میں غازی ہوں مجھے عزم و یقیں کا شہر کہتے ہیں
مرے ہر وار کو دشمن خدا کا قہر کہتے ہیں
مجھے شعلوں کا دریا‘ بجلیوں کی نہر کہتے ہیں
سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا
میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا
عُقابی ہیں مری آنکھیں چمک جن میں شراروں کی
مرے ہی بازوؤں میں ہے صلابت کوہ ساروں کی
مری ہیبت سے لرزاں ہیں فضائیں کارزاروں کی
سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا
میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا
مری تکبیر کے آگے بموں کی گھن گرج کیا ہے
وہ ٹینکوں کی قطاریں لے کے آجائیں حرج کیا ہے
میں ہوں خیبرشکن‘ میرے یے دیوارِ کَج کیا ہے
سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا
میں غازی ہوں ‘ قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا
پسینہ جس جگہ میرا گرے بارُود بُجھ جائے
اگر چاہوں قمر کی مشعلِ بے دُود بُجھ جائے
بدن کی خاک جھاڑوں آتشِ نمرود بُجھ جائے
سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا
میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا
ستونِ آہنی ہو کر ہَوا کی چال رکھتا ہوں
رگ و پَے میں رواں اک شعلہِ سیّال رکھتا ہوں
فرشتوں کی کمک اور آسماں کی ڈھال رکھتا ہوں
سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا
میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا
میں اعدا کو فنا کر کے ہی اب شمشیر ڈالوں گا
اگر بھاگے گا دشمن پاؤں میں زنجیر ڈالوں گا
میں پربت کاٹ ڈالوں گا سمندر چیر ڈالوں گا
سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا
میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا
شہادت زندگی کا میری اصلِ مُدّعا ٹھہری
مرے مقصد کی سچّائی مری وجہِ بقا ٹھہری
متاعِ خلد میری جاں نثاری کا صلہ ٹھہری
سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا
میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا
شکیب جلالی
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