رات خواب میں دیکھا
لاش اک اٹھائے میں
جا رہا تھا دنیا سے
اور اس کے سینے پر
تشنہ سی، ادھوری سی
ایک نظم لکھی تھی
رات خواب میں دیکھا
لاش اک اٹھائے میں
جا رہا تھا دنیا سے
اور اس کے سینے پر
تشنہ سی، ادھوری سی
ایک نظم لکھی تھی
میرے پہلو سے درد لپٹے ہیں
اور مری روح ہے بہ نوک خار
جس طرف جاؤں روک لے مجھ کو
ایک بے در، مہیب سی دیوار
دِل کے صحرا سے کر گئے ہجرت
خواب کے سب پرند افق کے پار
دِل کے ارمان ہیں سبھی گھائل
جاں بہ لب ہیں جو تشنۂ اظہار
’’اے شہنشاہِ آسماں اورنگ
اے جہاندارِ آفتاب آثار‘‘
تیری آزاد ان فضاؤں میں
گھٹ گئی روح خون میں ہے فشار
اے شہنشاہ، بانیِ تقدیر
اے جہاندار، مالک و مختار
گر تری ہو رضا جو تو چاہے
جلتے صحراؤں میں کھلیں گلزار
ہو نگاہِ کرم ادھر بھی ایک
ہو عطا مجھ کو ایک تختۂ دار
میں غرقِ مئے خواب رہا اور کئی غم
پلتے رہے آنگن میں پنپتے رہے پیہم
خواہش تھی اجالوں کی مگر تلخیِ حالات
دامن میں اتر آئی فقط رات! فقط رات
پروردۂ آغوشِ گماں ایک یقیں ہے
دنیا مرے ہر خواب کی دنیا میں کہیں ہے
بھٹک چکا ہوں میں رستے سے بےخیالی میں
غزال جیسے کسی دشتِ خشک سالی میں
میں رہ کی دھول ہوں بس ٹھوکریں ہیں قسمت میں
مرے چمن میں خزاں کی رتیں ہیں قسمت میں
کٹھن سفر ہے تو تشنہ مری امیدیں ہیں
بس ایک سر ہے مقابل کئی چٹانیں ہیں
بھٹک چکا ہوں مرا ہر قدم ہے بے معنی
مجھ ایسے رند پہ تیرا کرم ہے بے معنی
اس اپنے سائے کو مجھ پر سمٹنے سے روکو
ہُما!۔۔۔ مجھے نہ تمنا کی آنکھ سے دیکھو
بس ایک نقطہ
بس ایک محور
بس ایک گردِش
غُلام پیکر،
اُداس عالم میں شش جہت پر محیط دھڑکن
بس ایک مرکز
اور ایک مرکز گُریز قوّت۔۔۔۔۔
غُلام گردش کبھی جو چھوٹے
حصارِ خواہش کبھی جو ٹُوٹے
تلاشِ منزل جو پر سمیٹے
تو سائے محور کے بڑھتے بڑھتے
نئے سرابوں کو ڈھونڈتے ہیں
وہ دیکھتے ہیں
اک اور گردش۔۔۔۔۔
اک اور مرکز۔۔۔۔۔
پھر ایک مرکز گریز قو ت
دیکھ اے دِل!
زندگی کے آئینہ خانے میں جتنے عکس ہیں
سب ہی محو رقص ہیں!
اور تو مایوسیوں کے بحر میں کیوں غرق ہے
دیکھ اے دِل!
چرخِ نیلی فام پر یہ رقص کرتی بدلیاں
کتنے ارمانوں کا رس چھلکا رہی ہیں
ٹولیاں چڑیوں کی اڑتی آ رہی ہیں
دور تک کوہِ تمنا پر ہرے اشجار ہیں
اور تجھ کو کس قدر آزار ہیں
بول اے نخچیرِ ظلمت!!
ہر طرف ہی نور ہے
تو بکھرتی روشنی سے دور ہے!
کس قدر مجبور ہے!!
ابھی ابھی جو دھواں سا فضا میں بکھرا ہے
ابھی ابھی جو صدائیں اٹھی ہیں ماتم کی
جلی ہے کیا کوئی خواہش، کوئی خیال جلا
کسی کے لب پہ نہ پہنچا، کوئی سوال جلا
نجانے کتنی تمنائیں جل کے زندہ ہیں
بدل کے جسم ہواؤں میں ڈھل کے زندہ ہیں
ان گنت بار ایسا ہوا
درد کا کوئی جھونکا مجھے اپنے قدموں کی جاگیر سے
عاق سا کر گیا
گرتے گرتے مجھے اک حسیں لمس نے اپنے ہاتھوں میں لے کر
بڑے پیار سے
تھام کر
چوم کر
اپنی آغوش میں لے لیا
تمھارا کہنا تھا
یوں نہ ہو گا
کہ تم بھی آخر سبھی کے مانند اسی روش پر نکل پڑو گے
کہ جس پہ چلتے تمام دنیا کی عمر بیتی
جو اک ندی تھی
وہ ایک دریا میں ضم ہوئی ہے
تمھاری پہچان گُم گئی ہے
تمھارا کہنا تھا
تم ہو خوشبو!
اِک ایسی خوشبو جو تا قیامت ہوا کے کندھوں پہ
اور انا کے گھنے گھنیرے سے گلستانوں میں ہی رہے گی
کہو ناں!
تم ہی تو کہہ رہے تھے
کہ کوئی سمجھوتا تم کبھی بھی نہیں کرو گے!
مگر ہوا کے بس اِک تھپیڑے سے
اور زمانے کے اِک طمانچے سے تھک گئے ہو!
تم اپنی محفل سے آخرِ شب سرک گئے ہو!
نئے مکاں کی حدود بندی قبول کر لو!
میں کب جانتا تھا کہ ساعت کی دھڑکن اٹل ہے،
یہ لمحہ ابھی جو گزرنے کو ہے
جانے کب کا گزر بھی چکا اور،
گزر بھی رہا ہے
نجانے یہ کتنے زمانوں میں جا کر کہیں ختم ہو گا۔۔
خبر کیا کہ لمحوں کی یہ آبشار،
آبشارِ بقا ہے،
فنا ہے، کہ کیا ہے؟
یہ لمحہ جو جانے کہاں سے مرے قدموں میں آ پڑا ہے
مجھے کیا خبر اس کے پاتال میں کیا گڑا ہے
خبر کیا یہیں سے مجھے خود تلک آ پہنچنے کا رستہ ملے؟
فضا میں گرد ہے اور آسماں پر زرد چادر ہے
صدا اندر صدا اِک خوف بستا ہے
تخیّل در تخیّل سہم سے سمٹی ہوئی سوچیں
حرارت کا حوالہ ڈھونڈنے کو ہر شکم کی آگ رقصاں ہے
سمندر سے اٹھے طوفان ساحل بستیوں کو کھا رہے ہیں
ہوا کے سنسنانے کی صدا کا ساز بھی نوحے سنانے لگ پڑا ہے
ہوس اور حرص کی بڑھتی نمی نے ہر نِجَس پیکر نفس کو
جو یہ زنگ آلود سا اِک رنگ بخشا ہے
وہ ہر چہرے سے ظاہر ہے!
مرے پنچھی!
تمھارے ان پروں پر یہ سفیدی دودھ جیسی ہے
اسے میلا نہ ہونے دو!
کہیں خوشبوؤں میں بستے گلابی گلستاں کی راہ کو جاؤ
خدا کے دہر کو دیکھو!
نہ تم اس شہر کو دیکھو!
یہ ویراں چپ چاپ سڑک جس سمت چلی ہے
کیا معلوم اس رستے پر
اس ویراں سنساں رستے پر
کیسی کیسی بپتاؤں کے نقش گھڑے ہیں
اس پر جو پتے ہیں سارے زرد پڑے ہیں
کیا معلوم ان سوکھی سوکھی شاخوں پر
کتنے پرندے اڑتے تھے
اور کتنے گلہری رہتے تھے
جانے ایسے تنہا رستوں پر چلنے کا کیا حاصل ہے
اس ویراں چپ چاپ سڑک کی
جانے کون سی منزل ہے
زخمی آوازیں، وہی الفاظ دہرائے ہوئے
پھر وہی سوچوں کے گھاؤ، شور زخمائے ہوئے
مسخ کر دیتے ہیں انساں کا شعور!
رحمت یزداں ملے جو انتہائے شوق سے
جگمگا اٹھتی ہے قسمت بن کے نورِ کوہِ طور
تتلیاں خوابوں کی، مٹھی میں اگر آ جائیں تو
رنگ پھیلیں سوچ کے روزن سے آتی دھوپ میں
لیکن ایسی انتہائے شوق بھی،
دسترس نا دسترس کے درد سے
دِل کو تڑپاتی رہے
سلسلے ٹوٹیں تو پھر کب جڑ سکیں
جاتے پنچھی کب گھروں کو مڑ سکیں
یاد کا ققنس مگر زندہ رہے
آگ میں جل کر ملے پھر زِندگی
خاک میں مل کر جلے پھر زِندگی
منجمد ہو جائیں سب برفیلے طوفانوں کے بیچ
اور لمحے میں بدل جائے کبھی سارا سماں
فرطِ قحطِ نم کبھی جنگل کے جنگل دے اجاڑ
اور کبھی بارش نہ تھم پائے اجڑ جائے جہاں!
وقت کی چکّی میں زندہ بے یقینی ہی رہے
یہ تسلسل خواب کا جاری رہے
پلکوں پر چنچل چنچل سپنے آ جاتے ہیں
جب آکاش پہ کالے کالے بادل چھاتے ہیں
سپنوں کی بارش میں ترا آنچل لہراتا ہے
اور بادل کی اوٹ میں چندا بھی شرماتا ہے
دل کے آنگن میں جب آ کر پنچھی گاتے ہیں
تیری میٹھی یاد کے سارے سُر بندھ جاتے ہیں
شام ڈھلے جب شہر کنارے سورج سوتا ہے
اک جادُو سا شہرِ طرب میں سب پر ہوتا ہے
اور مرا دل تنہا تنہا بیٹھا روتا ہے
اسے کہنا۔۔۔۔
کہ پھر سے گلستاں میں
بہار آنے لگی ہے۔۔۔۔۔
اسے کہنا۔۔۔۔۔
کہ برسوں سے اِس اُجڑے آشیاں میں
صبا نے جھانک کر دیکھا،
چٹکنے لگ پڑے غنچے
اسے کہنا۔۔
کہ پھر سے راہ پیما ہیں نگاہیں
اور اِک اقرار کو ترسی ہوئی آنکھیں
تصور میں اسی کو۔۔۔
بس اسی کو دیکھتی ہیں
یہی سحر تھی
یہی پرندے،
انہی درختوں
پہ بیٹھے نغمے۔۔ سنا رہے تھے
یہی وہ دُھن تھی
جو گا رہے تھے
صبا سے اٹھکیلیوں میں مصروف
نرم پتے مری ہی غزلیں سنا رہے تھے
وہی سحر ہے
وہی پرندے
انہی درختوں پہ بیٹھے
کل والی دھن ابھی بھی سنا رہے ہیں
وہی شجر ہیں
وہی ہیں پتے
وہی ہیں اٹھکیلیاں صبا کی
مگر!!
یہ سب کچھ ہی کل کی صبح سے مختلف ہے
کہ آج تیری حسین دھڑکن کا ایک نغمہ
مری سماعت پہ منکشف ہے
یہ کیا ہے؟
کوئی سبزی ہے؟ خود کو کہتی ہے پھل؟
کیا کہا؟۔۔۔ سیب ہے؟
آؤ اس کو ذرا اپنی تنقید کی بھٹی میں ڈال کر دیکھ لیں
ذرا دیکھتے ہیں یہ پھل ہے یا سبزی یا آلو کہ پیاز
بڑے رنگ ہیں واہ۔۔
لیکن ہر اک مستند پھل تو پیلا ہی دیکھا ہے
مثلاً دُسہری، یا چونسہ، یا سندھڑی
یہ سبزی، یا بُوٹی یا جو شے بھی ہے، گول ہے۔۔۔
مستند پھل مگر بیضوی ہوتے ہیں
کیا دُسہری یا سندھڑی کبھی گول دیکھے گئے؟
کاٹ کر دیکھتے ہیں کہ اندر ہے کیا
اس میں تو کوئی گٹھلی نہیں، اس میں تو ڈھیر سے بیج ہیں
اور بیجوں پہ داڑھی نہیں
جیسے چونسہ، دُسہری یا سندھڑی کی گٹھلی پہ نورانی داڑھی بھلی لگتی ہے
اس کے بیجوں میں یہ اک کمی لگتی ہے
اب بھی یہ سیب کہتا ہے پھل ہے؟ ؟
سنو بھائی! سچ پوچھو تو میری تنقید میں اس کو پھل کہنا جائز نہیں۔
یہ ابھی ارتقا کے مراحل میں ہے
۔۔۔۔۔ گو کہ مستقبل اس کا خوش آئند ہے
24 جولائی 2008
اُداس چہرے
نڈھال بانہیں
تھکن میں لپٹی ہوئی نگاہیں
یہ پیلے پیلے فلک سے ہر دم
برستے شعلے
ہر ایک چہرے سے دیکھو ہر دم
عجب اُداسی برس رہی ہے
شکستہ دِل ہے
شکستہ پا ہے
ہر ایک دھڑکن
ہر اک قدم بھی
خدائے برتر
خدائے عالم۔۔۔
اب اس تڑپتے ہوئے جہاں پر
ذرا سا ہو جائے کچھ کرم بھی
—
کرخت چہرے
لپکتی بانہیں
ہوس میں لتھڑی ہوئی نگاہیں
یہ دھول مٹی میں لپٹی سڑکیں
شکار گاہیں
ہر ایک چہرے سے دیکھو کیسی
عجیب وحشت برس رہی ہے
حریص دِل ہیں
رئیس زادے
یہ گرگ سارے
یہاں کے جم بھی
خدائے برتر
خدائے عالم۔۔۔
اب اس پنپتی شکار گہ میں
کوئی تو بازو کرو قلم بھی
ہوا چلتی ہے
گرتے پات گہرے پانیوں میں
ناؤ کے جیسے کہیں ہجرت کو جاتے ہیں
شجر نوحے سناتے ہیں
ہوا دھیرے سے چلتی ہے
ستارے ٹمٹماتے ہیں
کہیں سے چاند کا پرتو
کہیں سے روشنی کی لو
کبھی پانی پہ پڑتی ہے
تو گویا آسماں کی جھلملاتی بے بدل تصویر بنتی ہے
مگر جب بھی کوئی پتا ہوا میں اڑتے اڑتے
پانیوں میں گر کے اپنی آخری ہجرت پہ جاتا ہے
تو سارے عکس بھی گویا فلک سے گر کے آئینے کے جیسے ٹوٹ جاتے ہیں
کنارے پر کھڑا جگنو اداسی سے
خموشی سے
یہ سب کچھ دیکھتا جاتا ہے
کر کچھ بھی نہیں سکتا
اچانک ہی جھٹکے سے میرے بدن کی ہر اک پور میں جیسے کہرام اٹھا
کچھ ایسا لگا جیسے میں اک گڑھے میں کفن اوڑھ کر سو رہا تھا
مگر دھیرے دھیرے پھسلنے لگا ہوں۔۔۔
میں گرنے لگا ہوں
میں گرتا چلا جا رہا ہوں
میں گرتا ہی
گرتا ہی
گرتا چلا جا رہا ہوں
میں گرتے ہوئے اور تیزی سے گرتا چلا جا رہا ہوں
مرے ہاتھ شل ہیں
مرے پاؤں؟
وہ تو یہ سمجھو کہ ہیں ہی نہیں ہیں
مرے بازوؤں میں ذرا دم نہیں ہے
بدن سن ہے،
اور کانوں میں سائیں سائیں
اور اک خوف سا ہے
جو خوں بن کے میری رگوں میں رواں ہے
توازن بھی گویا کوئی چیز ہو گی؟؟
کہاں ہے؟
اور اک کالا سایہ مرے پیچھے پیچھے گرا آ رہا ہے
اور اس کالے سائے کے چہرے پہ آنکھیں
بٹن جیسی آنکھیں
مجھے گھورتی ہیں
اور اس کا دَہَن۔۔۔۔
اس کا خونی دَہَن
چیختا آ رہا ہے
مرے جسم میں، میری پوروں میں جتنی بھی طاقت بچی ہے
اسے جمع کر کے
میں کوشش میں ہوں۔۔ چیخ ماروں۔۔
میں اس کالے سائے کو جو میرے سر چڑھ گیا ہے
اتاروں۔۔
مگر میری آواز ہی گم ہوئی ہے
اچانک کسی کھائی سے ٹن ٹنن ٹن ٹنن کی بہت تیز آواز
کانوں تو کیا
روح تک چھید کرنے لگی ہے
میں کیا دیکھتا ہوں
میں بستر پہ چادر کو مضبوطی سے تھام کر
پیٹ کے بل پڑا ٹن ٹنن ٹن سے بجتے الارم کو دیکھے چلا جا رہا ہوں
گرا جا رہا ہوں
کُرسیوں پر
میز کے چاروں طرف
بیٹھے ہوئے بالِشتیے
سگرٹیں سُلگائے
اپنی عینکوں کے
ملگجے شیشوں سے
اِک دُوجے کو تکتے
چائے کی چینک سے
کپ میں چُسکیاں بھرتے ہوئے
اور چھلکتی چائے کپ سے چاٹ کر
ڈونگرے برسا رہے ہیں داد کے اک بات پر
اور زیرِ لب
سرگوشیوں میں گالیاں بھی بڑبڑاتے جا رہے ہیں
اِن کے اک اک حرف، اک اک بات میں ایقان ہے
۔۔۔۔اور اک اندھا اعتماد
جیسے دُنیاؤں کے خالق نے
انہی کے مشورے سے
زندگی ترتیب دی
گالیوں کے، داد کے اور قہقہوں کے دور میں
چائے کے کپ میں اٹھے طوفاں کے بڑھتے شور میں
پنڈلیوں سے بانس باندھے
اپنا اپنا قد چھپا کر
سب کی پَستہ قامتی کو ماپتے بالِشتیے
اونچی آوازوں میں پورے زور سے
بات ہر اک دوسرے کی کاٹتے بالِشتیے
چائے کے کپ چاٹتے بالِشتیے
ہزار راتوں کی بات چھوڑو
کہ ہم تو صدیوں سے اِک تصوّر کو جسم دینے کو رو رہے ہیں!
