تو بھی ہو جائے گا جدا، اچھا
گر اِسے کہہ سکیں ہم اک نقصان
تو نے اک دوست کھو دیا اچھا
باصر کاظمی
تو بھی ہو جائے گا جدا، اچھا
گر اِسے کہہ سکیں ہم اک نقصان
تو نے اک دوست کھو دیا اچھا
تو بھی کھانے میں نہیں محتاط شیخ
ہم کریں پینے میں کیوں پھر احتیاط
کوچ کی حالیؔ کرو تیاریاں
ہے قویٰ میں دمبدم اب انحطاط
سخن پر ہمیں اپنے رونا پڑے گا
یہ دفتر کسی دن ڈبونا پڑے گا
ہوئے تم نہ سیدھے جوانی میں حالیؔ
مگر اب مری جان ہونا پڑے گا
اے شباب شاد مانی الوداع
آ لگا حالیؔ کنارے پر جہاز
الوداع اے زندگانی الوداع