باصِر کاظمی سے میری پہلی نظر کی محبت ہے، وہ بھی اُسے دیکھے بغیر۔ شاعری پسند کرنے کے لئے شاعر کودیکھنا ضروری بھی نہیں ہوتا۔ میر کو ہم نے کہاں دیکھا ہے، غالب کو کہاں دیکھا ہے۔ اور کبھی کبھی تو ممدوح کو نہ دیکھنا ہی مداح کے حق میں بہتر ثابت ہوتا ہے۔
پچیس تیس برس قبل کا ذکر ہے، کسی رسالے میں باصِر کی غزل پڑھنے کا موقع ملا۔ حیرت بھی ہوئی، مسرت بھی۔ یہ تعارفی غزل ہی تیر بہ ہدف نکلی اور میں بے اختیار واہ کہہ اُٹھا۔ اُس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ مانوس اجنبی، باصِر سلطان کاظمی کون ہے مگر کچھ ایسا لگا کہ ہوائے دشت سے بوئے رفاقت آتی ہے۔ پھر مختلف اوقات میں اُس کی کچھ اور غزلیں دیکھیں ، نقش گہرا ہوتا گیا۔ آجکل اکثر نئے شعرا کو پڑھ کر با لعموم ضیاعِ وقت پر افسوس ہوتا ہے اور خیال آتا ہے کہ ایں دفتربے معنی غرقِ مئے ناب اولی۔ اِس کے بر عکس باصِر کو پڑھ کر بہت فرحت حاصل ہوتی ہے اور سوچتا ہوں کہ یہ کلام نظر سے نہ گذرا ہوتاتو میرے مطالعے میں کوئی کمی، کوئی تشنگی رہ جاتی۔
بدقسمتی سے ہمارا دور شعر گوئی کے حوالے سے بہ وجوہ دورِ غلط گویاں ہو کے رہ گیا ہے۔ دیگر فنون کی طرح شاعری بھی ایک باقاعدہ فن ہے لیکن افسوس، اب یہ فن سیکھنے کا رواج نہیں رہا۔ ہر مبتدی، ہر نو آموز کو مطالعے، مشق اور اصلاح وغیرہ کے جھنجٹ میں پڑے بغیر براہِ راست پیدائشی شاعر کہلانے کا خبط ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجموعے بے حساب شائع ہو رہے ہیں لیکن بیشتر کی حالت نا قابلِ تبصرہ ہوتی ہے یعنی ناقص الاول، ناقص الاوسط، ناقص الآخر۔ خود رو پودوں کی تراش خراش نہ ہو تو جنگل باغ میں تبدیل نہیں ہو سکتا۔ کوئی بھی تحریر اچھی بری تو بعد میں ہو گی پہلے صحیح تو ہو۔ مانا کہ فطرت کے خزانے میں بھی عموماًپھول کم ہوتے ہیں ، گھاس پھوس کی بہتات ہوتی ہے اور اکثر یہی عالم شاعری میں بھی رہا ہے لیکن عمدہ تخلیقات کی اتنی قلت پہلے نہیں تھی، گویا جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی۔
شکر ہے کہ باصِر اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی بھیڑ کی طرح بر خود غلط اور ’بے اُستادا‘ نہیں ہے۔ اُس نے فن کی طرف بھی خاطر خواہ توجہ دی ہے۔ لہذا مکمل اور بے عیب شعر کہنا اُس کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ اِس اعتبار سے آسانی کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے بیشتر ہمعصروں سے قطعی منفرد ہے لیکن میں یہاں یہ لفظ استعمال نہیں کروں گا کیونکہ شاید اردو شاعری میں ہر لحاظ سے منفرد کہلانے کا حق صرف علامہ اقبال کو ہے۔
فن سے بے بہرہ لوگوں کا ذکر آیا ہے تو یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ موجودہ زمانے میں ایک سِرے سے دوسرے سِرے تک سبھی غلط سلط، انٹ شنٹ بَک رہے ہوں ، بہت سے لوگ درست شعر بھی کہہ رہے ہیں مگر ان مشاق حضرات میں زیادہ تر ایسے ہیں جن کے شعروں میں مزہ نہیں ہوتا، رَس نہیں ہوتا۔ یہاں یاد آیا، غالب نے اپنے ایک شاگرد کو ایک خط میں کچھ اِس قسم کی رائے بھیجی تھی کہ میاں ، تمہاری غزل میں کوئی عیب نہیں ہے، مگر جس طرح کوئی عیب نہیں ہے، اِس طرح کوئی خوبی بھی نہیں ہے۔ پس نتیجہ یہ نکلاکہ تخلیقی ادب کی ایک شرط، اور غالباً اولین شرط یہ بھی ہے کہ اس میں لُطف ہونا، رَس ہونا ضروری ہے، وہ خشک اور سپاٹ ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ ایک بار باتوں باتوں میں باصِر کے ذکر پر ڈاکٹر فاطمہ حسن کہہ رہی تھیں کہ آپ کو دراصل باصِر کاظمی کے پرفیکشن نے متاثر کیا ہے۔ بے شک انہوں نے ٹھیک کہا، واقعی مجھے باصِر کے پرفیکشن نے متاثر کیا ہے کیونکہ فی زمانہ یہ ایک نادر صفت ہو گئی ہے۔ نیز جو کلام پرفیکٹ نہ ہو، وہ دریا بُرد ہو جاتا ہے، ادب کی’ آبِ حیات‘ میں شامل نہیں ہوتا، یا شامل نہیں ہونا چاہئے۔
باصِر کاظمی اپنے گھر کا روشن چراغ ہے۔ اُس نے ناصِر کاظمی کا فرزند ہونے ہی پر اکتفا نہیں کیابلکہ اُس کا حقیقی وارث بن کے دکھایا ہے۔ وہ چاہتا تو اپنے نامور باپ کے ادبی ترکے پر بھی اچھی خاصی آسودہ زندگی گزار سکتا تھا لیکن یہ بات اُس کی خطر پسند طبیعت کو کہاں سازگار آ سکتی تھی۔ اس کے بجائے اُس نے دشوار سمت چُنی اور بسم اللہ کہہ کے قدم اُٹھادیا۔ اور پھر اِس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے، وہ گزری یعنی پہلے پدر خراب ہوا پھر پسر خراب۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پسر نسبتاً زیادہ ’خراب ‘ ہوا یعنی غزل کے ساتھ ساتھ اُس نے نظم اور نثر میں بھی طبع آزمائی کی اور تینوں اصناف میں معرکے کی تحریریں پیش کیں ۔ مثال کے طور پر اُس کا لاجواب ڈرامہ ’بساط‘ ملاحظہ کر لیجئے۔ غزل میں بھی اُس نے ناصِر کاظمی کے رنگ سے ہٹ کر اپنا ڈھنگ نکالا ہے۔ اُسے غزل میں نئے اور غیر روایتی الفاظ کھپانے کا سلیقہ آتا ہے، اس لئے اُس کے اسلوب میں ایک ندرت پیدا ہو گئی ہے۔ اِس ندرت کی شہادت میں اِن دو غزلوں کا حوالہ دینا چاہوں گا:
کر لیا دن میں کام آٹھ سے پانچ
اب چلے دورِ جام آٹھ سے پانچ
اگرچہ کچھ نہیں اوقات ایک ہفتے کی
جو سوچئے تو ہیں یہ دس ہزار ایک منٹ
اب ناصِر کاظمی اپنے گھرانے میں اکیلے نہیں رہے۔ آج وہ ہوتے تو دیکھتے کہ زندگی اور وقت نے اُن کی یہ دعا پوری کر دی ہے:
عمر بھر کی نوا گری کا صلہ
اے خدا کوئی ہم نوا ہی دے
یہ چند سطریں میں نے صرف ثواب کی خاطر لکھی ہیں ع گر قبول افتد زہے ۔ ۔ ۔ اردو ادب کے مشاہیر باصِر کی تحریروں کا تحریری اعتراف کر چکے ہیں ۔ میری کیا مجال کہ اُن کے سامنے لب کشائی کرنے کی جرات کروں ۔ ویسے بھی مشک کی خوشبو اپنے اظہار کے لئے عطار کے لفظوں کی محتاج کہاں ہوتی ہے۔ اجازت دیجئے، اور باصِر کے چند اشعار دیکھئے:
اِس کاروبارِ عشق میں ایسی ہے کیا کشش
پہلے پدر خراب ہوا پھرپسر خراب
اِسقدر ہجر میں کی نجم شماری ہم نے
جان لیتے ہیں کہاں کوئی ستارا کم ہے
اب تجھے کھو کے خیال آتا ہے
تجھ کو پایا تھا بہت کچھ کھو کر
کتنی ہی بے ضرر سہی تیری خرابیاں
باصِر خرابیاں تو ہیں پھر بھی خرابیاں
چل دیے یوں صنم کدے سے ہم
جیسے مل جائے گا خدا باہر
آشنا درد سے ہونا تھا کسی طور ہمیں
تو نہ ملتا تو کسی اور سے بچھڑے ہوتے
عادتیں اور حاجتیں باصِربدلتی ہیں کہاں
رقص بِن رہتا نہیں طاؤس بَن کوئی بھی ہو
(دنیا زاد، کتابی سلسلہ54، دسمبر2017، مرتبہ آصف فرخی، کراچی)