ہمارے دِل میں جو بے نہایت سی آرزو ہے
یہ جستجو ہے
جسے ابھی تک نجانے کتنی ہی حسرتیں ہیں
مگر وہ لمحہ!
کہ جب سبھی خواہشیں سنور کر،
بس ایک حسرت کے برف پیکر
میں ڈھل کے ماتم کا رنگ اوڑھیں!
تو ایک عالم پہ زنگ چھوڑیں!
بہار خوابوں کے گلستاں سے ہمیں بلائے!
خزاں نہ جائے!
وہی ہیں فاصلے اور قافلے پھر بھی رواں ہیں
انہی میں گم کہیں لمحوں کے، برسوں اور صدیوں کے گماں ہیں
یہ ہم جو ایک بوسیدہ عمارت کے کھنڈر سے پھول چننے جا رہے تھے
ہمارا خواب تھا!
ہم دہر کو خوشبو سے بھرنا چاہتے تھے!
مگر ہم ہڈیوں کی راکھ لے آئے
یہ ہم جو خواب کے دریا سے اِک جھرنا۔۔۔۔۔
بس اِک چھوٹا سا جھرنا چاہتے تھے
جو ہمارے دشت کی بے آب مٹی کو ذرا نم آشنا کر دے
مگر جانے کہاں سے لُو کا ہم طوفان لے آئے
کبھی بھی ہم نے لمبے فاصلوں سے سرخیاں دیکھیں
تو ہم اس سمت کو لپکے
مگر رستوں کے پیچ و خم میں ہی اتنا سمے بیتا
کہ ہم چہرے پہ زردی اور پیلاہٹ لپیٹے لوٹ آئے
وہی ہیں فاصلے قدموں کے منزل سے
وہی ہے راکھ چہرے پر،
وہی لُو کے تھپیڑے ہیں
وہی زردی میں لپٹی نیم وا آنکھیں
شکستہ دِل میں تھوڑا اور جی لینے کی خواہش بھی
مگر عمرِ معین کی بچی پونجی تو بس چند ایک لمحے ہے
یہ سچ ہے ہم کبھی بھی عشق کے معیار پر پورے نہیں اترے
مگر ایسا نہیں کرنا
ہمیں مجرم نہیں کہنا
کہ ہم کوہ مصائب پار کرنے سے کبھی منکر نہیں ٹھیرے
خدایا!!
ہم کو اب تیری گواہی کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔
ہمیں پھر سے تباہی کی ضرورت ہے
یہ میں ہوں
پاتال میں گڑا ہوں
وہ تُو ہے
ہر دم فلک کی جانب رواں دواں ہے
یہ میں ہوں
جس نے تجھے نکھارا
تجھے سنوارا
ترے لیے سب نشیلی راتوں کی نیند چھوڑی
ترے لیے سارے خواب چھوڑے
وہ خواب جن میں
تمام دنیا کی روشنی تھی
ہر ایک جنت کی تازگی تھی
بہار جن میں رچی بسی تھی
یہ میری آنکھیں
یہ زرد آنکھیں
یہ آنکھیں جن میں
ہزار راتوں کی تیرگی ہے
یہ میں ہوں
تیرے عظیم دولت سرا کو
اپنے مہین کندھوں پہ جانے کب سے لیے کھڑا ہوں
یہ میں
جو پاتال میں گڑا ہوں
صبح لیتی ہے انگڑائیاں گاؤں میں
پھر اُجالا ہوا پُرفشاں گاؤں میں
کل تلک جھاڑ جھنکار‘ گرد و غبار
آج پھل پھول پُھلواریاں گاؤں میں
ہر قدم پر اُگے ہیں ستاروں کے کھیت
ہر گلی بن گئی کہکشاں گاؤں میں
صاف شفّاف روشن خنک راستے
اُجلے اُجلے معطّر مکاں گاؤں میں
فصلِ گندم کے خوشے جواہر نگار
موتیوں کی کمی اب کہاں گاؤں میں
کُوبکُو خوشبوؤں کے حسیں قافلے
سُو بہ سُو دُودھ کی ندّیاں گاؤں میں
زندگی مانگتی ہے زمیں سے خراج
کوئی ذرّہ نہیں رائیگاں گاؤں میں
عزم و اخلاص کی زندہ تصویر ہیں
شوخ بانکے سجیلے جواں گاؤں میں
رہٹ گاتا ہے پائل کی جھنکار پر
رقص کرتی ہیں پنہاریاں گاؤں میں
شہر کی پُر تصنّع فضاؤں سے دُور
میری منزل ہے جنّت نشاں گاؤں میں
پورب سے آئے ہیں بادل
گنگا جل لائے ہیں بادل
رنگ ہے ان کا کاہی کاہی
پھیلی ہے ہر سمت سیاہی
چلتے ہیں یہ ہلکے ہلکے
رنگ برنگے روپ بدل کے
نظریں جب بھی اٹھاتے ہیں ہم
اک نئی صورت پاتے ہیں ہم
شیر کبھی بن جاتے ہیں یہ
ہم کو خوب ڈراتے ہیں یہ
شکل کبھی ہوتی ہے ان کی
موٹے تازے گھوڑے جیسی
دھیرے دھیرے نقش بدل کر
ہاتھی بن جاتے ہیں اکثر
جب یہ آتے ہیں مستی میں
دوڑ لگاتے ہیں مستی میں
یہ اُس کو چھونے جاتا ہے
وہ اُس کے پیچھے آتا ہے
کھیل ہی کھیل میں لڑ جاتے ہیں
یہ آپس میں غرّاتے ہیں
ایک پہ اک چڑھ کر آتا ہے
برقی کوڑے لہراتا ہے
پھر یہ اپنی سُونڈ اٹھا کر
جھاگ اُڑاتے ہیں دنیا پر
جن کو ہم بارش کہتے ہیں
جو دریا بن کر بہتے ہیں
صبح سویرے اٹھتا ہوں
روز اندھیرے اٹھتا ہوں
اُٹھ کر سیر کو جاتا ہوں
ٹھنڈی ہوائیں کھاتا ہوں
پُھول اُسی دم کھلتے ہیں
غنچے آنکھیں ملتے ہیں
شبنم بکھری ہوتی ہے
کلیوں کا منھ دھوتی ہے
باغ مُعطّر ہوتا ہے
دل کش منظر ہوتا ہے
بلبل گیت سناتی ہے
کوئل شور مچاتی ہے
ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں
سب کو پنکھا جھلتی ہیں
ڈالی ڈالی ہلتی ہے
دل کو فرحت ملتی ہے
جسم میں چُستی آتی ہے
آنکھ بھی ٹھنڈک پاتی ہے
دن بھر جی خوش رہتا ہے
ہر غم ہنس کے سہتا ہے
جو کوئی اس دم سوتا ہے
اس نعمت کو کھوتا ہے
اس طَوراب کے گزری ہے اہلِ چمن کی عید
جیسے وطن سے دور غریبُ الوطن کی عید
دستِ جمیل رنگِ حنا کو ترس گئے
بوئے سَمن کو ڈھونڈتی ہے پیرَہَن کی عید
عارض ہیں زخم زخم تو آنکھیں لَہو لَہو
دیکھی نہ ہو گی دوستو اس بانکپن کی عید
گُل رنگ قہقہوں کی فصیلوں سے دور دور
نالہ بہ لب گزر گئی غُنچہ دہن کی عید
اے ساکنانِ دشتِ جنوں کس نشے میں ہو
شعلوں کی دَسترَس میں ہے سَرو و سَمن کی عید
بہاروں کی ملکہ یہ بھونروں کی رانی
گلابی ادائیں ‘ شگفتہ جوانی
’’کوئی سن لے اَمرت نگر کی کہانی‘ ‘
یہ پیاسی امنگیں ‘ یہ نیناں رسیلے
’’مدُھرتا کے رسیا مدُھرتا کو پی لے‘ ‘
یہ گل رنگ مکھڑا کہ چندا لجائے
شگوفوں کو ڈھانکے، پَھبَن کو چھپائے
’’کوئی مجھ کو دیکھے مرے گیت گائے‘ ‘
یہ پیاسی امنگیں ‘ یہ نیناں رسیلے
’’مدُھرتا کے رسیا مدُھرتا کو پی لے‘ ‘
یہ پھولوں کی مالا‘ یہ بانہوں کے جُھولے
یہ رنگین کونپل شفق جیسے پُھولے
’’کوئی ان میں مچلے کوئی ان کو چُھولے‘ ‘
یہ پیاسی اُمنگیں یہ نیناں رسیلے
’’مدُھرتا کے رسیا مدُھرتا کو پی لے‘ ‘
اُمنگوں پہ غالب ہے صیّاد کا ڈر
مگر گنگناتا ہے پیروں کا زیور
’’کوئی دل میں آئے زمانے سے چُھپ کر‘ ‘
یہ پیاسی اُمنگیں ‘ یہ نیناں رسیلے
’’مدُھرتا کے رسیا مدُھرتا کو پی لے‘ ‘
نہ زلزلوں سے ہراساں ، نہ آندھیوں سے ملول
مثالِ کوہ تھے دشتِ بلا میں سبطِ رسولؐ
وہ زخمِ پاے مبارک، وہ برچھیاں ‘ وہ ببُول
وہ العَطَش کی صدائیں ‘ وہ تپتی ریت‘ وہ دُھول
شہید خاک پہ تڑپیں ‘ رِدائیں چھن جائیں
یہ امتحاں بھی گوارا‘ وہ امتحاں بھی قبول!
