زمرہ جات کے محفوظات: کلیاتِ شکیب جلالی ۔ غیر مدوّن کلام ۔ نظمیں

خاک بَسَر جاگے

صبح لیتی ہے انگڑائیاں گاؤں میں

پھر اُجالا ہوا پُرفشاں گاؤں میں

کل تلک جھاڑ جھنکار‘ گرد و غبار

آج پھل پھول پُھلواریاں گاؤں میں

ہر قدم پر اُگے ہیں ستاروں کے کھیت

ہر گلی بن گئی کہکشاں گاؤں میں

صاف شفّاف روشن خنک راستے

اُجلے اُجلے معطّر مکاں گاؤں میں

فصلِ گندم کے خوشے جواہر نگار

موتیوں کی کمی اب کہاں گاؤں میں

کُوبکُو خوشبوؤں کے حسیں قافلے

سُو بہ سُو دُودھ کی ندّیاں گاؤں میں

زندگی مانگتی ہے زمیں سے خراج

کوئی ذرّہ نہیں رائیگاں گاؤں میں

عزم و اخلاص کی زندہ تصویر ہیں

شوخ بانکے سجیلے جواں گاؤں میں

رہٹ گاتا ہے پائل کی جھنکار پر

رقص کرتی ہیں پنہاریاں گاؤں میں

شہر کی پُر تصنّع فضاؤں سے دُور

میری منزل ہے جنّت نشاں گاؤں میں

شکیب جلالی

بادل

پورب سے آئے ہیں بادل

گنگا جل لائے ہیں بادل

رنگ ہے ان کا کاہی کاہی

پھیلی ہے ہر سمت سیاہی

چلتے ہیں یہ ہلکے ہلکے

رنگ برنگے روپ بدل کے

نظریں جب بھی اٹھاتے ہیں ہم

اک نئی صورت پاتے ہیں ہم

شیر کبھی بن جاتے ہیں یہ

ہم کو خوب ڈراتے ہیں یہ

شکل کبھی ہوتی ہے ان کی

موٹے تازے گھوڑے جیسی

دھیرے دھیرے نقش بدل کر

ہاتھی بن جاتے ہیں اکثر

جب یہ آتے ہیں مستی میں

دوڑ لگاتے ہیں مستی میں

یہ اُس کو چھونے جاتا ہے

وہ اُس کے پیچھے آتا ہے

کھیل ہی کھیل میں لڑ جاتے ہیں

یہ آپس میں غرّاتے ہیں

ایک پہ اک چڑھ کر آتا ہے

برقی کوڑے لہراتا ہے

پھر یہ اپنی سُونڈ اٹھا کر

جھاگ اُڑاتے ہیں دنیا پر

جن کو ہم بارش کہتے ہیں

جو دریا بن کر بہتے ہیں

شکیب جلالی

صبح

صبح سویرے اٹھتا ہوں

روز اندھیرے اٹھتا ہوں

اُٹھ کر سیر کو جاتا ہوں

ٹھنڈی ہوائیں کھاتا ہوں

پُھول اُسی دم کھلتے ہیں

غنچے آنکھیں ملتے ہیں

شبنم بکھری ہوتی ہے

کلیوں کا منھ دھوتی ہے

باغ مُعطّر ہوتا ہے

دل کش منظر ہوتا ہے

بلبل گیت سناتی ہے

کوئل شور مچاتی ہے

ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں

سب کو پنکھا جھلتی ہیں

ڈالی ڈالی ہلتی ہے

دل کو فرحت ملتی ہے

جسم میں چُستی آتی ہے

آنکھ بھی ٹھنڈک پاتی ہے

دن بھر جی خوش رہتا ہے

ہر غم ہنس کے سہتا ہے

جو کوئی اس دم سوتا ہے

اس نعمت کو کھوتا ہے

شکیب جلالی

ساحل پہ اور ریت بچھانے سے فائدہ

ساحل پہ اور ریت بچھانے سے فائدہ
پانی سَمندروں کو دکھانے سے فائدہ
پھیلی ہوئی جہاں ہو تیری آرزؤں کی دھوپ
اس بَزم میں چراغ جلانے سے فائدہ
شکیب جلالی

فانوس کی لَو میں جِھلملاتا ہوں کبھی

فانوس کی لَو میں جِھلملاتا ہوں کبھی
تاروں کی جبیں کو جگمگاتا ہوں کبھی
آنکھوں میں نُور بن کے رہتا ہوں میں
سورج کی کرن میں مسکراتا ہوں کبھی
شکیب جلالی

وہ دُور کہیں باغ میں بلبل بولی

وہ دُور کہیں باغ میں بلبل بولی
وہ جھوم کے آنکھ ہر کلی نے کھولی
یہ خاوری کرنوں کے غول آپہنچے
وہ سہم گئی ہے تاروں کی ٹولی
شکیب جلالی

ذوقِ نظارہ خام نہیں ہے

ذوقِ نظارہ خام نہیں ہے
میری نظر بدنام نہیں ہے
دیکھ کے تم کو بہک گئی تھی
یہ لغزش ہر گام نہیں ہے
شکیب جلالی

گونجی ہے فضا میں کسی ذی روح کی چاپ

گونجی ہے فضا میں کسی ذی روح کی چاپ
یا کاہکشاں کی دفِ مہتاب پہ تھاپ
وہ سایے کے پیچھے کوئی سایہ دوڑا
ہونے کو ہے بچھڑی ہوئی روحوں کا ملاپ
شکیب جلالی

اک دُھند ہے‘ اک کُہر ہے‘ اک بدلی ہے

اک دُھند ہے‘ اک کُہر ہے‘ اک بدلی ہے
قندیلِ نظر کی روشنی گدلی ہے
یہ دُھول جمی ہے رات کے گیسو پر
یا مارِسِیَہ نے کینچلی بدلی ہے
شکیب جلالی

شرمندہِ اغیار رہے ہیں برسوں

شرمندہِ اغیار رہے ہیں برسوں
منت کشِ پُر خار رہے ہیں برسوں
کچھ ہم ہی سمجھتے ہیں رُموزِ گلشن
پھولوں کے طلب گار رہے ہیں برسوں
شکیب جلالی

اَوہام کے بت توڑ رہے ہیں ٹھہرو

اَوہام کے بت توڑ رہے ہیں ٹھہرو
حالات کا رُخ موڑ رہے ہیں ٹھہرو
بے لوث محبّت کی قسم‘ دیوانے
ٹوٹے ہوئے دل جوڑ رہے ہیں ٹھہرو
شکیب جلالی

