زمرہ جات کے محفوظات: چونسٹھ خانے چونسٹھ نظمیں

چونسٹھ خانے چونسٹھ نظمیں ۔ ڈاکٹر مختارالدین احمد

چونسٹھ خانے چونسٹھ نظمیں کے بارے میں باصِر نے اپنے قلم سے تمام توجیہات بیان کر دی ہیں ، اِس حد تک کہ مجھ جیسا متشکک بھی نثری نظم کا قائل ہوتا جا رہا ہے۔ اردو ادب میں پچھلی صدی کی ابتدا ہی سے نثری نظم کا آغاز ہو چکا تھاجس کو اُس وقت ادبِ لطیف کے نام سے موسوم کیا گیا تھا لیکن یہ دعوی نہیں کیا گیا تھاکہ اس کو نظم کہا جائے۔ جب ٹیگور کی گیتانجلی کا ترجمہ اردو میں ہوا تو وہ نثری نظم کی صورت میں ہمارے سامنے آیا۔ خلیل جبران کی کتاب اُس نے کہا کا ترجمہ بھی نظم اور نثر کے درمیان کی کوئی چیز معلوم ہوتا تھا بلکہ نثری نظم ہی تھا۔

جب باصِر نے بساط لکھنے کا ارادہ کیا ہو گا یہ باتیں اتنی پرانی نہیں تھیں جتنی کہ آج معلوم ہوتی ہیں ۔لیکن ایک بات جو یاد رکھنا ضروری ہے یہ ہے کہ ڈرامہ کلاسیکی زمانے سے منظوم ہی لکھا جاتا تھا، چاہے یونانی ڈرامہ ہو یا سنسکرت کا۔ اب بھی نثری ڈراموں کی زبان نظم کی زبان کے قریب ہوتی ہے، بلکہ ڈرامے اور sitcom میں یہی ایک فرق باقی رہ گیا ہے۔ چنانچہ جب باصِر نے ڈ رامے کی بساط بچھائی تو غیر شعوری طور پر نظمیت ان کی تحریر میں داخل ہو گئی اور کیوں نہ ہوتی کہ باصِر بنیادی طور پر شاعر ہی ہیں ۔

چونسٹھ نظموں میں کئی جگہ بھگوت گیتا اور ارتھ شاستر کی یاد آتی ہے۔ بھگوت گیتا کا اردو ترجمہ بھی نثری نظم معلوم ہوتا ہے۔ گیتا سے یہ دور دراز کی مماثلت اِس لیے ہے کہ شطرنج کی بساط میدانِ جنگ ہی ہوتی ہے جہاں دو کھلاڑی مہروں سے اپنے بادشاہ کی حفاظت اور دشمن کے بادشاہ کی موت کے لیے جنگ لڑتے ہیں ۔کم و بیش یہی موضوع گیتا کا بھی ہے۔ مثلاً یہ نظم ارجن کے تذبذب کی نمائندگی کرتی نظر آتی ہے ورنہ تاج، ہمااور بادشاہت آج کے موضوع نہیں ہیں ، سوائے شطرنج کی بساط پر:

کیا رکھا ہے تاج میں

سر درد کے سوا۔

میں جب بھی کھُلے آسمان تلے ہوتا ہوں ،

ڈرتا رہتا ہوں ،

کہیں مجھ پر سے ہما نہ گزر جائے۔

۔۔ ’باصِر کے شعری مجموعے‘، مشمولہ ’شجر ہونے تک‘، سنگِ میل، لاہور، 2015 ۔۔

باصر کاظمی

چونسٹھ خانے چونسٹھ نظمیں

۔۔ 1 ۔۔

ہم جسے ’حاصل کرنا‘ کہتے ہیں

اس کا مطلب بہت کچھ کھو دینا بھی ہے۔

ایک طرف دیکھنے کے معنی ہیں ،

باقی ہر طرف سے منہ موڑ لینا۔

ایک جگہ پاؤں رکھنے کا مطلب

سینکڑوں جگہ پاؤں نہ رکھنا ہے۔

لیکن ہمارے لیے اہم جگہیں وہی ہیں

جہاں ہمارے قدم پڑے۔

ہر جگہ ہونے کی خواہش

آدمی کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔

۔۔ 2 ۔۔

خوشی ایک زندہ چیز ہے

جو مزید خوشی کو جنم دے سکتی ہے۔

اِسی طرح

نا خوشی سے نا خوشی پیدا ہوتی ہے۔

۔۔ 3 ۔۔

اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کے لیے

دنیا بھی اپنی مرضی کی چاہیے۔

کچھ نہ کرنا بھی کچھ کرنا ہوتا ہے۔

بے عملی بھی ایک عمل ہے جس کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں ۔