زمینِ کرب و بلا تجھ کو یاد تو ہو گی
لُہو میں ڈوب کے نکھری تھی داستانِ حُسینؑ
ہزار ظلم و تشدّد کی آندھیاں آئیں
کسی طرح نہ مٹا دہر سے نشانِ حُسینؑ
لَبوں پہ کلمہِ حق ہے دلوں میں ذوقِ جہاد
جہاں میں آج بھی رہتے ہیں ترجمانِ حُسینؑ
اگر حُسینؑ نہ دیتے سراغِ منزلِ حق
زمانہ کُفر کی وادی میں سو گیا ہوتا
جہاں پہ چھاگئے ہوتے فنا کے سنّاٹے
شعورِ زیست اندھیروں میں کھو گیا ہوتا
کبھی کبھی تو سرِ راہ دیکھ کر ہم کو
تمھارے سر سے بھی آنچل سرک ہی جاتا ہے
تمھاری عنبریں زُلفوں کی تیز لپٹوں سے
ہمارا سینہِ ویراں مہک ہی جاتا ہے
کوئی تو بات ہے جو ہم کو مُلتفت پآ کر
بصد غرور کبھی مسکرا بھی دیتی ہو
اداے خاص سے لہرا کے، رقص فرما کے
ہمارے شعلہِ دل کو ہوا بھی دیتی ہو
کبھی بہ پاسِ تقدّس، ہماری نظروں سے
اُلجھ کے ٹوٹ گئی ہے تمھاری انگڑائی
قسم خدا کی بتاؤ بوقتِ آرایش
حضورِ آئنہ تم کو حیا نہیں آئی
ہماری شورشِ جذبات کے تخاطب پر
تمھارے ہونٹ یقینا پھڑکنے لگتے ہیں
وُفورِ شوق کی رِم جِھم سے شوخ سینے میں
کبھی کبھی تو کئی دل دھڑکنے لگتے ہیں
اب اپنے نیم تغافل سے باز آجاؤ
تمھیں غرور ہی لازم ہے سرکشی تو نہیں
ہمارے ذوقِ طلب کے جواب میں حائل
ذرا سی شرم و حیا ہے ستم گری تو نہیں
نظر ملا کے محبّت کا اعتراف کرو
جو کرسکو تو حقیقت سے انحراف کرو
میں غازی ہوں مجھے عزم و یقیں کا شہر کہتے ہیں
مرے ہر وار کو دشمن خدا کا قہر کہتے ہیں
مجھے شعلوں کا دریا‘ بجلیوں کی نہر کہتے ہیں
سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا
میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا
عُقابی ہیں مری آنکھیں چمک جن میں شراروں کی
مرے ہی بازوؤں میں ہے صلابت کوہ ساروں کی
مری ہیبت سے لرزاں ہیں فضائیں کارزاروں کی
سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا
میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا
مری تکبیر کے آگے بموں کی گھن گرج کیا ہے
وہ ٹینکوں کی قطاریں لے کے آجائیں حرج کیا ہے
میں ہوں خیبرشکن‘ میرے یے دیوارِ کَج کیا ہے
سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا
میں غازی ہوں ‘ قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا
پسینہ جس جگہ میرا گرے بارُود بُجھ جائے
اگر چاہوں قمر کی مشعلِ بے دُود بُجھ جائے
بدن کی خاک جھاڑوں آتشِ نمرود بُجھ جائے
سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا
میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا
ستونِ آہنی ہو کر ہَوا کی چال رکھتا ہوں
رگ و پَے میں رواں اک شعلہِ سیّال رکھتا ہوں
فرشتوں کی کمک اور آسماں کی ڈھال رکھتا ہوں
سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا
میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا
میں اعدا کو فنا کر کے ہی اب شمشیر ڈالوں گا
اگر بھاگے گا دشمن پاؤں میں زنجیر ڈالوں گا
میں پربت کاٹ ڈالوں گا سمندر چیر ڈالوں گا
سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا
میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا
شہادت زندگی کا میری اصلِ مُدّعا ٹھہری
مرے مقصد کی سچّائی مری وجہِ بقا ٹھہری
متاعِ خلد میری جاں نثاری کا صلہ ٹھہری
سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا
میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا
کاکل ترے زرکار تھے
عارض شگوفہ زار تھے
ابر و اپی تلوار تھے
اے خستہِ تیغِ جفا
الجیریا … الجیریا
پاؤں میں تیرے بیڑیاں
چہرے پہ زخموں کے نشاں
دل میں گڑی ہیں سُولیاں
اب ہے سماں ہی دوسرا
الجیریا … الجیریا
تشنہ دَہاں تیرے سُبو
ارزاں ہے جِنس آبرو
مقتل سجے ہیں چار سُو
ہر اک ستم تجھ پر رَوا
الجیریا … الجیریا
بپھرا ہوا ہے سیلِ خُوں
صحرا بہ صحرا لالہ گوں
لرزاں ہے کوہِ بے سُتوں
بندِ مصائب تا کجا؟
الجیریا … الجیریا
پچھلا پَہَر ہے رات کا
ٹوٹیں گے تارے جا بجا
جلتی رہے شمعِ وفا
چمکے گا سورج دیکھنا
الجیریا … الجیریا
……… 1 ………
مدتوں کنجِ قفس میں ہم نے
آشیانے کے لیے خواب بُنے
چاندنی رات کی مہکاروں میں
گنگنانے کے لیے خواب بُنے
اپنے تاریک شَبستانوں کو
جگمگانے کے لیے خواب بُنے
……… 2………
بزمِ ہستی میں اندھیرا ہی رہا
ماہ پَاروں کا فُسوں ٹوٹ گیا
جن سے غنچوں نے ہنسی مانگی تھی
ان بہاروں کا فُسوں ٹوٹ گیا
یا تو گرداب سے ابھرے ہی نہ تھے
یا کِناروں کا فُسوں ٹوٹ گیا
……… 3 ………
تُند موجوں سے اَماں مل نہ سکی
تیز دھاروں میں بھٹکتے ہی رہے
سایہِ گُل کے طلب گار تھے ہم
خارزاروں میں بھٹکتے ہی رہے
رہ نماؤں کا کرم کیا کہیے
رہ گزاروں میں بھٹکتے ہی رہے
……… 4 ………
تلخیِ زیست وہی ہے اب تک
وہی غم ہیں ‘ وہی تنہائی ہے
جب بھی فنکار نے لَب کھولے ہیں
ایک زنجیر سی لہرائی ہے
صبحِ آزادیِ گلشن تو نہیں
شبِ غم بھیس بدل آئی ہے
کفِ صبا پہ مہکتا ہوا گلاب تھا وہ
رَوش رَوش تری خوشبو سے مُشک بار ہوئی
کرن کرن ترے پَرتو سے تاب دار ہوئی
کفِ صبا پہ مہکتا ہوا گلاب تھا وہ
نگارِ موسمِ گُل کی جبیں کا داغ ہیں ہم
ہمیں سے لالہ و گُل کی قبا رفُو نہ ہوئی
ہمیں سے زحمتِ تائیدِ رنگ و بُو نہ ہوئی
نگارِ موسمِ گُل کی جبیں کا داغ ہیں ہم
مہ و نجوم کے جَھرنوں پہ نوحہ خواں ہوتے
تجھے جو خضر سمجھتے تو ہم یہاں ہوتے؟
کوئی نہیں ہے جو بُجھتی آنکھوں میں زندگی کے دیے جلادے
کوئی نہیں ہے جو دل کے دریا میں حسرتوں کے کنول کھلا دے
لبوں کی پگڈنڈیوں پہ آہوں کے گرم رَو قافلے رواں ہیں
کٹیلی آنکھیں لہُو لہُو ہیں ‘ ہلالی ابرُو دھواں دھواں ہیں
نظر پہ پَت جَھڑکی زردیوں کے مُہیب سایے بہت گراں ہیں
چمکتے تاروں کی آبِ جُو میں دُھلے ہوئے سائباں کہاں ہیں
نکیلی پلکوں کی سُولیوں پر حنائی اشکوں کے سرد لاشے
نہ جانے کب سے ٹنگے ہوئے ہیں نہ جانے کب تک ٹنگے رہیں گے
سمے کے جنگل میں شب کی ناگن لپکتی پھرتی ہے پَھن اٹھائے
سُلگتے داغوں کی روشنی کو کہیں یہ ڈس کر چلی نہ جائے
قدم قدم پر ستارے ٹوٹیں رَوش رَوش پر ہوا ڈرائے
اُجاڑ راہوں میں دل کی دھڑکن کسے پکارے‘ کسے بلائے
کوئی نہیں ہے جو بُجھتی آنکھوں میں زندگی کے دیے جلادے
کوئی نہیں ہے جو دل کے دریا میں حسرتوں کے کنول کھلادے
چار سُو آگ تھی نفرت کی لگائی ہوئی آگ
ہاں وہ آتش کدہِ‘ غیر سے لائی ہوئی آگ
جس نے کعبوں کو‘ کنشتوں کو بَھسَم کر ڈالا
جسم اور رُوح کے رشتوں کو بَھسَم کر ڈالا
میں نے اس آگ کو گُل زار بنانے کے لیے
دامنِ گُل کو شراروں سے بچانے کے لیے
دیدہِ شوق میں اشکوں کے سمندر پالے
قلبِ نادار میں داغوں کے نگینے ڈھالے
نہ ہوئے پر نہ ہوئے سرد جہنم کے شرار
مسکراتے رہے ذہنوں میں دھو ئں کے مینار
درمیانِ دل و جاں آگ کی دیوار رہی
زندگی کس کے لیے برسرِ پیکار رہی؟
چپّے چپّے سے اُبلتے ہوئے خُوں کے چشمے
تیری مظلومیِ بے حد کا پتہ دیتے ہیں
کتنے جابر ہیں نئے دور کے سلطاں زادے
تیری معصوم اُمنگوں کو سزا دیتے ہیں
جب بھی جولانیاں کرتا ہے ترا عزمِ جمیل
تیرے گرد اک نئی دیوار اٹھا دیتے ہیں
آگ محرومی کی روشن ہے جو تیرے دل میں
اپنے دامن سے اسے اور ہوا دیتے ہیں
—–
اس سے پہلے بھی یوں ہی جھلسے گئے دیدہ و دل
جسم روندے گئے تپتے ہوئے صحراؤں میں
تشنگی کاسہ بدست آئی تو شبنم نہ ملی
زہر گھولا گیا بہتے ہوئے دریاؤں میں
گرمیِ شوق نے جب انجمن آرائی کی
فصد کھولی گئی تیروں کی گھنی چھاؤں میں
خوں چکاں لاشوں پہ تعمیر ہوئے راج محل
روز اوّل سے یہی رسم ہے آقاؤں میں
خسرو و جَم نے تشدّد کا سہارا ڈھونڈا
ورنہ انسان تھے وہ کیسے خدائی کرتے؟
—–
چِلچلاتی ہوئی دھوپوں میں بھٹکتے پھرتے
سایہِ زُلف میں کیوں نغمہ سرائی کرتے؟
ان کی لغزش بھی سرِ راہ اُچھالی جاتی
لوگ ہر گام پہ انگشت نمائی کرتے!
دانے دانے پہ تھی محنت کش و جمہور کی مُہر
اپنی نسلوں کے لیے خاک کمائی کرتے
—–
یہ ہے وہ موڑ مگر رَہ گزرِ ہستی کا
کہ بہکتے ہوئے قدموں کو سنبھلنا ہو گا
ملک گیری کا تصوّر ہے لہو میں غلطاں
مُسکراتی ہوئی اقدار پہ چلنا ہو گا
امنِ عالم خس و خاشاک کا خرمن ہی تو ہے
سر اٹھاتے ہوئے شعلے کو کُچلنا ہو گا
کوئی ذرّہ ہو کہ صحرا‘ کوئی پتّھر کہ پہاڑ
تودہِ برف کے مانند پگھلنا ہو گا
اونچے محلوں میں پائل چھنکاتی ہے عید
میری گلی میں آتے ہوئے شرماتی ہے عید
پاس آئی تو جیسے مٹّی بن جائے گی
دُور ہی دُور سے اپنی چَھب دکھلاتی ہے عید
جلتے زخموں میں اور آگ سی بھردیتی ہے
دُکھی دلوں کو اور دُکھی کرجاتی ہے عید
تن پر اُجلے کپڑے اور نہ جھولی میں لعل
ہم کنگالوں سے کیا لینے آتی ہے عید
زرّیں کنگن کیسے پہنائیں خوشیوں کو
من کو نت نئی سوچوں میں اُلجھاتی ہے عید
عید آئی تو یاد آنے لگے
دُور کے چاند‘ روشنی کے داغ
پیار کے پُھول‘ دوستی کے داغ
ہجر کے گیت‘ خامُشی کے داغ
نِت نئے زخم مُسکرانے لگے
زخم ناداریِ گُلستاں کے
زخم پُرکاریِ نگہباں کے
زخم غم خواریِ بیاباں کے
سیکڑوں تیِر اک رگِ جاں ہے
عِید بھی کیا بہار ساماں ہے
بہشتِ شوق میں ڈھالیں گے خاکدانِ وطن
تلاشِ حُسن میں گرداں ہیں عاشقانِ وطن
دھواں دھواں ہی سہی کوچہِ بتانِ وطن
جبیں کے پاس تو ہے سنگِ آستانِ وطن
عیاں ہیں خونِ شہیداں کی عظمتوں کے نقُوش
زبانِ لالہ و گُل پر ہے داستانِ وطن
نسیمِ صبح کے جھونکے ذرا سہارا دے
اُبھر رہے ہیں اندھیروں سے خستگانِ وطن
وہ منتہیٰ نہ سہی کوئی سنگِ میل سہی
کسی مقام پہ پہنچا تو کاروانِ وطن
ہر ایک کُنج یہاں قابلِ نظارہ ہے
بس ایک گوشے پہ کیوں کیجیے گمانِ وطن
ہجومِ تشنہ لَباں دیکھتا ہے حسرت سے
غریقِ بادہ و ساغر ہیں خواجگانِ وطن
ہوا چلے تو فضائیں دمکنے لگتی ہیں
تہی نہیں ہے شراروں سے خاکدانِ وطن
اسے جسارت بے جا نہیں تو کیا کہیے
جنوں سے آنکھ ملاتے ہیں خسروانِ وطن
سدا دبی نہ رہے گی ضمیر کی آواز
یہ ایک مات بھی کھائیں گے شاطرانِ وطن
ابھی تو اور بڑھے گا شعورِ آزادی!
