جو گل کہ نازِ چمن تھا وہ دے دیا تجھ کو
تجھے اے کنجِ لحد! ہم نے یوں سنوارا ہے
گرفتہ دل تھی بہت خاک اپنی پستی پر
زمیں میں ہم نے ابھی آسماں اُتارا ہے
جو گل کہ نازِ چمن تھا وہ دے دیا تجھ کو
تجھے اے کنجِ لحد! ہم نے یوں سنوارا ہے
گرفتہ دل تھی بہت خاک اپنی پستی پر
زمیں میں ہم نے ابھی آسماں اُتارا ہے
شاہوں میں تھا فرازؔ، فرازوں میں شاہ تھا
دل تھا گدائے حُسن، قَلَم کج کلاہ تھا
کچھ سوچ کس کو چھوڑ کے تُو چل دیا فرازؔ!
تجھ پر غزل کو ناز تھا، اور بے پناہ تھا
﴿﴾
اِک دردِ مسلسل ہے، کہ گھٹتا ہی نہیں
اِک رنج کا بادل ہے، کہ چھٹتا ہی نہیں
ہنستا ہُوا چہرہ ترا، اے دوست، فرازؔ!
یُوں ذہن پہ چھایا ہے کہ ہٹتا ہی نہیں
آفتابِ روایت و اقدار
تھک گیا تھا سو گھر گیا شاید
رو رہی ہے غزل، خبر لینا!
عزمؔ بہزاد مر گیا شاید
﴿﴾
اے اجل! نابغۂ عصر کو مارا کیسے؟
یہ ستم تو نے کیا ہو گا، گوارا کیسے؟
جس کو احباب نے کاندھوں پہ اُٹھایا تھا سدا
اُس کو مٹّی میں ملانے کو، اُتارا کیسے؟
﴿﴾
دلوں کو مہر و محبت سے تابناک کیا
ضمیرِ اہلِ وطن، نفرتوں سے پاک کیا
وہ ایسا شخص تھا، جو اسم با مسمّیٰ تھا
خبر ہے دوستو! کس کو سپردِ خاک کیا
﴿﴾
ہر انجمن سے دُکھے دلوں کے غم و الم سب بھلا کے اُٹھّا
وہ چشمِ بیخواب کو ہمیشہ ، سکون د ےکر، سُلا کر اُٹھّا
بھلا میں اب کیا کہو نگا ضاؔ من! صفیؔ یہ پہلے ہی کہہ گئے ہیں
"ستم ظریفی تو کوئی دیکھے، ہنسانے والا رُولا کے اُٹھّا”
اے رونقِ اقلیمِ سخن! یاد رہے گا
وہ علم، وہ احساس، وہ فن یاد رہے گا
ہے ندرتِ فکر اپنی جگہ اس کے علاوہ
جون ایلیا! بیساختہ پن یاد رہے گا