اگر آپ دنیا کو بدلنے کی کوشش نہیں کریں گے

تووہ آپ کو بدل دے گی،

آپ کے راستے بند کر دے گی،

آپ کا دم گھونٹ دے گی

اور آپ اپنی شخصیت کے چلتے پھرتے مدفن بن کے رہ جائیں گے۔

۔۔ 4 ۔۔

جہاز کے پیندے میں سوراخ ہو

تو عرشے پر اطمینان سے نہیں بیٹھا جا سکتا۔

خوشی ہمارے اندراُسی وقت پروان چڑھتی ہے

جب ہم اسے باہر فروغ پاتا دیکھیں ۔

آزاد رہنے کے لیے

دوسروں کو آزادی دینا ضروری ہے۔

اُداس لوگوں کے سمندر میں کوئی کیسے خوش رہ سکتا ہے۔

۔۔ 5 ۔۔

جوانی میں آدمی ہرحال میں خوش رہ سکتا ہے،

امید اُس کے ساتھ ہوتی ہے۔

وہ سوچ سکتا ہے کہ آنے والا وقت

اُس کے لیے جانے کیا لے آئے؛

مستقبل اپنے پردوں میں اُس کے لیے

جانے کیسی کیسی کامیابیاں

اور نعمتیں چھپائے ہوئے ہے؛

مگربڑھاپے میں

صرف حصول کا احساس ہی تسکین دے سکتا ہے،

بلکہ وہ بھی نہیں ۔

۔۔ 6 ۔۔

اگر آنے والے دن سے کوئی توقع وابستہ نہ ہو

تو وہ نہ بھی آئے تو کیا فرق پڑتا ہے؟

انتظار کس بات کا؟

جس زندگی میں انتظار نہ ہو

وہ موت سے بدتر ہے۔

۔۔ 7 ۔۔

زندہ رہنے کے لیے سراب ضروری ہیں ۔۔۔

لیکن۔۔۔ پتہ نہ چلے کہ وہ سراب ہیں ۔

سراب کے پیچھے بھاگتے رہنے کا لطف تجسس کی دین ہے۔

چیزوں کی اجنبیت ہمیں اپنی طرف کھینچتی ہے۔

میرا المیہ یہ ہے کہ مجھے بہت سی باتوں کا

وقت سے بہت پہلے علم ہو گیا۔

جوانی بہت تھوڑی دیر رہی۔

وہ دن مجھے اچھی طرح یاد ہیں

جب ہر چیز مجھے اپنی طرف آتی ہوئی محسوس ہوتی تھی؛

لگتا تھا جیسے بہت جلد سب کچھ میرا ہو جائے گا۔

غالباَ اسی کیفیت کو جوانی کہتے ہیں ۔

پھر آناَ فاناَ وہ وقت آ گیا

جب چیزیں خود سے دور ہوتی ہوئی محسوس ہونے لگیں ؛

جو کچھ پاس تھا وہ بھی اپنا نہیں لگتا تھا۔

مجھ پر انکشاف ہونا شروع ہوا

کہ میرا تو کچھ بھی نہیں ہے۔

یہاں تک کہ میں خود بھی اپنا نہیں ہوں ۔

۔۔ 8 ۔۔

آدمی کو ہر لمحے کسی نہ کسی ایسی بات کی حاجت رہتی ہے

جس پر وہ فخر کر سکے۔

لکڑی کے گھوڑے پر بیٹھ کر

زور زور سے اچھلتا ہوا بچہ

کتنے سرور کے عالم میں ،کتنے غرور سے

اپنے ارد گرد دیکھتا ہے۔

دیکھا جائے تو بڑے سے بڑا شہ سوار بھی

لکڑی کے گھوڑے پر بیٹھا نظر آئے گا۔

۔۔ 9 ۔۔

انسان کے مسائل، اُس کے غم

اُسے کچھ کا کچھ بنا سکتے ہیں ۔

یہ اُسے للکارتے ہیں ،

اُس کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو آشکار اور بیدار کرتے ہیں ،

اُسے ان دیکھے آسمانوں کی سیر کراتے ہیں ،

نت نئی زمینوں کے نقشے دکھاتے ہیں ،

اُس کے دل میں کچھ کرنے، کچھ بننے کی

آرزو اور جرأت پیدا کرتے ہیں ۔

وہ اپنے روزمرہ کی زنجیریں توڑ دالتا ہے،

جبر کا جوا اُتار پھینکتا ہے

اور محصور کرنے والی دیواریں مسمار کر دیتا ہے۔

اب پہاڑ، دریا،صحرا،

اُس کا راستہ نہیں روک سکتے۔

زندگی اُس کی مددگار بن جاتی ہے

اور موت اُس کے منصوبوں میں حائل نہیں ہوتی۔

۔۔ 10 ۔۔

اپنی مٹی کی کشش،دوستوں اور عزیزوں کی محبت،

اِن کا تو آدمی کچھ نہ کچھ کر لیتا ہے،

خاص طور پر اگر اُسے بدیس میں

مادی فوائد اور آسائشیں حاصل ہوں ،

اوراپنے دیس میں

وہ تنگ دستی اور عزیزوں کے طعنوں کا شکار رہا ہو۔

مجھے تو یہ احساس تنگ کر رہا تھا کہ جو کچھ میرے ارد گرد ہورہا ہے،

میرا نہیں ہے،اِس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے،

میں اپنی جگہ پر نہیں ہوں ،

وقت کہیں اور گزر رہا ہے۔

۔۔ 11 ۔۔

مجھے بدیس میں عزت ملی ،مگر وہ عزت

جو اجنبیوں ، بدیسیوں یا مہمانوں کو دی جاتی ہے۔

میں کسی چیز کی تعریف کرتا

تو اسے میری خوش اخلاقی قرار دیا جاتا،

میرا شکریہ ادا کیا جاتا؛

کسی بات سے اختلاف کرتا،اُس پر تنقید کرتا

تو مجھے ناشکرگزار سمجھا جاتا۔

میرے میزبانوں کی آنکھیں

یہ کہتی ہوئی نظر آتیں :