ابھی تو خواب سے چونکے ہیں ساکنانِ وطن
فروغِ سُنبل و ریحاں کا وقت آپہنچا
اُٹھو کہ جشنِ بہاراں کا وقت آپہنچا
پگھل رہے ہیں گراں بار شب کدوں کے ستون
طلوعِ مہرِ درخشاں کا وقت آپہنچا
کوئی حسین سی تعبیر ڈھونڈ کر لاؤ
شکستِ خوابِ پریشاں کا وَقت آپہنچا
شبِ فراق کٹھن تھی مگر تمام ہوئی
وصالِ مہر جبیناں کا وقت آپہنچا
چلو چلو کہ بگولوں کا رقص ختم ہوا
طوافِ کوُچہِ جاناں کا وقت آپہنچا
دلوں کے داغ چھپاؤ‘ ہنسی کو عام کرو
شکستِ کُلفتِ دَوراں کا وقت آپہنچا
مرے رفیقو! ہنسو اور خوب کُھل کے ہنسو
نمایش لب و دنداں کا وقت آپہنچا
صنم کدوں کے درو بام سر بہ سجدہ ہیں
عُروجِ حضرتِ انساں کا وقت آپہنچا
نشانِ عظمتِ جمہور پھر بلند کرو
زوالِ سطوتِ شاہاں کا وقت آپہنچا
کہاں سے آئی کدھر کو گئی نگارِ بہار
کہ گُلستاں میں ابھی تک ہے انتظارِ بہار
شگوفہ زار ہی مہکے نہ کو نپلیں پُھوٹیں
چمن میں پھر بھی منائی ہے یادگارِ بہار
یہی ہے قافلہِ رنگ و بُو کا حُسنِ خرام
کہ چُھپ گئی ہے بگولوں میں رہ گزارِ بہار
نہ چہچہے‘ نہ ترنّم‘ نہ زمزمے‘ نہ سرود‘
یہ بات کیا ہے کہ گُم صُم ہیں نغمہ کارِ بہار
کسی رَوش میں کوئی پُھول کِھل گیا تو کیا
قفس سے دشت و جبل تک ہو رہ گزارِ بہار
خزاں کی رات کٹھن ہے تو جاگ کر کاٹو
کہ زیرِ دار ہی سوتے ہیں جاں نثارِ بہار
کروٹیں خود بھی بدلتا ہے جہاں کا محور
جب زمیں گردشِ ایّام سے تھک جاتی ہے
جسم چھل جاتا ہے دھرتی کا رگڑ کھا کھا کر
لاکھ سنگین سہی جلد مَسک جاتی ہے
………………
سنگ اَندام شگافوں سے دھواں رِستا ہے
بطنِ گیتی سے بُخارات اُبل پڑتے ہیں
ملگجی دُھند سی آفاق پہ چھا جاتی ہے
تیرہ انداز گھٹاؤں سے شرر جھڑتے ہیں
………………
ایک بجلی سی تڑپتی ہے زمیں کے اندر
چادرِ خاک بہر سِمت سمٹ جاتی ہے
شعلے اٹھنے کے لیے راہ بنا لیتے ہیں
کوہساروں کے چٹخنے کی صدا آتی ہے
………………
زلزلوں کی وہ گراں بار بھیانک ضربیں
گنبدِ عرش کی بُنیاد ہلا دیتی ہیں
پنجہِ قہر کی مضبوط کمندیں اکثر
ایک جھٹکے سے پہاڑوں کو گرالیتی ہیں
………………
کچّی دھاتوں کے جراثیم لیے دامن میں
آتشیں لاوے کا سیلاب اُمنڈ آتا ہے
پھیل جاتے ہیں بہر سمت رقیق انگارے
کُرہِ ارض حرارت سے پگھل جاتا ہے
………………
خُوں اُگلتی ہیں فضائیں تو زمیں روتی ہے
آہِ مظلوم میں تاثیر یہی ہوتی ہے
دلوں میں درد سا اُٹّھا‘ لیا جو نامِ حسینؑ
مثالِ برق تڑپنے لگے غلامِ حسینؑ
لَبِ فرات جو پیاسے رہے امامِ حسینؑ
خدا نے بھر دیا آبِ بقا سے جامِ حسینؑ
رضا و صبر میں ان کا جواب کیا ہو گا
کہ جب بھی تیر لگا‘ ہنس دیے امامِ حسینؑ
غرورِ تیرگیِ شب کو توڑنے کے لیے
تمام رات دہکتے رہے خیامِ حسینؑ
فنا کا ہاتھ وہاں تک پہنچ نہیں سکتا
اَبَد کی لَوح پہ کَندہ رہے گا نامِ حسینؑ
کسی شہید کا خوں رایگاں نہیں جاتا
جہانِ نو کے یزیدو! سنو، پیامِ حسینؑ
آغوش میں ماہ پارے پالے ہم نے
گھر گھر میں نئے دِیپ اُجالے ہم نے
تاریک خرابوں کو نیا نُور دیا
ظُلمات سے آفتاب ڈھالے ہم نے
—–
جب جوش میں خوابیدہ اُمنگ آتی ہے
تیزابیِ خورشید کو شرماتی ہے
بپھری ہوئی نظروں کی تمازت کی قسم
پتّھر کی چٹان موم ہوجاتی ہے
—–
فانُوس کی لَو میں جھلملاتے ہیں کبھی
تاروں کی جبیں کو جگمگاتے ہیں کبھی
آنکھوں میں نُور بن کے رہتے ہیں ہم
سُورج کی کِرن میں مُسکراتے ہیں کبھی
—–
ہر رنج کو ہنس کے ٹال جاتے ہیں ہم
ناکامیوں پر بھی مُسکراتے ہیں ہم
اللہ کی قدرت کے تو قائل ہیں مگر
اپنی تقدیر خود بناتے ہیں ہم
—–
نظروں میں نیا زمانہ ڈَھلتا ہے حُضور
آغوش میں انقلاب پَلتا ہے حُضور
حالات کے سانچے مجھے کیا بدلیں گے
ماحول مِرے جَلو میں چلتا ہے حضور
یہ جنگل کے آہو، یہ صحرا کے راہی
تصنّع کے باغی، دلوں کے سپاہی
فقیری لبادے تو انداز شاہی
یہ اکھڑ ‘ یہ انمول‘ بانکے سجیلے
یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے
مصائب سے کھیلے حوادث کے پالے
ہیں روشن جبیں ‘ گو ہیں پاؤں میں چھالے
یہ پیتے ہیں ہنس ہنس کے تلخی کے پیالے
کہ جیسے کوئی مَدھ بھرا جام پی لے
یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے
طلب آشیاں کی نہ فِکرِ قفس ہے
نہ دولت کی پروا‘ نہ زر کی ہوس ہے
زباں میں گھلاوٹ نگاہوں میں رس ہے
ہیں جینے کے انداز میٹھے رسیلے
یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے
زمانے کو چھوڑا صداقت نہ کھوئی
محبّت ہی کاٹی، محبّت ہی بوئی
نہ حاکم ہے کوئی، نہ محکوم کوئی
اُصولوں کے بندھن مگر ڈھیلے ڈھیلے
یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے
ہے پھولوں کا بستر کبھی بَن میں ڈیرا
نہ تفریق کوئی‘ نہ تیرا نہ میرا
جہاں سب نے چاہا وہیں پر بسیرا
وہ صحرا کے گُل بن‘ وہ وادی کے ٹیلے
یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے
ہر اک اپنی اپنی جگہ پر مگن ہے
نہ دیوارِ زنداں نہ حدِّ چمن ہے
یہاں بھی وطن ہے وہاں بھی وطن ہے
کوئی اِن سے تعلیمِ آوارگی لے
یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے
سَحر کدے کا تقدّس قمر کی آب ہو تم
ہجومِ نُور ہو‘ شعلہ ہو‘ آفتاب ہو تم
یہ روشنی کا تمّوج‘ یہ شوخیوں کے شرار
نگارِ برق ہے رقصاں کہ بے نقاب ہو تم
ہے گوشہ گوشہ منوّر تو کُنج کُنج نکھار
دیارِ حسن ہو تم وادي شباب ہو تم
صبا کا لَوچ گُلوں کی پَھبن خمیر میں ہے
چمن کی رُوح بہاروں کا انتخاب ہو تم
نظر کہ جامِ صبوحی‘ چلن کہ مستیِ رقص
حریمِ بادہ ہو تم‘ پیکرِ شراب ہو تم
نَفَس نَفَس میں ترنّم کی جَوت جاری ہے
غزل کا شعر ہو تم نغمہ و رُباب ہو تم
یہ نغمگی‘ یہ بہاریں ‘ یہ رنگ و نُور‘ یہ رُوپ
خدائے حسن کی تصویرِ کامیاب ہو تم
یہ شورشیں ‘ یہ تکلّف‘ یہ لغزشیں ‘ یہ خرام
بہر ادا یہ حقیقت ہے لاجواب ہو تم
نہیں نہیں کہ حقیقت گراں بھی ہوتی ہے
سَحر شکار اُمنگوں کا کوئی خواب ہو تم
بادِ خزاں سے گلشنِ ہستی ہے ہم کنار
ویرانیوں کا رقص ہے اب ڈھل چکی بہار
کلیاں جُھلس چکی ہیں ‘ خزاں کا نُزول ہے
پُر ہَول خامشی ہے‘ بگولے ہیں ‘ دُھول ہے
وہ کج رَوی ہے اور نہ اب وہ غرور و ناز
گُنبد زمیں پہ بیٹھ گئے ہیں بصد نیاز
ابرو میں وہ تناؤ نہ آنکھوں میں کوئی رَس
محراب ہے نہ طاق نہ سینے پہ وہ کَلَس
نقش و نگار مسخ تو چہرے پر جھرّیاں
ہل کی اَنی سے پڑ گئیں کھیتوں میں دھاریاں
ہے یہ بدن پہ کھال کا سمٹا ہوا غلاف
ڈالے ہیں زلزلے نے عمارت میں کیا شگاف
نیلی رَگوں کے جسم پہ بکھرے ہیں جال سے
جیسے کہ رینگتے ہوئے کیڑوں کے سلسلے
ہر دم کمالِ ضُعف سے یوں کانپتا ہے سر
جیسے لرز رہا ہو سفینہ بہاؤ پر
خشکی جمی ہوئی لبِ سادہ پہ اس طرح
روغن اتر رہا ہو دریچے کا جس طرح
آنکھوں کی پُتلیوں پہ پپوٹوں کے سائباں
جیسے کسی مکان کی دربستہ کھڑکیاں
بینائی پر ہے دُھند کا پردہ پڑا ہوا
جیسے کہ رَوزنوں پہ ہو جالا تنا ہوا
بکھرے ہوئے یہ بال‘ یہ اُلجھی ہوئی لَٹیں
جیسے کسی درخت کی سُوکھی ہوئی جڑیں
ماتھا ہے ملگجی سا کہ پگھلا ہوا ہے رانگ
ٹوٹی ہوئی کڑی ہے کوئی یا شکستہ مانگ
سبزہ ہے رُخ پہ یا کہ ہے کانٹوں کی کوئی باڑ
بازو ہیں نیم وَا کہ ہیں اترے ہوئے کواڑ
اعصابِ مُردہ‘ جسم کا ہر حصّہ بے سَکت
آغوش جس طرح کوئی بیٹھی ہوئی سی چھت
یوں ضُعف سے درازیِ قامت ہے سَرنِگوں
بارہ دری کا جیسے خمیدہ سا اک ستوں
پُشت آبلہ نما تو کمر نصف دائرہ
مینار گویا اپنے ہی قدموں پہ آگرا
سینے پہ زندگی کے شکستہ سے بام و در
ڈھانچا ہے ہڈّیوں کا کہ اُجڑا ہوا نگر
کیا کیا نہ ظلم و جَور حَسیں جسم پر ہوئے
اُف وہ محل‘ جو وقت سے پہلے کھنڈر ہوئے
دم بخود سارے شگوفے تھے مہک سے محروم
نکہتِ گُل کی پھواروں پہ کڑے پہرے تھے
چمپئی بیل کی سیّال نمُو پر قدغن
سرو و سوسن کی قطاروں پہ کڑے پہرے تھے
غم کے تاریک لبادوں میں سمن زار اسیر
تیرگی پوش چناروں پہ کڑے پہرے تھے
گیت محبوس عنادل کے لبوں پر تالے
اس گھڑی زمزمہ کاروں پہ کڑے پہرے تھے
پھر ہوا شور کہ وہ طوق و سِلاسل ٹوٹے
تیرہ و تار دریچوں سے اُجالے پھوٹے
اک مسرّت کی کرن تیر گئی گلشن میں
اب شعاعِ گُل و انجم پہ کوئی قید نہیں
لالہِ وقت کے ہونٹوں پہ ستارے ابھرے
پھول سمجھے کہ تبسّم پہ کوئی قید نہیں
بند کلیوں کے چٹکنے کی کھنک لہرائی
جس طرح اذنِ تکلّم پہ کوئی قید نہیں
گھنگھرو باندھ کے پاؤں میں صبا اٹھلائی
جس طرح رقص و ترنّم پہ کوئی قید نہیں
لیکن افسوس کہ زنجیر صدا دیتی ہے
ہر اُبھرتی ہوئی آواز دبا دیتی ہے
یہ ہلالِ عید ہے قوسِ افق پر ضَو فگن
نیلگوں خیمے میں یا بیٹھی ہے کوئی سیم تَن
پُر تکلّف موڑ ہو جس طرح، جُوے شیر میں
یا ذرا خم آگیا ہو شاہدِ تنویر میں
مانگ ہو افشاں کی جیسے سنگِ مرمر کی کماں
جیسے انگشتِ سلیماں پر انگوٹھی کا نشاں
جس طرح برقاب خنجر، جیسے چاندی کی کٹار
یا کسی معصوم دوشیزہ کے سینے کا اُبھار
اس قدر نازک ادا جیسے کلائی حُور کی
اس قدر شفاف جیسے قاش ہو بِلُّور کی
نُورِ پیغامِ مسرّت ہر کرن سے ضَوفشاں
مطلعِ انوارِ عشرت ہیں زمین و آسماں
جس کو دیکھو آج اسی کو اشتیاقِ دید ہے
کوئی البیلی دُلھن ہے یا ہلالِ عید ہے
جہانِ نو کے خداؤ نئی کرن پھوٹی
پرانے دیپ بجھاؤ نئی کرن پھوٹی
ہوا میں رُک نہ سکیں گی روایتی شمعیں
اب آفتاب جلاؤ نئی کرن پھوٹی
وہ پَو پھٹی وہ اُجالے کے نرم تیر چلے
وہ شب میں پڑگئے گھاؤ نئی کرن پھوٹی
سیاہیوں کا کفن چاک ہو گیا دیکھو
طلوعِ صبح مناؤ نئی کرن پھوٹی
شفق کے کھیت میں وہ روشنی کے پھول کِھلے
خزاں کو آگ لگاؤ نئی کرن پھوٹی
افق پہ چھا گئے زرکار و سیم گوں ڈورے
دلوں کے چاک ملاؤ نئی کرن پھوٹی
شفق بدوش رو پہلی سحر کی خوش رنگی
نظر نظر میں رچاؤ نئی کرن پھوٹی
پگھل رہا ہے دھواں دھار سطوتوں کا غرور
دہک اٹھا ہے الاؤ نئی کرن پھوٹی
شکار ہو نہ سکے گی جنوں کی زرتابی
خرد کے جال بچھاؤ نئی کرن پھوٹی
وہی جو تیرگیِ شب میں ظلم ڈھاتے تھے
اب ان کو پیار سکھاؤ نئی کرن پھوٹی
مرا پسینا جبینِ سَحر کا جُھومر ہے
مرا لہو نہ بہاؤ نئی کرن پھوٹی
جہاں سے حرص و ہَوس کا غُبار چَھٹ جائے
وفا کی دھوم مچاؤ نئی کرن پھوٹی
عیُوب پوش سیاہی کے سُودخوروں میں
متاعِ علم لُٹاؤ نئی کرن پھوٹی
ہر ایک فرد ہر انساں کا احترام کرے
اک ایسی رِیت بناؤ نئی کرن پھوٹی
نئی حیات جنم دن منا رہی ہے آج
نئے اصول بناؤ نئی کرن پھوٹی
بھرے جہاں میں کہیں پیار مجھ کو مل نہ سکا
وفا سی شَے کا طلب گار مجھ کو مل نہ سکا
قدم قدم پہ بِکی ہے مری متاعِ شباب
قدم قدم پہ متاعِ شباب بیچوں گی
گراں ہیں دوش پہ زُلفوں کے عنبریں سایے!
یہ ریشمیں سے مُعطّر سحاب بیچوں گی
لطافتِ لَب و رُخسار ہے مری دشمن
بہارِ غنچہ و فصلِ گُلاب بیچوں گی
نہ راس آئی مجھے چاندنی وفاؤں کی
بطورِ خاص شبِ ماہتاب بیچوں گی
مرے جنوں نے بڑی تلخیاں خریدی ہیں
نظر کے جام‘ لبوں کی شراب بیچوں گی
مرا غُرور ہے آج انتقام آمادہ!
بدن کا لَوچ‘ نگاہوں کی آب بیچوں گی
قسم ہے مجھ کو تقدّس مآب مَریمؑ کی!
بڑے خُلوص سے شرم و حجاب بیچوں گی!
حیا نصیب شگوفوں کو لُوٹنے والو!!
بہارِ زیست کا میں انتخاب بیچوں گی!
کھنکتے سِکّوں نے جب تک تمھارا ساتھ دیا
میں اپنا حُسن‘ جوانی‘ شباب بیچوں گی
حیا فروش ہوں ‘ جاؤ میں نیک نام نہیں !