بھر جائے گی پھولوں سے شفق کی جھولی

بھر جائے گی پھولوں سے شفق کی جھولی
کھیلیں گے اندھیروں کے لہو سے ہولی
یہ خاوری کرنوں کے غول آپہنچے
وہ سہم گئی ہے تاروں کی ٹولی
شکیب جلالی

رُک رُک کے سفینہ بہ رہا ہو جیسے

رُک رُک کے سفینہ بہ رہا ہو جیسے
قیدی کوئی ظلم سہ رہا ہو جیسے
اس طرح اُلجھ گئے زبان سے شکوے
گونگا کوئی بات کہہ رہا ہو جیسے
شکیب جلالی

پتوں پہ ٹپکتی ہوئی شبنم کی چاپ

پتوں پہ ٹپکتی ہوئی شبنم کی چاپ
یا جیسے کہیں دور کسی ڈھول پہ تھاپ
آیا ہے دبے پاؤں یہاں پر کوئی
ہونے کو ہے بچھڑی ہوئی رُوحوں کا ملاپ
شکیب جلالی

توبہ نے لچک کر یہ کہا ہے ساقی

توبہ نے لچک کر یہ کہا ہے ساقی
منظور اسے بھی خوں بہا ہے ساقی
ہاتھوں میں نہیں ہے یہ کھنکتا ساغر
برسات کا دل دھڑک رہا ہے ساقی
شکیب جلالی

تقدیسِ شباب سے شرارے پھوٹے

تقدیسِ شباب سے شرارے پھوٹے
انگڑائی کہ جیسے آفتابی چُھوٹے
یوں اٹھ کے گریں وہ شوخ بانہیں گویا
اک ساتھ فلک سے دو ستارے ٹوٹے
شکیب جلالی

جب جوش میں خوابیدہ اُمنگ آتی ہے

جب جوش میں خوابیدہ اُمنگ آتی ہے
تیزابیِ خورشید کو شرماتی ہے
بپھری ہوئی نظروں کی تمازت کی قسم
اک پل میں چٹان موم ہو جاتی ہے
شکیب جلالی

آغوش میں ماہ پارے پالے ہم نے

آغوش میں ماہ پارے پالے ہم نے
گھر گھر میں نئے دیپ اجالے ہم نے
تاریک خرابوں کو نیا نور دیا ہے
ظلمات سے آفتاب ڈھالے ہم نے
شکیب جلالی

وہ رسمِ عنایات نہیں ہے پھر بھی

وہ رسمِ عنایات نہیں ہے پھر بھی
اب پُرسشِ حالات نہیں ہے پھر بھی
خواہش ہے یہی ان سے بہت کچھ کہیے
کہنے کو کوئی بات نہیں ہے پھر بھی
شکیب جلالی

آلام کا اظہار بھی منظور نہیں

آلام کا اظہار بھی منظور نہیں
دل یورشِ غم میں بھی رَنجُور نہیں
ہم زخمِ جگر ہیں تری اُلفت کے امین
ماحول کا رِستا ہوا ناسُور نہیں
شکیب جلالی

خوابیدہ کراہوں کی صدا آتی ہے

خوابیدہ کراہوں کی صدا آتی ہے
جس طرح دبے پاؤں قضا آتی ہے
سوتے ہوئے قیدی نے کروٹ بدلی
زنجیر چھنکنے کی صدا آتی ہے
شکیب جلالی

چاندی کے کٹوروں میں فوارے چھوٹے

چاندی کے کٹوروں میں فوارے چھوٹے
سینے کا اُبھار جیسے جھرنا پھوٹے
اس حشر خرامی کے مقابل ہو اگر
موجوں کی رَوانی پہ قیامت ٹوٹے
شکیب جلالی

انگ انگ میں بہتے ہوئے مہ پارے ہیں

انگ انگ میں بہتے ہوئے مہ پارے ہیں
کس درجہ شرر دوست یہ نظارے ہیں
بانہوں میں مچلتی ہوئی بجلی کی لچک
آنچل میں سُلگتے ہوئے انگارے ہیں
شکیب جلالی

مے خانہ بدوش یہ گُلابی آنکھیں

مے خانہ بدوش یہ گُلابی آنکھیں
زلفیں ہیں شبِ تار تو خوا بی آنکھیں
مستی کے جزیروں سے پُکارا کوئی
سَاون کی پھواریں یہ شرابی آنکھیں
شکیب جلالی

آغوش میں ظلمت کی سُلاتے ہو انھیں

آغوش میں ظلمت کی سُلاتے ہو انھیں
افسانہِ تاریک سناتے ہو انھیں
حاجت ہے جنھیں نئے اجالے کی ندیم
بُجھتی ہوئی قندیل دکھاتے ہو انھیں
شکیب جلالی

تقلید کے بت توڑ کے رکھ دیتے ہیں

تقلید کے بت توڑ کے رکھ دیتے ہیں
حالات کا رخ موڑ کے رکھ دیتے ہیں
بے لوث محبّت کی قسم‘ دیوانے
ٹوٹے ہوئے دل جوڑ کے رکھ دیتے ہیں
شکیب جلالی

احساسِ غمِ سودوزیاں سے کیا کام

احساسِ غمِ سودوزیاں سے کیا کام
آوارہ ہوں مجھ کو آشیاں سے کیا کام
شاعر کو نیازوعجز سے کیا مطلب
ہاں ہاں ‘ مجھے آپ کے جہاں سے کیا کام
شکیب جلالی

ہر رنج کو ہنس کے ٹال جاتا ہوں میں

ہر رنج کو ہنس کے ٹال جاتا ہوں میں
ناکامیوں پر بھی مسکراتا ہوں میں
اللہ کی قدرت کا تو قائل ہوں مگر
اپنی تقدیر خود بناتا ہوں میں
شکیب جلالی

نظروں میں نیا زمانہ ڈھلتا ہے حضور

نظروں میں نیا زمانہ ڈھلتا ہے حضور
آغوش میں انقلاب پلتا ہے حضور
حالات کے سانچے مجھے کیا بدلیں گے
ماحول میرے جلو میں چلتا ہے حضور
شکیب جلالی

جذبہِ خام تو نہیں ہم لوگ

جذبہِ خام تو نہیں ہم لوگ
اس قدر عام تو نہیں ہم لوگ
ساتھ چلنے سے کیوں جھجکتے ہو
اتنے بدنام تو نہیں ہم لوگ
شکیب جلالی

