لوگ دنیا میں گھٹ کے مر جاتے
کوئی بندہ اگر خدا ہوتا
جذبۂ دل کا ہے نام آزادی
ورنہ زنداں کا در نہیں ہوتا
حاصل شور سلاسل معلوم
وہی زنداں ہے وہی گھر اپنا
جھک گئی ہے نگاہ کیوں باقیؔ
ایک تہمت ہوئی کرم نہ ہوا
پرسش غم سے بھی ان کا مقصد
پرسش غم کے سوا کیا ہو گا
خود کو جکڑا ہوا پایا ہم نے
جس جگہ یاد وہ صیاد آیا
راہبر کا طلسم جب ٹوٹا
یاد ایک ایک ہم سفر آیا
ترے جمال کی آرائشیں نہ ختم ہوئیں
مرا خیال جنوں کی حدیں بھی چھو آیا
ہواؤں کا رُخ بھی کوئی چیز ہے
سفینہ جدھر بہہ گیا، بہہ گیا
در پہ دستک کسی نے دی باقیؔ
کوئی پرسان حال آ ہی گیا
میرے ذوق نظر کا کیا ہو گا
چند پھولوں میں بٹ گئی ہے بہار
روشنی میرے مقدر میں کہاں
دور سے دیکھتا جاتا ہوں چراغ
آج تک بدگماں ہیں وہ ہم سے
آ گیا تھا ذرا جہاں کا خیال
اک خرابے کا تماشا بھی دیکھ
اک نئے شہر کی آواز بھی سن
یہ حادثے یہ الم بار ہوتے جاتے ہیں
نقاب اٹھاؤ بس اب شرح کائنات کرو
پرواز کا وقت آ گیا تھا
ہم دیکھ سکے نہ بال و پر کو
آتی نہیں دل کی بات لب تک
خاموش رہیں گے پھر بھی کب تک
اپنے گھر کی خبر نہیں باقیؔ
وہ ستارہ شناس ہیں ہم لوگ
باد خزاں کا فیض ہے یا لغزش بہار
کچھ پھول ٹوٹ کر مرے داماں میں آئے ہیں
کیا آپ سے کہہ دیا کسی نے
کس سوچ میں آپ پڑ گئے ہیں
کس طرح پہنچے کوئی منزل تک
راہ میں راہنما بیٹھے ہیں
اس طرح بھی ہے اک جہاں آباد
جس طرف آپ کی نگاہ نہیں
اپنا اپنا راستہ لیں اہل ذوق
شمع محفل اور جل سکتی نہیں
سب کو احساس سے خالی نہ سمجھ
دردمندوں کو سوالی نہ سمجھ
دل کی دیوار گر گئی شاید
اپنی آواز کان میں آئی
چراغ لالہ میں جلتا رہا ہے خون بہار
یہ اور بات کہ گلشن میں روشنی نہ ہوئی
منزلوں کی کمی نہ تھی باقیؔ
زندگانی کہیں تھمی ہوتی
رات پنگھٹ پہ کون آیا تھا
بالکل آواز تھی ترے جیسی
جب جھجک کر تری نگاہ ملی
حادثات جہاں کو راہ ملی
رات بھر ہم کروٹیں لیتے رہے
رات بھر ڈھولک کہیں بجتی رہی
دل و نگاہ کا پردہ کبھی اٹھا تو سہی
تو اپنی ذات کے مدفن سے باہر آ تو سہی
کوئی کس طرح ان کو سمجھائے
بات چھیڑو تو بات کھل جائے
اے دوست مرگ و زیست کے مابین تابہ کے
بیٹھے رہو گے تم حد فاصل بنے ہوئے
ایک دیوار کی دوری ہے قفس
توڑ سکتے تو چمن میں ہوتے
ہوئے آزاد لیکن آ رہی ہے
قفس کی بو ابھی تک بال و پر سے
بات کہہ دیتے تو اچھا ہوتا
چپ کے تو سینکڑوں پہلو نکلے
خوشبو ہم تک آ نہ سکی
پھول کچھ اتنی دور کھلے
