زمرہ جات کے محفوظات: قطعہ

ساحل پہ اور ریت بچھانے سے فائدہ

ساحل پہ اور ریت بچھانے سے فائدہ
پانی سَمندروں کو دکھانے سے فائدہ
پھیلی ہوئی جہاں ہو تیری آرزؤں کی دھوپ
اس بَزم میں چراغ جلانے سے فائدہ
شکیب جلالی

فانوس کی لَو میں جِھلملاتا ہوں کبھی

فانوس کی لَو میں جِھلملاتا ہوں کبھی
تاروں کی جبیں کو جگمگاتا ہوں کبھی
آنکھوں میں نُور بن کے رہتا ہوں میں
سورج کی کرن میں مسکراتا ہوں کبھی
شکیب جلالی

وہ دُور کہیں باغ میں بلبل بولی

وہ دُور کہیں باغ میں بلبل بولی
وہ جھوم کے آنکھ ہر کلی نے کھولی
یہ خاوری کرنوں کے غول آپہنچے
وہ سہم گئی ہے تاروں کی ٹولی
شکیب جلالی

ذوقِ نظارہ خام نہیں ہے

ذوقِ نظارہ خام نہیں ہے
میری نظر بدنام نہیں ہے
دیکھ کے تم کو بہک گئی تھی
یہ لغزش ہر گام نہیں ہے
شکیب جلالی

گونجی ہے فضا میں کسی ذی روح کی چاپ

گونجی ہے فضا میں کسی ذی روح کی چاپ
یا کاہکشاں کی دفِ مہتاب پہ تھاپ
وہ سایے کے پیچھے کوئی سایہ دوڑا
ہونے کو ہے بچھڑی ہوئی روحوں کا ملاپ
شکیب جلالی

اک دُھند ہے‘ اک کُہر ہے‘ اک بدلی ہے

اک دُھند ہے‘ اک کُہر ہے‘ اک بدلی ہے
قندیلِ نظر کی روشنی گدلی ہے
یہ دُھول جمی ہے رات کے گیسو پر
یا مارِسِیَہ نے کینچلی بدلی ہے
شکیب جلالی

شرمندہِ اغیار رہے ہیں برسوں

شرمندہِ اغیار رہے ہیں برسوں
منت کشِ پُر خار رہے ہیں برسوں
کچھ ہم ہی سمجھتے ہیں رُموزِ گلشن
پھولوں کے طلب گار رہے ہیں برسوں
شکیب جلالی

اَوہام کے بت توڑ رہے ہیں ٹھہرو

اَوہام کے بت توڑ رہے ہیں ٹھہرو
حالات کا رُخ موڑ رہے ہیں ٹھہرو
بے لوث محبّت کی قسم‘ دیوانے
ٹوٹے ہوئے دل جوڑ رہے ہیں ٹھہرو
شکیب جلالی

بھر جائے گی پھولوں سے شفق کی جھولی

بھر جائے گی پھولوں سے شفق کی جھولی
کھیلیں گے اندھیروں کے لہو سے ہولی
یہ خاوری کرنوں کے غول آپہنچے
وہ سہم گئی ہے تاروں کی ٹولی
شکیب جلالی

رُک رُک کے سفینہ بہ رہا ہو جیسے

رُک رُک کے سفینہ بہ رہا ہو جیسے
قیدی کوئی ظلم سہ رہا ہو جیسے
اس طرح اُلجھ گئے زبان سے شکوے
گونگا کوئی بات کہہ رہا ہو جیسے
شکیب جلالی

پتوں پہ ٹپکتی ہوئی شبنم کی چاپ

پتوں پہ ٹپکتی ہوئی شبنم کی چاپ
یا جیسے کہیں دور کسی ڈھول پہ تھاپ
آیا ہے دبے پاؤں یہاں پر کوئی
ہونے کو ہے بچھڑی ہوئی رُوحوں کا ملاپ
شکیب جلالی

توبہ نے لچک کر یہ کہا ہے ساقی

توبہ نے لچک کر یہ کہا ہے ساقی
منظور اسے بھی خوں بہا ہے ساقی
ہاتھوں میں نہیں ہے یہ کھنکتا ساغر
برسات کا دل دھڑک رہا ہے ساقی
شکیب جلالی