گفتار کہَرخشندہ ستاروں کا تبسّم

گفتار کہَرخشندہ ستاروں کا تبسّم
غنچے ترے ہونٹوں سے ہنسی لُوٹ رہے ہیں
رفتار کہ تالاب کی لہروں میں روانی
انگ انگ سے معصوم کنول پُھوٹ رہے ہیں
شکیب جلالی

منھ سے لگا کے چھوڑ دیا بادہِ نشاط

منھ سے لگا کے چھوڑ دیا بادہِ نشاط
مے خانہِ حیات سے پیاسے ہی لوٹ آئے
یاد آ گئی شکیبؔ کسی بے نوا کی پیاس
ہم ساحلِ فرات سے پیاسے ہی لوٹ آئے
شکیب جلالی

یہ مرے دوست یہ معصوم سے لوگ

یہ مرے دوست یہ معصوم سے لوگ
ان کی ہر چال بہت گہری ہے
ان کے سایے سے بھی بچ کر گزرو
ان کا سایہ بھی بڑا زہری ہے
شکیب جلالی

اس طرح رات کے دھندلکے میں

اس طرح رات کے دھندلکے میں
عہدِ ماضی کی یاد آتی ہے
جیسے شب کو مہین بدلی سے
چاندنی چھن کے پھیل جاتی ہے
شکیب جلالی

کیسی پُرخار ہیں مری راہیں

کیسی پُرخار ہیں مری راہیں
دو قدم بھی تو چل نہیں سکتا
منزلیں خود یہاں نہ آئیں گی
راستہ بھی بدل نہیں سکتا
شکیب جلالی

چُوڑیاں بج رہی ہیں کانوں میں

چُوڑیاں بج رہی ہیں کانوں میں
کس نے دستِ حنائی لہرایا
اے دلِ مضطرب بتا تو سہی
تجھ کو کس کا سلام یاد آیا
شکیب جلالی

سبزہ زاروں میں روشنی کی کرن

سبزہ زاروں میں روشنی کی کرن
سر اُٹھاتی ہے ڈوب جاتی ہے
بجلیوں کی نظر ہے گلشن پر
سایہِ گُل سے آنچ آتی ہے
شکیب جلالی

جنھیں نصیب ہیں آسایشوں کے رنگ محل

جنھیں نصیب ہیں آسایشوں کے رنگ محل
شکیبؔ ان کے لیے عید کیف زا ہو گی
لبوں پہ رنگِ تبسّم نہ دل میں موجِ سُرور
مرے وطن کے غریبوں کی عید کیا ہو گی
شکیب جلالی

ملاجو مژدہِ عیدِ سعید غربت میں

ملاجو مژدہِ عیدِ سعید غربت میں
ہمارا قلبِ حَزیں اور سوگوار ہوا
خیال آگیا خوں گشتہ آرزوؤں کا
ہلالِ عید کا خنجر جگر کے پار ہوا
شکیب جلالی

نگارِ عید جو آئی مرے خیالوں میں

نگارِ عید جو آئی مرے خیالوں میں
سنہرے پھول کھلے زَرفشاں چراغ جلے
افق سے تابہ افق رنگ و نور تھا لیکن
نظر اٹھائی تو ذوقِ نظر نے ہاتھ ملے
شکیب جلالی

وسوسے دل کے بڑھتے جاتے ہیں

وسوسے دل کے بڑھتے جاتے ہیں
یوں مرے نامہ بر نہ دیکھ مجھے
دل میں جو بات ہے اُسے کہہ دے
مُسکرا کر مگر نہ دیکھ مجھے
شکیب جلالی

ہر محبّت کی بات کو تم نے

ہر محبّت کی بات کو تم نے
عقل کی روشنی میں سوچا ہے
چشمِ پُرنم کو دیکھ کر کہہ دو
غمِ ایّام کا نتیجہ ہے
شکیب جلالی

جِذبہِ اقتدار ہی تیرا

جِذبہِ اقتدار ہی تیرا
دُکھ کا باعث ہے ہر کسی کے لیے
اپنا ہم سر سمجھ کے مل سب سے
یہی لازم ہے دوستی کے لیے
شکیب جلالی

تیرے حالات اور ہی کچھ ہیں

تیرے حالات اور ہی کچھ ہیں
میرا ماحول ہے جُداگانہ
اک کسوٹی پہ مت پَرکھ سب کو
خام ہے تجربے کا پیمانہ
شکیب جلالی

عشق کا احترام ہے لازم

عشق کا احترام ہے لازم
یہ فقط حُسن کا پجاری ہے
سجدہ کرتا ہے تیرے قدموں پر
جو دلیلِ وجودِ باری ہے
شکیب جلالی

ہم سے روشن ہیں محفلوں کے چراغ

ہم سے روشن ہیں محفلوں کے چراغ
رونقِ صبح و شام ہیں ہم لوگ
ہم نے تخلیقِ دوجہاں کی ہے
واجبُ الاحترام ہیں ہم لوگ
شکیب جلالی

رات بھر کروٹیں بدلتا ہوں

رات بھر کروٹیں بدلتا ہوں
دل سُلگتا ہے آنکھ روتی ہے
جب مرے پاس تم نہیں ہوتے
رات کتنی اُداس ہوتی ہے
شکیب جلالی

چاند تارے ترے تبسّم سے

چاند تارے ترے تبسّم سے
آسمانوں پہ مُسکراتے ہیں
ہم ترے رُخ سے چاندنی لے کر
آرزو کے دیے جلاتے ہیں
شکیب جلالی

کِھل گئے پُھول دیکھ کر ان کو

کِھل گئے پُھول دیکھ کر ان کو
ہنس کے غُنچوں نے کچھ کلام کیا
صبح دم چمپئی بہاروں نے
مسکرا کر انھیں سلام کیا
شکیب جلالی

چاندنی رات اور یہ نظّارے

چاندنی رات اور یہ نظّارے
زندگی کے نقیب ہوتے ہیں
شرم رہنے دو‘ یہ حَسیں منظر
روز کس کو نصیب ہوتے ہیں
شکیب جلالی

ایک غیرت شعار مفلس پر

ایک غیرت شعار مفلس پر
میں نے جب لُطف کی نظر ڈالی
اس کی بے چارگی کا درد نہ پوچھ
مجھ پہ رعشہ سا ہو گیا طاری
شکیب جلالی

