زمرہ جات کے محفوظات: کلیاتِ شکیب جلالی ۔ مضامین

کلیاتِ شکیب جلالی ۔ مضامین

عرض۔ از احمد ندیم قاسمی

اس مجموعے کا نام’روشنی اے روشنی‘ خود شکیبؔ مرحوم کا تجویز کردہ ہے۔

شکیبؔ کے انتقال کے چند روز بعد ان کی بیوہ کی طرف سے مجھے کاغذات کا ایک انبار موصول ہوا جو شکیبؔ کے کلام کے تراشوں اور ان کی چند نامکمل بیاضوں پر مشتمل تھا۔ ان کے مطالعے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ شکیبؔ کے ابتدائی کلام کا انتخاب نہایت ضروری ہے۔ ساتھ ہی مجھے یہ خدشہ بھی تھا کہ شکیبؔ کے آخری پانچ چھے برس کے کلام میں سے کوئی غزل یا نظم رہ نہ جائے۔ کیونکہ یہی وہ دور ہے جب شکیبؔ کی شاعرانہ عظمت صورت پذیر ہونے لگی تھی۔ اس کام میں بہت دن صرف ہو گئے۔ اس کے بعد ملکی حالات نے ایسا رخ اختیار کر لیا کہ ماحول تخلیقی ادب کے کسی بھی مجموعے کی اشاعت کے لیے سازگار نہ رہا‘ چنانچہ ’روشنی اے روشنی‘ کی اشاعت ملتوی ہوتی رہی۔ اب بھی اشاعتی اور طباعتی صورتِ حال کچھ ایسی ہمت افزا نہیں ہے مگر شکیبؔ کے مجموعہ کلام کی اشاعت میں مزید تاخیر ناقابلِ برداشت تھی اس لیے یہ مجموعہ شائع کیا جا رہا ہے۔ اس کے جملہ حقوقِ اشاعت و اخذ و ترجمہ شکیبؔ کی بیوہ محترمہ محدّثہ خاتون کے حق میں محفوظ ہیں۔

قارئین سے استدعا ہے کہ اگر اس کے مطالعے کے بعد انہیں محسوس ہو کہ شکیبؔ کی کوئی اہم غزل یا نظم مجموعے میں شامل نہیں ہو سکی‘ تو اس کی نقل بھجوا کر ممنون کریں تاکہ آیندہ اشاعت میں یہ کمی پوری کر دی جائے۔

احمد ندیم قاسمی

شکیب جلالی

احساسِنا آسودگی کی شاعری از پروفیسر جعفر رضا

شکیب جلالی کی شاعری کا سوانحی استعارہ ان کا یہ شعر ہے:

فصیلِ جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں

حدودِ وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

اس استعارے میں موت کو علامت کے طور پر برتا گیا ہے۔ لیکن موت کسی سفر کے خاتمے کا نہیں بلکہ وقت کے حدود سے آگے نکل جانے کا نام ہے۔ اس میں کئی نئے تناظر پیدا ہوتے ہیں۔ فصیلِ جسم ‘ تازہ لہو‘ چھینٹے‘ وقت‘ سفرِ مدام‘ وغیرہ علامتیں شاعر کی فکری وسعت کی مختلف جہتوں کی نشان دہی کرتی ہیں۔ اسی طرح چند شعر اور دیکھئے:

دیکھ کر اپنے درو بام لرز جاتا ہوں

میرے ہم سایے میں جب بھی کوئی دیوار گرے

جھکی چٹان‘ پھسلتی گرفت‘ جھولتا جسم

میں اب گرا ہی گرا تنگ و تار گھاٹی میں

آ کر گرا کوئی پرندہ لہو میں تر

تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر

سایہ کیوں جل کے ہوا خاک‘ تجھے کیا معلوم

تو کبھی آگ کے دریاؤں میں اترا ہی نہیں

وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت

میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت

شکیب جلالی کی شاعری کا اہم پہلو ان کا احساسِ ناآسودگی ہے۔ نا آسودگی کا احساس تجربے کی نوعیت کے اعتبار سے تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ یہ منفی رجحان کی عکاسی بھی کر سکتا ہے جس میں شاعری قنوطیت کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ رونے رلانے اور نوحہ گری ذاتی احساس کا روپ دھارن کر لیتی ہے لیکن اگر یہی ناآسودگی تحرک و نامیاتی اقدار سے ہم آہنگ ہو جائے تو شاعری پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹنے کا کام کرتی ہے۔ نا آسودگی بہتر سے بہتر کی تلاش کی جانب مائل کرتی ہے۔ شاعری زندگی کو بہتر بنانے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ شکیب جلالی کی شاعری نا آسودگی میں تھک کر بیٹھ جانے کا نام نہیں ہے۔ بلکہ ان کی نا آسودگی نئے افق کی تلاش کا استعارہ ہے۔ نا آسودگی سے مایوسی نہیں پیدا ہوتی‘ بلکہ اس سے فکر و عمل کے جذبات بیدار ہوتے ہیں۔ چند اشعار دیکھیے:

جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے

مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے

یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے

تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے

ٹھوکر سے میرا پاؤں تو زخمی ہوا ضرور

رستے میں جو کھڑا تھا وہ کہسار ہٹ گیا

میں گھٹا ہوں ‘ نہ پون ہوں ‘ نہ چراغ

ہم نشیں میرا کوئی کیا ہوتا

نا آسودگی کو آسودگی کا استعارہ بنانے میں واقعہ کربلا کا بطور شعری استعارہ استعمال نئی معنویت پیدا کر دیتا ہے۔ شکیب جلالی نے اس طرح کے استعارے زیادہ استعمال نہیں کیے ہیں۔ لیکن جہاں بھی استعمال کیا ہے ‘ تخلیقی و فنی معنویت پیدا کی ہے۔ یہ اشعار دیکھیے:

ساحل تمام اشک ندامت سے اٹ گیا

دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا

تمہیں بھی علم ہو اہلِ جفا پہ کیا گزری

تم اپنے خونِ جگر سے کبھی وضو تو کرو

شکیب جلالی کی نظمیں ان کی غزلیوں سے ہم آہنگ ہیں۔ ان کی نظم’جشن عید‘ اور ’عید کی بھیک‘ سماجی نا برابری کے دومختلف پہلوؤں کو نمایاں کرتی ہے۔ ’نئی کرن‘ اور بنام اہل چمن‘ میں سماجی زندگی کی نعمتوں کو عام کردینے کا پیغام ہے۔

’لہو ترنگ‘ جو ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے شہیدوں کی یاد میں ہے‘ ظلم و جبر کے

خلاف علامتی نظم ہے جس میں دو آوازیں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں اور اپنا آفاقی پیغام پیش کرتی ہیں۔

جواں رہیں گی ہمارے لہو کی تحریریں

سدا بہار شگوفے کھلائے جا تے ہیں

شکیب جلالی کا کلام عصری حسیت سے بھر پور ہے۔ ان کے لہجے میں کلاسیکیت ہے اور جدیدیت بھی۔ فنی بالیدگی بھی ہے اور انسان دوستی بھی۔ شکیب جلالی کی طرح کے شاعر اپنے کلام کی تہ داری اور معنویت کے اعتبار سے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

شکیب جلالی

شکیب جلالی جواں فکر اور جواں مرگ شاعر از پروفیسر وارث کرمانی

شکیب جلالی کے اشعار چالیس ‘ پینتالیس سال پہلے مجھے خلیل الرحمن اعظمی نے غزل کے نئے لہجے کی مثال میں سنائے تھے اور میں نے اپنے کسی نوٹ یا تبصرے میں ضمناً لکھے بھی تھے۔ پھر شکیبؔ میرے حافظے کی گہرائیوں میں کہیں کھو گئے کیوں کہ میرا تعلق یونی ورسٹی میں شعبہ ٔ اردو سے نہ تھا لیکن اتنا یاد رہ گیا کہ ان کے تمام ساتھیوں میں کسی کے شعر اتنے جاندار اور چونکا نے والے نہیں تھے۔ افسوس ہے وہ جلد دنیا سے رخصت ہو گئے اور اردو غزل اپنے ایک ہرے بھرے درخت سے محروم ہو گئی۔ مرزا غالب نے تو اپنے نہ ہونے پہ خدا بن جانے کا دعواکیا تھا :

ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

لیکن شکیب جلالی نہ ہونے پر سخت خسارے میں رہے اور آج ہونے پر نئی غزل کے خدا اگر نہیں تو نا خدا ضرور ہو چکے ہوتے مجھے ان کی نوعمری کا ایک شعر یاد آرہا ہے :

وقت کی ڈور خدا جانے کہاں پر ٹوٹے

کس گھڑی سر پہ یہ لٹکی ہوئی تلوار گرے

اب جو اُن کا مجموعہ کلام مجھے دیا گیا اور اس میں اسی شعر کی غزل پر میری نظر پڑی تو حیرت ہوئی کہ اب تقریباً نصف صدی گزرنے کے بعد بھی اردو غزل شکیب جلالی کی منزل سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔ میں اس پرانی غزل کے چند اور شعر اپنی بات کے ثبوت میں پیش کر رہا ہوں ذرا اس شعر پر اہل نظر غور فرمائیں :

مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں

جس طرح سایہِ دیوار پہ دیوار گرے

شاعری کے ‘ بالخصوص غزل کے لیے خیال اور انداز بیاں کی فوقیت اور برتری کے لیے ہمیشہ بحث رہی ہے لیکن جدید تر نظریہ‘ خیال کے بجائے ادائے خیال یا زباں و الفاظ کے حق میں ہو گیا ہے جس کی طرف اٹھارویں صدی کے معروف انگریز نقاد غالباً پوپ یا ڈرائیڈن نے اشارہ کیا تھا

"What oft was thought but never so well expressed”

خیر یہ بحث بہت طویل ہے جس میں اخلاقیات و جمالیات وغیرہ سب آجاتے ہیں مندرجہ بالا شعر میں دونوں شعری عناصر اپنے بامِ عروج پر نظر آتے ہیں بقول نذیری نیشا پوری:

ز فرق بہرِ قدم ہر کجا کہ می نگرم

کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جاست

خودداری اور عزت نفس کے لیے ایسی شدت اور اتنی ایثار و سربلندی کا اظہار ایسی ہی بے ساختہ و سادا زبان اور بالکل انوکھی تشبیہ کے ساتھ نئی غزل کے ہراول دستے میں کسی تیز رفتار شاعر کے یہاں بھی مشکل سے ملے گا۔ نئی غزل تو کیا کلاسیکی غزل میں میر‘ غالب اور داغ کے یہاں تو اس تازگیِ فکر کا سوال ہی نہیں وہاں تو آنسوؤں کے سیلاب سے دیواریں گرا کرتی تھیں :

سیلابِ گریہ در پِے دیوار و در ہے آج

بلکہ دیوار اور سایہِ دیوار پر بھی سیکڑوں کی تعداد میں بہت اچھے شعر مل جائیں گے لیکن اس استعارے کو اتنے ترفّع اور اعلیٰ ظرفی کے ساتھ کسی شاعر نے ابھی تک استعمال نہیں کیا ہے۔ میں عمداً اسی ایک غز ل کے شعروں پر اکتفا کر رہا ہوں پورے دیوان سے درجنوں اچھے شعر معمولی شاعروں کے ہاں بھی مل جاتے ہیں۔ پھر یہ غزل شکیبؔ کے ابتدائی دور کی ہے جس کے بعد بقول احمد ندیم قاسمی صاحب ’’انہوں نے مزید پیش رفت کی تھی‘ ‘۔ ندیم صاحب نے اپنے پیش لفظ میں یکم جولائی ۱۹۷۲ کی تاریخ ڈالی ہے جو شکیبؔ کے انتقال کے بعد کی ہے اور زیر تبصرہ غزل کے شعر میں نے ۱۹۶۰ کے اطراف میں سنے تھے چنانچہ اس کے بعد شکیبؔ کی غزل نے کیا کچھ نہ ترقی کی ہو گی۔ اختصار کے خیال سے میں زیادہ نہیں لکھ رہا ہوں :

ہاتھ آیا نہیں کچھ رات کی دلدل کے سوا

ہائے کس موڑ پہ خوابوں کے پرستار گرے

اس شعر کے ’’ہاتھ آیا نہیں کچھ ‘ ‘ سے مولانا حسرت موہانی کا ایک مطلع یاد آگیا ہے:

کچھ بھی حاصل نہ ہوا زہد میں نخوت کے سوا

شغل بیکار ہیں سب ان کی محبت کے سوا

مولانا کا شمار ہمارے زمانے کے بہت بڑے غزل گو شاعروں میں ہوتا ہے رشید احمد صدیقی نے انھیں چار بادشاہان تغزل میں شامل کیا ہے موصوف اور شکیب جلالی میں زیادہ بعد زمانی بھی نہیں دونوں کی نوعمری ایک ہی زمانے کی ہے لیکن دونوں کے شعروں میں صدیوں کا فاصلہ معلوم ہوتا ہے مولانا نے پرانا مضمون دہرا یا ہے مجازی یا حقیقی عشق کے اعتبار سے سبھی شاعروں نے اس پر طبع آزمائی کی ہے یہ صدیوں کا فاصلہ شکیب جلالی ہی قائم کر سکتے تھے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ شعر کہتے وقت شکیب جلالی کے ذہن میں کیا تصور تھا ممکن ہے بلکہ زیادہ امکان ترقی پسند تحریک کے زوال کی طرف اشارہ ہو کیوں کہ بربریت کے زمانے سے جاگیر داری اور سرمایہ داری کے اقتصادی نظام تک سبھی کے زوال پذیر ہونے کی بنا پر مارکسی سوشلزم کے شکست نا پذیر نظام پر سب بھروسا کیے ہوئے تھے اور اسے تمام سماجی بیماریوں کا حل سمجھا جاتا تھا۔ شکیبؔ کے زمانے میں یہ اعتقاد بھی جدید نظریات کی دلدل میں دھنسنے لگا تھا لیکن شاعر کا کمال یہ ہے کہ اس کے قلم نے اسے لامحدود کر دیا ہے اور زبان کا جادو :

ہائے کس موڑ پہ خوابوں کے پرستار گرے

ایسا جادو جس میں ہمدردی‘ رفاقت اور محبت کی طلب ایسے طنز کی شکل اختیار کر لیتی ہے جس کی کاٹ دل سے جگر تک اتر جائے۔ شعر اگر سچا اور اصیل ہو تو اس کی سادگی میں زمانے کروٹیں لیتے نظر آتے ہیں۔ دنیا کو سنوارنے اور آدمیت کو سدھارنے کی انفرادی اور اجتماعی کوششیں کیسے برباد ہوئی ہیں۔ کتنی آندھیاں اٹھیں اور خاکستر ہو گئیں۔ یہ تمام مناظر اور تمام تہذیبیں اس شعر میں سمائی ہوئی ہیں۔ احمدمشتاق نے بھی بڑا اچھا شعر کہا ہے :

ابھی بیٹھے رہیں اس شمع رو کی انجمن والے

ابھی آوازہِ دریا سے خاکستر نہیں آیا

شعر کی بلاغت تسلیم لیکن اس کی زبان ثقیل ہو گئی ہے اس کیمیاء گری یا

علامت گری کے بغیر بھی آسانی سے بہت اچھا شعر کہا جا سکتا تھا ’’آوازہِ دریاسے خاکستر ‘ ‘ کی رعب دار بندش نے شعر کو اس کی تاثیر اور تڑپ سے محروم کر دیا ہے اس تاثر سے جو کہ شکیبؔ کے شعر میں ہمیں محسوس ہوتی ہے۔ زباں کی بھی ایک منطق ہوتی ہے ایسا نہیں کہ آپ ہر بے جوڑ بندش تیار کرکے علامت نگاری کے پیچھے چھپ جائیں اور اپنے زمانے کی واہ واہ کو تحسین شعر سمجھ لیں Mobیا بھیڑ صرف جاہلوں میں نہیں ‘ پڑھے لکھے لوگوں میں بھی ہوتی ہے۔ یہ لوگ جن میں یونی ورسٹی کے اساتذہ تک شامل ہوتے ہیں ہر نئی شعری ایجاد پر باقاعدہ تنقیدی مضامین لکھنے لگتے ہیں۔ تھوڑے عرصے تک ایک طوفان بدتمیزی برپا رہتا ہے پھر سب اپنی موت مرجاتے ہیں۔ ہم تو جب ادبی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو وقت ایک بہت بڑا قبرستان معلوم ہوتا ہے۔ اٹھارویں صدی میں صائب کی تمثیل نگاری کا بڑا شور تھا شاعروں کے جتھے پر جتھے تمثیل نگاری پر جتے ہوئے تھے اس کے بعد یہی صورتحال ایہام گوئی کی ہو ئی۔ پرانے دوارین اور مخطوطے اٹھا کر دیکھیے سب کے قبرستان ملیں گے جن پر ادبی تحریکات کے کتبے لگے ہوئے ہیں۔ شعر کا عرفان رکھنے والے ثنائی و ریزہ کاری و علامت نگاری یا کسی وقتی فیشن سے مرعوب نہیں ہوتے ہم تو بقول جگر صرف اتنا جانتے ہیں ’’زبان جو بات کہے دل کو اعتبار آئے‘ ‘۔

شکیبؔ کے حوالے سے میں جس بات پر اصرار کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ جدیدیت کے ابتدائی شاعروں میں تھے بلکہ انھیں جدید شاعروں کے معماروں میں سے شمار کرنا چاہیے شکیبؔ کے دوسرے ساتھی بوڑھے ہو چکے ہیں یا مر چکے ہیں۔ ہماری یونیورسٹی میں خلیل الرحمن اعظمی بھی ویسے ہی ابتدائی شاعروں میں تھے ان سب لوگوں کے یہاں واضح موڑ نظر آتا ہے جو حسرت‘ جگر‘ فانی اور اصغرو یگانہ وغیرہ سے کٹا ہوا تھا اور دوسری طرف سردار ‘ مخدوم ‘ جذبی ‘ فیض اور احمد ندیم قاسمی وغیرہ سے بھی یہ لوگ بیزار او رمنحرف تھے اور ان کی شاعری کے باوجود باغیانہ تصورات کے پرانے ہی ڈکشن اور طرز اظہار کے تابع مانتے تھے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ شکیبؔ اور ان کے ساتھ کے جدید شاعر زیادہ توانا اور تازہ شعر کہتے تھے ‘ لیکن اب تقریباً نصف صدی گزرنے کے بعد جدید شاعری کی دوشیزگی تو ختم ہو گئی اور بڑھاپے کا سنگار زیادہ آگیا چنانچہ یہ علامت نگاری ابہام اور لفظوں کا توڑ مروڑسب اسی سمت اور زوال کی نشانیاں ہیں یہ تغیر صرف شاعری میں نہیں بلکہ دنیا کی ہر چیز میں ہمیشہ سے رہا ہے بقول اقبال:

شمشیر و سناں اوّل‘ طاؤس و رباب آخر

میں نے اپنے مافی الضمیر کو بیان کرنے کی وجہ سے ہی شکیب جلالی کے آگے پیچھے حسرت موہانی اور احمد مشتا ق کے دو شعر لکھ دیے ہیں تاکہ بات واضح ہو سکے۔ شکیب جلالی کی جو بھی شاعری ہمارے سامنے ہے اس کی مقدار ہی کیاہے لیکن اس مختصر سرمایے کی آب و تاب مرزا مظہر جان جاناں کے خریطہِ جواہر کی طرح معلوم ہوتی ہے۔ اس میں تو خیر بہت سے شاعروں کا انتخاب تھا یہاں صرف شکیب جلالی کے شعروں کی بات ہو رہی ہے جو کبھی مدھم اور کبھی تیز روشنی پھینک کر اہل ذوق کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں مجھے پورا یقین ہے کہ اردو زبان شکیبؔ کے بہت سے شعروں کو اپنے سینے سے لگائے رکھے گی۔ (دسمبر 2003)

شکیب جلالی

شکیب جلالی کی غزل کے امتیازات۔ از پروفیسر ابوالکلام قاسمی

برصغیر کی تقسیم کے بعد ہندو پاک میں جن معدودے چند غزل گو شعراء نے اپنے لہجے اور فکری رویوں سے تازگی اور سلیقہِ اظہار کا ثبوت فراہم کیا ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ شکیب جلالی کا شمار یقینی طور پر ایسے ہی ممتاز غزل گو شاعروں میں کیا جا سکتا ہے شکیب جلالی‘ ناصر کاظمی اور خلیل الرحمن اعظمی نسبتاً کم عمر معاصرین میں تھے۔ ان کی ابتدائی غزلوں نے ہی ادبی جرائد کے قارئین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی تھی ‘ یہ محض سوئے اتفاق تھا کہ قدرت نے ان کو طویل عمر سے نہیں نوازا۔ مگر محض دو دہائی کے عرصے میں انہوں نے جو کہا ‘ اسے انتخاب کا نام دینا چاہیے۔ ان کے واحد مجموعہ کلام ’’روشنی اے روشنی‘ ‘ میں ستر غزلوں کے ساتھ کچھ نظمیں بھی شامل ہیں۔ مگر یہ نظمیں محض منہ کا ذائقہ بدلنے کا نمونہ معلوم ہوتی ہیں۔ غزل کے شعروں جیسے تاثرات اور قدرے غیر پہلو دار تصورات کو نظم کے مصرعوں میں پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ البتہ اظہار کا سلیقہ ان نظموں میں بھی صاف دکھائی دیتا ہے۔ خیال کی پیچیدگی‘ فکر کا پھیلاؤ یا پھر اس کو سمیٹ کر نظم کی اکائی میں تحلیل کرنے کی صفت ان نظموں میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔ اس اعتبار سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شکیب جلالی کی نظمیں ان کی غزلوں کی توسیع ہیں اور ان نظموں میں بھی ایک غزل گو شاعر کا فنی طریق کار اور طرز اظہار نمایاں ہے۔

جہاں تک غزل گوئی کا سوال ہے تو شکیبؔ کے مزاج کی مخصوص ساخت‘ اور تصورات کے جوہر کشید کر کے کسی ایک نقطے پر مرتکز کر لینے کی کیفیت‘ کو ان کی غزلوں میں نت نئے لہجے اور رنگا رنگ زاویہ نظر کے ساتھ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی ایک غزل میں کہا تھا کہ :

جو دل کا زہر تھا کاغذ پہ سب بکھیر دیا

پھر اپنے آپ طبیعت مری سنبھلنے لگی

اس شعر میں تخلیقی عمل کے ایک مرحلے کو شاید غیر شعوری طور پر اس خوبصورتی کے ساتھ ظاہر کیا گیا ہے کہ شعر گوئی کے مدعا کے ساتھ محرک کا بھی سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ کاغذ پہ دل کا زہر بکھیرنے کے عمل میں یوں تو کرب کی کیفیت سے نجات حاصل کرنے کا راز چھپا معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ’’تخلیق کا یہ عمل اس شعر میں بیان ہونے والے مرحلے میں اپنی شخصیت کو توازن‘ تناسب اور اعتدال سے دوچار کرنے کا مترادف بن جاتا ہے۔ اسی باعث طبیعت کے سنبھلنے کی بات قرین قیاس بھی بن جاتی ہے اور قابل وثوق بھی معلوم ہوتی ہے۔

مرزا غالب نے کہا تھا کہ :

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد

ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

یہاں انسان کا انسان سے فریب کھایا ہوا ہونا‘ مردم گزیدہ کی تمثیل میں بیان ہوا ہے اور اس بیان کو سگ گزیدہ کی ترکیب سے ہم آہنگ کر کے کیفیت کی شدت پیدا کر دی گئی ہے۔ شکیب جلالی بھی اپنی ایک غزل میں کم و بیش اس نوع کے تجربے سے دو چار دکھائی دیتے ہیں۔ مگر شکیبؔ کے یہاں مردم گزیدگی کے باعث مردم بیزاری اور مردم بیزاری کے سبب شدید طور پر تنہا ہو کر رہ جانے پر ساری توجہ صرف کی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ :

میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں

خود اپنی چاپ سن کر لرزہ بر اندام ہو جائے

اس شعر میں شدید احساس تنہائی نے اپنے قدموں کی آوا زکو بھی ہیبت ناک بنا دیا ہے۔ او رلرزہ براندام ہونے کے عمل میں گھبراہٹ کے ساتھ ارتعاش کی کیفیت نے شعر کو احساس اور جذبے کی متحرک تصویر میں ڈھال دیا ہے۔ مزید برآں یہ کہ وہ سمعی پیکر تراشی جس کا تجربہ ہمیں معاصر غزل گوئی میں خاصا کم ہوتا ہے ‘ شکیب جلالی کی غزلوں میں اس احساس کی فراوانی ملتی ہے۔ محولہ بالا شعر میں اپنی چاپ سننے او ر اس سے متاثر ہو کر لرزہ براندام ہونے کا جو تجربہ ہوتا ہے ‘ احساس کی اس جہت سے ہماری آشنائی معاصر غزل کے بہت کم اشعار میں ہوتی ہے۔ اردو شاعری میں بالعموم بصری پیکروں کی بہتات نے انسان کے دوسرے حواس کے عمل دخل سے لا تعلقی کا تاثر عام کر رکھا ہے۔ لمسی پیکر تراشی کے بارے میں تو عام تاثر یہ قائم کیا جا تا رہا ہے کہ چوں کہ اسلام کے زیر اثر گناہ و ثواب اور خیر و شر کا جو ماحول عام ہوا اس ماحول میں غزل کے مسلم شعرا کے یہاں بصارت پر اکتفا کرنے کو کافی سمجھ لیا گیا۔ لیکن جب بصارت سے کہیں زیادہ مجرد احساس سماعت کی کارفرمائی میں موجود ہے‘ تو بھلا سمعی پیکروں کی طرف سے بے اعتنائی کا کیا جواز فراہم کیا جا سکتا ہے۔ شکیب جلالی کی شاعری میں ہمیں اس طرح کا کوئی قدغن نظر نہیں آتا۔ یہی سبب ہے کہ اس نوع کے اشعار کی فراوانی ان کی غزل گوئی کا خاصہ معلوم ہوتی ہے‘ جن میں احساس سماعت کی کارفرمائی بہت واضح ہے :

میں لوٹ آیا ہوں خاموشیوں کے صحرا سے

وہاں بھی تیری صدا کا غبار پھیلا تھا

اے دوست پہلے قرب کا نشہ عجیب تھا

میں سن سکا نہ اپنے بدن کی پکار بھی

وہ خموشی انگلیاں چٹخا رہی تھی اے شکیبؔ

یا کہ بو ندیں بج رہی تھیں رات روشن دان پر

خموشی بول اٹھے ہر نظر پیغام ہو جائے

یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے

ان اشعار میں کہیں بول اٹھنے کی تناقصی پیکر تراشی‘ کہیں سناٹے کا حد سے تجاوز کر کے کہرام کی صورت میں مخلوط امیجری کا احساس‘ کہیں صدا اور آواز کو پھیلے ہوئے غبار کی صورت میں مشاہدہ کرنے کی کیفیت اور کہیں بدن کی پکار سننے اور خموشی کے انگلیاں چٹخانے کی کیفیت نے شکیبؔ کی غزل میں حسی تجربات کی ایک الگ دنیا آباد کر رکھی ہے۔ ان اشعار میں استعارہ سازی اور پیکر تراشی کی ہم آمیزی میں الفاظ کو نیا سیاق و سباق دینے اور نئی تراکیب سے دو چار کرنے کا انداز بہت نمایاں ہے۔ خاموشی کا صحرا‘ صدا کا غبار‘ بدن کی پکار‘ خموشی کی آواز اور سناٹے کا کہرام بن جانا جیسی تمام تراکیب استعارہ میں امیجری اور امیجری میں استعارے کو مدغم کرنے کے نتیجے میں رونما ہوئی ہیں اور ترکیب سازی کی اس صفت نے مخلوط پیکر تراشی کے انداز میں شدت پیدا کی ہے۔

دیکھنے سننے اور محسوس کرنے کا عمل بالترتیب منظر‘ آواز اور حسی معروض سے سروکار رکھتا ہے‘ مگر اس ضمن میں شکیب جلالی کا امتیاز یہ ہے کہ وہ ان دیکھی چیزوں کو دیکھنے اور خاموشی کو سننے کا تاثر کچھ اس طرح پیدا کرتے ہیں کہ زبانِ حال کو محسوس کرنے اور سننے کے معاملے میں ان کی غیر معمولی انفرادیت قائم ہوتی ہے۔ ان کا ایک شعر ہے :

مرے ہی کان میں سرگوشیاں سکوت نے کیں

مرے سوا بھی کسی سے یہ بے زبان کھلا؟

بے زبانی اور کھلنے میں جو تضاد کی کیفیت ہے اس کا لطف اپنی جگہ ‘ مگر اس کے ساتھ ہی سرگوشیوں کا وہ انداز جو سکوت سے آشنائی کے بعد قائم ہوتا ہے ‘ وہ ایک ایسا زوایہ اظہار ہے جس میں شکیبؔ کا کوئی شریک نہیں دکھائی دیتا۔ شکیب جلالی ‘ اپنے اس زاویے کو یہیں تک محدود نہیں رکھتے بلکہ اس میں بعض اور پہلوؤں کا اضافہ کرتے ہیں۔ وہ اپنے ماحول کے تضادات اور بے حسی کا بھی شدید احساس رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کے لیے کَلی کا جواں مرگ ہونا اور ہواؤں میں سسکیوں کو محسوس کرنا دراصل ان خفیف سے ارتعاشات کو محسوس کرنا بن جاتا ہے جن تک غیر جذباتی حوالوں کی مدد سے رسائی نہیں حاصل کی جا سکتی۔

بنی نہیں جو کہیں پر کَلی کی تُربت تھی

سنا نہیں جو کسی نے‘ ہوا کا نوحہ تھا

اس عالم میں جب وہ احساس کے غیر محسوس حوالوں سے رابطہ قائم کرتے ہیں تو انھیں خاموش تصویر بھی باتیں کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔

اب یہاں کوئی نہیں ہے جس سے باتیں کیجیے

یہ مگر چپ چاپ سی تصویر روشن دان پر

لفظیات کی ندرت اپنی جگہ مگر خود مرکزیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تنہائی کے احساس نے جس طرح جدید انسان کو اس کے معاشرے میں بیگانگت کے احساس سے دو چار کیا ہے اس کیفیت سے شاعر کا سامنا مندرجہ بالا شعر میں بھی ہے مگر اس احساس تنہائی کی شدید صورتیں بعض اور اشعار میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت

میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت

آ کر گرا تھا کوئی پرندہ لہو میں تر

تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر

ان دو اشعار میں سایہ اور تصویر مشترک قدر کی حیثیت سے موجود ہیں ‘ مگر پہلے شعر میں فرد کا اکیلے پن کے بجائے ہجوم سے دو چار کرنے کا تجربہ مختلف زاویے سے پڑنے والی روشنی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سایوں کا التباس بھی ہو سکتا ہے۔ یہی التباس شاعر کو کبھی خود فریبی میں مبتلا کرتا ہے اور کبھی پرندے کے لہو میں تر ہونے کی اذیت سے سامنا کراتا ہے۔ پھر یہ کہ موخر الذکر شعر میں لہو سے بننے والے نقوش کو تصویر کے پیکر میں دیکھنا بھی شاعر کے احساس بیگانگت اور خوف وہراس کی کیفیت کو دو آتشہ بنا دیتا ہے۔

شکیب جلالی کو یوں تو ایسا موقع ہی نہیں ملا کہ وہ جدید شاعری کی منصوبہ بندی سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرتے ‘ اور نہ کوئی ایسی صور ت ہی پیدا ہوئی کہ جدید شعری رجحان کے نظریہ ساز نقاد شکیبؔ کی شاعری کو اپنے نظریاتی پس منظر میں پیش کرتے ‘ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ شکیب جلالی نے روح اور جسم کی ثنویت اور انسان کی بیگانگت کو مختلف غزلوں میں نہایت اثر انداز طریقہ پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہ اس مضمون کی تمثیل کبھی روح کے تجرد کو تجسیمی پیکروں میں ڈھال کر پیش کرتے ہیں او رکبھی بالکل نئی تشبیہات تراش کر۔ اس سلسلے میں ان کے دو شعر بڑی اہمیت کے حامل ہیں :

سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح

دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس پر

ملبوس خوشنما ہے مگر جسم کھوکھلے

چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکان پر

پہلے شعر میں جسم او رروح کو جس طرح متناقض صورت حال میں پیش کیا گیا ہے‘ عین اسی طرح دوسرے شعر میں ملبو س اور جسم کو تضاد کی کیفیت سے دو چار کیا ہے۔ مگر دونوں اشعار میں جو چیز مشترک ہے وہ خارج کے نمائشی پہلو پرطنز اور انسان کی داخلی دنیا کے دیوالیہ پن کا نوحہ ہے۔ معاصر زندگی کی اس عظیم سچائی کا احساس ہی بڑی بات ہے ‘ یہاں تو شاعر احساس کی منزل سے گزر کر اعتراف کے تجربے سے نبرد آزما دکھائی دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ سایہ اور عکس کا پیکر شکیب جلالی کے مخصوص انداز نظر کا پتہ دیتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی اس پیکر کے حوالے مضمون کی تبدیلی اور احساس کی ندرت کے ساتھ تبدیل ہوتے ہوئے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں

جس طرح سایہِ دیوار پہ دیوار گرے

یہاں سایہ کو اپنا عکس قرار دینے کے ساتھ اپنا سہارا بھی متّصور کیا گیا ہے۔ اپنے ہی قدموں ‘ کے الفاظ میں عزت نفس اور استحکام ذات کا جو داعیہ موجود ہے وہ شعر کے واحد متکلم کو ایک ڈرامائی کردار بنا دیتا ہے ‘ ایک ایسا کردار جس میں المیہ کے ہیرو جیسی شان موجود ہے۔ مزید یہ کہ دوسرے مصرعے کی تشبیہ اپنے پیکر کے باعث شعر کے مضمون کو ہشت پہلو بنا دیتی ہے۔ یہ شکیب جلالی کا ایسا شعری طریقہ کار ہے جس میں وہ یکتا اور بے مثال معلوم ہوتے ہیں اس شعری طریقہ کار کی ایک مثال ایسے شعر سے دی جا سکتی ہے جس میں بظاہر چہرے کو پتھر سے تشبیہ دی گئی ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ تخاطب دیدہِ تر سے ہے ‘ جو اس المیے کا محرک ہے جس المیے پر شعر کی بنیاد استوار کی گئی ہے۔

کیا کہوں دیدہِ تر ! یہ تو مِرا چہرہ ہے

سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے

اس شعر میں دیدہِ تر کے حوالے سے جس طرح چہرے کے اضمحلال اوربڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ مسخ ہوتی ہوئی جوانی کا کرب نمایاں کیا گیا ہے اس میں دوسرے مصرعے کی آفاقی سچائی کے ذریعے داخلی احساس اور خارجی حقیقت کو ہم آہنگ کرنے کی کیفیت نے ٹھوس امیجری کی شکل اختیا رکرلی ہے۔ شکیب جلالی کے شعری اسلوب میں تنوع کا انداز کبھی یاد کو مجسم کرنے کے وسیلے سے اور کبھی غز ل کے روایتی رچاؤ کا احترام کرنے کے سبب بہت واضح ہے۔ اس تنوع کو زیادہ وثوق انگیز طریقہ پر ان چند اشعار میں دیکھا جا سکتا ہے :

آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے

جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پسِ دیوار گرے

نہ اتنی تیز چلے سر پھری ہوا سے کہو

شجر پہ ایک ہی پتّا دکھائی دیتا ہے

یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے

تمام دشت ہی پیا سا دکھائی دیتا ہے

اک یاد ہے کہ دامنِ دل چھوڑتی نہیں

اک بِیل ہے کہ لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ

ہوا چلی سرِ صحرا تو یوں لگا جیسے

ردائے شام مرے دوش سے پھسلنے لگی

اس نوع کے مختلف الجہاد اشعار میں شکیب جلالی کے شعری طریقہ کار کا مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے‘ اور ان کی غزل گوئی کے اس تنوع کو بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے جو اکثر شکیبؔ کی انفرادیت پر منتج ہوتا ہے۔

(دسمبر 2003)