مری نظر میں تمھارا بھی کچھ مقام نہیں !
بساطِ رنگ بچھاؤ بہار آئی ہے
حریمِ وقت سجاؤ بہار آئی ہے
نظر کے ساتھ شفق رنگ مے کا دور چلے
فضا کو مست بناؤ بہار آئی ہے
فضا کی تشنہ لَبی پر مٹھاس بِکھرا دو
رسیلے گیت سناؤ بہار آئی ہے
کوئی خوشی کا فسانہ کوئی ہنسی کی بات
لَبوں سے پھول گراؤ بہار آئی ہے
صبا کے ساتھ ملا ہے پیامِ بیداری
کَلی کَلی کو جگاؤ بہار آئی ہے
نگارِ باغ کی دوشیزگی نکھر جائے
کَلی کو پھول بناؤ بہار آئی ہے
سَحر کا رنگ، ستاروں کا نور پگھلا کر
رخِ چمن پہ پھیلاؤ بہار آئی ہے
نئی دُھنیں ہوں ، نئے ساز ہوں ، نئی تانیں
پرانے گیت نہ گاؤ بہار آئی ہے
غمِ خزاں کا چمن میں کوئی نشاں نہ ملے
اِک ایسا جشن مناؤ بہار آئی ہے
یہیں پہ جنتِ قلب و نظر کی ہو تشکیل
یہیں پہ خلد بساؤ بہار آئی ہے
یہی رستہ مری منزل کی طرف جاتا ہے
جس کے فُٹ پاتھ فقیروں سے اَٹے رہتے ہیں
خَستہ کپڑوں میں یہ لپٹے ہوئے مریل ڈھانچے
یہ بھکاری کہ جنھیں دیکھ کےِگھن آتی ہے
ہڈّیاں جسم کی نکلی ہوئی، پچکے ہوئے گال
میلے سر میں جوئیں ‘ اعضا سے ٹپکتا ہوا کوڑھ
رُوح بیمار‘ بَدن سُست‘ نگاہیں پَامال
ہاتھ پھیلائے پڑے رہتے ہیں روگی انسان
چند بیواؤں کے مدقوق سے پیلے چہرے
کچھ ہَوس کار نگاہوں میں اُترجاتے ہیں
جن کے افلاس زدہ جسم‘ ڈھلکتے سینے
چند سکّوں کے عوض شب کو بِکا کرتے ہیں
شدّتِ فاقہ سے روتے ہوئے ننّھے بچّے
ایک روٹی کے نوالے سے بہل جاتے ہیں
یا سرِ شام ہی سوجاتے ہیں بُھوکے پیاسے
ماں کی سُوکھی ہوئی چھاتی کو دبا کر منہ میں
چند بد زیب سے، شہرت زدہ انسان اکثر
اپنی دولت و سخاوت کی نمایش کے لیے
یا کبھی رحم کے جذبے سے حرارت پا کر
چار چھ پیسے انھیں بخش دیا کرتے ہیں
کیا فقط رحم کی حق دار ہیں ننگی روحیں ؟
کیوں یہ انسانوں پہ انسان ترس کھاتے ہیں ؟
کیوں انھیں دیکھ کے احساسِ تہی دستی سے
اکثر اوقات میں کترا کے نکل جاتا ہوں ؟
یہی رستہ مری منزل کی طرف جاتا ہے؟
یہ لرزتے ہوئے حسیں آنسو
میرے عزمِ سفر میں حائل ہیں
مجھ میں اب ضبطِ غم کی تاب نہیں
میرے قلب و جگر بھی گھایل ہیں
ہجر کو ہجر کیوں سمجھتی ہو
صرف احساس پر ہے غم کا مدار
میں نے دیکھا ہے حوصلوں کے طفیل
ہو گئے ہیں اَلَم نشاط آثار
جب کوئی شے ہی پائدار نہیں
دُکھ کے لمحے بھی بیت جائیں گے
غم کا انجام مُسکراہٹ ہے
پھر خوشی کے زمانے آئیں گے
لذّتِ درد بڑھتی رہتی ہے
زخم ہر بار کُھل کے سِلنے میں
مستقل قُرب میں وہ بات کہاں
جو مزا ہے بچھڑ کے ملنے میں
یوں نہ ضائع کرو خدا کے لیے
اپنے اشکوں کے سیم پاروں کو
ان کو صرفِ خوشی بھی ہونا ہے
پونچھ لو قیمتی ستاروں کو
تم سے ملنے کے واسطے ہر دم
اپنے دل میں خلش سی پاؤں گا
جانِ من اس قدر اُداس نہ ہو
میں بہت جلد لوٹ آؤں گا
……… 1 ………
بانسری پر کوئی دُھن چھیڑ کے کھوجا اس میں
مدھ بھری تان میں ہر گیت سناتا ہوا چل
راہ کی خُشک فضاؤں میں ترنّم گونجے
خواب آلود نظاروں کو جگاتا ہوا چل
بَربَطِ زیست پہ ہر گیت سُناتا ہوا چل
تجھ کو جانا ہے بہت دور‘ بہت دور ابھی
……… 2 ………
قافلے سے جو بچھڑ جائے مسافر کوئی
تیرے گیت اس کے لیے بانگِ درا بن جائیں
جب کوئی راہ بھٹکنے لگے منزل کے قریب
تیرے قدموں کے نشاں راہ نما بن جائیں
نقشِ پا سے رہِ منزل کو سجاتا ہوا چل
تجھ کو جانا ہے بہت دور‘ بہت دور ابھی
……… 3 ………
آبشاروں کے ترنّم ہی میں کھو جائے نہ تُو
راہ کی مست بہاروں کی تمنّا مت کر
جو کہ منزل کو بھلانے کی تجھے دعوت دیں
ایسے پُرکار نظاروں کی تمنّا مت کر
تشنگی صرف نگاہوں کی بُجھاتا ہوا چل
تجھ کو جانا ہے بہت دور‘ بہت دور ابھی
……… 4 ………
اس قدر تیز نہ چل جلد ہی تھک جائے گا
تھک کے رُک جانا تری شان کے شایاں بھی نہیں
پھر تُو کچھ دیر کہیں بیٹھ کے سستائے گا
اور سُستانا تری شان کے شایاں بھی نہیں
ایک رفتار سے قدموں کو بڑھاتا ہوا چل
تجھ کو جانا ہے بہت دور‘ بہت دور ابھی
……… 5 ………
منزلیں خود ترے قدموں کی تمنّائی ہیں
جُستجو میں ہیں تری خود ہی نشانِ منزل
پست ہمّت نہ بن اُمیّد سے مایوس نہ ہو
مل ہی جائیں گے کبھی خود ہی نشانِ منزل
ناامیدی کی چٹانوں کو ہٹاتا ہوا چل
تجھ کو جانا ہے بہت دور‘ بہت دور ابھی
……… 6 ………
دُور تک کوئی مسافر ہے نہ کوئی راہی
کس جگہ تیرے عزائم تجھے لے آئے ہیں
ہیں قدم تیرے ابھی زیرِ افق ہی شاید
کیسے بے رنگ دُھندلکے سے یہاں چھائے ہیں
عزمِ راسخ کے چراغوں کو جلاتا ہوا چل
تجھ کو جانا ہے بہت دور‘ بہت دور ابھی
……… 7 ………
تجھ کو آغوش میں لینے کو ہے بے تاب قمر
منتظر تیرے ابھی تک ہیں افق کے جادے
کون کہتا ہے کہ وہ تیری گزرگاہ نہیں
تیری منزل ہے ستاروں کے جہاں سے آگے
پرتوِ نور ہے تو عرش پہ چھاتا ہوا چل
تجھ کو جانا ہے بہت دور‘ بہت دور ابھی
ہو کہکشاں سے سوا کیوں نہ خاکِ کو ئے علیؑ
جما لِ آ یہء حق ہے جمالِ رو ئے علیؑ
علی ؑکے دستِ تصرّف میں کبریا کی رضا
وہ کبر یا کا عدو ہے جو عدوئے علیؑ
رسول نے جو سنی ہفت آسماں سے پرے
وہ گفتگو ئے خدا تھی کہ گفتگو علیؑ
نثار با غِ جنا ں تجھ پہ اے دیا رِ نجف
کہ تیری خا ک سے آتی ہے مجھ کو بو ئے علیؑ
امیرِ وقت کو کیا آ پڑی کو مشکل
کہ ہو رہی ہے مدینے میں جستجو ئے علی ؑ
قضا نے وار کیا بھی تو پشتِ سر پہ کیا
کسے مجال تھی آتا جو رُو بہ رُو ئے علیؑ
نہ شاہِ کشورِ نغمہ نہ تاج وارِ سخن
مگر شکیبؔ کو کہیے گدا ئے کو ئے علیؑ
واہمہ ہے کہ خدا؟
ذہن اُلجھے تو الجھتا ہی چلا جاتا ہے
چاند خاموش ستارے چپ ہیں
دل جو دھڑکے تو دھڑکتا ہی چلا جاتا ہے
ہاں مگر
واقعہِ کرب و بلا
تیرے مظلوم سجیلے کردار
دجلہِ خوں میں نہائے ہوئے بے باک سوار
درِ احساس پہ دیتے ہیں صدا
ہم نے ڈھونڈا ہے اُسے
پردہِ سنگِ نظر کے اُس پار
ہم نے پایا ہے اُسے
صفتِ رنگ کے پیراہن میں
اِک حقیقت کی طرح جلوہ نما
برق اد ا قَفسِ رنگ کے زندانی تجھے کیا معلوم
واہمے پر بھی کوئی جان دیا کرتا ہے؟
حسرتو! غم سے بے خبر گزرو
اس سمندر کی بے کرانی میں
موج در موج سیکڑوں گرداب
بنتے رہتے ہیں مٹتے رہتے ہیں
ایسے گرداب دیکھ کر جن کو
تیرگی اک نہنگ کی صورت
چار سُو ناچتی نظر آئے
اور ساحل کا راستہ نہ ملے!
شام ہی سے تھی فضا میں کسی جلتے ہوئے کپڑے کی بساند
اور ہوا چلتی تھی جیسے
اس کے زخمی ہوں قدم
دیدہِ مہر نے انجانے خطر سے مڑ کر
جاتے جاتے بڑی حسرت سے کئی بار زمیں کودیکھا
لیکن اس سبز لکیر
اس درختوں کی ہری باڑ کے پار
کچھ نہ پایا۔ کوئی شعلہ نہ شرار
اورپھر رات کے تنور سے ابلا پانی
تیرگیوں کا سیہ فواراہ
دیکھتے دیکھتے تصویر ہر اک چیز کی دھندلانے لگی
دور تک کالے سمندر کی ہمکتی لہریں
ہانپتے سینوں کے مانند کراں تابہ کراں پھیل گئیں
اور جب رات پڑی
سسکیاں بن گئیں جھونکوں کی صدا
دم بخود ہو گئے اس وقت درو بام
جیسے آہٹ کسی طوفاں کی سُنا چاہتے ہوں
آنکھیں مل مل کے چراغوں کی لوؤں نے دیکھا
لیکن اس سبز لکیر
اس درختوں کی ہری باڑ کے پار
کچھ نہ پایا۔ کوئی شعلہ نہ شرار
رات کے پچھلے پہر
ناگہاں نیند سے چونکی جو زمین
اس کی ہونٹوں پہ تھی غم ناک کراہ‘
کرب انگیز کراہ
اس کے سینے پہ رواں
بوٹ لوہے کے گمکتے ہوئے بوٹ
جس طرح کانچ کی چادر پہ لڑھکتی ہوئی پتھر کی سلیں
ہر قدم ایک نئی چیخ جنم لیتی تھی
خاک سے دادِ ستم لیتی تھی
میں بھٹکا ہوا اِک مسافر
رہ و رسمِ منزل سے نا آشنائی پہ نازاں
تعاقب میں اپنی ہی پرچھائیوں کے رواں تھا
مرے جسم کا بوجھ دھرتی سنبھالے ہوئے تھی
مگر اس کی رعنائیوں سے مجھے کوئی دل بستگی ہی نہیں تھی
کبھی راہ چلتے ہوئے خاک کی رُوح پرور کشش
میں نے محسوس کی ہی نہیں تھی
میں آنکھوں سے بینا تھا لیکن
مرے چار سُو چادریں آئنوں کی طرح تھیں
کہ جن کے لیے میرا پر تو ہی تھا ایک زندہ حقیقت
کسی دوسرے کو گوارانہ تھی اس میں شرکت
میں کانوں سے بہرہ نہیں تھا
مگر جس طرح کہنہ گنبد میں چمگادڑوں کے بھٹکنے کی آواز گونجتی نہیں ہے
کھلے آسماں کے پرندوں کی چہکار اندر پہنچتی نہیں ہے
اسی طرح میرا بھی ذوقِ سماعت رسا تھا فقط اپنی ہی دھڑکنوں تک
بس اپنے لہو کی سُبک آہٹوں تک
میں بھٹکا ہوا اک مسافر
مری راہ پرمٹ چکے تھے سفر کے اشارات سارے
فراموشیوں کی گھنی دھند میں کھو چکے تھے جہت کے نشانات سارے
رہ و رسمِ منزل سے میں آشنا ہی نہیں تھا
کروڑوں مرے ہم سفر تھے
مگرمیں اکیلا
کروڑوں کی اس بھیڑمیں بھی اداس اور اکیلا
تعاقب میں اپنی ہی پرچھائیوں کے رواں تھا
میں شاید ہمیشہ یونہی اپنی پرچھائیوں کے تعاقب میں حیران پھرتا
اگر روشنی مجھ پہ چمکی نہ ہوتی
مبارک وہ ساعت کہ جب موت اور تیرگی کے گھنے سائباں کے تلے
روشنی مجھ پہ چمکی
مرے دل پہ دھرتی نے اور اس کے ارفع مظاہر نے اپنی محبت رقم کی
مبارک وہ ساعت کہ جب برق کے کوڑے لہراتی
لوہے کی چیلوں سے اور
آتشیں تیر برساتے فولاد کے پَر درندوں سے مُڈھ بھیڑ میں
میں نے دیکھے
مرے ساتھیوں کے جگر میں ترازو ہیں جوتیر
ہُوا ہوں میں خود ان کا نخچیر
جو قطرہ لہو کا گرا ان کے تن سے
بہا ہے وہ میرے بدن سے
مبارک وہ ساعت کہ جب میں نے جانا
مری دھڑکنوں میں کروڑوں دلوں کی صدا ہے
مری روح میں مشترک’’گرچہ قالب جداہے‘ ‘
آنکھیں پُرنم
آنچ ہے مدّھم
زخمی تارے
آنکھ کا مرہم
غم کے بادل
چھم چھم‘ چھم چھم
ننھا سا دل
دنیا کا غم
ہار
کوئی پکارے
ہم ہیں تمھارے
ناؤ شکستہ
دُور کنارے
گرتے آنسو
ٹوٹے تارے
باغ الاؤ
پھول شرارے
چاند کی کشتی
نیل کے دھارے
دل کی دھڑکن
شعر ہمارے
کوئی جیتا ؟
ہم جب ہارے
……… 1 ………
ارضِ پاک‘ اے وطن
مہرو ماہ سے حسیں ترے گلاب و یاسمن
تیرے پھول پھول پر فدا شفق کا بانکپن
ایک برگ کے عوض نہ لوں بہارِ صد چمن
تجھ میں خُلد کی پَھبَن
ارضِ پاک‘ اے وطن
……… 2 ………
ارضِ پاک‘ اے وطن
تیری خاک کیمیا تری گھٹائیں زرفشاں …
تیرے سنگ وخِشت بھی جواہرات سے گراں
زندگی ہیں قوم کی تری سنہری کھیتیاں
تو متاعِ جان و تن
ارضِ پاک‘ اے وطن
……… 3 ………
ارضِ پاک‘ اے وطن
علم و فن کا بوستاں ‘ لطافتوں کی سرزمیں
دینِ حق کا پاسباں ‘ صداقتوں کا تُوامیں
بے کسوں کے واسطے تو اک منارہِ یقیں
حُرّیت تراچلن
ارضِ پاک‘ اے وطن
……… 4 ………
ارضِ پاک‘ اے وطن
حفظِ امن کے لیے جوان سر بکف
غیر کی مجال کیا جو بڑھ سکے تری طرف
آندھیوں کی راہ میں ہیں کوہسار صف بہ صف
تو شکستِ اَہر مَن
ارضِ پاک‘ اے وطن
میرا چہرہ آئینہ ہے
آئینے پر داغ جو ہوتے
لُہو کی برکھا سے میں دھوتا
اپنے اندر جھانک کے دیکھو
دل کے پتّھر میں کالک کی کتنی پَرتیں جمی ہوئی ہیں
جن سے ہرنتھرا ستھرا منظرکجلا سا گیا
دریا سُوکھ گئے ہیں شرم کے مارے
کوئلے پر سے کالک کون اتارے!!