’’ ہم تمہیں بلا کر تو نہیں لائے تھے۔

اگر تمہیں ہمارا ماحول پسند نہیں تو جاؤ،

واپس چلے جاؤ۔‘‘

۔۔ 12 ۔۔

دل نرم ہی ہوتے ہیں ،دل ہوں سہی۔

ترسے ہوئے لوگوں کے غول دیکھ کر،

اُن کے بچوں کے کمر سے لگے ہوئے پیٹ

اور ننگے بدن دیکھ کر،

دل ڈوبنے لگتا ہے۔

اِس خیال سے کہ ہزاروں لوگ

سخت گرمی اور سخت سردی میں

سرکنڈوں کی بنی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں

جنہیں آندھی اُڑا کر لے جاتی ہے

یا بارش بہا کے

تو دل ندامت اور احساسِ جرم سے پھٹنے لگتا ہے۔

اگر اِس دل میں یہ امید نہ ہوتی

کہ یہ کبھی اُن کے لیے کچھ کرسکے گا

تو یہ کب کا دھڑکنا بند کر چکا ہوتا۔

۔۔ 13 ۔۔

ہمارے چاروں طرف بے اندازہ ہوا ہے،

ہمیں کتنی چاہیے؟

دنیا میں کتنا پانی ہے،

ہماری پیاس کتنے سے بجھ جاتی ہے؟

اگر ہر چیز میں سے ضرورت کے مطابق

تھوڑا تھوڑا ملتا رہے، تو بہت ہے۔

شدید بھوک لگی ہو تو ایسا لگتا ہے

جیسے ابد تک کھاتے چلے جائیں گے۔

لیکن۔۔۔ پھر۔۔۔؟

تھوڑی دیر بعد

ہم اُس دسترخوان سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں

جو ہمارا دل کھینچ رہا تھا۔

۔۔ 14 ۔۔

جب کوئی امیرکسی غریب پر مہربان ہوتا ہے

تو اُسے اُس کی غربت دور کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

وہ کسی بیرونی دباؤ

یا اندرونی خوف کی وجہ سے

اُس کی مدد کرتا ہے،

یا اپنی فیاضی کو مشہور کرکے

دوسروں کے سامنے سُرخرو ہونا چاہتا ہے،

یا اِسے پوشیدہ رکھ کے

خود کو اپنے عظیم ہونے کا احساس دلاتا ہے۔

لوگ اُس کے پاس اپنی حاجتیں لے کے آئیں

اور وہ انہیں پورا کرے۔۔۔ یا نہ کرے۔

دوسروں کا سراُس کے سامنے جھکا رہے،

اُس کی طاقت کے خوف سے،

یا اُس کے احسانوں کے بوجھ سے۔

۔۔ 15 ۔۔

ہر چیز کا اپنا جادو ہوتا ہے،

لیکن دولت کے رسوخ کا دائرہ سب سے وسیع ہے۔

ہر چیز ہر آدمی کو نہیں چاہیے،

دولت سب کو چاہیے۔

۔۔ 16 ۔۔

قناعت؟

جو کچھ اور جتنا کچھ انسان کو ملنا چاہیے،

مل جائے تو مزید کی ہوس نہ کرنا۔

محروم ہونا اور بات ہے، محرومی کا احساس ہونا اور بات۔

یہی احساس اطمینان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔

اور اکثر یہ احساس دوسرے پیدا کرتے ہیں ۔

کسی کو خواہ سب کچھ میسر ہو،

لوگ اُسے یقین دلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں

کہ اُس کے پاس کچھ نہیں ۔

اتنی بڑی دنیا کے اِتنے بے انتہا خزانوں میں سے

اُس کے حصے میں کیا آیا؟

لوگ کھجور کے درخت سے سایا مانگتے ہیں

اور برگد کے درخت سے پھل؛

جو کچھ موجود نہیں ہوتا وہی دیکھتے ہیں ،

جو موجود ہوتا ہے، دیکھتے نہیں ۔

۔۔ 17 ۔۔

ہماری عزت اور ہم سے محبت

اُن توقعات کی وجہ سے کی جاتی ہے

جو ہم سے وابستہ ہوتی ہیں ۔

کوئی رشتہ بے غرض نہیں ہوتا۔

۔۔ 18 ۔۔

صاحبِ اولاد ہونے پر

انسان ایسے خوش ہوتا ہے

جیسے اِس دنیا میں اُس کے رہنے کی مدت میں

اضافہ ہو گیا ہو۔

۔۔ 19 ۔۔

مرد اِس لیے بیٹا چاہتے ہیں تاکہ اپنا ماضی بدل سکیں ،

اُس سے وہ کچھ کرائیں جو وہ خود نہ کرسکے؛

عورتیں اِس لیے ،کہ وہ اپنا مستقبل بدلنا چاہتی ہیں ،

کوئی مرد تو ہو جو ان کے قابو میں ہو،

ان کا ماتحت، بلکہ بنایا ہوا۔

یہ اور بات ہے کہ جب وہی بیٹے

جوان ہوتے ہیں

تو وہ انہی کی محکوم ہو جاتی ہیں

کئی طرح سے۔

۔۔ 20 ۔۔

ہر آدمی کے اندر ایک اونٹ ہوتا ہے۔

میں کسی سے بظاہر کسی چھوٹی سی بات پرلڑ پڑتا ہوں ،

اُس کانقصان کر دیتا ہوں ،

مگر حقیقت یہ ہوتی ہے

کہ میں کب سے ادھار کھائے بیٹھا ہوں ،

کسی بہانے کی تلاش میں ہوں کہ انتقام لوں ،

اور ممکن ہے کسی ایسی بات کا

جو مجھے یاد بھی نہیں ،مگر بُری لگی تھی۔

ہماری ہر حرکت کسی کھاتے میں ضرور جاتی ہے،

ہمارے حق میں یا ہمارے خلاف۔

۔۔ 21 ۔۔

دوستی کا رشتہ جتنا مضبوط ہوتا ہے

اُتنا ہی نازک بھی ہوتا ہے۔

زندگی کی طرح اِس کی بھی ہر لمحہ قدر کرنی پڑتی ہے،

حفاظت کرنی پڑتی ہے۔

یہ برگد کا درخت بھی ہے

اور چھوئی موئی کا پھول بھی۔

۔۔ 22 ۔۔

عالی ظرفی کے لیے کامیابی ضروری ہوا کرتی ہے۔

شکست یا شکست کا امکان

آدمی کو خوامخواہ کوتاہ نظر اور تنگ دل بنا دیتا ہے۔

ہم فتح یاب ہونے پر

اپنے جانی دشمن کو بھی بخش دیتے ہیں

لیکن ہار جانے کے بعد

مخالف کے بے جان گھوڑے کو بھی معاف نہیں کرتے۔

۔۔ 23 ۔۔

اگر آپ کسی سے متاثر ہو جائیں

تو وہ آپ کا گرویدہ ہوجائے گا۔

کسی کو اپنے قریب کرنا ہو

تو اُس پر ظاہر کریں کہ آپ

اُس سے بے حد متاثر ہیں ۔

اور اِس میں آپ کے حسنِ ظن کا کمال نہیں

بلکہ وہ ہے ہی ایسا اعلی وارفع

کہ کوئی بھی اُس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

۔۔ 24 ۔۔

خوشامد پسندی، حسد، بُغض،نفرت،

ہر آدمی میں ہوتے ہیں ۔

زیادہ کامیاب وہ ہے

جو انہیں کم سے کم نقصان پہنچانے دے۔

۔۔ 25 ۔۔

تعلقات ایک دم ختم نہیں ہوئے۔

جس طرح بھری مشک میں

چھوٹا سا سوراخ ہو جانے پر

پانی سارے کا سارا ایک دم نہیں نکل جاتا،

جیسے شمع آہستہ آہستہ گھٹتی ہے،

جیسے سورج دھیرے دھیرے ڈوبتا ہے۔

کسی چیز پر لپٹا ہوا دھاگا،

کھُلنے میں بھی کچھ وقت لیتاہے۔

۔۔ 26 ۔۔

کچھ محبتیں ایسے زخموں کی طرح ہوتی ہیں

جو بھر جانے پر بھی نشان چھوڑ جاتے ہیں

اور ہردیکھنے والا پوچھتا ہے:

’’یہ کیا ہوا تھا؟‘‘

۔۔ 27 ۔۔

اُسے دیکھ کر یہ احساس ہی نہیں ہوتا

کہ اُس سے کبھی کوئی واسطہ رہا ہے۔

اجنبی بھی نہیں لگتا۔

عجیب بے نام سی کیفیت ہوتی ہے،

نہ خوشی نہ رنج۔

چہروں پر مسکراہٹ ہوتی ہے

مگر تصویروں والی،

جیسے کسی سے پہلی بار مل رہے ہوں ۔۔۔

بلکہ یہ بھی نہیں ،

جیسے وہ گوشت پوست کا انسان ہی نہ ہو،

کوئی سایہ یا ہیولا بھی نہیں ۔

باتیں ہوتی ہیں تو واضح طور پر مصنوعی،

محض اُس خاموشی کو توڑنے کے لیے

جس میں لفظوں کے بغیر باتیں ہونے لگتی ہیں ۔۔۔

وہ خاموشی، جس کی تاب نہ لاتے ہوئے

انسان ایک دوسرے سے اجازت لے کر

رخصت ہو جاتے ہیں

یا پھر آپس میں جھگڑ پڑتے ہیں ۔

۔۔ 28 ۔۔

جب آدمی کسی سچے دوست سے بدظن ہو جائے،

اِس کی وجہ خواہ کچھ بھی ہو،

تو رفتہ رفتہ اس میں دوستی کی صلاحیت ہی ختم ہو جاتی ہے،

بلکہ محبت کی بھی۔

ہمارے احباب وہ کھڑکیاں ہوتے ہیں

جن کے ذریعے ہم انسانوں اور زندگی کو دیکھتے ہیں ۔

تقریباَ ہر انسان کے ہاں

ایک آدھ شخص اتنا قریب اور اہم ہو جاتا ہے

کہ سب کچھ اُس کے حوالے سے دکھائی دینے لگتاہے،

اور جب اُسی کے خلاف بدگمانی پیدا ہو جائے

تو سب کچھ اُلٹا نظر آنے لگتا ہے۔

صحیح لوگ غلط اور غلط، صحیح نظر آتے ہیں ۔

کھرے کھوٹے کی پہچان ہی ختم ہوجاتی ہے۔

جنہیں دوست بننا چاہیے

وہ بنتے بنتے رہ جاتے ہیں ،

پاس آ آ کے دور چلے جاتے ہیں ۔

جو دوست بننے کے قابل نہیں ہوتے،

وقتی طور پر ،کسی مقصد کے لیے،

دوست بن جاتے ہیں

اور بالآخر چھوڑ جاتے ہیں ۔

آدمی کے گرد لوگوں کا میلہ سا تو لگا رہتا ہے

لیکن اُسے ہر وقت

شدید اکیلے پن کا احساس ستاتا رہتا ہے۔

انسانی تعلقات کے ضمن میں

مار کھانے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

اگرحساب کا کوئی کلیہ

غلط سمجھ لیا جائے

یا غلط یاد رہ جائے

تو اس کی مدد سے جو سوال بھی حل کیاجائے گا

غلط ہو جائے گا۔

۔۔ 29 ۔۔

غیر معمولی اور تاریخ ساز انسان

عام لوگوں میں سے اُبھرتا ہے۔

بہت کم لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں ،

اور بہت کم۔

دوسروں کو اُس سے حسد کرنے،

لہذا اُس کی ٹانگ کھینچنے کی

کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔

اور جب وہ پہلی بار اُس سے خطرہ محسوس کرتے ہیں ،

بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

وہ اپنا کام کر چکا ہوتا ہے۔

۔۔ 30 ۔۔

سوچ کا سفرانتہائی خطرناک مہم ہوتا ہے۔

یہ ہمیں کہیں بھی لے جاسکتا ہے،

کسی ایسے دشت میں بھی

جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو۔

۔۔ 31 ۔۔

کسی سے اپنے فیصلے کے مطابق

عمل کرانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اپنا فیصلہ

اُس کے اندر اِس طرح اتار دیا جائے

اور ایسے حالات پیدا کر دیئے جائیں

کہ وہ کام تو ہماری مرضی کے مطابق کرے

لیکن رہے اِس خوش فہمی میں

کہ وہ ایسا اپنی مرضی سے کر رہاہے۔

۔۔ 32 ۔۔

درد اتنا ہوتا نہیں جتنا محسوس ہوتا ہے۔

ہمارے بہت سے درد ہماری سوچ کی پیداوار ہوتے ہیں ۔

بہت سے مسائل کا حل،

اور تو اور بہت سی بیماریوں کا علاج

صرف سوچنے کا انداز بدل جانے سے ہو جاتاہے۔

۔۔ 33 ۔۔

کچھ باتیں

چبھتی ہوئی ہونے کے باوجوداچھی لگتی ہیں ۔

تیز ناخن سے سر کھجانے میں بھی ایک لطف ہے۔

۔۔ 34 ۔۔

آدمی کو کڑوی باتوں کے کچوکے لگتے رہنے چاہئیں ،

جھٹکے پہنچتے رہنے چاہئیں ،

تبھی اندر کا سچ باہر آتا ہے۔

سمندر میں طوفان آتا ہے

تبھی موتی باہر آتے ہیں ۔

۔۔ 35 ۔۔

ہر آدمی کوئی نہ کوئی ایسا کارنامہ سرانجام دینا چاہتا ہے

جو بہت کم لوگوں کے لیے ممکن ہو،

لیکن جب وہ ایسا نہیں کر سکتا

تو جو کچھ وہ کر سکا ہوتا ہے

یا کر رہا ہوتا ہے

اُسی کو اعلی و ارفع قرار دیتا ہے،

اُسی کے گُن گاتا ہے،

کیونکہ اسی صورت وہ اپنے آپ کو صحیح اور بڑا ثابت کر سکتا ہے۔

۔۔ 36 ۔۔

ہمارا مسئلہ دراصل یہ ہے

کہ جو کام ہمیں کرنا ہے

وہ ہمارے بزرگوں نے کیوں نہ کر دیا۔

ہمیں باغ لگانے سے زیادہ

پھل کھانے میں دلچسپی ہے۔

۔۔ 37 ۔۔

پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں

لیکن ایک ہاتھ کی بڑی انگلی

دوسرے ہاتھ کی بڑی انگلی جتنی ہی ہوتی ہے۔

۔۔ 38 ۔۔

اتنے بلند نہ ہو جاؤکہ نظر آنا بند ہو جاؤ۔

حد سے زیادہ اونچے پہاڑ

ہمیشہ برف اورخاموشی میں چھُپے رہتے ہیں ۔

وہا ں کوئی نہیں جاتا۔۔۔اکیلے، بنجر۔

بس کبھی کبھار کوئی منچلا

دنیا کو نیچا دکھانے کے لیے

انہیں سر کرتا ہے

اور واپس آجاتا ہے۔

۔۔ 39 ۔۔

آدمی اپنے سے کمتر لوگوں میں رہنا پسند کرتا ہے

یا ایسی جگہ

جہاں اُس سے برتر بھی کمتر بنے رہیں ۔

اندھوں میں راجہ بننے کی خاطر

لوگ اپنی ایک آنکھ پھوڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

۔۔ 40 ۔۔

میرا اکثر جی چاہا کرتا ہے،

کوئی میری تعریف کرے

چاہے وہ میری ماں ہی کیوں نہ ہو۔

۔۔ 41 ۔۔

زندگی ہر لحظہ دست بردار ہوتے رہنے کا نام ہے،

اپنی آرزوؤں ، صلاحیتوں اور قوتوں سے،

اپنے خوابوں ، پیاروں اور ساتھیوں سے،

اور بالآخر خود زندگی سے۔

۔۔ 42 ۔۔

کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں

جو پہاڑ کی چوٹی پر جائے بغیر

اُس منظر کو دیکھ سکتے ہیں

جو وہاں جائے بغیرنظر نہیں آسکتا۔

۔۔ 43 ۔۔

آزادی اول تو کسی کو نصیب نہیں ہوتی

اور اگر اتفاقاَ ہو بھی جائے

تو وہ اسے ہتھیلی پہ رکھ کر اس کا گاہک ڈھونڈتا پھرتاہے،

اور بعض اوقات اسے اتنے سستے داموں فروخت کر دیتا ہے

کہ اُسے احساس بھی نہیں ہوتا

کہ اُس نے کچھ بیچا ہے۔

۔۔ 44 ۔۔

لوگ صرف جیتنے کے لیے کھیلتے ہیں ۔

ان کا مقصد دوسروں کو اپنے سے کمتر ثابت کرنا،

اُن کو ہرا دینا ہوتا ہے۔۔۔

کسی بھی طرح۔

۔۔ 45 ۔۔

سوال لوگوں کے کسی نظام کو قبول کر لینے کا نہیں

بلکہ اُن کے قبول کردہ کسی نظام کے نتائج کا ہے۔

لوگوں کو اکثر پتہ ہی نہیں ہوتا

کہ اُن کی زندگیاں

اُن کے اپنے عقائد اور نظریات کہ وجہ سے

اجیرن ہو گئی ہیں ۔

۔۔ 46 ۔۔

کیا رکھا ہے تاج میں

سر درد کے سوا۔

میں جب بھی کھُلے آسمان تلے ہوتا ہوں ،

ڈرتا رہتا ہوں ،

کہیں مجھ پر سے ہما نہ گزر جائے۔

۔۔ 47 ۔۔

اگر بادشاہ بھی ایک عام آدمی کی طرح

خاموشی اور سکون سے گزرجائے

تو اِس میں اُس کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔

لاؤ لشکر، شان و شوکت اور دھوم دھام سے

وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے

گویا وہ ایک سے زیادہ ہے۔

۔۔ 48 ۔۔

بادشاہ اور پیادے ایک ہی لکڑی کے بنے ہوتے ہیں ۔

اکثر اوقات پیادہ اتنا طاقتورہو جاتا ہے

کہ بادشاہ اپنی بقا کے لیے

اس کا مرہونِ منت ہو جاتا ہے۔

اوریوں بھی ہوتا ہے

کہ بادشاہ اتنا کمزور اور بے بس ہو جائے

کہ دشمن کا پیادہ اُسے بِساط سے اٹھا دے۔

۔۔ 49 ۔۔

کچھ کام ،عام آدمی کریں تو داد پاتے ہیں ،

بادشاہ کریں تو بُرے لگتے ہیں ۔

بعض باتیں جو عام آدمیوں کے لیے معیوب خیال کی جاتی ہیں

بادشاہوں کے لیے نہایت شاندار سمجھی جاتی ہیں ۔

۔۔ 50 ۔۔

محکومی سو کی ہو یا ایک کی،محکومی ہے۔

غلام غلام ہی ہوتا ہے خواہ کتنے ہی اعلی درجے کا ہو۔

ایک لمحے کی غلامی سارے دن کی حکومت پر پانی پھیر دیتی ہے۔

تمام دن آقا بنے رہنے والے کی شخصیت بدل کے رکھ دیتی ہے۔

اُس کے سوچنے کا انداز مختلف ہو جاتا ہے،

چیزیں اور طرح دکھائی دینے لگتی ہیں ۔

آدمی قدرت پہ اتنا خوش نہیں ہوتاجتنا مجبوری پہ کُڑھتا ہے۔

زہر کی ایک چٹکی دودھ کے تالاب کو غارت کر دیتی ہے۔

۔۔ 51 ۔۔

نظام کو بدلنے کے لیے

لوگوں کو بدلنا پڑتا ہے۔

لوگ نظام کو چلاتے ہیں ،

نظام لوگوں کو نہیں چلاتا۔

جس بات کو لوگوں کی اکثریت نے ناپسند کیا

وہ زیادہ دیر تک نہ چل سکی،

رسم و رواج ہوں ، اقدار ہوں یا قوانین۔

لوگوں کو بدلنے کا عمل

چراغ سے چراغ جلانے کے مترادف ہے۔

وہ آپ کی باتوں اور تقریروں سے قائل نہیں ہوتے۔

وہ آپ کے کردار، آپ کی شخصیت کو پرکھتے ہیں ،

تب کہیں جا کے آپ کی بات

ان کے دل میں اترتی ہے۔

۔۔ 52 ۔۔

ہم کنیزیں ہیں ۔

ہمارے نام نہیں ہوتے۔

ہمیں بلانے کے لیے پکارنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ہم سامنے ہوں تو ہمیں خود پتہ چل جاتا ہے