اتنے گل بھی نہیں ہیں گلشن میں
جتنے کانٹے چبھو لئے ہم نے
دیکھ کر رنگ تیری محفل کے
زخم آنکھوں میں آ گئے دل کے
جانے وہ چپ رہے ہیں کیوں ورنہ
بات کرنے کے سو بہانے تھے
اس طرح اٹھے تری محفل سے
جیسے ہم بھول کے آ بیٹھے تھے
پرسش حال بھی رہنے دیجے
اس تکلف کی ضرورت کیا ہے
ہم نے افسانہ کر دیا ہے رقم
آگے سب کچھ فسانہ خواں تک ہے
عشق اب اپنی حفاظت خود کرے
حسن اپنے آپ سے بیگانہ ہے
یوں آج خموش ہے زمانہ
جیسے کوئی بات ہو گئی ہے
محبت تھی تری پہلی نظر تک
اب آگے دشمنی ہی دشمنی ہے
اک نظر تیری مرا دل بن گئی
میرے سینے میں تو کوئی دل نہ تھا
صبح امید کا خیال نہ پوچھ
ہم نے سوچا ہے رات بھر کیا کیا
ہر سوچ کا راستہ ہے مسدود
مجبور کا اختیار ہیں ہم
گردش دنیا ہے آئنہ بدست
کس قدر حیراں نظر آتے ہیں ہم
کیا رنگ حیات پوچھتے ہو
کچھ لوگ ہیں اور کچھ مکاں ہیں
تارے درد کے جھونکے بن کر آتے ہیں
ہم بھی نیند کی صورت اڑتے جاتے ہیں
کہاں کا زاد سفر خود کو چھوڑ آئے
تمہاری راہ میں ایسے بھی موڑ آئے ہیں
تم ظلمتوں میں دل کی کرن پھینکتے رہو
اس گھر کی روشنی کا مدار آگ پر سہی
کلی تمہارا تبسم، صبا تمہارا خیال
تمہارے سامنے کیا ذکر رنگ و بو کرتے
گونجتی تھی کہیں صدائے جرس
قافلے دل سے رات بھر گزرے
کھائیں کیوں دہر کا غم دیوانے
اور دنیا میں ہیں کم دیوانے
انقلابات کے آئنے میں
صورت راہنما دیکھی ہے
وقت کے اڑتے ہوئے لمحوں میں
آج کی بات بھی فرسودہ ہے
کدھر گئی وہ محبت، کہاں گیا وہ سکوں
کوئی تو پوچھتا یہ بات شہر والوں سے
تیری رحمت کا سہارا مل گیا
ورنہ بندہ تو کسی قابل نہ تھا
آئنہ بن گئی شفق باقیؔ
یاد آیا دم سحر کیا کیا
جلتی ہے جو شہر شہر باقیؔ
اس آگ کا اک شرار ہیں ہم
روشنی راہوں کی یاد آنے لگی
دور منزل سے ہوئے جاتے ہیں ہم
جاتی نہیں تیرگی دلوں کی
رستے تو مثل کہکشاں ہیں
جب انداز بہاروں کے یاد آتے ہیں
ہم کاغذ پر کیا کیا پھول بناتے ہیں
کوئی تو محفل گل کی بہار دیکھے گا
کلی کلی پہ لہو ہم نچوڑ آئے ہیں
ہونٹوں پہ مہر بن گئیں ان کی عنایتیں
راز درون خانہ کی مجھ کو خبر سہی
ہر ایک آدمی اڑتا ہوا بگولا تھا
تمہارے شہر میں ہم کس سے گفتگو کرتے
منزلوں دل نے لی نہ انگڑائی
حادثے کیا دم سفر گزرے
سنگ منزل کی طرح بیٹھ گئے
چل کے دو چار قدم دیوانے
دل ٹھہرتا نہیں ہے سینے میں
جانے کیا بات ہونے والی ہے
مقتل زیست میں سب کا دامن
اپنے ہی خون سے آلودہ ہے
باقی صدیقی