شبِ تاریک بیت جائے گی

شبِ تاریک بیت جائے گی
شمعِ احساں جَلا رہے ہو کیوں
اتنے اخلاص سے مجھے تم لوگ
اپنا دشمن بنا رہے ہو کیوں
شکیب جلالی

دوستی کے لطیف پردے میں

دوستی کے لطیف پردے میں
ہو رہے ہیں فریب کے دھندے
ایک ہم مخلصِ زمانہ ہیں
ایک تم ہو خلوص کے بندے
شکیب جلالی

اتنی بے لوث تو نہیں دنیا

اتنی بے لوث تو نہیں دنیا
دوست جتنی کہ آپ سمجھے ہیں
ہم پہ احسان کرکے اہلِ جہاں
اِکتسابِ نشاط کرتے ہیں
شکیب جلالی

کیسے مُخلص انھیں سمجھ لوں میں

کیسے مُخلص انھیں سمجھ لوں میں
دوستوں سے جنھیں شکایت ہے
وقت، بے وقت شکوہِ احباب
سوچیے! کیا یہی محبّت ہے
شکیب جلالی

آدمی میں اگر خُلوص نہ ہو

آدمی میں اگر خُلوص نہ ہو
تو وہ انسان ہی نہ کہلائے
گر محبّت نہ ہو زمانے میں
تو یہ سب کائنات مٹ جائے
شکیب جلالی

ہے ابھی تو خلوص دنیا میں

ہے ابھی تو خلوص دنیا میں
کس لیے ہو رہا ہے تو مایوس
شمعِ ایثار پہلے روشن کر
پھر جلیں گے خُلوص کے فانوس
شکیب جلالی

اس قدر بُغض کیوں ہے آپس میں

اس قدر بُغض کیوں ہے آپس میں
اے وفا و خُلوص کے بندو!
خود غرض کون ہے زمانے میں
میں بھی مخلص ہوں ‘ تم بھی مخلص ہو
شکیب جلالی

میری نادان آرزوؤں نے

میری نادان آرزوؤں نے
کچھ سنہرے محل بنائے تھے
اس جگہ تیرگی مسلّط ہے
کل جہاں چاندنی کے سائے تھے
شکیب جلالی

یاسیت کی مُہیب راتوں میں

یاسیت کی مُہیب راتوں میں
یوں چراغِ اُمید ہے روشن
جیسے زنداں کے روزنوں سے شکیبؔ
چَھن کے آتی ہے روشنی کی کرن
شکیب جلالی

عہد و پیمان عشق و اُلفت کے

عہد و پیمان عشق و اُلفت کے
کب کوئی عمر بھر نبھاتا ہے
یاد کرتا ہے بُھول کر کوئی
جان کر کوئی بُھول جاتا ہے
شکیب جلالی

دل میں بے شک ہیں خواہشوں کے ہجوم

دل میں بے شک ہیں خواہشوں کے ہجوم
جرأتوں پر سُکوت چھایا ہے
بات کوئی کہے نہیں بنتی
تم کو اک بار کھو کے پایا ہے
شکیب جلالی

اہلِ غربت کی چاندنی راتیں

اہلِ غربت کی چاندنی راتیں
کس قدر دردخیز ہوتی ہیں
رشتہِ یاد میں اُداس آنکھیں
آنسوؤں کے گُہر پُروتی ہیں
شکیب جلالی

زندگی کے گھنے اندھیرے میں

زندگی کے گھنے اندھیرے میں
ایک ہی پُرضیا ستارہ ہے
میرے پاس اپنی یاد رہنے دو
یہ مری زِیست کا سہارا ہے
شکیب جلالی

اس طرح رنج کے دُھندلکے میں

اس طرح رنج کے دُھندلکے میں
عہدِ ماضی کی یاد آتی ہے
جیسے شب کی مہین بدلی سے
چاندنی چھن کے پھیل جاتی ہے
شکیب جلالی

ہراساں ہیں تیز آندھیوں کے تھپیڑے

ہراساں ہیں تیز آندھیوں کے تھپیڑے
کہ روشن ابھی تک ہے شمعِ محبّت
اُدھر وہ خفا ہیں ‘ اِدھر ہم خفا ہیں
مگر رشتہِ دوستی ہے سلامت
شکیب جلالی

جب بھی ان سے نگاہ ملتی ہے

جب بھی ان سے نگاہ ملتی ہے
آرزو میں شرار ڈھلتے ہیں
جس طرح بادلوں کے سایے میں
وادیوں کے چنار جلتے ہیں
شکیب جلالی

ان کو خودبیں بنا دیا میں نے

ان کو خودبیں بنا دیا میں نے
اب محبّت بھرے وہ بول نہیں
غم کی قیمت بدلتی رہتی ہے
آج اشکوں کا کوئی مول نہیں
شکیب جلالی

تیرے دو دن کے پیار پر ہمدم

تیرے دو دن کے پیار پر ہمدم
جانے کیوں ہم نے اعتماد کیا
کیا اسے حُسنِ التفات کہیں
بھول کر بھی نہ ہم کو یاد کیا
شکیب جلالی

یاد آؤ نہ اتنی رات گئے

یاد آؤ نہ اتنی رات گئے
آرزو کے دیے بُجھانے دو
مجھ کو پھولوں کی سیج دے نہ سکے
خارزاروں میں سو ہی جانے دو
شکیب جلالی

یہ حقیقت ہے چُھپ نہیں سکتی

یہ حقیقت ہے چُھپ نہیں سکتی
بات کہتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں
میرے لَب پر ہنسی نہیں ہوتی
زندگی سے مذاق کرتا ہوں
شکیب جلالی

موت سے کس لیے ڈراتے ہو

موت سے کس لیے ڈراتے ہو
زندہ رہنے کی کوئی بات کرو
چاہتے ہو اگر سحر کی نمُود
یہ چراغاں بجھا دو‘ رات کرو
شکیب جلالی

یہ حقیقت ہے جس قدر اُلجھیں

یہ حقیقت ہے جس قدر اُلجھیں
گیسوئے زندگی سنورتے ہیں
کس طرح عزم پُرجِلا ہو گی
راہ رَو تجربے سے ڈرتے ہیں
شکیب جلالی

زندگانی کے ہاتھ سے ہمدم

زندگانی کے ہاتھ سے ہمدم
آج اُمیدوں کی ڈور چھوٹ گئی
جب اندھیروں کے کارواں لپکے
اک مسافر کی آس ٹوٹ گئی
شکیب جلالی