یہ مری اُجلی بھیڑوں کا ریوڑ نہیں ہے
ہوا دُودھیا بادلوں کو اڑائے لیے جا رہی ہے
گدلے تالاب میں مہِ شب تاب
رات بھر تیرتا رہا لیکن
اس کے چہرے کی آب دُھل نہ سکی
میں اس کو پانا بھی چاہوں
تو یہ میرے لیے ناممکن ہے
وہ آگے آگے تیز خرام
میں اس کے پیچھے پیچھے
اُفتاں خیزاں
آوازیں دیتا
شور مچاتا
کب سے رواں ہوں
برگِ خزاں ہوں !
جب میں اُکتا کر رک جاؤں گا
وہ بھی پل بھر کو ٹھہر کر
مجھ سے آنکھیں چار کرے گا
پھر اپنی چاہت کا اقرار کرے گا
پھر میں
منہ موڑ کے
تیزی سے گھر کی جانب لوٹوں گا
اپنے نقشِ قدم روندوں گا
اب وہ دل تھام کے
میرے پیچھے لپکتا آئے گا
ندی نالے
پتھر پَربَت پھاند تا آجائے گا
میں آگے آگے
وہ پیچھے پیچھے
دونوں کی رفتار ہے اک جیسی
پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے
وہ مجھ کو
یا میں اس کو پالوں
روشنیوں کے دشمن ادھر آرہے ہیں
ڈھانپ دو قمقمے
لالٹینوں پہ مل دو سیاہی کا زہر
روشنیوں پہ مَنڈھ دو اندھیرے کے بوجھل غلاف
کھڑکیوں سے نہ نکلے اُجالے کی مدّھم سی لہر
رَوزنوں سے بھی جھانکے نہ کوئی سجیلی کرن
آرہے ہیں ادھر روشنیوں کے دشمن
روشنیوں کے دشمن
اُجالوں کے قاتل‘
وہ میری شمعِ رخ مہ جبیں
خوشبوؤں کی مکیں
آج مجھ سے بہت دُور ہے
اتنی ہی دُور جتنا یہ تنہا ستارا
نیلگوں شام کے دشت میں
مگر اس کے چہرے کی کرنیں مری چشمِ حیراں سے اوجھل نہیں ہیں
اک صحرا‘
جس کے ذرّے چُنتے چُنتے
میری اُنگلیاں شل ہوجائیں گی
ایک سمندر‘
جس کے جُرعے پیتے پیتے
میری سانس اُکھڑ جائے گی
چمن میں ‘ اہلِ چمن! فکرِ رنگ و بُو تو کرو
بجھے بجھے سے شگوفوں کو شعلہ رُو تو کرو
ابھی سے جشنِ بہاراں ! ابھی سے شغلِ جُنوں
کلی کلی کو گلستاں میں سُرخ رُو تو کرو
یہیں پہ لالہ و گُل کا ہجوم دیکھو گے
خلوصِ دل سے بہاروں کی آرزو توکرو
یہ کیا کہ گوشہِ صحرا میں تھک کے بیٹھ گئے
اگر قیام کرو‘ نزدِ آبِ جُو تو کرو
گھنیری چھاؤں کی وادی یہیں کہیں ہو گی
کڑکتی دھوپ میں سایے کی جستجو تو کرو
بلندیوں کے مکینو‘ بہت اُداس ہیں ہم
زمیں پہ آ کے کبھی ہم سے گفتگو تو کرو
تمھیں بھی علم ہو‘ اہلِ وفا پہ کیا گزری
تم اپنے خونِ جگر سے کبھی وضو تو کرو
نہیں ہے ریشم و کمخواب کی قبا‘ نہ سہی
ہمارے دامنِ صَد چاک کو رُفو تو کرو
نگارِ صبحِ گریزاں کی تابشوں کو کبھی
ہمارے خانہِ ظلمت کے رُو برو تو کرو
طلوعِ مہرِ درخشاں ابھی کہاں یارو
سیاہیوں کے افق کو لہو لہو تو کرو
حضور! آپ مرے مائی باپ‘ اَن داتا
حضور! عید کا دن روز تو نہیں آتا
حضور! آج تو نذرِ علیؑ‘ نیازِ رسولؐ
حضور! آپ کے گھر میں ہو رحمتوں کا نزول
حضور! آج ملے جان و مال کی خیرات
حضور! آپ کے اہل و عیال کی خیرات
حضور! احمدِؐ مُرسل کی آلؑ کا صدقہ
حضور! فاطمہؑ زہرا کے لال کا صدقہ
حضور! آپ کی اولاد و آبرو کی خیر
حضور! آپ کے بیٹے کی اور بہو کی خیر
حضور! آپ کے بچے جییں ‘ پھلیں پُھولیں
حضور! آپ عزیزوں کی ہر خوشی دیکھیں
حضور! آپ کو مَولا سدا سُکھی رکھے
حضور! آپ کی جھولی خدا بھری رکھے
حضور! نامِ خدا کارِ خیر فرمائیں
حضور! آپ کے دل کی مُرادیں برآئیں
حضور! آج گداگر کو بھیک مل جائے
حضور! کب سے کھڑا ہوں میں ہاتھ پھیلائے
حضور! آنے‘ دو آنے کی بات ہی کیا ہے
حضور! آنکھیں چُرانے کی بات ہی کیا ہے
حضور! میری صداؤں پہ غور تو کیجیے
فقیر یہ نہیں کہتا‘ گلے لگا لیجے
عُروسِ صبح سے آفاق ہم کنار سہی
شکستِ سلسلہِ قیدِ انتظار سہی
نگاہِ مہرِ جہاں تاب کیوں ہے شرمندہ
شفق کا رنگ شہیدوں کی یادگار سہی
بکھرتے خواب کی کڑیوں کو آپ چُن دیجے
کیا تھا عہد جو ہم نے وہ پائدار سہی
ہجومِ لالہ و ریحاں سے داد چاہتے ہیں
یہ چاک چاک گریباں گلے کا ہار سہی
گِنے جوزخمِ رگِ جاں ‘ شریکِ جشنِ حیات
پیے جو ساغرِ زہراب بادہ خوار سہی
چمن میں رنگِ طرب کی کوئی کمی نہ رہے
ہمارا خونِ جگر غازہِ بہار سہی
تھکن سے چُور ہیں پاؤں ‘ کہاں کہاں بھٹکیں
ہر ایک گام نیا حُسنِ رہ گزار سہی
سُکوں بدوش کنارا بھی اب اُبھر آئے
سفینہ ہاے دل و جاں بھنور کے پار سہی
گُلوں میں حُسن‘ شگوفوں میں بانکپن ہو گا
وہ وقت دُور نہیں جب چمن چمن ہو گا
جہاں پہ آج بگولوں کا رقص جاری ہے
وہیں پہ سایہِ شمشاد و نسترن ہو گا
فضائیں زرد لَبادے اُتار پھینکیں گی
عروسِ وقت کا زَرکار پیرہن ہو گا
نسیمِ صبح کے جھونکے جواب دہ ہو ں گے
کسی کلی کا بھی ماتھا جو پُر شکن ہو گا
نئے اصول نئی منزلیں تراشیں گے
یہ قافلہ مہ و انجم میں خیمہ زَن ہو گا
بڑے سُکون سے تعمیرِ زندگی ہو گی
کہیں یزید‘ نہ آزر‘ نہ اہرمن ہو گا
بُتانِ عصر کے خالق کو باخبر کردو
نئے زمانے کا ہر فرد بُت شکن ہو گا
دُکھے دلوں کی خراشیں جو کرسکے محسوس
اک ایسا صاحبِ دل صدرِ انجمن ہو گا
ہمارا دَور مساوات لے کے آئے گا
ہمارے دَور میں ہر آدمی مگن ہو گا
ایک انساں کی حقیقت کیا ہے
زندگی سے اسے نسبت کیا ہے
آندھی اُٹھے تو اُڑا لے جائے
موج بپھرے تو بہا لے جائے
ایک انساں کی حقیقت کیا ہے
ڈگمگائے تو سہارا نہ ملے
سامنے ہو پہ کنا را نہ ملے
ایک انساں کی حقیقت کیا ہے
کُند تلوار قلم کر ڈالے
سرد شعلہ ہی بھسم کر ڈالے
زندگی سے اسے نسبت کیا ہے
ایک انساں کی حقیقت کیا ہے
دھیرے دھیرے گررہی تھیں نخلِ شب سے چاندنی کی پتّیاں
بہتے بہتے اَبر کا ٹکڑا کہیں سے آگیا تھا درمیاں
مِلتے مِلتے رہ گئی تھیں مخملیں سبزے پہ دو پرچھائیاں
جس طرح سپنے کے جُھولے سے کوئی اندھے کنویں میں جاگرے
ناگہاں کَجلا گئے تھے شرمگیں آنکھوں کے نُورانی دِیے
جس طرح شورِ جَرَس سے کوئی واماندہ مسافر چونک اُٹھے
یک بیک گھبرا کے وہ نکلی تھی میرے بازوؤں کی قید سے
لب سُلگتے رہ گئے تھے ‘ چِھن گیا تھا جام بھی
اور میری بے بسی پر ہنس پڑی تھی چاندنی
آج تک احساس کی چلمن سے الجھا ہے یہ مبہم سا سوال
اُس نے آخر کیوں بُنا تھا بہکی نظروں سے حَسیں چاہت کا جال؟
یہاں درخت کے اُوپر اُگا ہوا ہے درخت
زمین تنگ ہے (جیسے کبھی فراخ نہ تھی)
ہَوا کا کال پڑا ہے‘ نمی بھی عام نہیں
سمندروں کو بِلو کر‘ فضاؤں کو مَتھ کر
جنم دیے ہیں اگر چند ابر کے ٹکڑے
جھپٹ لیا ہے اُنھیں یوں دراز شاخوں نے
کہ نیم جان تنے کو ذرا خبر نہ ہوئی
جڑیں بھی خاک تلے ایک ہی لگن میں رواں
نہ تیرگی سے مَفَر ہے‘ نہ روشنی کا سوال
زمیں میں پاؤں دھنسے ہیں ‘ فضا میں ہات بلند
نئی جہت کا لگے اب درخت میں پیوند
شام کی سیڑھیاں کتنی کرنوں کا مقتل بنیں
بادِمسموم نے توڑ کر کتنے پتّے سپردِ خزاں کر دیے
بہہ کے مشکیزہِ اَبر سے کتنی بوندیں زمیں کی غذا بن گئیں
غیر ممکن تھا ان کا شمار
تھک گئیں گننے والے ہر اک ہاتھ کی اُنگلیاں
’’ان گنت‘ ‘ کہہ کے آگے بڑھا وقت کاکارواں
ان گنت تھے مرے زخمِ دل
ٹوٹی کرنوں ‘ بکھرتے ہوئے زرد پتّوں ‘ برستی ہوئی بوندیوں کی طرح
اور مرہم بھی ناپَید تھا
لیکن اس روز دیکھا جو اک طفلِ نوزائیدہ کا خندہِ زیرِلَب
زخمِ دل مُندمل ہو گئے سب کے سب!