شکیب جلالی

شکیبؔ کا فن از احمد ہمدانی

شعورِ کائنات کے دوش بدوش معرفتِ ذات کو اُجاگر کرنے کا سلسلہ شکیب جلالی کی شاعری کا مخصوص او رنمایاں عمل ہے۔ اُردو میں وہ علامتی شاعری کابانی ہے۔ اس نے زندگی کو اپنے شعور کے آئینے میں دیکھا اور اپنے شعور کے مطابق ہی زندگی کو پیش کیا جس نے اس کی شاعری کو صداقتِ احساس کا ایک ایسا نمونہ بنا دیا ہے جس کی مثال ہماری شاعری میں خال خال ہی ملتی ہے۔ چند شعرملاحظہ ہوں :

ستارے سسکیاں بھرتے تھے اوس روتی تھی

فسانہِ جگرِ لَخت لَخت ایسا تھا

یہ اور بات کہ وہ لَب تھے پھول سے نازک

کوئی نہ سہہ سکے لہجہ کرخت ایسا تھا

مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں

جس طرح سایہِ دیوار پہ دیوار گرے

وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے

کس گھڑی سر پہ یہ تلوار گرے

اسی لیے تو ہوا رو پڑی درختوں میں

ابھی میں کِھل نہ سکا تھا کہ رُت بدلنے لگی

کسی کا جسم اگر چھو لیا خیال میں بھی

تو پور پور مری مثلِ شمع جلنے لگی

مری نگاہ میں خواہش کا شائبہ بھی نہ تھا

یہ برف سی ترے چہرے پہ کیوں پگھلنے لگی

نہ جانے کیا کہا اس نے بہت ہی آہستہ

فضا کی ٹھیری ہوئی سانس پھر سے چلنے لگی

غزلوں کے علاوہ اس کی نظموں میں بھی جو تازگی و شگفتگی کے ساتھ معنویت کا جادو نظر آتا ہے وہ اس کی انفرادیت ہی سے منسوب ہے۔ مثلاً اس کی نظم ’تُم‘ دیکھتے ہیں۔

سحر کدے کا تقدّس‘ قمر کی آب ہو تم

ہجومِ نُور ہو‘ شعلہ ہو‘ آفتاب ہو تم

یہ روشنی کا تمّوج‘ یہ شوخیوں کے شرار

نگارِ برق ہے رقصاں کہ بے نقاب ہو تم

ہے گوشہ گوشہ منوّر تو کُنج کُنج نکھار

دیارِ حسن ہو تم وادیٔ شباب ہو تم

صبا کا لَوچ گلوں کی پَھبن خمیر میں ہے

چمن کی رُوح بہاروں کا انتخاب ہو تم

نظر کہ جامِ صبوحی‘ چلن کہ مستیِٔ رقص

حریمِ بادہ ہو تم پیکرِ شراب ہو تم

نفس نفس میں ترنّم کی جوت جاری ہے

غزل کا شعر ہو تم نغمہ و رُباب ہو تم

یہ نغمگی‘ یہ بہاریں ‘ یہ رنگ و نور‘ یہ رُوپ

خدائے حسن کی تصویرِ کامیاب ہو تم

یہ شورشیں ‘ یہ تکلّف‘ یہ لغزشیں ‘ یہ خرام

بہر ادا یہ حقیقت ہے لاجواب ہو تم

نہیں نہیں کہ حقیقت گراں بھی ہوتی ہے

سحر شکار اُمنگوں کا کوئی خواب ہو تم

غرض یہ کہ اس کی غزلیں اورنظمیں دونوں اس کی اپنی ذات کی گواہی دیتی نظر آتی ہیں اور یہ ایک ایسی خوبی ہے جو اسے دنیاے ادب میں ہمیشہ ہمیشہ زندہ رکھے گی

شکیب جلالی

شکیب جلالی: ہم عصری حِسّیت کا خوبصورت پیکر از۔ ۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی

شکیب جلالی ’’روشنی اے روشنی‘ ‘ کی اشاعت ہی سے زندہ و تابندہ ہو گئے تھے۔ یہ مجموعہ۱۹۷۲ء میں شائع ہوا تھا۔ اور موجودہ کُلّیات کی اشاعت کے بعد اسے شکیب جلالی کی شاعری کا انتخاب ہی کہا جا سکتا ہے۔ انتخاب کے بارے میں عموماً یہ خیال کیا جاتاہے کہ انتخاب میں شامل نہ ہو سکنے والی شاعری کو نظر انداز کرنا مناسب خیال کیا گیا تھا۔ بہر حال شکیب جلالی کی ’’ کُلّیات ‘ ‘ میں شامل کلام‘ جو توقیتی خطوط یعنی سال بہ سال کے شعری سفر کو بڑی احتیاط کے ساتھ منضبط کر رہا ہے وہ اس خیال پر مہرِ تصدیق ثبت کر رہا ہے کہ شکیب جلالی کی شاعری ابتدا ہی سے حیرت ناک حد تک بہت منفرد اور خوش گوار طرزِ احساس کی شاعری رہی ہے۔

اگر ہم ’روشنی اے روشنی ‘ میں شامل کلام کے علاوہ شائع ہونے والے اس کلام پر نظردوڑائیں جو زیر نظر’کلّیات‘ میں شامل ہے تو شکیب جلالی کا شعری سفر کوہستانی سلسلہ کی طرح ناہموار نظر نہیں آتا بلکہ شکیب جلالی کے کلام کا گراف متواتر اوپر جاتا دکھائی دیتا ہے۔ سوچتا ہوں کہ اتنے اچھے کلام کو ’روشنی اے روشنی‘ میں شامل کیوں نہ کر دیا گیا یا اس وقت ایسا ممکن نہ تھا تو پھر کسی اشاعتی ادارے نے غیر مطبوعہ کلام کی اشاعت میں اتنی دیر کیوں لگائی؟۔ خیر اب شکیب جلالی کے انتقال کے۳۸ سال بعد وہ وقت بالآخر آ ہی گیا جب ان کے برخوردار اقدس رضوی نے جو پیشے کے اعتبار سے بینکار ہیں لیکن اپنے والد بزرگوار کے شعری قدوقامت سے بخوبی واقف ہیں۔ اپنی لگن اور توجہ سے زمانہ کی غفلت شعاری کا رُخ پلٹ ہی دیا اور آج اُردو شاعری کے عشّاق کے لیے مقام مسرت ہے کہ ’روشنی اے روشنی‘ میں شکیب جلالی کی زندگی کے آخری زمانے کے کلام کے ساتھ ساتھ ابتدائی دور کا کلام ’پسِ غبار‘ سہی بلکہ ’پیشِ غبار‘ کا درجہ رکھتا ہے۔

میرا تجربہ ہے کہ اکثر شعرا کا کلام جو پہلے شعری مجموعے میں شامل ہونے سے رہ جاتا ہے وہ زیادہ تر کمتر درجہ ہی کا ہوتا ہے اور شاید اسی سبب سے اسے شامل اشاعت کرنا ضروری خیال نہ کیا جاتا ہو لیکن میں حیران ہوں کہ شکیب جلالی کا تمام کلام یقینی طور پر اس درجہ ہموار بلکہ خوب سے خوب تر کی طرف رواں دواں نظر آتا ہے کہ حیران ہوئے بغیر رہنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔

آپ شکیب جلالی کی شاعری کے غیر مطبوعہ کلام میں ۱۹۴۷، ۱۹۴۸، ۱۹۴۹ اور ۱۹۵۰ کے اشعار ملاحظہ فرمائیں اور خود فیصلہ کریں کہ یہ اشعار ’روشنی اے روشنی‘ کی شاعری کے منّار کے علاوہ اور کیا ہو سکتے ہیں۔

۱۹۴۷

زمانے کی نگاہوں میں سمو کر

مجھے دل سے بھلایا جا رہا ہے

۱۹۴۸

ہوشِ دیدار بھی نہیں باقی

کیا نظرسے پلا دیا تم نے

غمِ ہستی اُٹھائے پھرتا ہے

خاک کو کیا بنا دیا تم نے

درد کی لذّتیں ‘ ارے توبہ

مر کے جینا سکھا دیا تم نے

۱۹۴۹

اللہ رے فریبِ تصور کی خوبیاں

دشواریِ فِراق کو آساں بنا دیا

دیکھا شکیبؔ نقطے جما کر بنائے حَرف

حَرفوں سے شعر‘ شعر سے دیواں بنا دیا

۱۹۵۰

زمانے کو پہلی سی فرصت نہیں ہے

محبت بہ قدرِ محبت نہیں ہے

خوش ہوں کہ بات شورشِ طوفاں کی رہ گئی

اچھا ہوا نصیب کنارہ نہ ہو سکا

جب ہم مندرجہ بالا اشعار کے بعد۱۹۷۲ میں مطبوعہ کلام کی طرف آتے ہیں تو پھر اس باب میں کوئی شک و شبہ نہیں رہتا کہ وہ واقعتاً جدید اُردو غزل گو شعرا کی مختصر فہرست کے رکن رکین ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ شکیبؔ کی شاعری نے ’آب حیات‘ پی رکھا ہے۔ اُسے تازہ‘ ستھری اور اثر پزیر جذبات کی عکاسی اس طرح راس آتی ہے کہ جیسے وہ پیدا ہی اس لیے ہوا تھا کہ اپنے دور کی غزل کا مزاج متعین کر جائے۔ جسے غزل کے روایتی اور جدید مزاج کا لاجواب آمیزہ کہا جا سکتا ہے۔

شکیب جلالی نے اپنے دور کی گوناگوں پیچیدگیوں سے حیران کن جمالیاتی احساسات کے پیکر کی کیسے راہ ہموار کی ہے۔ اور وہ اس مشکل سفر سے اس طرح گزرے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں کہ :

ہم ہی خطرات مول لیتے ہیں

راستے پُر خطر نہیں ہوتے

متعدد جدید شعراء نے روایتی غزل کے مضامین اور اُس کے لوازمات سے انحراف کیا ہے‘ لیکن کامیابی بہت کم شعرا کے حصّے میں آئی۔ شکیب جلالی نے روایتی غزل کے دائرے میں رہتے ہوئے غمِ دوراں اور غمِ جاناں کو کچھ اس طورپر شیر و شکر کیاکہ وہ روایتی اور جدید شعری حلقوں میں یکساں مقبول ہوئے۔

میں نے ’روشنی‘ اے روشنی‘ کی ’انفرادیت‘ کے بارے میں اس مجموعے کے سالِ اشاعت کے دوران شائع ہونے والے اپنے (ایریل) کالم میں بہت مثبت انداز میں اظہارِ خیال کیا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ ۳۸ سال بعد شکیب جلالی کی شاعری کلّیات کی شکل میں آرہی ہے اور ا س طرح شکیب جلالی کی شاعری کے نئے عشّاق کے لیے شکیبؔ کے مکمل کلام سے لطف اندوز ہونے کا ایک موقع ہاتھ آیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ شکیب جلالی کی غزل میں ایک مقناطیسی قوت موجود ہے جو صاحبانِ ذوق کو اپنی جانب کھینچتی رہے گی۔

خاص طور پر ان کے یہاں اچھوتی تشبیہات کا وفور ملتا ہے جو بسااوقات استعاروں پر بھی بھاری ہوتا ہے۔ مثلاً:

گلے ملے نہ کبھی چاند‘ بخت ایسا تھا

ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا

ستارے سسکیاں بھرتے تھے‘ اوس روتی تھی

فسانہِ جگر لَخت لَخت ایسا تھا

ذرا نہ موم ہوا پیار کی حرارت سے

چٹخ کے ٹوٹ گیا‘ دل کا سخت ایسا تھا

مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں

جس طرح سایہِ دیوار پہ دیوار گرے

کسی کاجسم اگر چھو لیا خیال میں بھی

تو پور پور مری‘ مثلِ شمع جلنے لگی

نہ جانے کیا کہا اُس نے بہت ہی آہستہ

فضا کی ٹھہری ہوئی سانس پھر سے چلنے لگی

آخر کو تھک کے بیٹھ گئی اِک مقام پر

کچھ دور میرے ساتھ چلی رہ گزار بھی

اے دوست پہلے قُرب کا نشہ عجیب تھا

میں سن سکا نہ اپنے بدن کی پکار بھی

میں نے مندرجہ بالا اشعار مشتے نمونہ از خروارے کے طورپر نقل کیے ہیں۔ شکیبؔ کے پہلے مجموعے میں درجنوں ایسے اشعار ہیں جو ہمیں اپنے ندرتِ خیال کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ ہمیں اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ غزل واقعتاً کس قدر شاداب صنفِ سخن ہے کہ یہ منفرد حسّیت کے حامل شعرا کو اُن لمحات سے نوازتی رہتی ہے جن میں ادا کیے ہوئے شعری پیکر اپنی سادگی کی سج دھج سے ہمیں متعجب کرتے ہیں اور یہ استعجاب ہی اچھے اشعار کا وہ تحفہ ہے جو ہمارے بہت ہی نجی تجربات پر مہرِتصدیق ثبت کرتاہے او رہم کلماتِ تحسین ادا کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ شکیب جلالی کی شاعری کے نئے عشّاق شکیبؔ جیسے بلا کے حسّاس شاعر کی خوبصورت شاعری پر متعجب ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ اس کی شاعری نے شعری وفور سے خالی ریاضیاتی زبان کی شاعری کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا تھا‘ اور یہ ثابت کر دکھا یا تھا کہ غزل انسانی کیفیات کے ہر رُخ کی ترجمانی اپنی مخصوص ایمائیت کے ساتھ کر سکتی ہے جس سے حُسن کاری اور کفایتِ لفظی کے ساتھ ہم عصری حسّیت کے واجبات از خود پورے ہوجاتے ہیں۔ شکیب جلالی نے ’نئی شاعری‘ کے اجاڑپن کے مقابلہ میں حسن و عشق کی ہریالی میں سرسوں کے جو پھول اُگائے تھے وہ اب تک سہانا منظرپیش کر رہے ہیں اور امید ہے کہ آیندہ بھی ہمارے لیے روح کی غذا کا کام دیں گے۔

شکیب جلالی

شکیب جلالی: مشعلِ درد اب بھی روشن ہے از شمس الرحمن فاروقی

امیر خسرو نے لکھا ہے کہ فن شعر میں استاد بننے یا استاد کہلانے کے لیے کئی شرطوں کا پورا ہونا ضروری ہے۔ ایک شرط یہ ہے کہ شاعر کا ادبی معاشرہ اس کو استاد مانے۔ بظاہر یہ بات معمولی سی ہے ‘ اور بڑے شاعر کے بارے میں جو مفروضہ ہمارے زمانے میں بڑی حد تک عام ہے‘ کہ اچھے یا بڑے شاعر کی قدر اس کے اپنے زمانے میں نہیں ہوتی‘ اس کے خلاف جاتا ہے۔ لیکن ذرا غور کریں تو امیر خسرو کی بات میں کئی گہرائیاں نظر آتی ہیں۔ مثلاً ایک تو یہ کہ ادبی معاشرے کے جمہور‘ یوں ہی کسی کے سرپرتاج نہیں رکھ دیتے۔ وہ اسی شاعر کو استاد قرار دیتے ہیں جو زمانے کے مزاج ‘ تہذیب کی آواز ‘ طرز شعر گوئی‘ ہر چیز کا لحاظ رکھتے ہوئے کوئی ایسی کمی پوری کرتا ہو جسے اس کے معاصرین پوری نہ کرسکے ہوں۔ دوسری بات یہ کہ اگر کسی شاعر کا اپنا ادبی معاشرہ اس کی عظمت کو نہ پہچانے گا تو بھلا دوسرے کیا پہچانیں گے؟ یہ تویوں ہوا کہ کوئی دعویٰ کرے کہ فلاں شخص اپنے ملک کا سفیر ہے‘ لیکن خوداس کے ملک سے اس شخص کو اوراق سفارت نہ مل سکے ہوں۔ ظاہر ہے اسے کون معتبر و معتمد کہے گا۔

یہ بات اور ہے کہ ہمارے زمانے میں ادبی معاشرہ پہلے کی طرح مستحکم اور مستقل نہیں رہ گیا۔ شاعر اور اس کے سامع/ قاری کے درمیان ذہنی اور روحانی ہم آہنگی بھی اب بہت کم رہ گئی ہے۔ ادھر شعرا کو بھی اپنے اوپر پہلے جیسا اعتماد نہیں رہا۔ لیکن یہ بات پھر بھی اپنی جگہ پر ہے کہ اپنے ماحول و معاشرہ میں قبولیت (واضح رہے میں ’’مقبولیت‘ ‘ نہیں کہہ رہا ہوں )حاصل کیے بغیر کوئی شاعر اپنے بارے میں کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا۔ امیر خسرو کے بیان کردہ اصول کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ استاد شاعر کی پہچان یہ بھی ہے کہ اس کا کلام دور دور تک لوگوں کی زبان پر ہو‘ اس کے بہت سے اشعار ضرب المثل کا درجہ اختیار کر گئے ہوں۔

اس نقطہِ نظر سے شکیب جلالی کے کلام کو پڑھیں تو ہمیں جگہ جگہ ایسے شعر نظر آتے ہیں جو ضَربُ المثل کی حد تک مانوس ہو چکے ہیں اور نئی شاعری کی پہچان بیان کرنے کے لیے اکثر مذکور ہوتے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شکیب جلالی کے سوا کوئی جدید شاعر نہیں ہے جس نے اتنی کم عمر پائی ہو اور جس کا کلام اتنا مختصر ہو اور پھر بھی جس کے شعر اتنی کثیر تعداد میں مقبول خاص و عام ہو چکے ہوں۔ شکیب جلالی کی اکثر غزلوں کا ایک شعر‘ بلکہ بعض غزلوں کے تو دو دو شعر آج بھی ہماری زبان پرہیں۔ میں اپنے حافظے سے کچھ شعر پیش کرتا ہوں :

نہ اتنا تیز چلے‘ سر پھری ہوا سے کہو

شجر پہ ایک ہی پتّا دکھائی دیتا ہے

یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے

تمام دَشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے

آ کر گرا تھا کوئی پرندہ لہو میں تر

تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر

آ کے پتّھر تو مرے صحن میں دو چار گرے

جتنے اس پیڑ کے پھل تھے‘ پسِ دیوار گرے

وہی جھکی ہوئی بیلیں ‘ وہی دریچہ تھا

مگر وہ پھول سا چہرہ نظر نہ آتا تھا

فصیلِ جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں

حُدودِ وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

جاتی ہے دھوپ اُجلے پَروں کو سمیٹ کے

زخموں کو اب گِنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے

یہ کون بتائے عَدم آباد ہے کیسا!

