زمرہ جات کے محفوظات: پابند نظم

لہو ترنگ

پہلی آواز
ہمیں قبول نہیں زندگی اسیری کی
ہم آج طوق و سلال کو توڑ ڈالیں گے
ہمارے دیس پہ اغیار حکمراں کیوں ہوں
ہم اپنے ہاتھ میں لوح و فلم سنبھالیں گے
فضا مہیب سہی، مرحلے کٹھن ہی سہی
سفینہ حلقۂ طوفاں سے ہم نکالیں گے
نقوشِ راہ اگر تیرگی میں ڈوب گئے
ہم اپنے خوں سے ہزاروں دیے جلالیں گے
دوسری آواز
جو لوگ لے کے اٹھے ہیں علم بغاوت کا
انھیں خود اپنی ہلاکت پہ نوحہ خواں کر دو
بجھاؤ گرم سلاخوں کو ان کی آنکھوں میں
زبانیں کھینچ لو گُدّی سے، بے زباں کر دو
ہدف بناؤ دلوں کو سلگتے تیروں کا
سِناں سے خیموں کو چھیدو، شکستہ جاں کر دو
محل سرا کی حدوں تک کوئی پہونچ نہ سکے
ہر ایک گام پی ایستادہ سولیاں کر دو
پہلی آواز
یہ غم نہیں کہ سرِ دار آۓ جاتے ہیں
ہمیں خوشی ہے وطن کو جگاۓ جاتے ہیں
ہمارے بعد سہی، رات ڈھل تو جاۓ گی
دلوں میں شمعِ جنوں تو جلاۓ جاتے ہیں
ہمارے نقشِ قدم دیں گے منزلوں کا سُراغ
ہمیں شکست نہ ہو گی بتاۓ جاتے ہیں
جواں رہیں گی ہمارے لہو کی تحریریں
سدا بہار شگوفے کھِلاۓ جاتے ہیں
شکیب جلالی

جشنِ عید

سبھی نے عید منائی مرے گلستاں میں
کسی نے پھول پروۓ، کسی نے خار چُنے
بنامِ اذنِ تکلّم، بنامِ جبرِ سکوت
کسی نے ہونٹ چباۓ، کسی نے گیت بُنے
بڑے غضب کا گلستاں میں جشنِ عید ہوا
کہیں تو بجلیاں کوندیں، کہیں چِنار جلے
کہیں کہیں کوئی فانوس بھی نظر آیا
بطورِ خاص مگر قلبِ داغدار جلے
عجب تھی عیدِ خمستاں، عجب تھا رنگِ نشاط
کسی نے بادہ و ساغر، کسی نے اشک پئے
کسی نے اطلس و کمخواب کی قبا پہنی
کسی نے چاکِ گریباں، کسی نے زخم سئے
ہمارے ذوقِ نظارہ کو عید کے دن بھی
کہیں پہ سایۂ ظلمت کہیں پہ نور ملا
کسی نے دیدہ و دل کے کنول کھِلے پاۓ
کسی کو ساغرِ احساس چکناچور ملا
بہ فیضِ عید بھی پیدا ہوئی نہ یک رنگی
کوئی ملول، کوئی غم سے بے نیاز رہا
بڑا غضب ہے خداوندِ کوثر و تسنیم
کہ روزِ عید بھی طبقوں کا امتیاز رہا
شکیب جلالی

نئی کرن

جہاں پناہ سسکنے لگی چراغ کی لو
شعاعِ تازہ سے چھلنی ہے سینۂ ظلمات
بلند بام ہراسان ہیں رہ نشینوں سے
اک ایسے موڑ پہ آئی ہے گردشِ حالات
جسے بھی دیکھیے لب پر سجائے پھرتا ہے
نرالے دور کا قصہ، اچھوتے دور کی بات
جنہیں تھا حکمِ خموشی وہی پکار اٹھے
ہمیں بھی اذنِ تبسم ہمیں بھی اذنِ حیات
طلب ہوئی ہے جنہیں بے کراں اجالوں کی
سرابِ نجم و قمر سے بہل نہیں سکتے
نئی کرن سے اندھیروں میں برہمی ہی سہی
نئی کرن کو اندھیرے نگل نہیں سکتے
جہاں پناہ جمال سحر کی جوئے رواں
افق افق کو درخشاں بنا کے دم لے گی
پلک پلک سے مٹائے گی داغ اشکوں کے
نظر نظر کو تبسم سکھا کے دم لے گی
خزاں رسیدہ چمن ہوں کہ ریت کے ٹیلے
قدم قدم پہ شگوفے کھِلا کے دم لے گی
ازل سے سینۂ ویراں ہے منتظر جس کا
نفس نفس وہی خوسشبو رچا کے دم لے گی
شکیب جلالی