کہ ہماری ضرورت ہے

ورنہ محض تالی بجانایا ’کوئی ہے‘ کہنا کافی ہوتا ہے۔

۔۔ 53 ۔۔

جب آپ کسی کواُس کے اپنے میدان میں ،

جس میں اُس کو برتری اور یکتائی کا دعوی ہو،

ہرادیتے ہیں ،

تو پھر چاہے اُس کے پاس

ساری دنیا کی حکومت اور دولت کیوں نہ ہو،

اُسے اپنے سے برتر نہیں سمجھتے۔

۔۔ 54 ۔۔

کوئی مشغلہ یا کھیل

جب ایک خاص معیار سے بلند تر ہو جاتا ہے،

فن بن جاتا ہے۔

اور جب فن اپنی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے،

فن کار کاکام ٹھہرتا ہے۔

باقی سب کچھ کی حیثیت

اُس کے لیے ثانوی ہوجاتی ہے۔

۔۔ 55 ۔۔

ہر انسان غلطیاں کرتا ہے

اور ظاہر ہے کہ اُن کا خمیازہ بھگتتا ہے،

لیکن بیشتر غلطیاں مخفی یاباریک ہوتی ہیں ،

لہذابیشترانسان اپنی بیشتر غلطیوں سے بے خبر رہتے ہیں ،

مگر خمیازہ بہرحال بھگتتے ہیں ۔

چونکہ اِن غلطیوں کا منبع

اُن کی اپنی ذات ہوتی ہے،

یہ اُن سے بار بار سرزد ہوتی ہیں ۔

وہ خمیازہ بھگتتے رہتے ہیں ،

پریشان اوررنجیدہ رہتے ہیں

او رحیران ہوتے ہیں

کہ اُن کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے۔

وہ اپنا یا صورتِ حال کا تجزیہ کرنے کی بجائے

تقدیر یا حالات کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں ۔

ایک کھلاڑی، خاص طور پر شطرنج کا ،

جانتا ہے کہ ایک چال کے کئی نتائج نکل سکتے ہیں ۔

ایک بظاہر عام، بے ضرر سی چال بساط کا نقشہ بدل سکتی ہے۔

وہ کسی مہرے کو چھُونے سے پہلے کئی بار اور کئی طرح سے سوچتا ہے۔

رفتہ رفتہ زندگی میں بھی اُس کی یہی عادت بن جاتی ہے۔

اُسے اپنے مختلف اعمال میں ایک رشتہ،

ایک ربط نظر آنے لگتا ہے۔

اُ س میں اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی صلاحیت،

دوسروں کی کامیابیوں کی داد دینے کاظرف

اور اپنی شکست برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔

وہ اصولوں کی حکمرانی کو تسلیم کرتا ہے

اور اپنی حدود سے نہ صرف واقف ہو جاتا ہے

بلکہ اُن سے تجاوز بھی نہیں کرتا۔

۔۔ 56 ۔۔

مصوروں کے رنگ،موسیقاروں کے ساز ،

اُن کی زبان ہوتے ہیں ۔

شطرنج بھی ایک زبان ہے۔

ہر چال کچھ کہتی ہے،

اور ہر اچھی چال

اپنے مقابل کی چال کانہ صرف توڑ ہوتی ہے

بلکہ اُس کی حقیقت کا دوسرا رُخ بھی۔

جس طرح ایک بات

مخالف کی بات کو نہ صرف رد کرتی ہے

بلکہ اُس میں اضافہ بھی کرتی ہے۔

۔۔ 57 ۔۔

سرسری طور پر دیکھیں

تو زندگی بھی ایک کھیل ہی لگتی ہے،

غور کریں تو کھیل بھی کھیل نہیں رہتا۔

مداری کا تماشا اور مسخرے کے کرتب بھی بہت کچھ کہتے ہیں ۔

۔۔ 58 ۔۔

انفرادی چالیں سوجھنا

بڑا کھلاڑی بننے کے لیے کافی نہیں ۔

اصل بات اُن کی باہمی اہمیت کو سمجھنا

اور اُنہیں ایسی ترتیب دینا ہے

کہ ہر چال اپنے سے پہلی چال کا ناگزیر نتیجہ ہو۔

ابتدائی کھیل اچھے اختتام کی داغ بیل ڈالے،

اختتامی کھیل ابتدائی کھیل کی خوبصورتی

اور محنت پہ پانی نہ پھیر دے۔

۔۔ 59 ۔۔

جیتنے کے لیے

اچھا کھلاڑی ہونا کافی نہیں ،

اچھا کھیلنا بھی پڑتا ہے۔

۔۔ 60 ۔۔

میں جیت رہا تھا

مگرصرف شطرنج کی بساط پر۔

میں بھول گیا تھاکہ

یہ بساط ایک اور بڑی بساط پر رکھی ہوئی ہے

اور اصل کھیل اُس بڑی بساط پر ہوتا ہے۔

۔۔ 61 ۔۔

غلطی غلطی ہوتی ہے،

خواہ کسی بھی کیفیت میں سرزد ہو

اور اس کا خمیازہ

ہرحال میں بھُگتنا پڑتا ہے۔

۔۔ 62 ۔۔

میری جنگ اپنی خامیوں ، کوتاہیوں اور لاپرواہیوں کے خلاف ہوتی ہے۔

میرا مخالف تو کھیل کے لوازمات میں سے ایک ہوتا ہے،

اُس کی غلطی کے باعث جیت کرمجھے ذرا خوشی نہیں ہوتی

بلکہ مایوسی ہوتی ہے۔

مخالف کی غلطی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی جیت سے

میری تسکین نہیں ہوتی۔

اپنی کسی بچگانہ غلطی کی بنا پر ہار کر

بے انتہا افسوس اور پچھتاوامجھے گھیر لیتے ہیں ۔

ایسی ہار پر جو مجھے قائل کر لے

کہ میں ہارنے کے قابل تھا،

مجھے ہارنا ہی چاہیے تھا،

مجھے ذرا ملال نہیں ،

بلکہ ایک طرح کی فرحت محسوس ہوتی ہے۔

ایک نیا عزم میرے اندر جاگتا ہے،

اپنے آپ کو بہتر کرنے کا۔۔۔

مزید کچھ سیکھنے کا۔

۔۔ 63 ۔۔

اگر فریقین کوئی غلطی نہ کریں

تو بازی ہمیشہ برابر رہے۔

اور یہی بازی کا اصل نتیجہ، منطقی انجام ہو گا۔

ہر چال کا کم از کم ایک صحیح جواب یا توڑ ہوتا ہے،

اسی کی تلاش اور دریافت ہی اصل کھیل ہے۔

جیت جانا تو کھیل کوگویا درمیان میں ختم کر دینا ،

ادھورا چھوڑ دینا ہوا۔

جب تک دونوں فریق

غلطی کیے بغیرکھیلتے چلے جاتے ہیں ،

بازی کے اسرار عیاں ہوتے جاتے ہیں ،

یہاں تک کہ بازی اپنی امکانی حدود کو چھُو لے،

جیسے کسی رس دار پھل کو نچوڑتے چلے جانے سے

اُس میں سے رس کا ایک ایک قطرہ نکال لیا جائے؛

جیسے کوئی انسان حادثے یا بیماری کا شکار ہوئے بغیر،

طبعی موت پائے۔

غلطی سرزد ہو نے کے بعد

سارا کھیل اس غلطی کے گرد گھومنے لگتا ہے۔

ایک اِس فکر میں ہوتا ہے کہ اُس کاازالہ کیسے ہو،

دوسرا اِس کوشش میں

کہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ کیسے اُٹھایا جائے۔

انجام بازی کا نہیں اس غلطی کا ہوتا ہے۔