ٹوٹی ہوئی قبروں سے صدا تک نہیں آتی

میں گمان کرتاہوں کہ اگر دیوان کھول کر دیکھوں تو … آدھے نہیں تو چوتھائی شعر ضرور ایسے ملیں گے جن کی شہرت ان کے خالق سے بے نیاز ہو کر قبولِ خاطر اور لُطفِ سخن کے پر لگا کر اڑتی چلی گئی ہے اور وہ شعر جدید شاعری کا بیش قیمت ترین سرمایہ ہیں۔ آج شکیبؔ کی موت کے کوئی چالیس سال بعد کی غزلیں دیکھئے تو کئی عمدہ شعرا کے یہاں شکیبؔ کا لہجہ یا ان کے مضامین‘ یا ان کی طرح کے پیکر اور استعارے جھمکتے نظر آتے ہیں۔ خود ان کے معاصرین میں سب سے بہتر شعرا میں شاید منیر نیازی اور سلیم احمد ہی ایسے ہوں جن کا کلام پڑھیں تو شکیب جلالی کی یاد بہت کم آئے۔ دور و نزدیک ان کی آواز کے عکس آبی رنگ کی طرح نظر آتے ہیں ( آب ساہر رنگ میں شامل ہے میاں ‘ میر) تو اسی وجہ سے جو میں نے اوپر بیان کی۔ یعنی شکیب جلالی کی غزل ہمارے زمانے کے کسی ایسے تخیلی اور تخلیقی تقاضے کو پوری کررہی تھی‘ اور اب بھی پوری کررہی ہے ‘ جس کی تکمیل اور آسودگی اوروں کے یہاں نہیں ہو سکتی تھی۔

اب یہاں ایک لمحہ ٹھہرکر اس سوال پر غورکرلیں کہ وہ کون سی صفت ہے جو صرف شکیب جلالی کا مابہ الامتیاز ہے اور جس کی بنا پر ان کے اشعار کو یہ قبولیت ملی ہے؟ یہاں سب سے پہلے کہنے کی جو بات ہے وہ یہ ہے کہ مختلف شعرا کی انفرادیت الگ الگ صفات میں نمایاں ہوتی ہے۔ مثلاً کسی کے یہاں استعارے کی شدت ہے‘ کسی کے یہاں پیکر کا وفور‘ کسی کے یہاں لسانی تجربے اور زبان کے ساتھ خلاقانہ بلکہ حاکمانہ رویہ ہے‘ کسی کے کلام میں غزل کی روایت کا احساس نئے رنگ سے ملتا ہے۔ وہ شاعری سب سے زیادہ یاد رکھی جاتی ہے جس میں پیکر کی ندرت یا استعارے کی جدت اور چمک ہو‘ یا پھر جس میں شاعر/ متکلم خود اپنا‘ یا معشوق کا ‘ یا زمانے کی طرز و روش کا مذاق اڑا رہا ہو۔ جس شاعری میں زبان کے ساتھ خلاقانہ توڑ پھوڑ کا رویہ ہو ‘ وہ مرعوب اورپریشان تو کرتی ہے مگر صرف ان لوگوں کو بہت پسند آتی ہے جو زبان کے جبر‘ اور خاص کر غزل میں زبان کے جبر کو ڈھیلا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ شکیب جلالی کی غزل میں خاص بات یہ ہے کہ زبان پر خلاقانہ جبر اور اپنے اوپر ہنستے رہنے کی ادا کو چھوڑ کر جدید غزل کی ہر کیفیت ان کے مختصر سے کلام میں مل جاتی ہے۔ ایسے پیکروں کے وہ بادشاہ ہیں جوآنکھ اور سامعہ کو متاثر کریں۔ کبھی یہ پیکر دونوں حسوں کو بیک وقت بھی متاثر اور متحرک کرتے ہیں۔ پیکر پر مبنی شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ سامع / قاری رک کر اس کے معنی نہیں پوچھتا۔ اس پیکر کی جو معنویت خود سامع/ قاری کے ذہن میں ہوتی ہے وہ تمام دوسرے تاملات اور تمام مسابقتی تعبیرات کو روک دیتی ہے اور ایک ایسی شعری صورت حال پیش کرتی ہے جو تعبیر سے ماورا اور صرف احساس و محسوس پر مبنی ہوتی ہے :

آ کر گرا تھا کوئی پرندہ لہو میں تر

تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر

یہاں پیکر کے تمام اجزا معنی خیز ہیں اور مستقل تعبیر کے متقاضی ہیں :

1۔ آ کر گرا

2۔ پرندہ

3۔ لہو میں تر

4۔ تصویر

5۔ چھوڑ گیا

6۔ چٹان پر

لیکن ہم جب شعر سے پہلی بار دو چار ہوتے ہیں تو نہ الگ الگ اجزا کے معنی پر غور کرتے ہیں اور نہ ان کی آپسی مسابقت (Competitiveness)کی ہمارے ذہن میں کوئی اہمیت ہوتی ہے۔ ہم اس شعر کو محض اس کے مجموعی پیکری تاثر اور وقت کے دو مقررہ لمحات (آ کر گرا تھا‘ چھوڑ گیا ہے) کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ ’آ کر گرا‘ میں پرواز‘ رفتار ‘ بے قابو رفتار‘ کا تاثر بھی ہے لیکن ’چٹان‘ کا لفظ سامع کو بھی متحرک کرتا ہے کہ سخت چٹان پر جب پرندہ گراہو گا تو آواز بھی آئی ہو گی گویا ہلکے سے گولی چلی ہو۔ اب ایک شعر یہ دیکھیے جس کا پیکر بالکل مختلف طرح سے کام کرتا ہے :

چوما ہے میرا نام لبِ سُرخ نے شکیبؔ

یا پھول رکھ دیا ہے کسی نے کتاب میں

یہاں پیکر کسی قصّے‘ کسی وقوعے کے تازہ ہونے کے لیے اشارہ (Signal)بن جاتا ہے۔ ہمیں فوراً یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ وقوعہ (کتاب واقعی متکلم ہی کی کتاب ہے‘ اور کتاب پر اس کا نام واقعی لکھا ہوا ہے اور اس نام کو واقعی کسی نے چوما ہے‘ یا صرف سرخ پھول ہے ‘ یا وہ بھی نہیں ہے ‘ صرف روشنائی کا نشان ہے‘ وغیرہ) محض خیالی بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاعر نے دوسر ے مصرعے میں لفظ ’یا ‘ رکھ کر یہ اشارہ رکھ دیا ہے کہ سارا وقوعہ فرضی اور تخیلی بھی ہو سکتا ہے ‘ اور مصرع اولیٰ میں جو کہا گیا ہے‘ دوسرا مصرع اس کی تعریف میں بھی ہو سکتاہے۔ بدیعیات (Rhetoric)کو پیکر کی پشت پناہی پر لانے کی ایسی مثال غالب اور میر کی یہاں بہت ہے‘ جدید شاعری میں کم۔

اب ایک ہی غزل کے کچھ اشعار کسی لسانی تجزیے کے بغیر‘ مگر بہت مختصر اشاروں کے ساتھ پیش کرتا ہوں :

کمرے خالی ہو گئے‘ سایوں سے آنگن بھر گیا

ڈوبتے سورج کی کرنیں جب پڑیں دالان پر

یہاں ’خالی ہو گئے‘ کا فقرہ ’سایوں سے آنگن بھر گیا‘ کے ساتھ بیک وقت سکوت‘ بلکہ موت کی سی خاموشی‘ اچانک لیکن بے آواز حرکت‘ اور اندھیرے کے تاثر پیدا کرتا ہے۔ کمرے کیوں خالی ہو گئے‘ اس سے فی الحال تعرض نہیں۔ لیکن اگلے مصرعے میں ڈوبتے سورج کی سرخ نارنجی روشنی دالان پر پڑی ہے‘ گویا آنگن کو چھوڑتی ہوئی آئی ہے‘ حالاں کہ آنگن پہلے ہے‘ دالان بعد میں۔ خداجانے کس زاویے سے روشنی یہاں پہنچی کہ بڑی اور وسیع کھلی ہوئی جگہ کو چھوڑ کر نسبتاً تنگ دالان میں اتری اور اس روشنی کے آتے ہی کمروں میں بے رنگ خلا اور آنگن میں مبہم سائے بھر گئے۔ ’خالی کمرے‘ اور ’سایوں ‘ سے بھرے ہوئے‘ یا بھرتے ہوئے آنگن میں ایک نیا تعلق پیدا ہو رہا ہے۔ کیا کمروں کے مکین سائے میں تبدیل ہو کر آنگن میں گم کردہ راہ روحوں کی طرح بھٹک رہے ہیں ؟ مگرکیوں ؟ یہاں روشنی اور سایہ (تاریکی) کے پیکروں میں ایک پراسرار سی سازش نظر آتی ہے۔ ڈوبتے سورج کا پیکر اب کسی محبوب یا محترم ہستی کی قائم مقامی کرتا ہے‘ یا علامت ہے۔ کمرے اس لیے خالی ہیں کہ ان کے مکین باہر نکل کر ڈوبتے سورج کا ماتم کر رہے ہیں اور سیاہ پوش ہونے کے باعث سایوں جیسے لگ رہے ہیں۔ معنی کے ان مختلف النوع امکانات کو ایک طرف رکھئے اورشعر کو محض ایک خواب یا خواب میں بنائی ہوئی تصویر سمجھیے۔ اب ڈوبتے سورج کی کرنیں ‘ خالی کمرے‘ سایوں سے بھرا ہوا آنگن ‘ اختتام حیات‘ یا کسی قصے کے ختم ہونے کا پیکر خلق کرتے ہیں :

اب یہاں کوئی نہیں ہے‘ کس سے باتیں کیجیے

یہ مگر چپ چاپ سی تصویر آتش دان پر

اس شعر میں لفظ ’آتشدان‘ پر توجہ کیجیے۔ آتشدان پر کسی کی تصویر ٹنگی ہوئی ہے۔ آتش دان میں آگ ہو نہ ہو‘ لیکن راکھ اور چتا اور آتش زنی کے پیکر صاف جھلکتے ہیں۔ آتشدان پر تصویر کس کی ہے‘ یہ بات واضح نہیں ہوئی‘ لیکن یہ تصویر کسی گزشتہ معشوق کی ہو سکتی ہے جس کے دل میں محبت کا شعلہ اب بجھ چکا ہے‘ یا شاید یہ خود متکلم ہے جس کے دل کی آگ ٹھنڈی ہوچکی ہے۔ لیکن اب زندگی میں وہ مرحلہ ہے اور اس منزل کا سامنا ہے جب ہر ساتھی چھوٹ گیا ہے۔ صرف ایک شخص کی یاد ہے‘ وہ بھی خاموش اور غیر متعلق‘ سروکاروں سے عاری‘ جیسے دیوار پر کوئی تصویر جو کسی خاص نکتے یا معنی کی حامل نہیں۔ یہاں متکلم نے یہ بتا کر کہ وہ تصویر آتش دان پر لٹکی ہوئی ہے ‘ آگ اور عشق جہاں سوز‘ اور روشنی‘ اور حرارت کے پیکروں کو یکجا کر دیا ہے۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جگہ کوئی اجنبی جگہ ہو جہاں متکلم ایک رات کے لیے ٹھہرا ہے یا ٹھہرایا گیا ہے۔ اب خالی کمرے کا منظر کسی عارضی قیام گاہ‘ کسی مہمان خانے‘ اور اس سے بھی بڑھ کر کسی ایک ایسی جگہ کا پیکر خلق کرتا ہے جو پہلے بہت بھری پُری تھی لیکن اب ویران ہو گئی ہے۔ اس زاویے سے دیکھیں تو لفظ ’اب‘ اور ’چپ چاپ سی تصویر‘ مل کر اجاڑ ماحول یا سنسان گھر کا پیکر خلق کرتے ہیں ‘ ایساگھر جس کے مکین گھر چھوڑ گئے ہیں۔ کیوں گھر چھوڑ گئے ہیں ؟ یا شاید مر گئے ہیں ‘ کسی جنگ کی تباہ کاری کے باعث‘ کسی زلزلے یا وبا کے چلتے؟ سب امکانات موجود ہیں۔ لیکن لفظ ’اب‘ سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ متکلم جہاں ہے وہاں شام کو‘ یاد ن میں کسی وقت اور بھی لوگ تھے۔ شاید کوئی جشن ہُو ا ہو‘ کوئی ملاقات نو (reunion)کا سلسلہ رہا ہو۔ اب خدا معلوم کس باعث اب سب لوگ جا چکے ہیں اور متکلم اکیلا رہ گیا ہے۔

یہاں جارج مور George Mooreکا مشہور بند یاد آتا ہے :

I feel like one

Who treads alone،

Some banquet hall deserted

Whose lights are fled،

Whose garlands dead

And all but he departed

بے شک جارج مور کے مصرعوں اور پیکروں میں کیفیت کا وفور ہے‘ لیکن شکیب جلالی کے شعرمیں خاموش درد کئی معنی رکھتا ہے اور کفایت کے ساتھ ادا ہوا ہے۔ یہیں سے تنہائی کے پیکر کا ایک اور روپ ابھرتا ہے: یہ سارا منظر محض اِستعارہ ہے‘ متکلم کے دل اور روح کا۔ اس کی تنہائی کا کوئی شریک نہیں ‘ صرف کسی گزشتہ واردات کی یاد ہے‘ او ردل کے آتش کدے پر ٹنگی ہوئی ’’چپ چاپ سی‘ ‘ تصویر اسی واردات کی علامت ہے۔ ’’چپ چاپ سی ‘ ‘ میں یہ نکتہ پوشیدہ ہے کہ وہ تصویر کچھ کچھ کہتی ہوئی بھی معلوم ہوتی ہے :

بس چلے تو اپنی عریانی کو اس سے ڈھانپ لوں

نیلی چادر سی تنی ہے جو کھلے میدان پر

کھلے میدان پر تنی ہوئی نیلی چادر آسمان کا استعارہ بھی ہو سکتی ہے لیکن ممکن ہے کہ یہ محض پیکر ہو۔ صبح یا شام کی ہلکی روشنی میں میدان پر شبنمی دھند ہے اور کہیں کہیں مکڑی کے باریک تاروں کا جال ہے جس پر شام یا صبح کی اوس کی بوندیں ہیں اور روشنی ان بوندوں سے منعکس ہوکر ہلکے نیلے رنگ کا التباس پیدا کررہی ہے۔ اب اپنی عریانی کا پیکر بھی استعاراتی جہت اختیار کر لیتاہے۔ یعنی یہ عریانی متکلم کے بے سہارا اور تنہا ہونے کا استعارہ ہے‘ اور زمین پر پھیلی ہوئی نیلی روشنی کی چادرسے اپنی عریانی کو ڈھانپنے کی تمنا موت کی آرزو کا استعارہ ہے۔ یا پھر یہ عریانی متکلم کے ذہنی اور جذباتی طور پر مجروح ہونے کا استعارہ ہو سکتی ہے ‘ جیسے بہت حساس شخص کے بارے میں انگریزی میں کہتے ہیں کہ اس کی جلد بہت باریک ہے۔ لہٰذا تن کی عریانی درحقیت روح کے غیر محفوظ اور دل کے مجروح ہونے کا اشار ہ ہے۔

تن کی عریانی میں سیاہ رنگ کا اشارہ بھی ہے‘ یعنی تنِعریاں کا پیکر اگر معشوق کے لیے ہے تو کچھ اورمعنی رکھتا ہے اور اگر متکلم یا عاشق کے لیے ہے تو کچھ اور معنی رکھتا ہے۔ جسم جل کر کوئلہ ہو گیا ہے‘ یا جسم اصلاً سیاہ رنگ ہی کا ہے‘ جیسا کہ ہم مشرقیوں کا اکثر ہو تا ہے۔ اب آسمان کا نیلا رنگ ‘ زمیں پر نیلی روشنی جو شاہانہ اعتماد و اطمینان اور قلبی سکون کا استعارہ ہیں ‘ سیاہ جسم والے متکلم کو اپنے رنگ میں رنگتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن رنگوں کے اس کھیل میں روشنی(سفیدی) اور عریاں تنی(سیاہی)‘ شب‘ خواب‘ نیند (سیاہی اور نیلا پن) ‘ کھلا میدان (سبزی اور سیاہی) ‘ چاندنی (پھول بھی اور چاند کی روشنی بھی) کی کرامات نہیں دکھائی دیتیں۔ ان کے لیے تو میر کا دروازہ دیکھنا پڑے گا۔ میر‘ دیوان اول :

شب خواب کا لباس ہے عریاں تنی میں یہ

جب سوئیے تو چادر مہتاب تانیے

یہ ملنگ پن ‘ یہ درویشی طنطنہ‘ یہ انداز بے پروا خرام‘ یہ اپنے اوپر ہنس لینے کی صلاحیت‘ یہی جہتیں شکیب جلالی کی شاعری میں نہیں ہیں۔ ممکن ہے عمر کے ساتھ انھیں یہ چیز بھی حاصل ہوجاتی۔ پچیس تیس برس کے نوجوان سے آپ کتنا اور کس کس چیز کا تقاضا کر سکتے ہیں :

وہ خموشی انگلیاں چٹخا رہی تھی اے شکیبؔ

یا کہ بوندیں بج رہی تھیں رات روشن دان پر

آوازکے پیکر کو خاموشی کے تصور کی شکل میں فرض کرنا غیر معمولی بات تو ہے ہی‘ لیکن یہاں بھی دوسرے مصرعے میں لفظ ’یا‘ بدیعیاتی کیفیت رکھتا ہے‘ یعنی روسی ہیئت پسندوں کی زبان میں بدیعہ (Device)ہے۔ یہ لفظ سارے منظر نامے کو یقینی یامشاہداتی سطح سے ہٹا کر ظنی یا واہماتی سطح پر لے جاتا ہے۔ خاموشی ہی متکلم کی اصل مونس ہے‘ حتیٰ کہ وہ اسے صاحب جسم و جان فرض کرنے لگتا ہے۔ اسے جب رات کی تنہائی میں اچانک بوندوں کی پٹ پٹ سنائی دیتی ہے تو وہ گمان کرتا ہے کہ گھر کے سناٹے سے اکتا کر خاموشی انگلیاں چٹکا رہی ہے۔ لیکن لفظ ’یا‘ کی وجہ سے واہمے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے‘ کہ ایسا تھا بھی یا شاید نہیں بھی تھا۔ یا شاید نہیں ہی تھا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ناصر کاظمی نے یہ پیکر پہلے حاصل کیا کہ شکیب جلالی نے ‘ لیکن ناصر کاظمی کا شعر یاد کرلینا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا :

خموشی انگلیاں چٹخا رہی ہے

تری آواز اب تک آرہی ہے

یہ شعر’برگ نے‘ میں ہے (اشاعت‘ ۱۹۵۴ ) اور شکیبؔ جالی کے مختصر مجموعے کے بھی ربع اوّل میں ہے۔ لہٰذا اغلب ہے کہ دونوں نے آگے پیچھے اپنے شعر کہے ہوں۔ لیکن شکیب جلالی کے تخیل کا کمال یہ ہے انہوں نے آواز (شیشے پر بارش کی بوندوں کی ہلکی ٹپ ٹپ) کو خاموشی کا تفاعل بنا دیا ہے۔ علاوہ بریں ‘ بوندوں کے بجنے کا پیکر (بوندیں بج رہی تھیں ) محض آواز آنے کے پیکر (تری آواز اب تک آرہی ہے) سے بہت زیادہ قوی ہے اور پھر انگلیوں کی چٹ چٹ اور معشوق کی آواز میں کچھ ایسی مناسبت بھی نہیں۔

شکیب جلالی کے یہاں غم یا درد مندی کا آہنگ صرف ظاہری حالات یا ذاتی محرومیوں کی بنا پر نہیں ‘ لیکن ان کا شاعرانہ کمال یہ ہے کہ وہ تمام ناکامیوں کو اپنے ذاتی تجربے کے روپ میں دیکھنے پر قادر ہیں۔ ان کے یہاں غم جاناں اور غم دوراں کی تفریق بے معنی ہے۔ اور نہ ہی اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم ا ن کے شعروں میں سیاسی معنی‘ یا معنی نہیں تو کم سے کم سیاسی اشارے ہی ڈھونڈیں۔ کبھی کبھی وہ ٹی۔ ایس۔ الیٹ کے بڈھے کی بات اپنی زبان میں کہتے نظر آتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے جان لیا ہے اس کے بعد نہ معافی ہے نہ بخشایش۔ نہ خوف ہی ہمارے لیے راہ نجات ہے اور جیالا پن ہمیں بچا سکتاہے۔ ہم جان پر کھیل جاتے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں غیر فطری رذائل پیدا ہوتے ہیں۔ ہمارے گستاخ جرائم کو حسنات کہہ کر ہم پر ٹھونسا جاتاہے :

Think

Neither fear nor courage saves us۔

Unnatural vices

Are fathered by our heroism۔ Virtues

Are forced upon us by our impudent crimes۔

(T۔ S۔ Eliot: Gerontion)

ان دل ہلادینے والے مصرعوں کے سامنے شکیب جلالی کی آواز کسی بچے کی سسکی معلوم ہوتی ہے‘ لیکن درد مندی دونوں کے یہاں ایک ہی طرح کی ہے۔ دونوں ہی کائناتی مصائب کو ذاتی مصائب کی زبان میں لکھ رہے ہیں۔ یہ شعر ملاحظہ ہوں۔ مختلف غزلوں کے ہیں لیکن ان کے سروکار‘ ان کی الجھنیں اور خوف‘ سب متحد ہیں :

وہ گل نہ رہے‘ نکہتِ گل خاک ملے گی

یہ سوچ کے گلشن میں صَبا تک نہیں آتی

شاید ہی کوئی آسکے اس موڑ کے آگے

اس موڑ کے آگے تو قضا تک نہیں آتی

یہ جان لینا وہاں بھی کوئی کسی کی آمد کا منتظر تھا

کسی مکاں کے جو بام و در پر بجھے دیوں کی قطار دیکھو

اور بھی کچھ بھڑکنے لگا میرے سینے کا آتش کدہ

راس تجھ بن نہ آیا کبھی سبز پیڑوں کا سایہ مجھے

کس دشت کی صدا ہو‘ اتنا مجھے بتا دو

ہر سو بچھے ہیں رستے آؤں تو میں کدھر سے

ان اشعار کو غزل کے محض عشقیہ اشعار کہنا ان کی قیمت کم کرنا ہے۔ ہر شعر میں نارسائی اور ناکامی کا المیہ کائناتی قوت بن کر روشن ہوا ہے۔ شکیب جلالی کے یہاں کیفیت بہت ہے‘ یعنی ان کے شعر دل پر فوراً اثر کرتے ہیں۔ بات سمجھ میں آئے نہ آئے لیکن اچھی لگتی ہے۔ اس صفت نے (مثلاً) فیض جیسے شاعر کو فائدہ پہنچایا کہ سامع/قاری شعر کے سحر میں کھو جاتا ہے اور مضامین کی تکرار‘ یا معنی کی کمی اُسے کسی خلجان میں نہیں ڈالتی۔ شکیب جلالی کا معاملہ دوسرا ہے۔ ان کے شعر میں کیفیت اپنا کام اس قدر بھر پور کرتی ہے کہ معنی کی طرف توجہ نہیں جاتی۔ غزل کے شعر پر غور کرنے کا رواج ہمارے یہاں عام نہیں ‘ لہٰذا ہم شکیب جلالی کے معنی کو سمجھنے پر زیادہ زور نہیں دیتے اور کیفیت پر واہ واہ کر لیتے ہیں۔ ورنہ مندرجہ بالا اشعار کی تشریح میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ شکیبؔ کے معنی کو پورا پورا سمجھنے کے لیے پچھلے زمانے‘ بلکہ پچھلے زمانوں کی شاعری سے بھی تھوڑی بہت واقفیت ضروری ہے‘ کیوں کہ ان کے شعر اکثر دوسرے شعروں کی طرف راہ سجھاتے ہیں۔ مثال کے طور پر شکیب جلالی کا بظاہر بالکل سامنے کا شعر ہے :

جو داستاں نہ بنے دَر د ‘ بے کراں ہے وہی

جو آنکھ ہی میں رہے وہ نمی سمندر ہے

اب اس کے سامنے محمد دین تاثیر کا یہ شعر رکھیے :

متاعِ درد وہ آنسو جو دل میں ڈوب گئے

زمیں کا رزق جو آنسو نکل ہی آتے ہیں

تو معنی کی نئی جہت نظر آتی ہے۔ لیکن خاموش جلنا ‘ سب کچھ دیکھنا اور کچھ ظاہر نہ کرنا‘ اس مضمون کی رنگینی کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ہمیں اور بھی شعر یاد آئیں تو بہتر ہے۔ آئینہ بازار میں لٹکا ہوا ہے‘ گویا سولی پر ہے‘ کیوں کہ اس نے جمالِ محبوب کو دیکھا اور اسے ظاہر کر دیا‘ اپنے اندر ضبط نہ کر سکا۔ سحابی استر آبادی کی رباعی ہے :

دیروز بہ بازار شدم بشگفتم

آئینہ آویختہ دیدم گفتم

آخر چہ گناہ داری اے آئینہ

گفتا کہ جمال دیدم و ننہفتم

لیکن دیکھنا اور ضبط کرنا‘ جلنا اور چھپ کر‘ چھپا چھپا کر جلنا‘ صرف تمکین و ضبط کی بات نہیں۔ اس میں لطف بھی ہے اور یہ آداب حیات میں بھی ہے۔ شکیبؔی صفاہانی کہتے ہیں کہ شمع کے آگے جل کر خاک ہونے والے پروانے کو غائبانہ سوختن کا لطف ہی نہیں معلوم ہو سکا :

پروانہ نیک رفت کی در پیش شمع سوخت

آگہ نہ شد کہ سوختن غائبانہ چیست

غالب کو غم تھا کہ میں ایسے گلشن کا عَندلیب ہوں جو نا آفریدہ ہے۔ اور شاید ہمیشہ ناآفریدہ ہی رہے گا۔ یہ اظہار کی نارسائی ‘ یا شاعر کی بصیرت دوسروں پر منکشف ہوسکنے کی انتہائی اور ابتدائی منزل ہے۔ بیچ کا افسانہ سننا ہو تو شکیب جلالی سے سنیے :

ہوا کے دشت میں تنہائی کا گزر ہی نہیں

مرے رفیق ہیں مطرب گئے زمانوں کے

شکیب جلالی نے ہمارے زمانے کا درد اور کائنات کی وسعت میں ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے جدید انسان کے المیے کو اپنے ہی رنگ اور اپنی ہی زبان میں بیان کیا ہے۔ ان کی آواز کا منظم حسن انھیں کے ساتھ ختم ہو گیا۔

داستان عہد گل را از نظیری می شنو

عندلیب آشفتہ ترگفت است ایں افسانہ را

شکیب جلالی

غزل گو شکیب جلالی از پروفیسر اسلوب احمد انصاری

وہ راگ خاموش ہو چکا ہے ‘ سنانے والا بھی سو چکا ہے

لرز رہے ہیں مگر ابھی تک شکستہ بربط کے تار دیکھو

شکیب جلالی اردو شاعری کے افق پر شہاب ثاقب کی طرح نمودار ہوئے ‘ اور پھر دیکھتے دیکھتے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ دور جدید میں ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں غزل کے سرمایے میں جن شاعروں نے اضافہ کیا ‘ یعنی اس کے رنگ و آہنگ و کیف و کم میں معتد بہ تبدیلی پیدا کی ‘ ان میں شکیب جلالی اہم حیثیت کے مالک ہیں۔ ان کی غزلیں جو تعداد میں بہت زیادہ نہیں ہیں ‘ ان کی گھائل شخصیت کا بے حجاب عکس ہیں۔ غزل کی شاعری بیش از بیش داخلیت کے ترنم کی شاعری ہے۔ یعنی فکر سے زیادہ جذبے کی شاعری۔ اس جذبے کو جس طرح نکھار کر اور اس کے متضاد اور متنوع پہلوؤں کو جس طرح کھنگال کر شکیب جلالی نے پیش کیا ہے‘ کم شعرا نے کیا ہو گا۔ وہ اس کائنات میں ایک بھٹکی ہوئی‘ درماندہ اور اپنے آپ سے متصادم روح کی طرح اپنی غزلوں میں ہمارے رو برو آتے ہیں۔ ان کا تعلق انسانی معاشرے سے اتنا گہرا نہیں ہے ‘ جتنا فطری کائنات سے ہے‘ جس کی ہرہر لرزش اور ہر ہر آہٹ انھیں چونکا دیتی ہے۔ تنہائی کا آسیب انھیں ہر طرف سے گھیرے رہتا ہے۔ شکیبؔ کے ہاں ترصیع یعنی ARTIFICE کا مظاہرہ نہیں ہے۔ اپنے خیالات کا اظہار کم سے کم شعوری کوشش کے ساتھ ان کا مطمع نظر معلوم ہوتا ہے۔ شکیبؔ اپنے محاکات گرد و پیش کی دنیا سے اخذ کرتے ہیں ‘ جس سے ان کا تعلق گہرا اور قریبی نظر آتا ہے۔ کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنے غم خانہِ دل سے نظریں ہٹا کر وہ اس وسیع فطری کائنات کی روشنی اور تیرگی‘ اس کے شمس و قمر ‘ اس کی ادلتی بدلتی فضاؤں میں سانس لے کر ہی وہ اپنی عافیت کے جویا ہیں۔ انسان اور فطری کائنات کے مابین ہم آہنگی کا احساس مختلف طریقوں اور زاویوں سے ہوتا رہتا ہے۔ یہ صرف محاکات کی تخلیق تک محدود نہیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ فطری کائنات کے بے داغ حُسن اورمتلون اظہارات کا عکس بھی ان کے ہاں ملتا ہے‘ اور اس کی تنزیہی قوت کی طرف بھی ہماری توجہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اجمال کے طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شاعر کو اپنی تنہائیوں کے زنداں خانے میں ایک مانوس آواز سننے کی خواہش رہ رہ کر محسوس ہوتی رہتی ہے کہ اس کے در و دیوار اسے ایک ناقابل برداشت بوجھ لگتے ہیں۔ کیا اس در و دیوار کے پس پشت بھی کچھ ہے‘ جس کی طرف وہ آس لگائے بیٹھا ہے؟اگر انسان کی آواز اس کی مونس و غم خوارنہیں ہے‘ تو کیا پوری فطری کائنات کی آوازیں گونگی ہو گئی ہیں ؟ اس کا دل چاہتا ہے کہ کم از کم ان سایوں کو پکڑنے اور اپنی گرفت میں لانے کی کوشش کرے‘ جو اس بے حس اور غیر ہمدردانہ معاشرے میں ہمہ وقت اس کا پیچھا کرتی رہتی ہیں :

ستارے سسکیاں بھرتے تھے‘ اوس روتی تھی

فسانہِ جگرِ لخت لخت ایسا تھا

میں لَوٹ آیا ہوں خاموشیوں کے صحرا سے

وہاں بھی تیری صدا کا غبار پھیلا تھا

وہ اس کا عکسِ بدن تھا کہ چاندنی کا کنول

وہ نیلی جھیل تھی یا آسماں کا ٹکڑا تھا

خزاں کے چاند نے پوچھا یہ جھک کے کھڑکی میں

کبھی چراغ بھی جلتا ہے اس حویلی میں

شکیبؔ کو اس بات کا احساس ہے کہ اشیاء کے بارے میں اس کی فہم اور درّاکی اتنی دور رس ہے کہ وہاں تک پہنچنا اور اس کی ہمنوائی کرنا آسان کام نہیں۔

چلو گے ساتھ مرے آگہی کی سرحد تک

یہ رہ گزار اترتی ہے گہرے پانی میں

اور یہ شعور اور آگہی دور رس ہی نہیں ‘ بلکہ اس کا اپنا تشخص اور اس کے طبعی التزامات وقت کی پابندیوں سے ماوراء ہیں :

فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں

حدودِ وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

بہ الفاظِ دیگر وقت و مقام کی حد بندیاں احساسات اور جذبات کی وسعتوں کو قید نہیں کر سکتیں۔ دو شعر جن میں سے پہلا ذہن کو ایک طرح کی زیر زمین مایوسی اور اضمحلال کے احساس سے بھر دیتا ہے‘ اور دوسرا جس میں تنہائی کی خاموشی کو ایک زبان دے دی گئی ہے‘ اس طرح ہیں :

کمرے خالی ہو گئے سایوں سے آنگن بھر گیا

ڈوبتے سورج کی کرنیں جب پڑیں دالان پر

وہ خموشی انگلیاں چٹخا رہی تھی اے شکیبؔ

یا کہ بوندیں بج رہی تھیں رات روشن دان پر

دوسرے شعر میں استعارے کا استعمال نہ صرف خموشی کی تجسیم کر دیتا ہے ‘ بلکہ محیط خاموشی کے احساس کو شعور پر مرتسم بھی کر دیتا ہے۔ ایک شعر میں خارجی اور داخلی حقیقت کو اس طرح پہلو بہ پہلو رکھا گیا ہے :

تارا کوئی ردائے شبِ ابر میں نہ تھا

بیٹھا تھا میں اداس بیابانِ یاس میں

دو اور اشعار میں دو مختلف النوع حقیقتوں کو اس طرح بالمقابل رکھ دیا گیا ہے:

سایہ نہیں تھا نیند کا آنکھوں میں دور تک

بکھرے تھے روشنی کے نگیں آسماں پر

اس کے پردوں پہ منقش تری آواز بھی ہے

خانہِ دل میں فقط تیرا سراپا ہی نہیں

یہاں دونوں شعروں میں بصری اور سماعی پیکروں کو بڑی ہنر مندی سے یکجا کیا گیا ہے

تنہائی کا وہ احساس جس کا سرسری ذکر اوپر گزرا ‘ ایک غزل کے دو اشعار میں اس طرح معرض اظہار میں لایا گیا ہے:

جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے

مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے

یہ ایک ابرکا ٹکڑا کہاں کہاں برسے

تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے

ان دونوں اشعار میں سادگی کے ساتھ پرکاری اور رمزیت آمیز کر دی گئی ہے۔ ایک پوری غزل میں جو اس شعر سے شروع ہوتی ہے:

پھر سن رہا ہوں گزرے زمانے کی چاپ کو

بھولا ہوا تھا دیر سے میں اپنے آپ کو

حافظے میں مجتمع یادوں کو تازہ کرنے کا عمل صاف نظر آ رہا ہے۔

اشکوں کی ایک نہر تھی سو خشک ہو گئی

کیوں کرمٹاؤں دل سے ترے غم کی چھاپ کو

اور بہت سے دوسری غزلوں کی طرح یہاں بھی محیط یا PERVESIVE تنہائی کا احسا س اور اس کی وجہ سے اندوہ گینی غزل کی پوری ہئیت پر صاف طور سے نمایاں ہے۔ قابلِ ذکر امر یہ بھی ہے کہ مقطع سے پہلے کا شعر ‘ جو روایتی انداز کا ہے‘ ہماری توجہ کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے‘ اور وہ روایت بھی ہے جرأت ایسے شاعر کی‘ جس کی شاعری بالعموم جسم کی شاعری ہے‘ اور وہ شعر یہ ہے:

پہلے تو میری یاد سے آئی حیا انھیں

پھر آئینے میں چوم لیا اپنے آپ کو

ایک غیر معمولی غز ل میں جس کا مطلع ہے:

مُرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ

سورج ہوں میرا رنگ مگر دن ڈھلے بھی دیکھ

یہاں نکلتے اور ڈوبتے سورج کے درمیان امتیاز انسان کی IDEALIZED فارم اور اس کی مسخ شدہ ہیئت کے درمیان تضاد ہے۔ پوری غزل پر از اول تا آخر فنا اور پراگندگی کا گاڑھا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ انسان کی بے بضاعتی کو اس طرح روشنی میں لایا گیا ہے۔

عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر

دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ

بچھتی تھیں جس کی راہ میں پھولوں کی چادریں

اب اس کی خاک گھاس کے پیروں تلے بھی دیکھ

ان اشعار کو پڑھ کر ذہن شکسپیر کے لافانی شاہکار ڈرامے ہملیٹ کی طرف جاتا ہے ‘ جس میں انسان کی افضلیت کا ذکر بھی کیا گیا ہے ‘ اور اس کے ساتھ ہی بالآخر اس کے انجام کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے‘ جو اس کے لیے مقدر ہے‘ اور جس سے کسی بھی طرح مفر ممکن نہیں۔ اس تراشے کی پہلی اور آخری سطریں اس طرح ہیں :

WHAT A PIECE OF WORK IS A MAN

WHAT IS THIS QUINTESSENCE OF DEATH?