اے ارضِ پاک تو ہے دارالاماں ہمارا
دائم ہے تیرے دم سے نام و نشاں ہمارا
تو پاک سر زمیں ہے تو منزلِ یقیں ہے
پرچم کا تیرے سایا ہے سائباں ہمارا
دشمن نہ چھو سکیں گے اب تیری سرحدوں کو
بیدار ہو چکا ہے اب کارواں ہمارا
تاروں کی سلطنت میں اُڑتے ہیں اپنے شاہیں
حیرت سے دیکھتا ہے منہ آسماں ہمارا
پربت کی چوٹیوں پر چمکے علم ہمارے
گہرے سمندروں میں ہے آشیاں ہمارا
ہر شاخ اِس چمن کی شمشیرِ حیدری ہے
حملہ نہ سہ سکے گی بادِ خزاں ہمارا
روکے نہ رُک سکے گی تیغِ جہاد اپنی
تھامے نہ تھم سکے گا سیلِ رواں ہمارا
سینچا ہے خونِ دل سے اِن کیاریوں کو ہم نے
تازہ رہے گا ہر دَم یہ گلستاں ہمارا
(پیشکش سلور پولیس لاہور ۔ ۱۴ اکتوبر ۱۹۶۵ ۔ آواز۔ سلیم رضا)
تو ہی ہماری جان ہے
تو قوتِ ایمان ہے
تو ہی ہماری آن ہے
اے پاک وطن
تجھ سے ہماری شان ہے
تجھ سے ہماری آبرو
قریہ بہ قریہ کو بہ کو
اے جان و دل کی آرزو
اے پاک وطن
تجھ سے ہماری شان ہے
تری زمیں کے پاسباں
شمس و قمر کے رازداں
تری بہاریں جاوداں
اے پاک وطن
تجھ سے ہماری شان ہے
قلب و نظر کی روشنی
تو ہے نویدِ زندگی
تو ہے جلالِ حیدری
اے پاک وطن
تجھ سے ہماری شان ہے
(یکم اکتوبر ۱۹۶۵ ۔ موسیقی۔ کالے خان، تقریباً چالیس آوازیں )
پاک ارضِ وطن کے جیالے
یہ جواں ہیں بڑی شان والے
پاک بے باک اِن کی جوانی
جرأتوں عظمتوں کی نشانی
وقت لکھے گا اِن کی کہانی
آنے والی سحر کے اُجالے
یہ جواں ہیں بڑی شان والے
اِن سے عزت ہمارے وطن کی
اِن سے رنگینیاں انجمن کی
یہ ہیں خوشبو وفائے چمن کی
پاک ماؤں کی گودی کے پالے
یہ جواں ہیں بڑی شان والے
ماہ و خورشید کے ہمسفر ہیں
یہ جواں فاتحِ بحر و بر ہیں
پاک سرحد پہ سینہ سپر ہیں
فتح نصرت کا پرچم سنبھالے
یہ جواں ہیں بڑی شان والے
میری آواز کی شان ہیں یہ
میرے گیتوں کا ارمان ہیں یہ
میرے سنگیت کی جان ہیں یہ
میری آواز اِن کے حوالے
یہ جواں ہیں بڑی شان والے
(۱۸ ستمبر ۱۹۶۵ ۔ ملکہِ موسیقی روشن آرا بیگم)
پاک فوج کے جواں تو ہے عزم کا نشاں
تیرے عزم کے حضور سرنگوں ہیں آسماں
تیرے دم سے جاوداں زندگی کی داستاں
شادماں رواں دواں
پاک فوج کے جواں تو ہے عزم کا نشاں
تیری ایک ضرب سے کوہسار کٹ گئے
دشمنوں کے مورچے ہٹ گئے اُلٹ گئے
زلزلے پلٹ گئے
پاک فوج کے جواں تو ہے عزم کا نشاں
ہم عنانِ کہکشاں پرفشاں ترے جہاز
ہم رکابِ آسماں تیری فوجِ ترک تاز
تو ہے زندگی کا راز
پاک فوج کے جواں تو ہے عزم کا نشاں
پانیوں کی سلطنت میں ضوفشاں ترے علم
وقت کی کتاب میں تیرا نام ہے رقم
تو ہے ملک کا بھرم
پاک فوج کے جواں تو ہے عزم کا نشاں
(۱۶ ستمبر ۱۹۶۵ موسیقی ۔ کالے خان۔ آوازیں ۔ سلیم رضا، نورجہاں بیگم اور ساتھی۔)
ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر
وادیوں میں گھاٹیوں میں سربکف
بادلوں کے ساتھ ساتھ صف بہ صف
دشمنوں کے مورچوں پہ ہر طرف
ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر
بے مثال ارضِ پاک کے جواں
لازوال سرحدوں کے پاسباں
بڑھ رہے ہیں خاک و خوں کے درمیاں
ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر
ساتھیو بلا رہی ہے زندگی
خون میں نہا رہی ہے زندگی
موت کو بھگا رہی ہے زندگی
ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر
ڈرنے والے ہم نہیں ہیں جنگ سے
گاڑیوں سے توپ اور تفنگ سے
ڈٹ کے ہم لڑیں گے ڈھنگ ڈھنگ سے
ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر
موج موج بڑھ رہے ہیں لشکری
لشکرِ غنیم میں ہے ابتری
گونجنے لگی صدائے حیدری
ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر
(۸ ستمبر ۱۹۶۵ موسیقی۔ سلیم حسین آوازیں ۔سلیم رضا، منیر حسین اور ساتھی)
ہمارے پاک وطن کی شان
ہمارے شیر دلیر جوان
خدا کی رحمت اِن کے ساتھ
خدا کا ہاتھ ہے اِن کا ہاتھ
ہے اِن کے دَم سے پاکستان
ہمارے شیر دلیر جوان
ستارے جرأت ہمت کے
وطن کی عظمت شوکت کے
عدو کی غارت کا سامان
ہمارے شیر دلیر جوان
یقینِ محکم کی تصویر
شجاعت نصرت کی تفسیر
اخوت اور عمل کی جان
ہمارے شیر دلیر جوان
(ناصر کاظمی کی ڈائری سے ۔ ۷/۹/۱۹۶۵ ۔ موسیقی ۔ کالے خان۔آوازیں۔سلیم رضا، منیر حسین اور ساتھی۔)
اس سے پہلے کہ ہم زمین کے ہوں زمین ہماری تھی۔
سو سال سے زیادہ مدت تک وہ ہماری تھی
اس سے پیشتر کہ ہم اس کے باسی بنے ’’میساکوٹس‘‘ اور ’’ورجینیا‘‘ ہمارے تھے
لیکن ہم انگلستان کے تھے، نوآباد تھے،
ہمارے پاس وہ تھا جو ابھی ہمیں ملا نہیں تھا،
ہمارے پاس متاعِ نایافت کے سوا کچھ نہ تھا
ہم کسی چیز کو رو کے ہوئے تھے جس نے ناتواں بنا دیا
اور آخرکار ہمیں احساس ہوا کہ یہ ہم خود تھے
ہم اپنے آپ کو اپنی سرزمین سے دور کھینچے ہوئے تھے،
پھر انجام کار ہم نے اپنے آپ کو سپرد کرنے ہی میں عافیت جانی۔
ہم جیسے بھی تھے ہم نے اپنے آپ کو یکسر سپرد کر دیا
(یہ تحفہ بہت سی جنگوں کی صورت میں تھا)
اُس سر زمین کو جو مغرب کی سمت مبہم طور پر چلی جا رہی تھی،
اُس سر زمین کو جس میں نہ کہانیاں تھیں نہ فن نہ وسعت،
جیسی وہ تھی اور جیسی وہ مستقبل میں ہونے والی تھی۔
-۱-
اے مدکے چڑھتے ہوئے دھارے ! میں تجھے دیکھ رہا ہوں —-روبرو!
اے مغرب کے بادلو —-اے پہر دوپہر میں ڈوبنے والے سورج —-میں تمھیں بھی دیکھ رہا ہوں ۔
اے عام لباس میں ملبوس مرد و زن کے ہجوم —-! تو میرے لیے کس قدر تجسس انگیز ہے!
مسافر کشتیوں میں سوار سینکڑوں لوگ، جو گھروں کو لوٹ رہے ہیں ،
میرے لیے اس قدر تجسس انگیز ہیں کہ آپ تصوّر بھی نہیں کر سکتے ،
اور اے وہ لوگو، جو آج سے برسوں بعد اسی طرح کشتیوں پر سوار ہو کر ایک ساحل سے دوسرے ساحل کی طرف جاؤ گے تم میرے لیے اور بھی تجسس انگیز ہو اور میں چشمِ تصور میں تمھیں اپنے سامنے اس طرح مجسم پاتا ہوں کہ تم اندازہ ہی نہیں کر سکتے ۔
-۲-
میں شب و روز لمحہ بہ لمحہ تمام اشیائے عالم سے غیرمحسوس طور پر فیضانِ حیات حاصل کرتا ہوں ،
کائنات کا نظام کس قدر سادہ، ٹھوس اور مربوط ہے، جہاں میں جدا —-ہرفرد جدا —- پھر بھی سب اسی نظام کا حصہ،
ماضی اور مستقبل کی جیتی جاگتی تصویریں ،
اور گلیوں میں راہ چلتے ہوئے، یاد ریا کو عبور کرتے ہوئے،
معمولی سے معمولی مناظر اور خفیف سے خفیف آوازوں سے پیدا ہونے والی جمالی کیفیات میرے ذہن پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتی ہیں ۔
میں بہتے جل کی تیز دھارا میں تیرتا ہوا کہیں کا کہیں نکل جاتا ہوں ،
یہ سب محسوسات میرے اور آنے والے لوگوں کے درمیان ایک رابطہ قائم کرتے ہیں ۔
وہ بھی یقینی طور پر زندگی، محبت، بصارت اور سماعت جیسی نعمتوں سے ہماری طرح بہرہ ور ہوں گے۔ دوسرے لوگ بھی اسی گھاٹ کے دروازوں میں داخل ہوں گے۔
اور ساحل ساحل پار اتریں گے،
وہ بھی مد کے چڑھتے ہوئے پانی کا نظارہ دیکھیں گے،
وہ بھی منہاٹن کے شمال اور مغرب میں جہازوں کو آتے جاتے اور اس کے جنوب اور مشرق میں بروکلِن کی پہاڑیوں کو دیکھیں گے،
وہ ان چھوٹے بڑے جزیروں کا نظارہ کریں گے ؛
نصف صدی بعد، وہ لوگ بھی ان سب چیزوں کو دیکھیں گے، جبکہ اسی طرح آدھ ایک گھنٹے میں سورج ڈوبنے والا ہو گا،
آج سے ایک صدی یا کئی صدیوں کے بعد، وہ لوگ ان چیزوں کو دیکھیں گے،
اور ڈوبتے ہوئے سورج، مدکے چڑھتے ہوئے اور جزر کے اترتے ہوئے پانی کے نظاروں سے اسی طرح لطف اندوز ہوں گے۔
-۳-
زمان ومکان کی کوئی حقیقت نہیں —- سب مسافت سمٹ کر رہ جاتی ہے،
اے آئندہ نسل کے، بلکہ کئی آنے والی نسلوں کے زن و مرد،
میں بھی تمھار ہمدم ہوں ،
دریا اور آسمان کو دیکھ کر جوا حساسات تمھارے دلوں میں جنم لیتے ہیں ، ان سے میں بھی آشنا ہوں ،
جس طرح تم میں سے کوئی بھی زندہ انبوہ کا ایک فرد ہے، اسی طرح میں بھی تھا،
جس طرح تم اس دریا کے روح پر ور نظارے اور بہتے ہوئے پانی کی ضوفشانیوں سے تازہ دم ہوتے ہو، اسی طرح میرے دل میں بھی تروتازگی پیدا ہوتی تھی،
جس طرح تم جنگلے پر جھکے ہوئے محسوس کرتے ہو کہ تم پانی کے ساتھ بہے چلے جا رہے ہو،
اسی طرح میں بھی کھڑا ہو جاتا تھا اور اپنے آپ کو پانی کے ساتھ رواں دواں محسوس کرتا۔
میں نے بھی اس قدیم دریا کو بار بار عبور کیا،
میں بھی سال کے آخری مہینے میں مرغابیوں کو فضا میں بہت بلندی پر یوں محوِ پرواز دیکھتا کہ ان کے جسم متحرک ہوتے لیکن پر ساکت ہوتے،
میں ان پرندوں کے جسم کے بعض حصوں کو شوخ زردی سے روشن اور باقی حصوں کو گھمبیر سائے میں ڈوبا ہوا دیکھتا ،
یہ پرندے فضا میں آہستہ آہستہ چکر کاٹتے رہتے اور پھر رفتہ رفتہ جنوب کی طرف پرواز کرنے لگتے،
میں موسم گرما کے نیلگوں آسمان کا عکس پانی میں دیکھتا،
میری آنکھیں کرنوں کے جگمگاتے راستے کو دیکھ کر چکا چوند ہوجاتیں ،
سورج سے چمکتے پانی میں روشنی کی خوبصورت مرکز گریز لکیروں کو اپنے سر کے ارد گرد رقصاں دیکھتا ،
جنوب اور جنوب مغرب کی پہاڑیوں پر ہلکی سی دھند چھائی ہوئی ہوتی،
میں بھی سفید بادلوں کو دیکھتا ، جن میں بنفشی رنگ کی جھلک نظر آتی،
میں بھی خلیج کے نچلے حصے سے جہازوں کو آتے ہوئے دیکھتا،
یہ جہاز رفتہ رفتہ میری طرف بڑھتے چلے آتے اور میں ان مسافروں کو دیکھتا جو مجھ سے قریب ہوتے،
میں دو مستولوں والی اور ایک مستول والی کشتیوں کے سفید بادبان اور لنگرانداز جہازوں کو دیکھتا،
ان کے ملاح مستولوں ، رسیوں اور چپوؤں پر کام میں جتے ہوئے نظر آتے یا جہاز کو اتھلے پانی سے نکالنے کے لیے چپوؤں کو چلاتے ہوئے صاف نظر آتے،
گول گول مستول، حرکت کرتے ہوئے جہاز اور ان پر سانپ کی مانند بل کھاتے ہوئے جھنڈوں کو دیکھتا،
چھوٹی بڑی دخانی کشتیاں سرگرم سفر ہوتیں اور ان کے کپتان اپنی جگہوں پر مستعددکھائی دیتے،
متحرک جہاز کے پیچھے پانی کی ایک سفید لکیر دکھائی دیتی اور اس کے پہیوں کے گھومنے سے تھرتھراہٹ کی آواز سنائی دیتی ۔
تمام قوموں کے پرچم دیکھتا، جو غروبِ آفتاب کے وقت اتار لیے جاتے،
شام کے جھٹپٹے میں لہروں کے کنارے صدف کی مانند نظر آتے، ایسا محسوس ہوتا جیسے فطرت کے ہاتھ دریا سے پیالے بھر بھر کے نکال رہے ہیں ، ان لہروں کے سروں پر رنگین کلغیاں نظر آتیں اور ہر طرف لہروں کی آب وتاب دکھائی دیتی،
پانی کی سطح رفتہ رفتہ دھند لکے میں غائب ہو جاتی، گودی کے قریب پتھر سے بنے ہوئے مال گوداموں کی خاکستری دیواریں ،
دریا پر سایوں کا ہجوم، جہازوں کو کھینے والے بڑے سٹیمر کے دونوں طرف چھوٹی کشتیاں مثلاً خشک گھاس لانے والی کشتیاں ، جہازوں سے سامان اتارنے والی کشتیاں ،
دریا کے اس پار ڈھلائی کے کارخانوں کی چمنیوں سے بلند ہونے والے شعلے رات کی تاریکی میں اور بھی نمایاں ہو جاتے،
اور ان کی کھلتی بندہوتی سرخ اور زرد روشنی تاریکی کے پس منظر میں مکانوں کے بالائی حصوں اور گلیوں کے ان حصوں میں نظر آتی جہاں مکانات کا سلسلہ منقطع ہو جاتا۔
-۴-
