربطِ بہم کی داستاں

رہگزارِ خاک پر

دور سے دو رویہ پیڑوں کی قطاریں

لاکھ آتی ہوں نظر

اپنے سر جوڑے ہوۓ

درمیاں ان کے مگر

کب نہ حائل تھا غبارِ رہگزر

ہم ملے کب تھے

جدائی پر جو ہوں ویراں نگاہ و چشمِ تر

شکیب جلالی

جہت کی تلاش

یہاں درخت کے اُوپر اُگا ہوا ہے درخت

زمین تنگ ہے (جیسے کبھی فراخ نہ تھی)

ہَوا کا کال پڑا ہے‘ نمی بھی عام نہیں

سمندروں کو بِلو کر‘ فضاؤں کو مَتھ کر

جنم دیے ہیں اگر چند ابر کے ٹکڑے

جھپٹ لیا ہے اُنھیں یوں دراز شاخوں نے

کہ نیم جان تنے کو ذرا خبر نہ ہوئی

جڑیں بھی خاک تلے ایک ہی لگن میں رواں

نہ تیرگی سے مَفَر ہے‘ نہ روشنی کا سوال

زمیں میں پاؤں دھنسے ہیں ‘ فضا میں ہات بلند

نئی جہت کا لگے اب درخت میں پیوند

شکیب جلالی

اِندمال

شام کی سیڑھیاں کتنی کرنوں کا مقتل بنیں

بادِمسموم نے توڑ کر کتنے پتّے سپردِ خزاں کر دیے

بہہ کے مشکیزہِ اَبر سے کتنی بوندیں زمیں کی غذا بن گئیں

غیر ممکن تھا ان کا شمار

تھک گئیں گننے والے ہر اک ہاتھ کی اُنگلیاں

’’ان گنت‘ ‘ کہہ کے آگے بڑھا وقت کاکارواں

ان گنت تھے مرے زخمِ دل

ٹوٹی کرنوں ‘ بکھرتے ہوئے زرد پتّوں ‘ برستی ہوئی بوندیوں کی طرح

اور مرہم بھی ناپَید تھا

لیکن اس روز دیکھا جو اک طفلِ نوزائیدہ کا خندہِ زیرِلَب

زخمِ دل مُندمل ہو گئے سب کے سب!

شکیب جلالی

پاداش

کبھی اس سبک رو ندی کے کنارے گئے ہی نہیں ہو

تمہیں کیا خبر ہے

وہاں ان گنت کھردرے پتھروں کو

سجل پانیوں نے

ملائم رسلیے مدھر گیت گا کر

امٹ چکنی گولائیوں کو ادا سونپ دی ہے

وہ پتھر نہیں تھا

جسے تم نے بے ڈول ان گھڑ سمجھ کر

پرانی چٹانوں سے ٹکرا کے توڑا

اب اس کے سلگتے تراشے

اگر پاؤں میں چبھ گئے ہیں

تو کیوں چیختے ہو؟

شکیب جلالی