تقدیسِ شباب سے شرارے پھوٹے

تقدیسِ شباب سے شرارے پھوٹے
انگڑائی کہ جیسے آفتابی چُھوٹے
یوں اٹھ کے گریں وہ شوخ بانہیں گویا
اک ساتھ فلک سے دو ستارے ٹوٹے
شکیب جلالی

جب جوش میں خوابیدہ اُمنگ آتی ہے

جب جوش میں خوابیدہ اُمنگ آتی ہے
تیزابیِ خورشید کو شرماتی ہے
بپھری ہوئی نظروں کی تمازت کی قسم
اک پل میں چٹان موم ہو جاتی ہے
شکیب جلالی

آغوش میں ماہ پارے پالے ہم نے

آغوش میں ماہ پارے پالے ہم نے
گھر گھر میں نئے دیپ اجالے ہم نے
تاریک خرابوں کو نیا نور دیا ہے
ظلمات سے آفتاب ڈھالے ہم نے
شکیب جلالی

وہ رسمِ عنایات نہیں ہے پھر بھی

وہ رسمِ عنایات نہیں ہے پھر بھی
اب پُرسشِ حالات نہیں ہے پھر بھی
خواہش ہے یہی ان سے بہت کچھ کہیے
کہنے کو کوئی بات نہیں ہے پھر بھی
شکیب جلالی

آلام کا اظہار بھی منظور نہیں

آلام کا اظہار بھی منظور نہیں
دل یورشِ غم میں بھی رَنجُور نہیں
ہم زخمِ جگر ہیں تری اُلفت کے امین
ماحول کا رِستا ہوا ناسُور نہیں
شکیب جلالی

خوابیدہ کراہوں کی صدا آتی ہے

خوابیدہ کراہوں کی صدا آتی ہے
جس طرح دبے پاؤں قضا آتی ہے
سوتے ہوئے قیدی نے کروٹ بدلی
زنجیر چھنکنے کی صدا آتی ہے
شکیب جلالی

چاندی کے کٹوروں میں فوارے چھوٹے

چاندی کے کٹوروں میں فوارے چھوٹے
سینے کا اُبھار جیسے جھرنا پھوٹے
اس حشر خرامی کے مقابل ہو اگر
موجوں کی رَوانی پہ قیامت ٹوٹے
شکیب جلالی

انگ انگ میں بہتے ہوئے مہ پارے ہیں

انگ انگ میں بہتے ہوئے مہ پارے ہیں
کس درجہ شرر دوست یہ نظارے ہیں
بانہوں میں مچلتی ہوئی بجلی کی لچک
آنچل میں سُلگتے ہوئے انگارے ہیں
شکیب جلالی

مے خانہ بدوش یہ گُلابی آنکھیں

مے خانہ بدوش یہ گُلابی آنکھیں
زلفیں ہیں شبِ تار تو خوا بی آنکھیں
مستی کے جزیروں سے پُکارا کوئی
سَاون کی پھواریں یہ شرابی آنکھیں
شکیب جلالی

آغوش میں ظلمت کی سُلاتے ہو انھیں

آغوش میں ظلمت کی سُلاتے ہو انھیں
افسانہِ تاریک سناتے ہو انھیں
حاجت ہے جنھیں نئے اجالے کی ندیم
بُجھتی ہوئی قندیل دکھاتے ہو انھیں
شکیب جلالی

تقلید کے بت توڑ کے رکھ دیتے ہیں

تقلید کے بت توڑ کے رکھ دیتے ہیں
حالات کا رخ موڑ کے رکھ دیتے ہیں
بے لوث محبّت کی قسم‘ دیوانے
ٹوٹے ہوئے دل جوڑ کے رکھ دیتے ہیں
شکیب جلالی

احساسِ غمِ سودوزیاں سے کیا کام

احساسِ غمِ سودوزیاں سے کیا کام
آوارہ ہوں مجھ کو آشیاں سے کیا کام
شاعر کو نیازوعجز سے کیا مطلب
ہاں ہاں ‘ مجھے آپ کے جہاں سے کیا کام
شکیب جلالی