لیکن ان پرچھائیوں کے علی الرغم جوپوری فضا کو محیط ہیں ‘ کہیں کہیں بس ایک لمحے کے لیے روشنی کی ایک لرزیدہ کرن بھی نظر پڑ جاتی ہے‘ جو اس اندھیرے کو سراب کا درجہ دینے پر پڑھنے والے کو مجبور کرتی ہے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے‘ لیکن ہوتا ضرور ہے۔ اس اجمال کی ایک غزل کے چند اشعار میں دیکھئے:

اتریں عجب روشنیاں رات خواب میں

کیا کیا نہ عکس تیر رہے تھے سراب میں

پھر تیرگی کے خواب سے چونکا ہے راستہ

پھر روشنی سی دوڑ گئی ہے سحاب میں

کب تک رہے گا روح پہ پیراہنِ بدن

کب تک ہوا اسیر رہے گی حباب میں

گزری ہے بار بار مرے سر سے موجِ خشک

ابھرا ہوں ڈوب ڈوب کے تصویر آب میں

شکیب جلالی افتادگی اور سرافگندگی تو شاید از اول تا آخر کہیں بھی نظر نہ آئے گی۔ لیکن ایک غزل میں جس کے پہلے دو شعر یہ ہیں :

اب آپ رہِ دل جو کشادہ نہیں رکھتے

ہم بھی سفرِ جاں کا ارادہ نہیں رکھتے

پینا ہو تو اک جرعہِ زہراب بہت ہے

ہم تشنہ دہن تہمتِ بادہ نہیں رکھتے

سرتابی اور سرکہ جبینی کا دبا دبا انداز خاص طور سے قابل التفات ہے خصوصاً یہ شعر دیکھئے:

یہ گردِ رہِ شوق ہی جم جائے بدن پر

رسوا ہیں کہ ہم کوئی لبادہ نہیں رکھتے

اور مقطع میں یہ رویہ اور انداز زیادہ واضح اور ناقابل تردید بن گیا ہے:

سرخی نہیں پھولوں کی تو زخموں کی شفق ہے

دامانِ طلب ہم کبھی سادہ نہیں رکھتے

اور پھر ایک جگہ یہ بھی کہا:

کتنی گم سم مرے آنگن سے صبا گزری ہے

اک شرر بھی نہ اڑا روح کی خاکستر سے

ایک غزل میں ایک شعر میں بہ اظہار رائے کہا ہے:

بیتی یادوں کا تقاضا تو بجا ہے‘ لیکن

گردشِ شام و سحر کیسے کوئی ٹھیرا دے

لیکن یادوں کی باز آفرینی عبث نہیں ‘ نہ یہ گردشِ شام و سحر کو ٹھیرا دینے کے مترادف ہے‘ بلکہ یہ تسلسلِحیات میں یقین کی علامت ہے اور اس میں شکستگی کے احساس کے بجائے دلدہی اور زندگی کے کاروبار کو نئے سرے سے منضبط کرنے کا جواز اور موقع نکلتا ہے۔ یاد میں خواب بھی ہیں اور عزمِ سفر پر نکلنے کے لیے نئے سرے سے آمادہ بھی کرتی ہیں ‘ ایک غزل جس کا مطلع ہے :

دستکیں دیتی ہیں ‘ شب کو درِدل پر یادیں

کچھ نہیں ہے مگر اس گھر کا مقدر یادیں

یہ شعر خاص طور سے قابلِتوجہ ہے:

عشرتِ رفتہ کو آواز دیا کرتی ہیں

ہر نئے لمحے کی دہلیز پہ جا کر یادیں

اور غزل کا اتمام ہوتا ہے اس شعر پر :

مشعلِ غم نہ بجھاؤ کہ شکیبؔ اس کے بغیر

راستہ گھر کا بھلا دیتی ہیں اکثر یادیں

شکیبؔ کے ہاں غزلِ مسلسل کی ایک غزل کا مطلع ہے:

آئینہ جذباتِ نہاں ہیں تری آنکھیں

اِک کار گہِ شیشہ گراں ہیں تری آنکھیں

اس غزل پر جس کی ردیف ہے ‘ تری آنکھیں ‘ غزلِ مسلسل کا گماں اس لیے ہوتا ہے کہ اس میں ایک مفہوم یا نقش یا تاثر کے مختلف پہلوؤں کو نوع بہ نوع انداز سے سامنے لایا گیا ہے۔ تین شعر خاص طور سے اس ذیل میں جاذب نظر ہیں :

اندازِ خموشی میں ہے گفتار کا پہلو

گویا نہ سہی‘ چپ بھی کہاں ہیں تری آنکھیں

جاؤں گاکہاں توڑ کے زنجیرِ وفا کو

ہر سو مری جانب نگراں ہیں تری آنکھیں

پلکوں کے جھروکوں سے سبو جھانک رہے ہیں

امید گہٖ تشنہ لباں ہیں تری آنکھیں

سات اشعار پر مشتمل اس غزل میں جو تفصیلات سامنے رکھی گئی ہیں ‘ وہ سب مل کر ایک پوری تصویر کو نظروں کے سامنے ابھار دیتی ہیں۔ اس غزل کا تعلق بھی بالواسطہ طور پر اس غزل سے ہے ‘ جس میں ماضی کی یادوں کی تشکیلِ نو کی گئی ہے۔ یادداشتوں کوتازہ دم کرنے کا عمل ایک اور غزل میں بھی‘ جس کا مطلع ہے:

پردہِ شب کی اوٹ میں زہرہ جمال کھو گئے

دل کا کنول بجھا تو شہر تیرہ و تار ہو گئے

یہ خوبی نمایا ں ہے۔ خاص طور پر ان دو اشعار میں جن میں ماضی کے تجربات کو آوازِ باز گشت دی جا رہی ہے‘ اور ان کے تعامل کے نتیجے کو بہ ایں طور پیش کیا گیا ہے:

اک ہمیں ہی اے سحر نیند نہ آئی رات بھر

زانوئے شب پہ رکھ کے سر‘ سارے چراغ سو گئے

دیدہ ورو بتائیں کیا تم کو یقیں نہ آئے گا

چہرے تھے جن کے چاند سے ‘ سینے میں داغ بو گئے

اس پوری غزل میں تلخی کی جو کسک ہے‘ وہ بہت واضح ہے۔ اس کے اظہار کے لیے اظہارِ بیان کی چاشنی کی مطلق ضرورت نہیں۔ یہ سچے جذبے کی زبان ہے‘ جس میں تلخی کا رنگ بھرا ہوا ہے‘ جس کا برملا اظہار مقطع میں موجود ہے:

اہلِ جنوں کے دل شکیبؔ نرم تھے موم کی طرح

تیشہِ یاس جب چلا‘ تودہِ سنگ ہو گئے

ایک اور غزل کے ایک شعر میں تاثر کا براہ راست اظہار اس طرح کیا گیا ہے:

بے نغمہ و صدا ہے وہ بُت خانہِ خیال

کرتے تھے گفتگو جہاں پتھر کے ہونٹ بھی

اسی غزل میں ایک اور شعر:

یوں بھی بڑھی ہے وسعتِ ایوانِ رنگ و بو

دیوارِ گلستاں درِ زنداں سے جا ملی

ہمیں غالب کے اس شعر کی بے اختیار یاد دلاتا ہے:

کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یا رب

سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی

یہاں یہ اضافہ کیے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ غالب کے ہان اس شعر میں خیال کا جو تجمل یعنی SUBLIMITY اور اس کے اظہار میں جو فنی قدرت نمایاں ہے‘ وہ شکیبؔ کے ہاں نہیں ہے۔

ایک اور غزل جس کا مطلع ہے:

حسنِ فردا‘ غمِ امروز سے ضَو پائے گا

چاند ڈوبا ہے تو سورج بھی اُبھر آئے گا

یہ نہ صرف ایک نوع کی غزلِ مسلسل لگتی ہے بلکہ اس میں اور نظم کے بیانیہ انداز اور تسلسلِ خیال کے درمیان بس ذرا سا ہی فرق رہ گیا ہے۔ اب اس غزل کے ہر شعر کے مصرعِ ثانی پر نظر ڈالیے:

چاند ڈوبا ہے تو سورج بھی ابھر آئے گا

خاک ڈالے سے یہ شعلہ کہیں بجھ جائے گا

طائرِ دل پرِپرواز تو پھیلائے گا

آدمی عرصہِ آفاق پہ چھا جائے گا

وہ حسیں دور بھی آئے گا ‘ ضرور آئے گا

یہاں پیکر نگاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں امید آفرینی کے سامنے یاسیت اور قنوطیت سرنگوں ہو گئی ہیں۔ آدمی عرصہِ آفاق پر چھا جائے گا‘ اور‘ وہ حسیں دور بھی آئے گا‘ ضرور آئے گا‘ جیسے مصرعے مستقبل سے وابستہ امید آفرینی اور بہجت انگیزی کی ایک جھلک دکھا رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ غزل کا شاعر نظم کے شاعرکے پہلو بہ پہلو بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں نئے سحر و شام کا استقبال کرنے کے لیے آمادہ اور مستعد ہے‘ لیکن یہ لمحات ایک عارضی وقفے کی یاددہانی کراتے ہیں کہ شکیبؔ بہر حال اپنے محیط موڈ کے تابع معلوم ہوتے ہیں۔ اور وہ موڈ عبارت ہے اپنے اندرون میں غوطہ زنی کرنے اور اپنے زخموں کی راکھ کریدنے سے۔ ان کے ارد گرد درو دیوار بھی احاطہ کیے ہوئے ہیں ‘ اور فضا میں الجھے ہوئے دھوئیں کا عکس بھی انھیں صاف صاف نظر آ رہا ہے۔ وہ بہار سے زیادہ خزاں کے مزاج سے اپنے آپ کو ہم آہنگ پاتے ہیں۔ ان کے لیے زندگی میں فرحت و انبساط اور سکون و قرار تقریباً ناپید ہیں ‘ کہ ہر شے پر خزاں کی افسردگی کا اضمحلال کا رنگ بھرا ہوا ہے اور شعلہ امید کی لَو کی تلاش میں باہر نکلنا ایک ضعیف اور غیر واضح سا خیال ہے۔

ایک غزل کے چار اشعار سے بھی یہی تاثر ابھر کر سامنے آتا ہے:

کچھ دن اگر یہی رہا دیوار و در کا رنگ

دیوار و در پہ دیکھنا خونِ جگر کا رنگ

بھولا نہیں ہوں مقتلِ امید کا سماں

تحلیل ہو رہا تھا شفق میں سحر کا رنگ

الجھے ہوئے دھوئیں کی فضا میں ہے اک لکیر

کیا پوچھتے ہو شمعِ سر رہگذر کا رنگ

دامانِ فصلِ گل پہ خزاں کی لگی ہے چھاپ

ذوقِ نظر پہ بار ہے برگ و ثمر کا رنگ

جیسی مہذب اور کڑھی ہوئی بُنت ان اشعار کی ہے‘ وہ شکیبؔ کی شعرانہ ہنر مندی پر دال ہے۔ وہ رہ رہ کر اپنے مخمصے سے دو چار ہوتے ہیں ‘ اوریہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی داخلی ‘ اندرونی کیفیت اور فضا کے رنگ و آہنگ کے درمیان ایک طرح کی مطابقت پائی جاتی ہے۔ اندیشوں اور وسوسوں میں گھری یہ زندگی کسی کشادگی یا ترخیص کی طرف اشارہ کرتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ ان کی شعری دنیا میں مکالمے یا گفتگو کے لین دین کے لیے بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ ایک طرفہ گفتگو ہے اور اس کا مورد و مخرج خو دشاعر ہی کی ذات ہے۔ شکیبؔ کے کسی بھی نقاد اور اور سوانح نگار نے ان کی دل گرفتگی کے اسباب پر روشنی ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ اسباب غالباً سیاسی اور سماجی مسائل سے دست و گریباں ہونے کے پیدا کردہ نہیں ہیں۔ ان میں زیادہ تر شائبہ ذاتی محرومیوں اور حق تلفیوں کے احساس کا ہو سکتا ہے۔ ان کے ہاں ذاتی جذبات اور رد عمل کا دباؤ شروع سے آخر تک محسوس ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو یکہ و تنہا محسوس کرتے ہیں۔ ان کی کائنات میں پھیلنے اور نمو پانے کے امکانات بہت ہی کم نظر آتے ہیں ‘ سکڑنے اور سمٹنے کے نسبتاً زیادہ۔ ان کی شعرانہ اپچ آئندہ کیا نہج اختیار کرتی ‘ یہ قیاس آرائی نہایت دشوار ہے۔ تخیل کی فراوانی اور تخلیقی قوت کی دور رسی اور تازہ کاری بہرحال ایک بڑا اثاثہ ہے کہ اس کے ذریعے‘ بقول برطانوی رومانوی شاعر کیٹس‘ زندگی کے ناگوار اور بدخط کرنے والے حالات و حوادث یعنی DISAGREEABLES کو گوارا بنایا جا سکتا ہے۔ شکیب جلالی کے بارے میں آپ یہ کہنے میں حق بجانب نہیں ہو سکتے کہ انہوں نے محض اپنی زندگی کی تلخیوں پر اپنی شعری کائنات کی بنیاد رکھی ہے۔ انسان جس معاشرے میں زندگی گزارتا ہے ‘ اس سے تو یقینا بڑی حد تک وہ اثر پذیر ہوتا ہے لیکن برہنہ گوئی‘ چیخ پکار‘ براہ راست طرزِ تخاطب اور شعری شیوہِ گفتار میں بہرحال بہت بڑا فرق ہے۔ سینہ کوبی کسی بیان کو شعری رتبہ عطا نہیں کر سکتی۔ پھر یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ جذبات اور احساسات کی پیش کش میں کچا پن اور اکہرا پن ہے یا پختگی اور ثمر رسیدگی‘ کہ موخرالذکر ہی کے وسیلے سے زندگی اور تجربے کا خام مواد ایک جمالیاتی ہیٔت میں ڈھل سکتا ہے۔

شکیب جلالی کا شعری سرمایہ بہت مختصر ہے۔ لیکن ان مٹھی بھر غزلوں کے متن پر انفرادیت کا نقش مرتسم ہے‘ لب و لہجے کا ایک نیا قرینہ اور انداز۔ غزل کی روایت میں محبوب کا سراپا پیش کیا جانا بھی ایک ہنر سمجھا جاتا تھا۔ اب نظریں خارجی ہیٔت سے ہٹ کر اندرون پر گاڑی جانے لگی ہیں۔ اور عاشق اور محبوب ایک دوسرے سے الگ رہنے کی بجائے یا تو ایک دوسرے سے متصادم نظر آتے ہیں یا ایک دوسرے میں مدغم۔ کیوں کہ شخصیت اور انفرادیت کا تصور اب یکسر بدل گیا ہے۔ روایتی غزل میں ان کا منصب اور اہمیت علاحدہ علاحدہ تھی اور وہ کبھی بھی ایک دوسرے سے آنکھ ملا کر نہیں دیکھ سکتے تھے۔ شکیب جلالی کی غزلوں میں ہمیں ایسی شوخ و شنگ تصویریں نہیں ملتیں جن کی خیرگی نظروں میں چکا چوند پیدا کرے۔ بلکہ یہاں ایک درماندگی کی سی کیفیت ہے۔ اپنے اندرون میں جھانکنے اور اپنے آپ کو ٹٹولنے کی مسلسل ریاضت اور جدوجہد۔ شکیبؔ نہ ہمیں اپنے تجربات اور یادوں میں شریک ہونے اور ان کا محاسبہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور نہ کسی کی ہمدردی حاصل کرنے کا انھیں کوئی شوق۔ وہ بس مختلف سیاق و سباق میں اپنے تجربات کی نقش گری کر کے رخصت ہو جاتے ہیں۔ انھیں کسی کی EMPATHY درکار نہیں ‘ نہ وہ اس کے آرزو مند ہیں ‘ اور نہ اس کی عدم فراہمی اور عدم دستیابی کے

شکوہ سنج۔ یہ کہنا بھی صحیح نہ ہو گا کہ انہوں نے کوئی نگار خانہ سجایا یا ترتیب دیا ہے یہ غزلیں تو ایک اداس راگنی کے مختلف اجزا اور عناصر ہیں۔ ان میں ایسی باہمی وحدت اور یک رنگی ہے جو انھیں ملا کر دیکھنے سے ایک جمالیاتی تجربہ معلوم ہوتی ہے۔ کاش ان کی عمر وفا کرتی اور ان کے بربط سے اور بھی دلکش اور دلنواز نغمے نکلتے رہتے۔ 1/1/2004

شکیب جلالی

شکیب جلالی کی غزل از ڈاکٹر فرمان فتح پوری

غزل اُر د و کی مقبول تر ین اور قد یم تر ین صنف سخن ہے ،بعض قد یم اصناف مثل قصید ہِ ‘ و اسو خت اور داستانوی مثنو ی وغیر ہ نے دم تو ڑ دیا ہے اب ان کا چلن نہیں رہا لیکن غزل ،نئے مو ضو عا ت اور نئے اسالیب کے ساتھ ہنو ز تا بند ہ و پا ئند ہ ہے ہر چند کہ اُر دو شاعر ی کی تا ریخ میں دو پٹھا ن شا عروں ، عظمت اللہ خاں اور شبیر حسن خاں ’جوش ملیح آبا دی ‘ نے مو لا نا حالی کے اشارے پر غز ل کو گر دن ز دنی قر ا ر دیا تھا لیکن غزل اُن کی ضر ب سے محفو ظ رہی ، ۱۹۰۳ اور ۱۹۰۵ کے در میان تر قی پسند مصنفین سے منسلک بعض شعراء نے بہترین نظمیں کہیں ،یہ نظمیں مقبول ہو ئیں اور ان کی گھن گر ج اور مقبو لیت نے ایسا سماں با ند ھا کہ بعض نے غزل کی طر ف سے ما یو سی اور بے اطمینانی کا اظہار کر نا شر وع کر دیا مگر جگرمر اد آبا دی ، فر ا ق گور کھ پو ری، حسرت مو ہا نی ،مجر و ح سلطا ن پو ر ی اور شکیب جلالی نے اردو کو ایسا سہار ا دیا کہ جد ید نظم کا سیلا ب بھی غز ل کی مقبو لیت کو مجر وح نہ کر سکا ،خصو صا ً شکیب جلالی نے اُر دو غز ل کو ایسانیا رنگ و آہنگ فر اہم کر دیا کہ وہ عا م و خاص سب کی تو جہ کا مر کز بن گئی اور آج تک یہ سلسلہ قا ئم ہے۔