ایک کھلاڑی کی دوسرے پر برتری تو ثابت ہو جاتی ہے،

کھیل کہیں پیچھے، ایک طرف رہ جاتا ہے۔

۔۔ 64 ۔۔

’’مجھے اِس کھیل کا کچھ پتہ نہیں ۔

مجھے نہیں معلوم اِس میں ہار جیت کیسے ہوتی ہے۔‘‘

’’یہ کھیل جس بڑے کھیل کا حصہ ہے،

تم اُس سے تو واقف ہو؟‘‘

’’صرف اتنا کہ اُس میں میری حیثیت

ایک پیادے کی ہے

جو صرف ایک خانہ آگے چل سکتا ہے

اور پھر کبھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا؛

جو کسی موہوم سی امید پر

یا کسی انجانے خدشے کے تحت،

یا محض دوسرے مہروں کا راستہ بنانے کے لیے

بساط پر سے اُٹھا دیا جاتا ہے۔‘‘

چونسٹھ خانے چونسٹھ نظمیں

باصر کاظمی

مانوس اجنبی کی دوسری آمد

میرے نثری ڈرامے بساط ۔۔ 1987 ۔۔کے بارے میں میرے دوست جاوید فیض ۔۔ مرحوم ۔۔ کی رائے تھی کہ یہ شاعری ہے۔ حنیف رامے صاحب نے کہا کہ’’یہ کتاب شاعری کی کتاب بھی ہے، کہانی بھی ہے، لیکن شاعری کرنے اور کہانی کہنے کا اسلوب ڈرامے کے قالب کو بنایاگیا ہے۔‘‘ ایک مذاکرے میں پروفیسر مسز شمیم خیال نے کہا کہ ’’یہ کتاب اس طرح پڑھی جائے گی جیسے آپ شاعری کی کسی کتاب کو پڑھتے ہیں ۔ جملے مصرعوں کی طرح سے مصنف پر وارد ہوئے ہیں ۔‘‘ تقریباَ دس برس پہلے ،میں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ نثری نظم کو نظم کہنا کافی ہے۔ پڑھنے والاخود دیکھ لے گا کہ یہ وزن اور بحر سے آزاد ہے۔ اگر اس میں خیال اچھوتا اور الفاظ کی تنظیم متاثرکرنے والی ہے تو یہ اچھی بھی لگے گی اور یاد بھی رہے گی۔ اس کے مقابلے میں ایک گھِسے پٹے مضمون والا یا عیب دار شعر نظرانداز کر دیا جائے گا۔ نظم کو منظم ضرور ہونا چاہیے، اس کا منظوم ہونا ضروری نہیں ۔ ’نثری غزل‘ بھی ’نثری نظم‘ ہی ہوتی ہے، اوزان اور بحور سے آزاد اگرچہ قافیہ ردیف لیے ہوئے۔ میرے دوسرے شعری مجموعے ، چمن کوئی بھی ہو ۔۔ 2008 ۔۔ میں دو نثری نظمیں بھی تھیں ۔ کوئی دو برس ہوئے ،جدید نثری نظم کے نمایاں شاعر جمیل الرحمن کو بساط اتنا اچھا لگا کہ انہوں نے اس پر ایک خوبصورت نظم ’شطرنج‘ لکھی اور بساط کونئے قارئین تک پہنچانے کی باقاعدہ مہم چلائی۔ میرا بھی جی چاہا کہ اسے دوبارہ دیکھوں ، جیسے یہ کسی اور نے لکھا ہو۔مجھے احساس ہوا کہ مکالموں میں جابجا نثری نظمیں پوشیدہ ہیں ۔ اس کے بعد یہ نظمیں ابھر ابھر کر میرے سامنے آنے لگیں اور تقاضا کرنے لگیں کہ میں انہیں اپنے اگلے مجموعے میں جگہ دوں ۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح انہیں زیادہ قارئین مل سکتے تھے۔ مجھے بساط بہت عزیز ہے۔ میں اسے دائم آباد دیکھنا چاہتا ہوں ۔ اسے پسند کرنے والوں کی بھی یہی خواہش ہے۔ سو میں اس کے مکالموں میں نہاں نظموں کی فرمائش کو ٹالتا رہا۔ آخر ایک دن انہوں نے ایک وفد کی صورت میں مجھے گھیر لیا اور اپنا مطالبہ دہرا یا۔

’’تم بساط ‘ میں خوش نہیں ہو کیا؟‘‘ میں نے گھبرا کے پوچھا۔

’’نہیں ، ہمارااصلی گھر تو وہی ہے۔‘‘ ان کے ایک نمائندے نے جواب دیا۔

’’پھر؟‘‘ میں نے کہا۔

’’جیسے مانوس اجنبی بیک وقت شطرنج کی کتاب اور بساط میں رہتا ہے اسی طرح ہم بھی بیک وقت بساط اورشاعری کی کتاب میں رہنا چاہتی ہیں ۔‘‘

’’اوہ۔ یہ تو پوری تیاری کے ساتھ آئی تھیں ۔‘‘ میں نے سوچا۔ اورکچھ دیر بعد میرے دلائل واقعی کمزور پڑنے لگے۔ بالآخر میں یہ سوچ کر انہیں ایک موقع دینے پر راضی ہو گیاکہ ڈرامہ اور شاعری ایسے پڑوسی ہیں جن کے بیچ سرحد نہیں کھینچی جا سکتی ۔’نظمیں ‘ خوش خوش ’اپنے گھر‘ چلی گئیں ۔

میں نے ان نظموں میں سے چند کا انتخاب کیا اور اپنے زیرِ ترتیب شعری مجموعے کے مسودے میں شامل کر لیا۔ یہ بات کسی طرح پوری بساط میں پھیل گئی۔ اب تو آئے دن کوئی نہ کوئی ’نظم‘ کسی مکالمے سے نکل آتی اور ’’سیر کے واسطے تھوڑی سی جگہ اور‘‘ مانگتی۔ میں کہ مساوی حقوق کا پرانا علمبردار تھا، اس کی بات مان لیتا۔ جب پچیس نظمیں ’بن‘ گئیں تو میرے اندر شطرنج کا کھلاڑی پھر سے جاگ اُٹھا۔مجھے پہلی بار تشویش کی بجائے خوشی ہوئی، یہ سوچ کر کہ اگران کی تعداد شطرنج کی بساط کے بتیس مہروں کے برابر ہو جائے تو خوب ہو۔ اب مجھے نئی نظموں کا انتظار رہنے لگا۔ لیکن گلشنِ ناآفریدہ کی نظموں کو جیسے میری خواہش کا علم ہو گیا، سو انہوں نے نخرے دکھانا شروع کر دیئے۔ اب بے تاب و بے صبر ہونے کی باری میری تھی۔ میں نے کچھ مکالموں سے کچھ نظموں کونکالنا چاہا تو انہوں نے صاف انکار کر دیااور کہا کہ وہ جہاں تھیں بس وہیں ٹھیک تھیں ۔ کمال ہو گیایہ تو۔ پھر میں نے بھی کہا کہ نہیں تو نا سہی، مجھے کیا فرق پڑتا ہے۔ میں تو پچیس کے بھی حق میں نہیں تھا۔ لیجیے جناب، ادھر میں بے نیاز ہوا ادھر نظمیں پھر سے متحرک ہو گئیں ۔ کچھ عرصے بعد ایک ریلہ ٓایااور ان کی تعداد پچاس سے تجاوز کر گئی۔ اب مجھے باقاعدہ پریشانی لاحق ہوئی۔ میرے مسودے میں تو غزلیں اور نظمیں اتنی نہیں تھیں ۔ سارا توازن بگڑتا نظر آیا۔

’’چونسٹھ تک ٹھیک ہے ،شطرنج کی بساط کے چونسٹھ خانوں کے برابر ۔ ہر نظم کے لیے ایک گھر۔ تم جانتے ہوبساط کے خانوں کو گھر بھی کہتے ہیں ، گھوڑے کی چال ڈھائی گھر ہوتی ہے۔‘‘ شطرنج کا کھلاڑی بولے چلا جا رہا تھا۔