ہر رنج کو ہنس کے ٹال جاتا ہوں میں

ہر رنج کو ہنس کے ٹال جاتا ہوں میں
ناکامیوں پر بھی مسکراتا ہوں میں
اللہ کی قدرت کا تو قائل ہوں مگر
اپنی تقدیر خود بناتا ہوں میں
شکیب جلالی

نظروں میں نیا زمانہ ڈھلتا ہے حضور

نظروں میں نیا زمانہ ڈھلتا ہے حضور
آغوش میں انقلاب پلتا ہے حضور
حالات کے سانچے مجھے کیا بدلیں گے
ماحول میرے جلو میں چلتا ہے حضور
شکیب جلالی

جذبہِ خام تو نہیں ہم لوگ

جذبہِ خام تو نہیں ہم لوگ
اس قدر عام تو نہیں ہم لوگ
ساتھ چلنے سے کیوں جھجکتے ہو
اتنے بدنام تو نہیں ہم لوگ
شکیب جلالی

گفتار کہَرخشندہ ستاروں کا تبسّم

گفتار کہَرخشندہ ستاروں کا تبسّم
غنچے ترے ہونٹوں سے ہنسی لُوٹ رہے ہیں
رفتار کہ تالاب کی لہروں میں روانی
انگ انگ سے معصوم کنول پُھوٹ رہے ہیں
شکیب جلالی

منھ سے لگا کے چھوڑ دیا بادہِ نشاط

منھ سے لگا کے چھوڑ دیا بادہِ نشاط
مے خانہِ حیات سے پیاسے ہی لوٹ آئے
یاد آ گئی شکیبؔ کسی بے نوا کی پیاس
ہم ساحلِ فرات سے پیاسے ہی لوٹ آئے
شکیب جلالی

یہ مرے دوست یہ معصوم سے لوگ

یہ مرے دوست یہ معصوم سے لوگ
ان کی ہر چال بہت گہری ہے
ان کے سایے سے بھی بچ کر گزرو
ان کا سایہ بھی بڑا زہری ہے
شکیب جلالی

اس طرح رات کے دھندلکے میں

اس طرح رات کے دھندلکے میں
عہدِ ماضی کی یاد آتی ہے
جیسے شب کو مہین بدلی سے
چاندنی چھن کے پھیل جاتی ہے
شکیب جلالی

کیسی پُرخار ہیں مری راہیں

کیسی پُرخار ہیں مری راہیں
دو قدم بھی تو چل نہیں سکتا
منزلیں خود یہاں نہ آئیں گی
راستہ بھی بدل نہیں سکتا
شکیب جلالی

چُوڑیاں بج رہی ہیں کانوں میں

چُوڑیاں بج رہی ہیں کانوں میں
کس نے دستِ حنائی لہرایا
اے دلِ مضطرب بتا تو سہی
تجھ کو کس کا سلام یاد آیا
شکیب جلالی

سبزہ زاروں میں روشنی کی کرن

سبزہ زاروں میں روشنی کی کرن
سر اُٹھاتی ہے ڈوب جاتی ہے
بجلیوں کی نظر ہے گلشن پر
سایہِ گُل سے آنچ آتی ہے
شکیب جلالی

جنھیں نصیب ہیں آسایشوں کے رنگ محل

جنھیں نصیب ہیں آسایشوں کے رنگ محل
شکیبؔ ان کے لیے عید کیف زا ہو گی
لبوں پہ رنگِ تبسّم نہ دل میں موجِ سُرور
مرے وطن کے غریبوں کی عید کیا ہو گی
شکیب جلالی

ملاجو مژدہِ عیدِ سعید غربت میں

ملاجو مژدہِ عیدِ سعید غربت میں
ہمارا قلبِ حَزیں اور سوگوار ہوا
خیال آگیا خوں گشتہ آرزوؤں کا
ہلالِ عید کا خنجر جگر کے پار ہوا
شکیب جلالی