یہ سارے مناظر میرے لیے ویسے ہی تھے جیسے اب تمھارے لیے ہیں ،
میں نے ان شہروں سے اور تیز بہتے ہوئے شاندار دریاؤں سے جی بھر کے پیار کیا،
جن مردوں اور عورتوں کو میں نے دیکھا میں نے ان سے قربت محسوس کی،
مجھے دوسرے لوگوں کا بھی قرب حاصل ہو گا —- وہ لوگ جو مجھے دیکھنے کے لیے ماضی میں جھانکتے ہیں ، کیونکہ میں نے انہی ں دیکھنے کے لیے مستقبل میں جھانکا تھا،
(وہ وقت آ کر رہے گا، خواہ آج ہی شب وروز کے کسی لمحے میں میرے دل کی دھڑکنیں بند ہوجائیں )۔
-۵-
پھر ہمارے درمیان حدِ فاصل کیا ہے؟
ہمارے درمیان بیسیوں یا سینکڑوں سا ل کا وقفہ کیا حقیقت رکھتا ہے؟
اس کی حقیقت کچھ بھی ہو یہ حدِ فاصل نہیں بن سکتا —- مسافت حدِ فاصل نہیں بن سکتی، جگہ حدِ فاصل نہیں بن سکتی،
میں بھی کبھی زندہ تھا اور کئی پہاڑیوں والا برکلن میرا تھا،
میں بھی جزیرہ منہاٹن کے بازاروں میں گھوما ہوں اور اس کے چاروں طرف بکھرے پانی میں نہایا ہوں ،
میں نے اپنی ذات میں یک بیک ابھرتے ہوئے عجیب و غریب سوالوں کو محسوس کیا ہے ۔
دن کے وقت لوگوں کے ہجوم میں کبھی کبھی یہ سوال میرے ذہن میں ابھرتے،
رات گئے گھر کو لوٹتے ہوئے یا بستر پر لیٹے ہوئے میں ان خیالات میں گم ہو جاتا،
میں ہمیشہ انہی خیالات میں غلطاں و پیچاں رہتا،
میری شناخت بھی میرے وجود سے کی جاتی تھی،
میں جانتا تھا کہ میرے وجود سے میری شناخت ہوتی ہے اور آئندہ بھی میری ذات کی شناخت میرے وجود سے ہو گی۔
-۶-
یہ کیفیت صرف آپ کی ذات تک محدود نہیں ہے کہ کبھی کبھی تاریک خیالات آپ کے ذہن پر چھا جاتے ہیں ،
میرے ذہن پر بھی اسی طرح تاریک خیالات مسلط ہوتے رہتے ہیں ،
مجھے بھی اپنی زندگی کے بہترین افعال لغو اور مشکوک نظر آنے لگتے ہیں ،
میرے دل میں رہ رہ کر یہ سوال اُبھرتا کیا میرے عظیم خیالات درحقیقت بے معنی ہیں ؟
صرف آپ ہی کو معلوم نہیں کہ شر کی حقیقت کیا ہے،
میں بھی جانتا ہوں کہ شر کی حقیقت کیا ہے،
میں بھی متضاد خیالات کا شکار رہا،
میں بے تکی باتیں کرتا، شرم سے چہرہ سرخ ہو جاتا، نفرت کرتا، جھوٹ بولتا، چوری کرتا اور کِینہ پروری کرتا،
میں اپنی مکاری، غصہ، شہوت اور جنسی خواہشات کے بارے میں زبان کھولنے کی جرأت نہیں کر سکتا،
میں بھی متلون مزاج، مغرور، حریص ، کم ظرف، مکار، بزدل اور کِینہ پرور تھا، بھیڑیے، سانپ اور سؤر کی خبیث عادات کی مجھ میں کمی نہیں تھی،
پر فریب نظروں اور لغو باتوں کے علاوہ جنسی خواہشات میرے دل و دماغ پر چھائی ہوئی تھیں ،
انکار، نفرت، التوا، کمینگی اور سستی جیسے عناصر میرے اعمال میں شامل تھے،
میں سب باتوں میں نوعِ انسان کے ساتھ برابر کا شریک تھا، انہی جیسے دن گزارتا اور انہی جیسے اتفاقی واقعات سے دوچار ہوتا،
جب نوجوان لوگ مجھے اپنی طرف آتے ہوئے یا کہیں سے گزرتے ہوئے دیکھتے تو نہایت صاف اور بلند آواز میں مجھے میرے خاص نام سے پکارتے ،
جب میں کھڑا ہو جاتا تو وہ اپنے بازو میری گرد ن میں حمائل کر دیتے یا جب میں بیٹھتا تو ان کے جسم بے پروائی کے انداز میں میرے جسم سے مس ہوتے،
میں اپنے کئی محبوبوں کو بازاروں ، مسافر کشتیوں یا عوامی اجتماعات میں دیکھتا، لیکن ان سے بات نہ کرتا،
میں باقی لوگوں کی طرح زندگی گزارتا، انہی کی طرح ہنستا، کھیلتا، کھاتا، پیتا اور نیند کے مزے لوٹتا ایسا کردار ادا کرتا، جس سے کسی ایکٹر یا ایکٹریس کے فن کا مظاہرہ ہوتا،
وہی پرانا کردار، جس کی تشکیل خود ہمارے ہاتھوں میں ہے، اس سے خواہ ہم انتہائی بلندی پر پہنچ جائیں خواہ انتہائی پستی کی طرف چلے جائیں یا کبھی بلندی اور کبھی پستی کی طرف مائل ہوں ۔
-۷-
میں نے تمھیں قریب سے قریب تر ہو کر دیکھا ہے،
اب تم جتنا میرے متعلق خیال کرتے ہو، میں بھی تمھارے متعلق اتنا ہی سوچتا تھا —- میں نے یہ خیالات قبل از وقت ہی اپنے ذہن میں محفوظ کرلیے تھے،
تم نے ابھی جنم بھی نہیں لیا تھا کہ میں گھنٹوں بڑی سنجیدگی سے تمھارے خیالوں میں گم رہتا۔
کس کو معلوم تھا کہ مجھ پر کیا کیا چیزیں گہرا اثر ڈالتی ہیں ؟
کون جانتا ہے کہ اس قدر مسافت کے باوجود میں تمھیں اپنی چشمِ بصیرت سے صاف دیکھ رہا ہوں حالانکہ تم مجھے نہیں دیکھ سکتے ؟
-۸-
آہ، منہاٹن جو جہازوں کے مستولوں سے پٹا پڑا ہے، کیا میرے لیے اس سے شاندار اور قابلِ تعریف کوئی چیز ہو سکتی ہے؟
یہ دریا، غروبِ آفتاب کا یہ منظر، مد کی ابھرتی ہوئی لہریں جن کے کنارے صدف جیسے ہیں ؟
مرغابیاں جن کے جسم متحرک ہیں ، دھندلکے میں خشک گھاس سے لدی ہوئی کشتیاں اور رات گئے تک جہازوں سے سامان اتارنے والی کشتیاں ؟
کون سے دیوتا ان لوگوں سے بڑھ کر ہو سکتے ہیں جو گرم جوشی سے میرا ہاتھ پکڑتے ہیں اور جب میں قریب جاتا ہوں تو پیاری آواز میں مجھے میرے خاص نام سے پکارتے ہیں ؟
جب جب کسی عورت یا مرد سے میری آنکھیں چار ہوتی ہیں تو ہمارے باہمی ربط سے بڑھ کر اور کس چیز میں لطافت ہو سکتی ہے؟
وہ کون سی چیز ہے جو میری ذات کو تمھارے وجود میں مدغم کرتی ہے اور میرے خیالات کو تمھارے خیالات سے ہم آہنگ کرتی ہے؟
ہم خود ہی ان خیالات کا تجزیہ کر سکتے ہیں ، کیا ہم اس پر قادر نہیں ہیں ؟
میں نے جس چیز کا ذکر کیے بغیر وعدہ کیا تھا، کیا تم نے اسے قبول نہیں کر لیا؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ مطالعہ سے اس کا علم نہیں ہو سکتا تھا اور تبلیغ سے اسے سر انجام نہیں دیا جا سکتا تھا؟
-۹-
اے دریا اپنی روانی سے کام رکھ! مد کی حالت میں موجیں مارتا رہ اور جزر کی حالت میں پرسکون ہو کر چل !
اے صدف جیسے کنارے اور رنگین کلغی رکھنے والی لہرو، خوب اٹکھیلیاں کرو!
اے غروبِ آفتاب کے وقت کے رنگین بادلو، اپنی عظمت کی مجھے بھی جھلک دکھاتے جاؤ اور ان مردوں اور عورتوں کو بھی جو آئندہ نسلوں میں جنم لیں گے!
اے بے شمار مسافرو، ساحل ساحل پار اترتے رہو!
منہاٹن کے اونچے مستولو، اپنے سر اور بلند کرو! بروکلن کی خوبصورت پہاڑیو اپنے سر اور بلند کرو!
اے میرے ششدر اور جستجو پسند دماغ اپنی سرگرمیوں کو تیز تر کر دے! اسی طرح سوالات اور جوابات کی ادھیڑ بن میں لگارہ!
کائنات کے اسرار کا حل تلاش کرنے میں یونہی سر مارتا رہ!
اے محبت میں سرشار اور پیاسی آنکھو، یونہی گھر، بازار اور لوگوں کے ہجوم کو دیکھتی رہو!
اے نوجوانوں کی آوازو، یونہی مترنم لہجے میں بلند ہوتی رہو اور مجھے میرے خاص نام سے پکارتی رہو!
اے میری دیرینہ زندگی، یونہی وہ کردار ادا کرتی رہ جس سے کسی فنکار کی عظمت ظاہر ہوتی ہے
وہ پرانا کردار ادا کرتی رہ، جس کی بلندی یا پستی ہم سب کے دائرہِ اختیار میں ہے!
اے میرے اشعار کو پڑھنے والو، ذرا سوچو تو سہی کیا میں نامعلوم طریقوں سے تمھیں دیکھ رہا ہوں یا نہیں ؟
پاؤں جمالو، دریا کے اوپر جنگلے پر جھک جاؤ، انہی ں سہارا دو جو بے پروائی کے انداز میں اپنے جسم کو تمھارے جسم سے مس کیے ہوئے ہیں اور پھر یوں محسوس کرو جیسے تم بھی پانی کے ساتھ بہے جا رہے ہو،
اے سمندری پرندو، اڑتے رہو! ایک طرف کو جھک کر اڑان جاری رکھو یا فضا کی بلندیوں میں لمبے لمبے چکر کاٹتے رہو!
اے آبِ رواں ، موسمِ گرما کے آسمان کے عکس کو اپنے سینے میں اتار لے اور اس وقت تک اسے محفوظ رکھ، جب تک نظارہ کرنے والوں کی نیچے جھکی ہوئی آنکھیں سیر نہ ہو جائیں !
اے روشنی کی لہرو، سورج کی شعاعوں سے چمکتے پانی میں میرے عکس سے اسی طرح منعطف ہوتی رہو!
اے جہازو، خلیج کے نچلے حصے سے آتے رہو! اے سفید بادبان والی چھوٹی بڑی کشتیو! کبھی اوپر سے نیچے اور کبھی نیچے سے اوپر کو چلتی رہو!
اے تمام اقوام کے قومی پرچمو، یونہی ہوا میں لہراتے رہو! حسبِ معمول غروبِ آفتاب کے وقت اترتے رہو!
اے ڈھلائی کے کارخانوں کی چمنیو، اپنے شعلوں کو یونہی فضا میں بلند کرتی رہو! رات کی تاریکی میں اپنے سیاہ سائے ڈالتی رہو! مکانوں کے بالائی حصوں پرا پنی سرخ اور زرد روشنی پھینکتی رہو!
موجودہ دور کے اور مستقبل کے موہوم پیکرو، اپنی حقیقت ظاہر کرتے رہو!
تم روح کے لیے حجاب کا کام دیتے ہو، یونہی روح پر چھائے رہو!
محبتِ الٰہی کی خوشبو میرے لیے اور تمھارے جسموں کو تمھارے لیے معطر کرتی رہے!
اے شہرو، اپنی رونق کو اور دوبالا کرو! اے وسیع اور بھرپور دریاؤ، تمھارے جہاز اسی طرح سامان لاتے رہیں اور تم اس طرح اپنے نظارے جاری رکھو!
اپنی وسعت کو اور زیادہ کرو، روح کو غذا بہم پہنچانے کے لیے شاید تم سے بڑھ کو کوئی چیز نہیں ،
اے فطرت کے بے زبان اور حسین مبلغو، تم نے بہت عرصہ تک انتظار کیا ہے، تم ہمیشہ انتظار میں محو رہتے ہو،
ہم نہایت گرمجوشی سے تمھارا استقبال کرتے ہیں اور ہمارے جذبات تمھارے حق میں کبھی سرد نہیں پڑیں گے،
تم ہمیں کبھی دھوکا نہیں دو گے یا ہم سے کبھی کنارہ کشی اختیار نہیں کرو گے،
ہم تمھیں اپنے کام میں لاتے ہیں ، اور تمھیں کبھی نظرانداز نہیں کرتے —- ہم تمھیں ہمیشہ کے لیے اپنے سینوں میں محفوظ رکھتے ہیں ،
ہم تمھاری گہرائی کو نہیں پا سکتے —- ہم تم سے محبت کرتے ہیں —- تم جامع کمالات ہو،
تمھاری بنیادیں ابد پر استوار ہیں ،
تم کسی کے لیے بڑے اور کسی کے لیے چھوٹے پیمانے پر روحانی غذا بہم پہنچانے کا سبب ہو۔
انہد مرلی شور مچایا
مرشد نے سب بھید بتائے
عقل و ہوش و حواس اُڑائے
مدہوشی میں ہوش سکھا کر
منزل کا رستہ دکھلایا
انہد مرلی شور مچایا
جلوئہ وحدتِ کامل دیکھا
نقشِ دوئی کو باطل دیکھا
عالم کے اَسرار کو سمجھا
دھیان گیان کے راز کو پایا
انہد مرلی شور مچایا
نورِ حقائق ہوا نمایاں
سرِ حقیقت ہو گئے آساں
فاش ہوا ہر نکتہِ پنہاں
قرب و بعد کا فرق مٹایا
انہد مرلی شور مچایا
سن کر اس مرلی کی باتیں
اُلجھے راز انوکھی باتیں
بھولے سبھی صفاتیں ذاتیں
وحدت نے وہ رنگ جمایا
انہد مرلی شور مچایا
(ترجمہ از خواجہ غلام فرید، نومبر ۱۹۶۸ ۔ جشنِ فرید منعقدہ ملتان میں پڑھا گیا)
اُس کے ریشمی پھرن کی سرسراب خاموش ہے
مر مر کی پگڈنڈی دھول سے اَٹی ہوئی ہے
اُس کا خالی کمرہ کتنا ٹھنڈا اور سونا ہے
دروازوں پر گرے ہوئے پتوں کے ڈھیر لگے ہیں
اُس سندری کے دھیان میں بیٹھے
میں اپنے دکھیارے من کی کیسے دِھیر بند ھاؤں
مرا بستر کیسا سونا ہے
میں راتوں جاگتا رہتا ہوں
جب خنکی بڑھنے لگتی ہے
اور رین پون لہراتی ہے
یہ پردے سر سر کرتے ہیں
ساگر سا شور مچاتے ہیں
میں سوچتا ہوں کبھی یہ لہریں
ترے پاس مجھے پھر لے جائیں !!
(والٹ وٹمین کے شعری مجموعے ’’لیوزآف گراس‘‘ مطبوعہ 1891-92ء سے ’’کراسنگ بروکلین فیری‘‘ کا ترجمہ۔ 1965ء میں ناصر کا ظمی نے امریکن سنٹر لاہور کے ایما پر کنیتھ ایس لن کے مرتب کردہ مضامین کے مجموعے ’’دی امیریکن سوسائٹی‘‘ کا ترجمہ کیا، جو اُردو مرکز لاہور کے زیراہتمام شائع ہوا۔ چائن وتنائی نظم اسی کتاب ’’دی امیریکن سوسائٹی‘‘ سے اخذ کی گئی ہیں ۔)