غز ل کے بار ے میں کہا جا تا ہے کہ وہ بہت کٹر صنف سخن ہے آسانی سے قا بو میں نہیں آتی ،بڑی چنچل و نا زک مز اج ہے ،حد در جہ سا دہ وپُر کار ہے ، بظا ہر بیخو د لیکن بہ با طن ہو شیا ر ہے ،بڑی حیا کوش و نفا ست پسند اور پُراسرار ہے ،بے محا بہ نہیں رفتہ رفتہ کھلتی ہے۔ گفتا ر نر م ،رفتار سبک ،مز اج متلو ن ، درون خا نہ کے ہنگا موں کا شکا ر ،خا رجی حقا ئق کی راز دار ،لیکن طرز اظہار میں حد درجہ آز اد محتا ط،خیا لا ت و افکا ر کتنے ہی جد ید و دقیق یا لطیف و نا ز ک کیو ں نہ ہوں ،وہ اپنے مخصو ص علا متی اور اجمالی اند از کے سو ا کسی اور اند از سے سامنے آنا پسند نہیں کر تی۔ زبان و بیان کے روایتی رشتوں کو ہا تھ سے نہیں چھوڑتی۔ بات فکر کی ہو یا جذبے کی ،جد ت کی ہو یا بغا وت کی ،غمِعشق کی ہو یا غمِ روزگار کی ،آرائش خم کا کل کی ہو یا اندیشہ ہا ئے دوردراز کی ،غزل اپنے قدم روایتی اور علا متی رشتوں کے سہارے ہی آگے بڑھا تی ہے۔

جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے غزل ہماری شا عری کا نہا یت قیمتی سر ما یہ ہے۔ اس کی بد ولت ار دو شا عر ی میں ابد ی عظمت و وقعت کے آثار پید ا ہوئے ہیں اور اسی کی بد ولت وہ اس کے اہل ہوئی کہ دوسری زبانوں کے شعر ادب سے آنکھ ملا سکے۔ جو چیز غز ل میں اسا سی حیثیت رکھتی ہے اور جس کے بغیر غزل ‘ غزل نہیں رہ سکتی وہ اس کا رومانی رکھ رکھاؤ اور اس کے لب و لہجہ کی ایمائیت و رمزیت ہے۔ اس ایمائیت و رمزیت کو جس سلیقے سے شکیب جلالی نے برتا ہے وہ حیرت انگیز ہے اور یہ سلیقہ ان کے ہم عصروں کو کم ہی میسر آیا ہے۔

تفصیلی بحث کی اس جگہ گنجائش نہیں صرف چند منتخب اشعار دیکھیے :

یہ اور بات کہ وہ لب تھے پھول سے نازک

کوئی نہ سہہ سکے، لہجہ کرخت ایسا تھا

مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں

جس طرح سایہء دیوار پہ دیوار گرے

جو دل کا زہر تھا کاغذ پہ سب بکھیر دیا

پھر اپنے آپ طبیعت مری سنبھلنے لگی

جہاں شجر پہ لگا تھا تبر کا زخم شکیبؔ

وہیں پہ دیکھ لے، کونپل نئی نکلنے لگی

نہ اتنی تیز چلے، سر پھری ہوا سے کہو

شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے

یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے

تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے

کھلی ہے دل میں کسی کے بدن کی دھوپ شکیبؔ

ہر ایک پھول سنہرا دکھائی دیتا ہے

پہلے تو میری یاد سے آئی حیا اُنھیں

پھر آئینے میں چوم لیا اپنے آپ کو

خموشی بول اٹھے، ہرنظر پیغام ہو جائے

یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے

شکیبؔ اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے

ہم اُس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

اِک یاد ہے کہ دامن دل چھوڑتی نہیں

اک بیل ہے کہ لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ

کیا جانیے کہ اتنی اُداسی تھی رات کیوں

مہتاب اپنی قبر کا پتھر لگا مجھے

میں نے اسے شریک سفر کر لیا شکیبؔ

اپنی طرح سے چاند جو بے گھر لگا مجھے

تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں

آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ

چوما ہے میرا نام لب سرخ نے شکیبؔ

یا پھول رکھ دیا ہے کسی نے کتاب میں

خوددار ہوں کیوں آؤں درِ اہل کرم پر

کھیتی کبھی خود چل کے گھٹا تک نہیں آتی

موج صبا رواں ہوئی، رقص جنوں بھی چاہیے

خیمہِ گل کے پاس ہی دجلہِ خوں بھی چاہیے

کشمکش حیات ہے، سادہ دلوں کی بات ہے

خواہش مرگ بھی نہیں ، زہر سکوں بھی چاہیے

ضرب خیال سے کہاں ٹوٹ سکیں گی بیڑیاں

فکر چمن کے ہم رکاب جوش جنوں بھی چاہیے

پردئہ شب کی اوٹ میں زہر جمال کھو گئے

دل کا کنول بجھا تو شہر، تیرہ و تار ہو گئے

دل سا انمول رتن کون خریدے گا شکیبؔ

جب بکے گا تو یہ بے دام ہی بک جائے گا

اُن اشعار سے اندازہ ہوا ہو گا کہ شکیب جلالی کی غز ل ، کن رموز و خصوصیات کی حامل ہے اور وہ باذوق قارئین کے ذہنوں میں اُترکر کس طرح ان کے دلوں میں اپنی جگہ بنا لیتی ہے ان اشعار کی معنوی تہ داری اور گہرائی اس امر کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ شاعری قافیہ پیمائی نہیں معنی آفرینی ہے۔ کوزہ گری نہیں ، کوزے میں سمندر کو بند کرنا ہے۔ غالب کے لفظوں میں حمزہ کا قصہ نہیں ، قطرئہ دجلہ نما ہے۔ دشنہ و خنجر اور بادہ و ساغر کی شعبدہ گری نہیں ، مشاہدئہ حق کی گفتگو ہے۔ لڑکوں کا کھیل نہیں ہے ، جزو میں کل کی نمائش ہے۔ حسن و عشق کا افسانہ نہیں ،حقائق کا انکشاف ہے۔ ایسا انکشاف جو خود کو موثر و دلکش اور فکر انگیز اور حیرت انگیز بنانے کے لیے بعض روایتی رشتوں اور بعض مخصوص رموز و علائم کا سہارا لیتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ شکیب جلالی جیسا خلاق اور ہنر مند شاعر ہو۔

شکیب جلالی نے بہت کم عمر پائی عین شباب میں انتقال کیا لیکن اردو کو‘ غزل کو انہوں نے جو کچھ دے دیا وہ اردو ادب خصوصاً غزل کی تاریخ میں ان کانام زندہ رکھنے کے لیے بہت کافی ہے ، یقینا انہوں نے بہت اچھی نظمیں بھی کہی ہیں لیکن ان کی نظموں کا اندرونی آہنگ بھی بالکل غزل جیسا ہے اس لئے وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر کہے جائیں گے اور ان کا تغزل ہی کے وصف سے متصف کہلائے گا۔

اوپر شکیب جلالی کی جو غزلوں کے حوالے دیے گئے ہیں اور جن کی روشنی میں ان کی متغزلانہ حیثیت متعین کی گئی ہے وہ سب کے سب اُن کے اوّلین مجموعہ کلام ’’روشنی اے روشنی ‘ ‘ میں شامل ہیں ، یہ مجموعہ مکتبہ فنون لاہور سے جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کے مختصر تعارف کے ساتھ ۱۹۷۲ میں شائع ہوا تھا۔ زیر نظر مجموعے میں شکیبؔ کا سارا تخلیقی سرمایہ بشمول نظم و غزل شامل ہے اور قاری کولطف اندوزی کے ساتھ از سرِ نو دعوت فکر و نظر دیتاہے (مارچ 2004)

شکیب جلالی

احمد ندیم قاسمی کے تاثرات۔ ۴

ایک اور جگہ احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں :۔

اُردو غزل کی روایت میں شکیبؔ کا مقام منفردہے۔ ان کے دور میں فیض اور ناصر کاظمی خوبصورت غزلیں کہہ رہے تھے مگر وہ شکیبؔ ہی تھا جس نے غزل کو موضوع و اظہار کے حوالے سے ایک متوازن جدّت کا موڑ دیا۔ یوں وہ جدید غزل نگاروں کا قافلہ سالار ہے۔

(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)

شکیب جلالی

احمد ندیم قاسمی کے تاثرات۔ ۳

آج سے آٹھ برس پہلے میں نے شکیب جلالی کو ناصر کاظمی‘ احمد فراز‘ ظفر اقبال اور شہزاد احمد کی موجودگی میں اردو غزل کی اُمید گاہ کہا تھا۔ ایک ہی برس بعد اس کا انتقال ہو گیا مگر میں آج بھی اسے اردو غزل کی اُمید گاہ قرار دیتا ہوں۔ ۱۹۶۰ ء سے ۱۹۶۶ ء تک اس نے جتنی غزلیں لکھی ہیں وہ میرے اس دعوے کی بھر پور تائید کرتی ہیں۔ ان میں اتنے رنگ ہیں ‘ اتنے پہلو ہیں ‘ اتنے تیور ہیں کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتاکہ میں اس کے کون سے رنگ کے بارے میں لکھوں اور اس کے کس تیور کو نظر انداز کروں۔ ابھی چند روز پہلے کی بات ہے ‘ میں ایک کام سے اپنے گاؤں گیا اور ساتھ ہی شکیبؔ کا مجموعہ کلام ’’روشنی اے روشنی‘ ‘ لیتا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ اس کی کسی ایک نمایاں خصوصیت کو اپنے مضمون کا موضوع بناؤں اور اس خصوصیت کے حوالے سے اشعار چن لوں۔ مگر جب میں مجموعے کی ابتدائی پچیس تیس غزلیں پڑھ چکا تو میں نے محسوس کیاکہ میں نے ان تمام غزلوں کے اشعار پر نشان لگا دیے ہیں اور کوئی ایک شعر بھی ایسا نہیں ہے جسے شکیبؔ کے کمالِ فن کے تذکرے پر نظر انداز کیا جاسکے۔ برسوں پہلے خواجہ میر درد کے دیوان کا انتخاب کرتے ہوئے بھی مجھے ایسا ہی تجربہ ہوا تھا۔ اس وقت بھی یہی خطرہ درپیش تھا کہ میں سارا دیوان ہی منتخب کر لوں گا مگر بعض مقامات پر اس زمانے کی زبان کی غرابت نے میری مدد کی اور میں اکّا دکّا اشعار کو چھوڑتا چلا گیا۔ شکیبؔ کے کلام نے تومجھے اس کی بھی اجازت نہیں دی۔ ہمارے ہاں کے ادبی تنقید نگار خود اپنے ذہن سے ذرا کم ہی سوچنے کے عادی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ اساتذہِ فن کے چکر ہی سے نہیں نکل پاتے اور نئے شعرا کو درخورِاعتنا سمجھنا ان کی کسر شان ہے مگر آج نہیں تو مستقبل کا نقاد اس حقیقت کو پوری طرح تسلیم کرے گا کہ جدید اردو غزل کو جس شاعر نے سب سے زیادہ بصیرت دی اور جس نے ۲۵ برس کی عمر ہی میں اپنا منفرد اُسلوبِ شعرپیدا کر لیا تھا اور جس نے نہایت خاموشی کے ساتھ آنے والی پوری نسل کو بے پناہ حد تک متاثر کیا وہ شکیب جلالی ہی تھا۔ مانا کہ ان میں سے اکثرمیں شکیبؔ کی سی ہمہ گیری اور ہمہ رنگی نہیں آئی۔ مگر اب شکیبؔ کے کلام کی یک جائی کے بعد وہ محسوس کریں گے کہ جدید غزل میں جدت کم اور جذبے کی تہذیب بھی شامل ہونی چاہیے اور شکیبؔ کی غزل کی طرح اسے جدید غزل ہونے کے باوجود مرزا غالب اور اقبال اور فراق کی روایت کی غزل بھی ہونا چاہیے۔

اب آخر میں شکیبؔ کے چند اشعار سن لیجیے

خزاں کے چاند نے پوچھا یہ جُھک کے کھڑکی میں

کبھی چراغ بھی جلتا ہے اس حویلی میں ؟

……………

سوچو تو سِلوٹوں سے بھری ہے تمام رُوح

دیکھو تو اِک شکن بھی نہیں ہے لباس میں

……………

ملبوس خوشنما ہیں مگر جسم کھوکھلے

چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکان پر

……………

یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے

تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے

……………

رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس میں

اتنا نہ تیز کیجیے ڈھولک کی تھاپ کو

میں نے اسے شریکِ سفر کر لیا‘ شکیبؔ

اپنی طرح سے چاند جو بے گھر لگا مجھے

نہ اتنی تیز چلے‘ سر پِھری ہوا سے کہو

شجر پہ ایک ہی پتہ دکھائی دیتا ہے

……………

درخت راہ بتائیں ہلا ہلا کر ہاتھ

کہ قافلے سے مسافر بچھڑ گیا ہے کوئی

……………

عالم میں جس کی دھوم تھی‘ اس شاہ کار پر

دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ

……………

اتر کے ناؤ سے بھی کب سفر تمام ہُوا

زمیں پہ پاؤں دھرا تو زمین چلنے لگی

……………

یہ کائنات ہے میری ہی خاک کا ذرّہ

میں اپنے دشت سے گزرا تو بھید پائے بہت

……………

یوں بے سبب تو کوئی انھیں پوجتا نہیں

کچھ تو ہے پتھروں میں خدوخال کی طرح

……………

کسی کا جسم اگر چھو لیا خیال میں بھی

تو پور پور‘ مری مثلِ شمع جلنے لگی

……………

یہ آڑی ترچھی لکیریں بنا گیا ہے کون

میں کیا کہوں ‘ مرے دل کا ورق تو سادہ تھا

اے دوست‘ پہلے قرب کا نشّہ عجیب تھا

میں سُن سکا نہ اپنے بدن کی پُکار بھی

……………

اک یاد ہے جو دامنِ دل چھوڑتی نہیں

اک بیل ہے جو لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ

……………

کب سے ہیں ایک حرف پہ نظریں جمی ہوئی

وہ پڑھ رہا ہوں جو نہیں لکّھا کتاب میں

……………

شکیبؔ کیسی اڑان‘ اب وہ پَر ہی ٹوٹ گئے

کہ زیرِ دام جب آئے تھے‘ پھڑ پھڑائے بہت

……………

اِک حشر سا بپا تھا مرے دل میں اے شکیبؔ

کھولیں جو کھڑکیاں تو ذرا شور گھٹ گیا

……………

اسی لیے تو ہوا روپڑی درختوں میں

ابھی میں کھِل نہ سکا تھا کہُرت بدلنے لگی

……………

تونے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں

آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ‘ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ

……………

اک سانس کی طناب جو ٹوٹی تو اے شکیبؔ

دوڑے ہیں لوگ جسم کے خیمے کو تھامنے

تیشے کا کام ریشہِ گُل سے لیا شکیبؔ

ہم سے پہاڑ کاٹنے والے ہوئے نہیں

(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)

شکیب جلالی

احمد ندیم قاسمی کے تاثرات۔ ۲

شکیبؔ وہ شاعر تھا جس کے ساتھ اردو غزل کا مستقبل وابستہ تھا۔ اس نے غزل کو نیا لہجہ دیا تھا‘ اس میں نئی کھنک پیدا کی تھی اور گہرے مفہوم اور خوبصورت اظہار کو یوں ہم آہنگ کیا تھا کہ اگر وہ چند برس اور زندہ رہتا تو اردو غزل کے ایک بالکل نئے دور کا پہلا شاعرمانا جاتا۔ اس کی غزل جن رفعتوں تک پہنچ چکی تھی وہ بھی ہمارے کتنے ہی غزل گوؤں کے لیے قابلِ رشک ہے:

وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت

میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت

(بشکریہ روزنامہ جنگ)

شکیب جلالی

احمد ندیم قاسمی کے تاثرات۔ ۱

جب بھی کوئی پوچھتاہے کہ گزشتہ دس بارہ سال کے اندر کون سا ایسا شاعراُبھرا ہے جس نے صحیح معنوں میں بھر پور غزل کہی ہو تو بغیر کسی تکلّف کے میں شکیب جلالی کا نام لیتا ہوں۔ شکیبؔ نظم بھی کہتاہے اور اس نے بعض ایسی نظمیں بھی کہی ہیں کہ پوری اردو نظم کا انتخاب پیش نظر ہو تو شکیبؔ کی ان نظموں کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔ مگر وہ بنیادی طور پر غزل کا شاعر ہے۔ ناصر کاظمی‘ احمد فراز اور شہزاد احمد کے سے کامیاب غزل کہنے والے شعرا کی موجودگی میں کسی نئے شاعر کا غزل کے میدان میں اپنا ایک مقام پیدا کر لینا کچھ آسان کام نہ تھا۔ مگر شکیبؔ کی بے پناہ فنی اور تخلیقی قوتوں نے چند ہی برس کے اندر اسے ان غزل گو شعرا کے برابر لا کھڑا کیا ہے بلکہ میں سمجھتاہوں شکیبؔ کے دم سے اردو غزل نے ایک اور سنبھالا لیا ہے۔ آزادی کے بعد بعض ترقی پسند شعرا نے دم توڑتی ہوئی اردو غزل میں جو نئی روح پھونکی ہے‘ اسی نے وہ نئے غزل گو شعرا پیدا کیے جن کی شاعری کو غزل کی نشاۃ الثانیہ قرار دیا گیا۔ مگر پھر نہ جانے کیا ہوا کہ ان میں سے بیشتر شعرا نے کسی نہ کسی کلاسیکل غزل گو کی بیعت کر لی اور اسی رنگ میں کہنے اور سننے لگے۔ اگر اس دور میں شکیبؔ کے سے شاعر پیدا نہ ہوتے توعین ممکن تھا کہ اردو غزل ایک دم دو سو سال پیچھے چلی جاتی اور آیندہ نسل میں اس کا کوئی نام لیوا باقی نہ رہتا۔ شکیبؔ کی غزل نے اردو شعر و ادب کے قاری کو بتایا کہ غزل گو بیسویں صدی کے نصف آخر کا ایک باشعور فرد ہو کر بھی غزل کہہ سکتا ہے اور ایسی غزل کہہ سکتا ہے جس میں عصر رواں کی روح بول رہی ہو اور جو اس کے باوجود غزل ہو۔