نگارِ عید جو آئی مرے خیالوں میں

نگارِ عید جو آئی مرے خیالوں میں
سنہرے پھول کھلے زَرفشاں چراغ جلے
افق سے تابہ افق رنگ و نور تھا لیکن
نظر اٹھائی تو ذوقِ نظر نے ہاتھ ملے
شکیب جلالی

وسوسے دل کے بڑھتے جاتے ہیں

وسوسے دل کے بڑھتے جاتے ہیں
یوں مرے نامہ بر نہ دیکھ مجھے
دل میں جو بات ہے اُسے کہہ دے
مُسکرا کر مگر نہ دیکھ مجھے
شکیب جلالی

ہر محبّت کی بات کو تم نے

ہر محبّت کی بات کو تم نے
عقل کی روشنی میں سوچا ہے
چشمِ پُرنم کو دیکھ کر کہہ دو
غمِ ایّام کا نتیجہ ہے
شکیب جلالی

جِذبہِ اقتدار ہی تیرا

جِذبہِ اقتدار ہی تیرا
دُکھ کا باعث ہے ہر کسی کے لیے
اپنا ہم سر سمجھ کے مل سب سے
یہی لازم ہے دوستی کے لیے
شکیب جلالی

تیرے حالات اور ہی کچھ ہیں

تیرے حالات اور ہی کچھ ہیں
میرا ماحول ہے جُداگانہ
اک کسوٹی پہ مت پَرکھ سب کو
خام ہے تجربے کا پیمانہ
شکیب جلالی

عشق کا احترام ہے لازم

عشق کا احترام ہے لازم
یہ فقط حُسن کا پجاری ہے
سجدہ کرتا ہے تیرے قدموں پر
جو دلیلِ وجودِ باری ہے
شکیب جلالی

ہم سے روشن ہیں محفلوں کے چراغ

ہم سے روشن ہیں محفلوں کے چراغ
رونقِ صبح و شام ہیں ہم لوگ
ہم نے تخلیقِ دوجہاں کی ہے
واجبُ الاحترام ہیں ہم لوگ
شکیب جلالی

رات بھر کروٹیں بدلتا ہوں

رات بھر کروٹیں بدلتا ہوں
دل سُلگتا ہے آنکھ روتی ہے
جب مرے پاس تم نہیں ہوتے
رات کتنی اُداس ہوتی ہے
شکیب جلالی

چاند تارے ترے تبسّم سے

چاند تارے ترے تبسّم سے
آسمانوں پہ مُسکراتے ہیں
ہم ترے رُخ سے چاندنی لے کر
آرزو کے دیے جلاتے ہیں
شکیب جلالی

کِھل گئے پُھول دیکھ کر ان کو

کِھل گئے پُھول دیکھ کر ان کو
ہنس کے غُنچوں نے کچھ کلام کیا
صبح دم چمپئی بہاروں نے
مسکرا کر انھیں سلام کیا
شکیب جلالی

چاندنی رات اور یہ نظّارے

چاندنی رات اور یہ نظّارے
زندگی کے نقیب ہوتے ہیں
شرم رہنے دو‘ یہ حَسیں منظر
روز کس کو نصیب ہوتے ہیں
شکیب جلالی

ایک غیرت شعار مفلس پر

ایک غیرت شعار مفلس پر
میں نے جب لُطف کی نظر ڈالی
اس کی بے چارگی کا درد نہ پوچھ
مجھ پہ رعشہ سا ہو گیا طاری
شکیب جلالی

شبِ تاریک بیت جائے گی

شبِ تاریک بیت جائے گی
شمعِ احساں جَلا رہے ہو کیوں
اتنے اخلاص سے مجھے تم لوگ
اپنا دشمن بنا رہے ہو کیوں
شکیب جلالی

دوستی کے لطیف پردے میں

دوستی کے لطیف پردے میں
ہو رہے ہیں فریب کے دھندے
ایک ہم مخلصِ زمانہ ہیں
ایک تم ہو خلوص کے بندے
شکیب جلالی