میرے ہمراہ وہ اگر چلتے

میرے ہمراہ وہ اگر چلتے
تیرگی میں چراغ مل جاتا
ان کی آنکھیں جو رہ برَی کرتیں
مے کدے کا سُراغ مل جاتا
شکیب جلالی

ہر خوشی وقفِ اضطراب ہوئی

ہر خوشی وقفِ اضطراب ہوئی
غم کی بانہوں میں ڈھونڈتا ہوں سُکوں
مے کدے سے اُداس لَوٹا ہوں
اپنی آہوں میں ڈھونڈتا ہوں سُکوں
شکیب جلالی

آج کی بات دوست کل پہ نہ ٹال

آج کی بات دوست کل پہ نہ ٹال
جانے ہم کل تلک جیے کہ مرے
تیرے وعدے پہ اعتبار تو ہے
زیست پر اعتبار کون کرے
شکیب جلالی

مٹ گیا غم دیارِ غربت کا

مٹ گیا غم دیارِ غربت کا
آرزو نے نئی ادا پائی
ہو گیا جانِ عید وہ لمحہ
جب تصوّر میں تیری شکل آئی
شکیب جلالی

مسکراہٹ لَبوں پہ پھیکی سی

مسکراہٹ لَبوں پہ پھیکی سی
کیسی تقدیر سو گئی اپنی
یہ تو اللہ جانتا ہے شکیبؔ
جیسی کچھ عید ہو گئی اپنی
شکیب جلالی

جانے کیوں ان کے سبز آنچل پر

جانے کیوں ان کے سبز آنچل پر
یوں ٹپکتے تھے نرگسی پارے
جس طرح رات کی سیاہی میں
عرش سے ٹوٹتے ہوئے تارے
شکیب جلالی

چاندنی راتیں مجھے کرتی ہیں تلقینِ گناہ

چاندنی راتیں مجھے کرتی ہیں تلقینِ گناہ
حُسن خود ہے ایک سنگم کفر اور ایمان کا
نیچی نظروں کے پیام، اٹھتی جوانی اے شکیبؔ
پھر بتاؤ کیوں بہک جائے نہ دل انسان کا
شکیب جلالی

جگر میں سوزِ نہاں ، لب پہ مسکراہٹ ہے

جگر میں سوزِ نہاں ، لب پہ مسکراہٹ ہے
شکیبؔ کہتے ہیں مجھ کو وفا، نصیب ہوں میں
غرورِ حسن مجھے اجنبی سمجھتا ہے
وگرنہ آج بھی اس کے بہت قریب ہوں میں
شکیب جلالی

عیدِ وطن

اس طَوراب کے گزری ہے اہلِ چمن کی عید

جیسے وطن سے دور غریبُ الوطن کی عید

دستِ جمیل رنگِ حنا کو ترس گئے

بوئے سَمن کو ڈھونڈتی ہے پیرَہَن کی عید

عارض ہیں زخم زخم تو آنکھیں لَہو لَہو

دیکھی نہ ہو گی دوستو اس بانکپن کی عید

گُل رنگ قہقہوں کی فصیلوں سے دور دور

نالہ بہ لب گزر گئی غُنچہ دہن کی عید

اے ساکنانِ دشتِ جنوں کس نشے میں ہو

شعلوں کی دَسترَس میں ہے سَرو و سَمن کی عید

شکیب جلالی

گیت

بہاروں کی ملکہ یہ بھونروں کی رانی

گلابی ادائیں ‘ شگفتہ جوانی

’’کوئی سن لے اَمرت نگر کی کہانی‘ ‘

یہ پیاسی امنگیں ‘ یہ نیناں رسیلے

’’مدُھرتا کے رسیا مدُھرتا کو پی لے‘ ‘

یہ گل رنگ مکھڑا کہ چندا لجائے

شگوفوں کو ڈھانکے، پَھبَن کو چھپائے

’’کوئی مجھ کو دیکھے مرے گیت گائے‘ ‘

یہ پیاسی امنگیں ‘ یہ نیناں رسیلے

’’مدُھرتا کے رسیا مدُھرتا کو پی لے‘ ‘

یہ پھولوں کی مالا‘ یہ بانہوں کے جُھولے

یہ رنگین کونپل شفق جیسے پُھولے

’’کوئی ان میں مچلے کوئی ان کو چُھولے‘ ‘

یہ پیاسی اُمنگیں یہ نیناں رسیلے

’’مدُھرتا کے رسیا مدُھرتا کو پی لے‘ ‘

اُمنگوں پہ غالب ہے صیّاد کا ڈر

مگر گنگناتا ہے پیروں کا زیور

’’کوئی دل میں آئے زمانے سے چُھپ کر‘ ‘

یہ پیاسی اُمنگیں ‘ یہ نیناں رسیلے

’’مدُھرتا کے رسیا مدُھرتا کو پی لے‘ ‘

شکیب جلالی

شہیدِ اعظم

نہ زلزلوں سے ہراساں ، نہ آندھیوں سے ملول

مثالِ کوہ تھے دشتِ بلا میں سبطِ رسولؐ

وہ زخمِ پاے مبارک، وہ برچھیاں ‘ وہ ببُول

وہ العَطَش کی صدائیں ‘ وہ تپتی ریت‘ وہ دُھول

شہید خاک پہ تڑپیں ‘ رِدائیں چھن جائیں

یہ امتحاں بھی گوارا‘ وہ امتحاں بھی قبول!