شہرِ گُل

کچھ نہ تھا شوخیِ رفتارِ صبا کا حاصل
نکہتِ گل کی پھواروں پہ کڑے پہرے تھے
چپمپئ بیل کے سیال نمو پر قدغن
سرو و سوسن کی قطاروں پہ کڑے پہرے تھے
حلقۂ برق میں ارباب گلستاں محبوس
دم بخود راہ گزاروں پہ کڑے پہرے تھے
دفعتاً شور ہوا ٹوٹ گئیں زنجیریں
زمزمہ ریز ہوئیں مہر بلب تصویریں
دو گھڑی کیلئے گھر گھر میں چراغاں سا ہوا
جیسے ضو کاریِ انجم پہ کوئی قید نہیں
بند کلیوں نے تراشیدہ لبوں کو کھولا
پھول سمجھے کہ تبسّم پہ کوئی قید نہیں
گھنگریاں باندھ کے پیروں میں صبا اٹھلائی
جیسے اندازِ ترنّم پہ کوئی قید نہیں
یہ فقط خواب تھا اس خواب کی تعبیر بھی ہے
شہرِ گل میں کوئی ہنستی ہوئی تصویر بھی ہے
شکیب جلالی

زاویے

رات تھی میں تھا اور اک میری سوچ کا جال
پاس سے گزرے تین مسافر دھیمی چال
پہلا بولا مت پوچھو اس کا احوال
دیکھ لو تن پر خون کی فرغل، خون کی شال
دوسرا بولا۔۔ ۔ ۔ اور ہی کچھ ہے میرا خیال
یہ تو خزاں کا چاند ہے گھائل غم سے نڈھال
تیسرا بولا۔۔ ۔ بس یوں سمجھو اس کی مثال
اندھیارے کے بن میں جیسے شب کا غزال
ان کی روح تھی خود کالی پیلی اور لال
میرا وجود ہے ورنہ اب تک ایک سوال
شکیب جلالی

دعوتِ فکر

کس طرح ریت کے سمندر میں
کشتیِ زیست ہے رواں، سوچو
سن کے بادِ صبا کی سرگوشی
کیوں لرزتی ہیں پتیاں۔۔ ، سوچو
پتھروں کی پناہ میں کیوں ہے
آئینہ ساز کی دوکاں، سوچو
اصل سر چشمۂ وفا کیا ہے
وجہِ بے مہریِ بتاؓ سوچو
ذوقِ رعمیر کیوں نہیں مٹتا
کیوں اُجڑتی ہیں بستیاں سوچو
فکر سقراط ہے کہ زہر کا گھونٹ
باعثِ عمرِ جاوداں سوچو
لوگ معنی تلاش ہی لیں گے
کوئی بت ربط داستاں سوچو
شکیب جلالی

سفیر

میں روشنی کا مُغنّی کرن کرن کا سفیر
وہ سیلِ مہ سے کہ رودِ شرار سے آئے
وہ جامِ مے سے کہ چشمِ نگار سے آئے
وہ موجِ باد سے یا آبشار سے آئے
وہ دستِ گل سے کہ پائے فگار سے آئے
وہ لوحِ جاں سے کہ طاقِ مزار سے آئے
وہ قصرِ خواب سے یا خاک زار سے آئے
وہ برگِ سبز سے یا چوبِ دار سے آئے
جہاں کہیں ہو دلِ داغ دار کی تنویر
وہیں کھلیں مری بانہیں، وہیں کٹے زنجیر
شکیب جلالی

یاد

رات اک لڑکھڑاتے جھونکے سے
ناگہاں سنگ سرخ کی سل پر
آئینہ گر کے پاش پاش ہوا
اور ننھی نکیلی کرچوں کی
ایک بوجھاڑ دل کو چیر گئی
شکیب جلالی