شکیبؔ کی غزل کا سب سے نمایاں حسن اس کی باشعور وجدانیت ہے۔ ممکن ہے شعور و وجدان کی اس یکجائی پر بعض حضرات چونکیں مگر اس کا کیا کیا جائے کہ شکیبؔ نے شعوری تاثرات کو غزل میں منتقل کر کے انھیں وجدان کی طرح لطیف بنا دیا ہے۔ دراصل شکیبؔ کا سب سے بڑا اور موثر ہتھیار اس کے سمبل ہیں۔ یہ روایتی سمبل نہیں ہیں اور نہ وہ جدید سمبل ہیں جن کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک شاعر نے ہاتھی کے لیے کھڑکی کا سمبل پیش کیا تھا او ر وجہ یہ بتائی تھی کہ ہاتھی کے بڑ ے بڑے کان انھیں ہمیشہ کھڑکی کے پٹ معلوم ہوتے ہیں۔ شکیبؔ کے سمبلوں میں نہ وہ کہنگی ہے کہ چھولو تو بُھر جائیں ‘ نہ وہ جدت برائے جدت کہ شاعر حسن آفرینی کی ذمہ داری سے الگ ہو کر صرف چونکا نے پر کمر باندھ لے۔ یہ سمبل قاری کے ذہن میں ایک مکمل تصویر لے آتے ہیں۔ او ر اس تصویر کے پس منظر میں شعرمیں چھپا ہوا خیال یا جذبہ پورے حسن سے جگمگا اٹھتا ہے۔ یہ قوت بہت کم شاعروں کو ودیعت ہوئی ہے اور اس لیے شکیبؔ کی یہ خصوصیت مُنفرد ہے۔ احساس کی نزاکت اور تجربے سے ہمہ گیری کی مثالیں نئے غزل گو شعراء میں عام ہیں مگر اس نزاکت اور اس ہمہ گیری کو شعر میں یوں منتقل کرنا کہ یہ شعر خوب صورت بھی ہو اور میر و غالب اور اقبال و ذوق کی غزل سے بھی الگ پہچانا جا سکے اور عصر جدید کا شعر بھی کہلائے اور اس کا تاثر ہنگامی بھی نہ ہو‘ یہ شکیبؔ کا حصہ ہے اور اس لیے آج شکیبؔ اردو غزل کی اُمید گاہ ہے

(بشکریہ ’غزل نمبر 1965‘ فنون)

شکیب جلالی

کلیاتِ شکیب جلالی کی تیاری از احفاظ الرحمٰن

حسین اقدس رضوی ایک شائستہ اور مہذّب آدمی ہیں۔ تہذیبی رچاؤ ان کی گفتگو میں چھلکتا ہے۔ اور نشست و بر خاست میں گُزرے زمانوں کا رنگ جھلکتا ہے ‘ اگر چہ وہ عمر کی اس منزل پرہیں ‘ جو زندگی میں نئی رنگ آمیزیوں کا شوق بیدار کرتا ہے۔ وہ ایک بینکار ہیں ‘ اور ان کا بیش تر وقت اعدادو شمار کی اُلجھنوں کو سلجھانے میں گزرتا ہے ‘ لیکن اس کے باوجود غضب کا شعری ذوق رکھتے ہیں۔ خود شعر نہیں کہتے ‘ لیکن شعر کی باریکیوں پر نظر رکھتے ہیں۔ مزاج میں ٹھہراؤ اور مستقل مزاجی نمایاں نظر آتی ہے ‘ شاید اس لیے کہ حوادثِ زمانہ نے زندگی کے اُمورکو سمجھنے اور برتنے کے لیے ان کی ذات کو ایک خاص سلیقے اور قرینے سے ہم کنار کردیا ہے۔

شاید اقدس رضوی کا یہ وصف ایک فطری عمل سے وجود میں آیا ہے ‘ کیوں کہ وہ جدید دور کے نام ور رُجحان ساز شاعر ‘ شکیب جلالی کے فرزندِ ارجمند ہیں ‘ جو ہمیشہ حوا د ثِ زمانہ کی زد میں آندھیوں کے سامنے رکھے ہوئے چراغ کے مانند جلتے بُجھتے رہے ‘ اور اپنے اس تجربے کو نوبہ نو پُر اثر شعروں میں منتقل کرتے رہے۔ یہ اشعار کس قدرپُر اثر اور پُرمایہ ہیں ‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے مجموعے ’روشنی اے روشنی‘ کے متعدّد ایڈیشن منظرِ عام پرآچکے ہیں ‘ اور جب کوئی ایڈیشن بازار میں آتا ہے تو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔

شکیب جلالی کا بہت سا کلام ‘ جو ’روشنی اے روشنی ‘ میں شامل نہیں ہو سکا ‘ ادھر اُدھر کاغذوں میں بکھرا ہواتھا۔ کچھ اوراق ان کی اہلیہ‘ محدثہ خاتون نے سینے سے لگا رکھے تھے‘ اور بعض نظمیں اور غزلیں رسائل اور اخبارات کے صفحات میں نہاں تھیں۔ ایک سعادت مند فرزند ہونے کے ناتے علی اقدس نہ جانے کب سے ان بکھرے ہوئے اوراق کو یک جا کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ یقیناً یہ ایک پیچیدہ اور جان لیوا کام تھا ‘ لیکن وہ مستقل مزاجی سے اس مُہم کو سر کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ چنانچہ سب سے پہلے انہوں نے اپنی والدہ محترمہ کے پاس محفوظ کلام حاصل کیا‘ اور اس کے بعد کسی سُراغ رساں کی طرح دوسرے امکانات معلوم کرنے کے لیے تگ و دو کرنے لگے۔ انہوں نے پاکستان کے علاوہ انڈیا میں بھی اُن اہلِ ادب سے رابطہ کیا‘ جو کسی نہ کسی پہلو سے ان کی رہنمائی کرسکتے تھے۔ اس مجموعے میں شامل بعض مشاہیر کے مضامین اسی جستجو کا ثمر ہیں۔

حسین اقدس کی آرزوتھی کہ یہ مجموعہِ کلام صُوری اعتبار سے بھی دیدہ زیب اورا غلاط سے پاک ہو۔ اس لیے انہوں نے بڑی دیدہ ریزی سے خود بھی پُروف ریڈنگ کی ‘ اور دوسرے اصحاب سے بھی مدد حاصل کی۔ شکیب جلالی مرحوم عام طور پر اپنا کلام کاپیوں پر لکھا کرتے تھے۔ ان کاپیوں کے بعض او راق بوسیدہ حالت میں ہیں۔ بعض الفاظ مٹے مٹے سے ہیں ‘ اور بعض بالکل پڑھنے میں نہیں آتے۔ بعض مقامات پر شکیبؔ صاحب نے اپنے اشعار پر نظر ثانی کی ہے ‘ بعض مصرعے بالکل تبدیل کردیے ہیں ‘ اور بعض میں جُزوی تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ اُن کا طرزِ تحریر روشن اور صاف ہے ‘ تاہم بعض مقامات پر جہاں الفاظ کاٹ کر نئے الفاظ لکھے گئے ہیں ‘ بین السّطور میں گنجائش نہ ہونے کے باعث وہ پڑھنے میں نہیں آتے اورانھیں سمجھنے کے لیے خاصی دیدہ ریزی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ بہر حال ‘ علی اقدس کی مستقل مزاجی نے یہ تمام مرحلے طے کرلیے۔

حسین اقدس کا اصرار تھا کہ میں بھی ان کے والدماجد کے کلام پر مضمون لکھ کران کے حوالے کروں۔ میں نے کہا کہ اتنے مشاہیر کے مضامین کے بعد مجھ جیسے کو تاہ علم کے مضمون کی ضرورت نہیں۔ تاہم ‘ ان کے اصرار کے پیشِ نظرگُریز کا پہلو اختیار کرتے ہوئے زیرِ نظر سطروں کے لیے راہ نکالنی پڑی۔

جہاں تک شکیبؔ صاحب کی شاعری کا تعلق ہے ‘ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کی زندگی بھی حیران کُن تھی ‘ اوران کے اشعار بھی ہماری آنکھوں کے سامنے حیرت کے نئے در کھولتے چلے جاتے ہیں۔ ان کا ڈکشن مُنفرد ہے ‘ شاید اسی لیے اُن کے متعدد اشعار ضرب المثل کی حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔ ان میں حُزن وملال کے ساتھ اضطراب اور بغاوت کا احساس بھی اُمڈتا ‘ گرجتا محسوس ہوتا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ یہ مجموعہء کلام ‘ جس میں شکیب جلالی کا ساراکلام سمٹ آیا ہے ‘ اہلِ ادب کے درمیان مقبولیت کی سند حاصل کرے گا‘ اور اس سے ان کے کلام کی معنویت کی دریافت کے نئے امکانات سامنے آئیں گے۔

حسین اقدس اور ان کی والدہ ماجدہ ‘ محترمہ محدّثہ خاتون مبارک باد کے مستحق ہیں کہ ان کی لگن اور محنت کے طفیل یہ قابلِ قدر کتاب نہ صرف ان کے بلکہ ہمارے ہاتھوں میں بھی ہے۔

شکیب جلالی

پیش لفظ از اقدس رضوی

کلیاتِ شکیب جلالی کے پیش لفظ کو اظہار تشّکر کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ اس کے ذریعے کچھ باتوں کی وضاحت بھی پیش نظر تھی۔ مثلاً یہ بتانا کہ شکیب جلالی کے انتقال کے 38 سال بعد یہ کلیات کیوں شائع ہوئی۔ پھر اب اس کی اشاعت کی تحریک کیسے شروع ہوئی اور کلیات موجودہ شکل میں کن کن مراحل سے گزر کر آپ کے ہاتھوں میں پہنچی۔

۱۹۶۶ میں شکیب جلالی کے انتقال کے بعد ان کا تمام معلوم مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کلام بکھری ہوئی صورت میں میری والدہ صاحبہ نے انتہائی مخلص اور محترم جناب احمد ندیم قاسمی کے حوالے کر دیا تھا۔ جس میں سے 7 غزلیں ‘ 21 نظمیں اور کچھ اشعار چُن کر انہوں نے مکتبہِ فنون کے تحت ۱۹۷۲ میں ’’روشنی اے روشنی‘ ‘ کی شکل میں شائع کیا‘ جس کے بعد کئی ایڈیشن ’’ماورا‘ ‘ پبلی کیشنز لاہور نے شائع کیے۔ غالباً اگست ۱۹۷۹ میں والد صاحب کے کلام کا باقی ماندہ پلندہ قاسمی صاحب کے پاس سے واپس والدہ کے پاس آگیا۔ پھر میں اپنی ملازمت کے سلسلے میں ستمبر ۱۹۸۶ کے دوران سرگودھا ‘ فیصل آباد اور ملتان میں تعینات رہا۔ اس دوران یہ تمام کلام اُسی حالت میں میں نے ’’ماورا‘ ‘ کے جناب خالد شریف صاحب کے حکم پر ان کے پاس پہنچا دیا لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ وہاں سے کلیات کی شکل میں نہ چھپ سکا اور بالآخر کئی سال بعد واپس میرے پاس آگیا۔ اس دوران فکرِ معاش اور گردشِ ایّام نے اتنی مہلت نہ دی کہ میں اپنی ا ور بہت سے عاشقانِ شکیب جلالی کی اس شدید خواہش کو عملی جامہ پہنا سکوں۔

دوران ملازمت میں جب کبھی کسی ادب دوست سے ملتا تو ہمیشہ کچھ یکساں باتیں وہ ضرور پوچھتے ‘ جیسے: شکیب جلالی کی زندگی صرف 23برس پر محیط تھی اور وہ معاشی مسائل کا شکار بھی رہے لیکن روشنی اے روشنی کے علاوہ بھی ان کا بہت سا کلام ایسا ضرور ہو گاجو کلیات کی شکل میں شائع ہو سکتا تھا وہ کہاں ہے اور اب تک چھپا کیوں نہیں۔ قاسمی صاحب اور ماورا والوں نے کیوں نہیں چھاپا‘ اب تک آپ نے اس سلسلے میں کیا کیا۔ جلدی کیجیے اُن سے بہت کم زور اور اُن کے ڈکشن سے متاثر شعرا کے دیوان کے دیوان چھپ چکے ہیں۔

میں ان تمام باتوں کے جواب میں عرض کرتا رہا کہ انشاء اللہ جلد ہی آپ کلیات کی شکل میں باقی کلام پڑھ سکیں گے۔ آخر کار آج وہ وقت آہی گیا جب میں شکیب جلالی کے تمام معلوم دستیاب کلام کو مجتمع کر کے شائع کر رہا ہوں۔ اس سلسلے میں میں نے اپنے محترم جناب غلام محی الدین صاحب سے مشورہ کیا تو ان کی وساطت سے میری ملاقات معروف ادیب وصحافی جناب احفاظ الرحمن صاحب سے ہوئی اور میں ان کا بے حد ممنون ہوں ‘ اگر وہ میرا ساتھ نہ دیتے او ر میری حوصلہ افزائی نہ فرماتے تو شاید اس کام میں ابھی اور تاخیر ہو جاتی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ابو کے کلام کی اصل سے کتابت شدہ شکل کا موازنہ بھی بہت دیدہ ریزی سے کیا جس کی وجہ سے میں اس قابل ہو سکا کہ کتابت کی اغلاط کو درست کروا سکوں۔ اب بھی اگر کوئی غلطی رہ گئی ہو تو اس کی تمام تر ذمے داری میری ہے۔ اس سلسلے میں جب میں نے یہ مسوّدہ محترم ‘ مربی اور ہمیشہ سے اپنے خاندان کے مخلص جناب احمد ندیم قاسمی کو بھیجا تو انہوں نے اس سے کچھ اختلاف کیا اور ابتدائی کلام میں سے جو ۱۹۴۷ سے ۱۹۵۱ (جب شکیب جلالی کی عمر صرف ۱۳ سے ۱۷ سال کے درمیان تھی)کے دوران کہا گیا تھا ‘ کچھ کلام کے علاوہ باقی کلام قلم زد کر دیا اور لکھا کہ ’’میں نے اس کا مطالعہ بہت کڑے انداز میں کیا ہے تاکہ شکیبؔ کی شہرت کو داغ نہ لگے۔ ‘ ‘ میں ہمیشہ کی طرح ان کا بے حد ممنون ہوں۔ اس دوران میں نے محترم جناب شمس الرحمن فاروقی ‘ محترم اسلوب احمد انصاری اور محترم ڈاکٹر وزیر آغا صاحب سے رابطہ کیا تو ان حضرات کی بھی یہی خواہش تھی کہ اب جلدازجلد کلیات چھپ جانی چاہیے جو ارتقائی منازل کو ملحوظ رکھتے ہوئے ترتیب دی جائیں اور اس میں تمام کلام شامل کیا جائے۔ میں نے محترم جناب ڈاکٹر فرمان فتح پوری ‘ محتر م جناب ڈاکٹر محمد علی صدیقی ‘ محترم احمد ہمدانی کو کلیات کو موجودہ شکل میں پیش کیا اور ان سے مشورہ طلب کیا تو نے موجودہ ترتیب کی تا ئیدکی کہ یہ کلام سن وار شائع ہونا چاہیے اور تمام کلام شامل ہونا چاہیے تاکہ شکیبؔ کی شاعری کے ارتقا کی منازل واضح ہوجائیں اور ان کا کلام دیر سے سہی لیکن محفوظ ہو جائے۔ چنانچہ میں نے ممکنہ حد تک کوشش کی ہے کہ ہر غزل اور نظم کے نیچے سنِ تخلیق یا کم از کم سنِ اشاعت شائع کر دوں۔ اس طرح یہ کلیات اب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔

یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ شکیب جلالی کی متعدد تخلیقات ایسی بھی ہیں جن کی سنِ تخلیق یا سنِ اشاعت میسّر نہ ہو سکیں۔ ان تمام تخلیقات کو ہر صنف سخن کے آخر میں بلا کسی ترتیب کے شائع کیا جا رہا ہے۔

اس کے علاوہ جلد ہی ایک ویب سائٹ آپ کے سامنے www۔shakebjalali۔com کے عنوان سے ہو گی جس میں شکیبؔ کی سوانح حیات ‘ ان کے فن پر مختلف اکابرین کی آراء اور ان کے کیے ہوئے افسانوں کے تراجم اور مضامین شامل ہوں گے۔

آخر میں تمام دوستوں اور معاونین کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرتا ہوں ا ور قارئین سے التماس کرتا ہوں کہ اگر کلیات کے مطالعے کے بعد انہیں محسوس ہو کہ شکیب جلالی کی کوئی غزل یا نظم اس میں شامل ہونے سے رہ گئی ہے تو اس کی نقل بھجوا کر ممنون فرمائیں تاکہ آیندہ اشاعت میں اسے شامل کر لیا جائے۔

محترم مشفق خواجہ (مرحوم )کا از حد ممنون ہوں کہ کلیات کی دوسری اشاعت کے موقع پر نظرِ ثانی و صحتِ املا وغیرہ کے لیے اپنے شاگرد محیط اسمٰعیل کی خدمات فراہم کیں جنہوں نے اپنی ذمے داری بہ احسن طریق پوری کی۔

(اقدس رضوی۔ مکتبہ شکیب جلالی)

شکیب جلالی