زمینِ کرب و بلا تجھ کو یاد تو ہو گی

لُہو میں ڈوب کے نکھری تھی داستانِ حُسینؑ

ہزار ظلم و تشدّد کی آندھیاں آئیں

کسی طرح نہ مٹا دہر سے نشانِ حُسینؑ

لَبوں پہ کلمہِ حق ہے دلوں میں ذوقِ جہاد

جہاں میں آج بھی رہتے ہیں ترجمانِ حُسینؑ

اگر حُسینؑ نہ دیتے سراغِ منزلِ حق

زمانہ کُفر کی وادی میں سو گیا ہوتا

جہاں پہ چھاگئے ہوتے فنا کے سنّاٹے

شعورِ زیست اندھیروں میں کھو گیا ہوتا

شکیب جلالی

شعلہِ دل

کبھی کبھی تو سرِ راہ دیکھ کر ہم کو

تمھارے سر سے بھی آنچل سرک ہی جاتا ہے

تمھاری عنبریں زُلفوں کی تیز لپٹوں سے

ہمارا سینہِ ویراں مہک ہی جاتا ہے

کوئی تو بات ہے جو ہم کو مُلتفت پآ کر

بصد غرور کبھی مسکرا بھی دیتی ہو

اداے خاص سے لہرا کے، رقص فرما کے

ہمارے شعلہِ دل کو ہوا بھی دیتی ہو

کبھی بہ پاسِ تقدّس، ہماری نظروں سے

اُلجھ کے ٹوٹ گئی ہے تمھاری انگڑائی

قسم خدا کی بتاؤ بوقتِ آرایش

حضورِ آئنہ تم کو حیا نہیں آئی

ہماری شورشِ جذبات کے تخاطب پر

تمھارے ہونٹ یقینا پھڑکنے لگتے ہیں

وُفورِ شوق کی رِم جِھم سے شوخ سینے میں

کبھی کبھی تو کئی دل دھڑکنے لگتے ہیں

اب اپنے نیم تغافل سے باز آجاؤ

تمھیں غرور ہی لازم ہے سرکشی تو نہیں

ہمارے ذوقِ طلب کے جواب میں حائل

ذرا سی شرم و حیا ہے ستم گری تو نہیں

نظر ملا کے محبّت کا اعتراف کرو

جو کرسکو تو حقیقت سے انحراف کرو

شکیب جلالی

غازی کا ترانہ

میں غازی ہوں مجھے عزم و یقیں کا شہر کہتے ہیں

مرے ہر وار کو دشمن خدا کا قہر کہتے ہیں

مجھے شعلوں کا دریا‘ بجلیوں کی نہر کہتے ہیں

سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا

میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا

عُقابی ہیں مری آنکھیں چمک جن میں شراروں کی

مرے ہی بازوؤں میں ہے صلابت کوہ ساروں کی

مری ہیبت سے لرزاں ہیں فضائیں کارزاروں کی

سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا

میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا

مری تکبیر کے آگے بموں کی گھن گرج کیا ہے

وہ ٹینکوں کی قطاریں لے کے آجائیں حرج کیا ہے

میں ہوں خیبرشکن‘ میرے یے دیوارِ کَج کیا ہے

سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا

میں غازی ہوں ‘ قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا

پسینہ جس جگہ میرا گرے بارُود بُجھ جائے

اگر چاہوں قمر کی مشعلِ بے دُود بُجھ جائے

بدن کی خاک جھاڑوں آتشِ نمرود بُجھ جائے

سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا

میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا

ستونِ آہنی ہو کر ہَوا کی چال رکھتا ہوں

رگ و پَے میں رواں اک شعلہِ سیّال رکھتا ہوں

فرشتوں کی کمک اور آسماں کی ڈھال رکھتا ہوں

سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا

میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا

میں اعدا کو فنا کر کے ہی اب شمشیر ڈالوں گا

اگر بھاگے گا دشمن پاؤں میں زنجیر ڈالوں گا

میں پربت کاٹ ڈالوں گا سمندر چیر ڈالوں گا

سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا

میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا

شہادت زندگی کا میری اصلِ مُدّعا ٹھہری

مرے مقصد کی سچّائی مری وجہِ بقا ٹھہری

متاعِ خلد میری جاں نثاری کا صلہ ٹھہری

سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا

میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا

شکیب جلالی

الجیریا کے نام

کاکل ترے زرکار تھے

عارض شگوفہ زار تھے

ابر و اپی تلوار تھے

اے خستہِ تیغِ جفا

الجیریا … الجیریا

پاؤں میں تیرے بیڑیاں

چہرے پہ زخموں کے نشاں

دل میں گڑی ہیں سُولیاں

اب ہے سماں ہی دوسرا

الجیریا … الجیریا

تشنہ دَہاں تیرے سُبو

ارزاں ہے جِنس آبرو

مقتل سجے ہیں چار سُو

ہر اک ستم تجھ پر رَوا

الجیریا … الجیریا

بپھرا ہوا ہے سیلِ خُوں

صحرا بہ صحرا لالہ گوں

لرزاں ہے کوہِ بے سُتوں

بندِ مصائب تا کجا؟

الجیریا … الجیریا