اتنی بے لوث تو نہیں دنیا

اتنی بے لوث تو نہیں دنیا
دوست جتنی کہ آپ سمجھے ہیں
ہم پہ احسان کرکے اہلِ جہاں
اِکتسابِ نشاط کرتے ہیں
شکیب جلالی

کیسے مُخلص انھیں سمجھ لوں میں

کیسے مُخلص انھیں سمجھ لوں میں
دوستوں سے جنھیں شکایت ہے
وقت، بے وقت شکوہِ احباب
سوچیے! کیا یہی محبّت ہے
شکیب جلالی

آدمی میں اگر خُلوص نہ ہو

آدمی میں اگر خُلوص نہ ہو
تو وہ انسان ہی نہ کہلائے
گر محبّت نہ ہو زمانے میں
تو یہ سب کائنات مٹ جائے
شکیب جلالی

ہے ابھی تو خلوص دنیا میں

ہے ابھی تو خلوص دنیا میں
کس لیے ہو رہا ہے تو مایوس
شمعِ ایثار پہلے روشن کر
پھر جلیں گے خُلوص کے فانوس
شکیب جلالی

اس قدر بُغض کیوں ہے آپس میں

اس قدر بُغض کیوں ہے آپس میں
اے وفا و خُلوص کے بندو!
خود غرض کون ہے زمانے میں
میں بھی مخلص ہوں ‘ تم بھی مخلص ہو
شکیب جلالی

میری نادان آرزوؤں نے

میری نادان آرزوؤں نے
کچھ سنہرے محل بنائے تھے
اس جگہ تیرگی مسلّط ہے
کل جہاں چاندنی کے سائے تھے
شکیب جلالی

یاسیت کی مُہیب راتوں میں

یاسیت کی مُہیب راتوں میں
یوں چراغِ اُمید ہے روشن
جیسے زنداں کے روزنوں سے شکیبؔ
چَھن کے آتی ہے روشنی کی کرن
شکیب جلالی

عہد و پیمان عشق و اُلفت کے

عہد و پیمان عشق و اُلفت کے
کب کوئی عمر بھر نبھاتا ہے
یاد کرتا ہے بُھول کر کوئی
جان کر کوئی بُھول جاتا ہے
شکیب جلالی

دل میں بے شک ہیں خواہشوں کے ہجوم

دل میں بے شک ہیں خواہشوں کے ہجوم
جرأتوں پر سُکوت چھایا ہے
بات کوئی کہے نہیں بنتی
تم کو اک بار کھو کے پایا ہے
شکیب جلالی

اہلِ غربت کی چاندنی راتیں

اہلِ غربت کی چاندنی راتیں
کس قدر دردخیز ہوتی ہیں
رشتہِ یاد میں اُداس آنکھیں
آنسوؤں کے گُہر پُروتی ہیں
شکیب جلالی

زندگی کے گھنے اندھیرے میں

زندگی کے گھنے اندھیرے میں
ایک ہی پُرضیا ستارہ ہے
میرے پاس اپنی یاد رہنے دو
یہ مری زِیست کا سہارا ہے
شکیب جلالی

اس طرح رنج کے دُھندلکے میں

اس طرح رنج کے دُھندلکے میں
عہدِ ماضی کی یاد آتی ہے
جیسے شب کی مہین بدلی سے
چاندنی چھن کے پھیل جاتی ہے
شکیب جلالی

ہراساں ہیں تیز آندھیوں کے تھپیڑے

ہراساں ہیں تیز آندھیوں کے تھپیڑے
کہ روشن ابھی تک ہے شمعِ محبّت
اُدھر وہ خفا ہیں ‘ اِدھر ہم خفا ہیں
مگر رشتہِ دوستی ہے سلامت
شکیب جلالی

جب بھی ان سے نگاہ ملتی ہے

جب بھی ان سے نگاہ ملتی ہے
آرزو میں شرار ڈھلتے ہیں
جس طرح بادلوں کے سایے میں
وادیوں کے چنار جلتے ہیں
شکیب جلالی

ان کو خودبیں بنا دیا میں نے

ان کو خودبیں بنا دیا میں نے
اب محبّت بھرے وہ بول نہیں
غم کی قیمت بدلتی رہتی ہے
آج اشکوں کا کوئی مول نہیں
شکیب جلالی