’’تمہیں تو شطرنج کی بات کرنے کا موقع چاہیے۔ میرا مسودہ خراب ہو رہا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

’’کونسا مسودہ؟‘‘ اس نے معصومیت سے پوچھا۔

’’کونسا مسودہ۔ بھولے مت بنو۔ بتیس چونسٹھ کے چکر سے نکل بھی آیا کرو کبھی۔‘‘ میں نے احتجاج کیا۔

’’میرا مطلب ہے تمہارا کونسا مسود ہ خراب ہو رہا ہے۔ اگر تمہاری مراد اپنی غزلوں اور نظموں سے ہے تو اُن کا اِن نظموں سے کیا لینا دینا؟‘‘

’’کمال ہے،انہیں کے ساتھ شامل ہونے کی تو بات کی تھی ان نظموں نے۔‘‘ میں نے وضاحت کی۔

’’وہ تو بہت شروع کی بات تھی۔اُس وقت انہیں نہ تو اپنی نوعیت کاپتہ تھا نہ تعداد کا۔‘‘ اُس نے کہا۔

’’یعنی؟‘‘

’’یعنی یہ کہ انہیں ایک کتاب چاہیے ،وہ انہیں دے دو۔ باقی اپنی غزلوں نظموں کا جو چاہو کرو۔‘‘

’’اچھا چلو، میری غزلیں نظمیں تو محفوظ رہیں لیکن میری بساط توخالی ہو جائے گی۔ ‘‘ میں نے تشویش کا اظہار کیا۔

’’تمہیں یہ وہم کیوں ہورہا ہے کہ یہ تمہاری بساط کے مکالمے ہیں ۔یہ اُن کے ہمزاد ہیں ۔ ذرا انہیں اُن کے ساتھ رکھ کے دیکھو، فرق نظر آجائے گا۔ اور ان میں استعمال کیے گئے الفاظ کی تعداد بساط کے الفاظ کے دس بارہ فیصد سے زیادہ نہیں ہو گی۔ ڈرامہ کچھ ایسے مکالموں ،جملوں اور الفاظ کا متقاضی ہوتا ہے جو نظم کے لیے زائد ہوتے ہیں ۔ اسی طرح کچھ الفاظ جو نظم کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں ڈرامے میں بے محل لگیں گے۔ اب یہ بات تمہیں میں سمجھاؤں گا؟ شاعر تم ہو کہ میں ؟ بساط زندگی کی بساط ہے۔ اس میں مصوروں کو اپنی تصویریں ، مجسمہ سازوں کومجسمے، موسیقاروں کو نغمے، فلسفیوں کو فلسفے اور شاعروں کو نظمیں ملیں گی۔ زندگی چلتی رہے گی، بساط بچھی رہے گی۔ڈرامہ بساط کے مکالمے اپنی جگہ جم چکے ہیں ۔ انہیں کچھ نہیں ہونے والا۔ ستائیس سال ہو گئے انہیں وجود میں آئے۔ ویسے کے ویسے ہیں اب بھی۔‘‘ اُس نے کہا۔

’’ ستائیس سال۔۔۔‘‘ مجھے کچھ یاد سا آنے لگا۔ میں نے کھلاڑی کو غور سے دیکھا۔’’ارے۔۔۔ تم۔۔۔ ! ؟‘‘

’’ہاں ، میں ۔ میں بھی سوچ رہا تھا کہ آخر تم کب تک مجھے نہیں پہچانتے۔‘‘ مانوس اجنبی نے قہقہہ لگایا۔

’’تم کتنا بدل گئے ہو۔‘‘

’’میں نے تمہیں بتایاتھا کہ میں نے بہت طویل عمر پائی تھی۔ کوئی میری عمر کے جس حصے کے بارے میں سوچے گا، میں اُسے ویسا ہی نظر آؤں گا جیسے میں اُس وقت تھا۔‘‘

’’تم چلے کہاں گئے تھے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’یہ سوال تم نے تب بھی کیا تھا اور میرا جواب تھا کہ میرا وجود زمان و مکان کی قید سے ماوراء ہے۔ کہاں جانا تھامیں نے۔میں یہیں تھا، تمہارے آس پاس۔‘‘ اُس نے کہا۔

’’ کم از کم یہ تو بتا دیتے کبھی کہ تمہیں شطرنج کی کتاب سے آزاد کرانے کے بعد میں نے تمہارے لیے جو گھر ،بساط،بنایا تھا تم نے اُسے ویسا ہی پایا جیسا تم چاہتے تھے؟ تم اُس میں خوش ہو؟ آرام سے ہو؟اپنی مرضی سے آجا سکتے ہو؟ دوسرے تم سے ملنے آسکتے ہیں ؟‘‘

’’میں چاہتا تھا کہ تمہیں خود سے پتہ چلنا چاہیے۔ اِس گھر میں آنے جانے والے تمہیں بتائیں ۔ ‘‘

’’لیکن اس سے میری تسلی تو نہیں ہو سکتی تھی۔‘‘

’’یہ تسلی نہ ہونے ہی میں تو لطف ہے۔‘‘

’’پھر آج یہ مہربانی کیسی؟‘‘

’’مجبوری۔ اُس وقت تمہیں اپنی کہانی کا یقین دلانا تھا، آج ان نظموں کے بارے میں تمہاری بدگمانی دور کرنا ہے۔‘‘مانوس اجنبی نے کہا۔ اُس کی باتیں آج بھی میری سمجھ میں آدھی آرہی تھیں آدھی نہیں ۔

جسٹس کارنیلیس نے کہا تھا کہ جیسے قاری کتاب کو ڈھونڈتا ہے اسی طرح کتاب بھی قاری کو ڈھونڈتی ہے۔ اِ س خیال سے کہ میں ان نظموں کی راہ میں رکاوٹ نہ بنوں میں انہیں شاعری کے قارئین کے سامنے پیش کر رہا ہوں ۔ اگر آپ کو ان میں سے چند نظمیں بھی پسند آگئیں تو میں سمجھوں گا کہ ان کی جدوجہد رائگاں نہیں گئی۔میں نے ان کی ترتیب ویسے ہی رہنے دی تھی جس ترتیب سے ان کے ہمزاد بساط میں ہیں اور سب کو ایک مشترکہ عنوان دے دیا : چونسٹھ خانے چونسٹھ نظمیں ۔ بعد ازاں ، جب ساجد علی نے موضوعات کی مناسبت سے ان کی ترتیب بدلی تو مجھے دل سے پسند آئی۔ شکریہ ساجد۔

باصِر سلطان کاظمی،نومبر2013ئ

باصر کاظمی

انتساب

اپنے چچا، استاد اور کھیل کے ساتھی، عنصر رضا کاظمی کے نام جن کے زیرِ سایہ، میں نے کھیل میں زندگی کو دیکھنا شروع کیا۔

باصر کاظمی