پچھلا پَہَر ہے رات کا

ٹوٹیں گے تارے جا بجا

جلتی رہے شمعِ وفا

چمکے گا سورج دیکھنا

الجیریا … الجیریا

شکیب جلالی

سراب

……… 1 ………

مدتوں کنجِ قفس میں ہم نے

آشیانے کے لیے خواب بُنے

چاندنی رات کی مہکاروں میں

گنگنانے کے لیے خواب بُنے

اپنے تاریک شَبستانوں کو

جگمگانے کے لیے خواب بُنے

……… 2………

بزمِ ہستی میں اندھیرا ہی رہا

ماہ پَاروں کا فُسوں ٹوٹ گیا

جن سے غنچوں نے ہنسی مانگی تھی

ان بہاروں کا فُسوں ٹوٹ گیا

یا تو گرداب سے ابھرے ہی نہ تھے

یا کِناروں کا فُسوں ٹوٹ گیا

……… 3 ………

تُند موجوں سے اَماں مل نہ سکی

تیز دھاروں میں بھٹکتے ہی رہے

سایہِ گُل کے طلب گار تھے ہم

خارزاروں میں بھٹکتے ہی رہے

رہ نماؤں کا کرم کیا کہیے

رہ گزاروں میں بھٹکتے ہی رہے

……… 4 ………

تلخیِ زیست وہی ہے اب تک

وہی غم ہیں ‘ وہی تنہائی ہے

جب بھی فنکار نے لَب کھولے ہیں

ایک زنجیر سی لہرائی ہے

صبحِ آزادیِ گلشن تو نہیں

شبِ غم بھیس بدل آئی ہے

شکیب جلالی

بہ یادِ قائدِ اعظم

کفِ صبا پہ مہکتا ہوا گلاب تھا وہ

رَوش رَوش تری خوشبو سے مُشک بار ہوئی

کرن کرن ترے پَرتو سے تاب دار ہوئی

کفِ صبا پہ مہکتا ہوا گلاب تھا وہ

نگارِ موسمِ گُل کی جبیں کا داغ ہیں ہم

ہمیں سے لالہ و گُل کی قبا رفُو نہ ہوئی

ہمیں سے زحمتِ تائیدِ رنگ و بُو نہ ہوئی

نگارِ موسمِ گُل کی جبیں کا داغ ہیں ہم

مہ و نجوم کے جَھرنوں پہ نوحہ خواں ہوتے

تجھے جو خضر سمجھتے تو ہم یہاں ہوتے؟

شکیب جلالی

فریادی

کوئی نہیں ہے جو بُجھتی آنکھوں میں زندگی کے دیے جلادے

کوئی نہیں ہے جو دل کے دریا میں حسرتوں کے کنول کھلا دے

لبوں کی پگڈنڈیوں پہ آہوں کے گرم رَو قافلے رواں ہیں

کٹیلی آنکھیں لہُو لہُو ہیں ‘ ہلالی ابرُو دھواں دھواں ہیں

نظر پہ پَت جَھڑکی زردیوں کے مُہیب سایے بہت گراں ہیں

چمکتے تاروں کی آبِ جُو میں دُھلے ہوئے سائباں کہاں ہیں

نکیلی پلکوں کی سُولیوں پر حنائی اشکوں کے سرد لاشے

نہ جانے کب سے ٹنگے ہوئے ہیں نہ جانے کب تک ٹنگے رہیں گے

سمے کے جنگل میں شب کی ناگن لپکتی پھرتی ہے پَھن اٹھائے

سُلگتے داغوں کی روشنی کو کہیں یہ ڈس کر چلی نہ جائے

قدم قدم پر ستارے ٹوٹیں رَوش رَوش پر ہوا ڈرائے

اُجاڑ راہوں میں دل کی دھڑکن کسے پکارے‘ کسے بلائے

کوئی نہیں ہے جو بُجھتی آنکھوں میں زندگی کے دیے جلادے

کوئی نہیں ہے جو دل کے دریا میں حسرتوں کے کنول کھلادے

شکیب جلالی

غمِکوہکن

چار سُو آگ تھی نفرت کی لگائی ہوئی آگ

ہاں وہ آتش کدہِ‘ غیر سے لائی ہوئی آگ

جس نے کعبوں کو‘ کنشتوں کو بَھسَم کر ڈالا

جسم اور رُوح کے رشتوں کو بَھسَم کر ڈالا

میں نے اس آگ کو گُل زار بنانے کے لیے

دامنِ گُل کو شراروں سے بچانے کے لیے

دیدہِ شوق میں اشکوں کے سمندر پالے

قلبِ نادار میں داغوں کے نگینے ڈھالے

نہ ہوئے پر نہ ہوئے سرد جہنم کے شرار

مسکراتے رہے ذہنوں میں دھو ئں کے مینار

درمیانِ دل و جاں آگ کی دیوار رہی

زندگی کس کے لیے برسرِ پیکار رہی؟

شکیب جلالی

اے سرزمینِ الجزائر

چپّے چپّے سے اُبلتے ہوئے خُوں کے چشمے

تیری مظلومیِ بے حد کا پتہ دیتے ہیں

کتنے جابر ہیں نئے دور کے سلطاں زادے

تیری معصوم اُمنگوں کو سزا دیتے ہیں

جب بھی جولانیاں کرتا ہے ترا عزمِ جمیل

تیرے گرد اک نئی دیوار اٹھا دیتے ہیں

آگ محرومی کی روشن ہے جو تیرے دل میں

اپنے دامن سے اسے اور ہوا دیتے ہیں

—–

اس سے پہلے بھی یوں ہی جھلسے گئے دیدہ و دل

جسم روندے گئے تپتے ہوئے صحراؤں میں

تشنگی کاسہ بدست آئی تو شبنم نہ ملی

زہر گھولا گیا بہتے ہوئے دریاؤں میں

گرمیِ شوق نے جب انجمن آرائی کی

فصد کھولی گئی تیروں کی گھنی چھاؤں میں

خوں چکاں لاشوں پہ تعمیر ہوئے راج محل

روز اوّل سے یہی رسم ہے آقاؤں میں

خسرو و جَم نے تشدّد کا سہارا ڈھونڈا

ورنہ انسان تھے وہ کیسے خدائی کرتے؟

—–

چِلچلاتی ہوئی دھوپوں میں بھٹکتے پھرتے

سایہِ زُلف میں کیوں نغمہ سرائی کرتے؟

ان کی لغزش بھی سرِ راہ اُچھالی جاتی

لوگ ہر گام پہ انگشت نمائی کرتے!