تیرے دو دن کے پیار پر ہمدم

تیرے دو دن کے پیار پر ہمدم
جانے کیوں ہم نے اعتماد کیا
کیا اسے حُسنِ التفات کہیں
بھول کر بھی نہ ہم کو یاد کیا
شکیب جلالی

یاد آؤ نہ اتنی رات گئے

یاد آؤ نہ اتنی رات گئے
آرزو کے دیے بُجھانے دو
مجھ کو پھولوں کی سیج دے نہ سکے
خارزاروں میں سو ہی جانے دو
شکیب جلالی

یہ حقیقت ہے چُھپ نہیں سکتی

یہ حقیقت ہے چُھپ نہیں سکتی
بات کہتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں
میرے لَب پر ہنسی نہیں ہوتی
زندگی سے مذاق کرتا ہوں
شکیب جلالی

موت سے کس لیے ڈراتے ہو

موت سے کس لیے ڈراتے ہو
زندہ رہنے کی کوئی بات کرو
چاہتے ہو اگر سحر کی نمُود
یہ چراغاں بجھا دو‘ رات کرو
شکیب جلالی

یہ حقیقت ہے جس قدر اُلجھیں

یہ حقیقت ہے جس قدر اُلجھیں
گیسوئے زندگی سنورتے ہیں
کس طرح عزم پُرجِلا ہو گی
راہ رَو تجربے سے ڈرتے ہیں
شکیب جلالی

زندگانی کے ہاتھ سے ہمدم

زندگانی کے ہاتھ سے ہمدم
آج اُمیدوں کی ڈور چھوٹ گئی
جب اندھیروں کے کارواں لپکے
اک مسافر کی آس ٹوٹ گئی
شکیب جلالی

میرے ہمراہ وہ اگر چلتے

میرے ہمراہ وہ اگر چلتے
تیرگی میں چراغ مل جاتا
ان کی آنکھیں جو رہ برَی کرتیں
مے کدے کا سُراغ مل جاتا
شکیب جلالی

ہر خوشی وقفِ اضطراب ہوئی

ہر خوشی وقفِ اضطراب ہوئی
غم کی بانہوں میں ڈھونڈتا ہوں سُکوں
مے کدے سے اُداس لَوٹا ہوں
اپنی آہوں میں ڈھونڈتا ہوں سُکوں
شکیب جلالی

آج کی بات دوست کل پہ نہ ٹال

آج کی بات دوست کل پہ نہ ٹال
جانے ہم کل تلک جیے کہ مرے
تیرے وعدے پہ اعتبار تو ہے
زیست پر اعتبار کون کرے
شکیب جلالی

مٹ گیا غم دیارِ غربت کا

مٹ گیا غم دیارِ غربت کا
آرزو نے نئی ادا پائی
ہو گیا جانِ عید وہ لمحہ
جب تصوّر میں تیری شکل آئی
شکیب جلالی

مسکراہٹ لَبوں پہ پھیکی سی

مسکراہٹ لَبوں پہ پھیکی سی
کیسی تقدیر سو گئی اپنی
یہ تو اللہ جانتا ہے شکیبؔ
جیسی کچھ عید ہو گئی اپنی
شکیب جلالی

جانے کیوں ان کے سبز آنچل پر

جانے کیوں ان کے سبز آنچل پر
یوں ٹپکتے تھے نرگسی پارے
جس طرح رات کی سیاہی میں
عرش سے ٹوٹتے ہوئے تارے
شکیب جلالی

چاندنی راتیں مجھے کرتی ہیں تلقینِ گناہ

چاندنی راتیں مجھے کرتی ہیں تلقینِ گناہ
حُسن خود ہے ایک سنگم کفر اور ایمان کا
نیچی نظروں کے پیام، اٹھتی جوانی اے شکیبؔ
پھر بتاؤ کیوں بہک جائے نہ دل انسان کا
شکیب جلالی