دانے دانے پہ تھی محنت کش و جمہور کی مُہر

اپنی نسلوں کے لیے خاک کمائی کرتے

—–

یہ ہے وہ موڑ مگر رَہ گزرِ ہستی کا

کہ بہکتے ہوئے قدموں کو سنبھلنا ہو گا

ملک گیری کا تصوّر ہے لہو میں غلطاں

مُسکراتی ہوئی اقدار پہ چلنا ہو گا

امنِ عالم خس و خاشاک کا خرمن ہی تو ہے

سر اٹھاتے ہوئے شعلے کو کُچلنا ہو گا

کوئی ذرّہ ہو کہ صحرا‘ کوئی پتّھر کہ پہاڑ

تودہِ برف کے مانند پگھلنا ہو گا

شکیب جلالی

عید

اونچے محلوں میں پائل چھنکاتی ہے عید

میری گلی میں آتے ہوئے شرماتی ہے عید

پاس آئی تو جیسے مٹّی بن جائے گی

دُور ہی دُور سے اپنی چَھب دکھلاتی ہے عید

جلتے زخموں میں اور آگ سی بھردیتی ہے

دُکھی دلوں کو اور دُکھی کرجاتی ہے عید

تن پر اُجلے کپڑے اور نہ جھولی میں لعل

ہم کنگالوں سے کیا لینے آتی ہے عید

زرّیں کنگن کیسے پہنائیں خوشیوں کو

من کو نت نئی سوچوں میں اُلجھاتی ہے عید

شکیب جلالی

موجِ خرامِ عید

عید آئی تو یاد آنے لگے

دُور کے چاند‘ روشنی کے داغ

پیار کے پُھول‘ دوستی کے داغ

ہجر کے گیت‘ خامُشی کے داغ

نِت نئے زخم مُسکرانے لگے

زخم ناداریِ گُلستاں کے

زخم پُرکاریِ نگہباں کے

زخم غم خواریِ بیاباں کے

سیکڑوں تیِر اک رگِ جاں ہے

عِید بھی کیا بہار ساماں ہے

شکیب جلالی

شعورِ آزادی

بہشتِ شوق میں ڈھالیں گے خاکدانِ وطن

تلاشِ حُسن میں گرداں ہیں عاشقانِ وطن

دھواں دھواں ہی سہی کوچہِ بتانِ وطن

جبیں کے پاس تو ہے سنگِ آستانِ وطن

عیاں ہیں خونِ شہیداں کی عظمتوں کے نقُوش

زبانِ لالہ و گُل پر ہے داستانِ وطن

نسیمِ صبح کے جھونکے ذرا سہارا دے

اُبھر رہے ہیں اندھیروں سے خستگانِ وطن

وہ منتہیٰ نہ سہی کوئی سنگِ میل سہی

کسی مقام پہ پہنچا تو کاروانِ وطن

ہر ایک کُنج یہاں قابلِ نظارہ ہے

بس ایک گوشے پہ کیوں کیجیے گمانِ وطن

ہجومِ تشنہ لَباں دیکھتا ہے حسرت سے

غریقِ بادہ و ساغر ہیں خواجگانِ وطن

ہوا چلے تو فضائیں دمکنے لگتی ہیں

تہی نہیں ہے شراروں سے خاکدانِ وطن

اسے جسارت بے جا نہیں تو کیا کہیے

جنوں سے آنکھ ملاتے ہیں خسروانِ وطن

سدا دبی نہ رہے گی ضمیر کی آواز

یہ ایک مات بھی کھائیں گے شاطرانِ وطن

ابھی تو اور بڑھے گا شعورِ آزادی!

ابھی تو خواب سے چونکے ہیں ساکنانِ وطن

شکیب جلالی

طلوعِ سحر

فروغِ سُنبل و ریحاں کا وقت آپہنچا

اُٹھو کہ جشنِ بہاراں کا وقت آپہنچا

پگھل رہے ہیں گراں بار شب کدوں کے ستون

طلوعِ مہرِ درخشاں کا وقت آپہنچا

کوئی حسین سی تعبیر ڈھونڈ کر لاؤ

شکستِ خوابِ پریشاں کا وَقت آپہنچا

شبِ فراق کٹھن تھی مگر تمام ہوئی

وصالِ مہر جبیناں کا وقت آپہنچا

چلو چلو کہ بگولوں کا رقص ختم ہوا

طوافِ کوُچہِ جاناں کا وقت آپہنچا

دلوں کے داغ چھپاؤ‘ ہنسی کو عام کرو

شکستِ کُلفتِ دَوراں کا وقت آپہنچا

مرے رفیقو! ہنسو اور خوب کُھل کے ہنسو

نمایش لب و دنداں کا وقت آپہنچا

صنم کدوں کے درو بام سر بہ سجدہ ہیں

عُروجِ حضرتِ انساں کا وقت آپہنچا

نشانِ عظمتِ جمہور پھر بلند کرو

زوالِ سطوتِ شاہاں کا وقت آپہنچا

شکیب جلالی

انتظارِ بہار

کہاں سے آئی کدھر کو گئی نگارِ بہار

کہ گُلستاں میں ابھی تک ہے انتظارِ بہار

شگوفہ زار ہی مہکے نہ کو نپلیں پُھوٹیں

چمن میں پھر بھی منائی ہے یادگارِ بہار

یہی ہے قافلہِ رنگ و بُو کا حُسنِ خرام

کہ چُھپ گئی ہے بگولوں میں رہ گزارِ بہار

نہ چہچہے‘ نہ ترنّم‘ نہ زمزمے‘ نہ سرود‘

یہ بات کیا ہے کہ گُم صُم ہیں نغمہ کارِ بہار

کسی رَوش میں کوئی پُھول کِھل گیا تو کیا

قفس سے دشت و جبل تک ہو رہ گزارِ بہار

خزاں کی رات کٹھن ہے تو جاگ کر کاٹو

کہ زیرِ دار ہی سوتے ہیں جاں نثارِ بہار

شکیب جلالی

جوالا مکھی

کروٹیں خود بھی بدلتا ہے جہاں کا محور

جب زمیں گردشِ ایّام سے تھک جاتی ہے

جسم چھل جاتا ہے دھرتی کا رگڑ کھا کھا کر

لاکھ سنگین سہی جلد مَسک جاتی ہے

………………

سنگ اَندام شگافوں سے دھواں رِستا ہے

بطنِ گیتی سے بُخارات اُبل پڑتے ہیں

ملگجی دُھند سی آفاق پہ چھا جاتی ہے

تیرہ انداز گھٹاؤں سے شرر جھڑتے ہیں

………………

ایک بجلی سی تڑپتی ہے زمیں کے اندر

چادرِ خاک بہر سِمت سمٹ جاتی ہے

شعلے اٹھنے کے لیے راہ بنا لیتے ہیں

کوہساروں کے چٹخنے کی صدا آتی ہے

………………

زلزلوں کی وہ گراں بار بھیانک ضربیں

گنبدِ عرش کی بُنیاد ہلا دیتی ہیں

پنجہِ قہر کی مضبوط کمندیں اکثر

ایک جھٹکے سے پہاڑوں کو گرالیتی ہیں

………………

کچّی دھاتوں کے جراثیم لیے دامن میں

آتشیں لاوے کا سیلاب اُمنڈ آتا ہے

پھیل جاتے ہیں بہر سمت رقیق انگارے

کُرہِ ارض حرارت سے پگھل جاتا ہے

………………

خُوں اُگلتی ہیں فضائیں تو زمیں روتی ہے

آہِ مظلوم میں تاثیر یہی ہوتی ہے

شکیب جلالی

سلام

دلوں میں درد سا اُٹّھا‘ لیا جو نامِ حسینؑ

مثالِ برق تڑپنے لگے غلامِ حسینؑ

لَبِ فرات جو پیاسے رہے امامِ حسینؑ

خدا نے بھر دیا آبِ بقا سے جامِ حسینؑ

رضا و صبر میں ان کا جواب کیا ہو گا

کہ جب بھی تیر لگا‘ ہنس دیے امامِ حسینؑ

غرورِ تیرگیِ شب کو توڑنے کے لیے

تمام رات دہکتے رہے خیامِ حسینؑ

فنا کا ہاتھ وہاں تک پہنچ نہیں سکتا

اَبَد کی لَوح پہ کَندہ رہے گا نامِ حسینؑ

کسی شہید کا خوں رایگاں نہیں جاتا

جہانِ نو کے یزیدو! سنو، پیامِ حسینؑ

شکیب جلالی