جگر میں سوزِ نہاں ، لب پہ مسکراہٹ ہے

جگر میں سوزِ نہاں ، لب پہ مسکراہٹ ہے
شکیبؔ کہتے ہیں مجھ کو وفا، نصیب ہوں میں
غرورِ حسن مجھے اجنبی سمجھتا ہے
وگرنہ آج بھی اس کے بہت قریب ہوں میں
شکیب جلالی

گُل رنگ یہ زر تار سی بھوری کرنیں

گُل رنگ یہ زر تار سی بھوری کرنیں
سیماب سے دھوئی ہوئی نوری کرنیں
بِلّور سی بانہوں پہ دمکتے ہوئے بال
مہتاب کی قاشوں پہ اُدھوری کرنیں
شکیب جلالی

اُفُقِ عَصر پہ تہذیب کے آثار ہیں ہَم

ہیں رسوماتِ اَزَل زِندہ ہَمارے دَم سے
آج بھی سجدہ و اِنکار کی تَکرار ہیں ہَم
کُچھ نہ ہونے پہ بھی سَرمایہِ تحقیق تَو ہیں
اُفُقِ عَصر پہ تہذیب کے آثار ہیں ہَم
ضامن جعفری

تُو زندگی کے معانی بدل کے دیکھ ذرا

ہمارے کہنے پہ کچھ روز چل کے دیکھ ذرا
تُو اپنے آپ سے باہر نکل کے دیکھ ذرا
بدل کے دیکھے گا تُو کب تک اور کس کس کو
کسی کی ذات میں خود بھی تَو ڈَھل کے دیکھ ذرا
رہِ حیات کٹھن ہی سہی پر اتنی نہیں
تُو زندگی کے معانی بدل کے دیکھ ذرا
ضامن جعفری

اَب اِختیار ہَمیَں دو ہَمارے بَس میں رَہو

ہَمارے دِل سے نِکَل کَر کَہاں بَسو گے بھَلا
اَب اِس پَہ حُکم چَلاؤ کہ اِس قَفَس میں رَہو
خُود اَپنے کہنے پَہ چَل کَر تَو تُم نے دیکھ لِیا
اَب اِختیار ہَمیَں دو ہَمارے بَس میں رَہو
ضامن جعفری

ہم جو سَمجھے ہَیں کہو اِس میں وہی راز ہے کیا؟

ہم نے کھایا نَہیں لہجَوں کی حَلاوَت کا فَریب
دیکھ لیتے ہیں پَسِ پَردہِ اَلفاظ ہے کیا
جَب کہیں مِلتے ہو کَترا کے نکل جاتے ہو
ہم جو سَمجھے ہَیں کہو اِس میں وہی راز ہے کیا؟
ضامن جعفری

یہ لیجئے! ہم نے رَوِشِ آہ بدل دی

ہم قائلِ تقلید نہیں راہِ جنوں میں
دیکھا جو کوئی نقشِ قدم راہ بدل دی
اک بارِ گراں خاطرِ نازک پہ یہی تھا
یہ لیجئے! ہم نے رَوِشِ آہ بدل دی
ضامن جعفری

خُود غَرَض کِتنا ہو گَیا ہُوں میں

ہَر قَدَم سے لپَٹ گَیا اُس کے
وہ یہ سَمَجھا تھا نَقشِ پا ہُوں میں
اُس کے آئینے سے الجھتا ہُوں
خُود غَرَض کِتنا ہو گَیا ہُوں میں
ضامن جعفری

کوئی تو ہے جسے میں نے یہ سب سنایا ہے

ہر ایک غم کو جو ہنس کر گلے لگایا ہے
ہر اِک کے ساتھ ترے نام کا حوالا ہے
فصیلِ قلب و نظر سے پلٹ تو آیا ہوں
ترے حصار میں لیکن شگاف آیا ہے
حسابِ سود و زیاں میں اُلجھ کے کیا دیکھیں
ہمیں یقین ہے، کھویا نہیں ہے، پایا ہے
کوئی تو ہے یہاں میرا بھی رازداں ضامنؔ
کوئی تو ہے جسے میں نے یہ سب سنایا ہے
ضامن جعفری

میں آئینے کو مُسَلسَل نَظَر میں رَکھتا ہُوں

نہیں کہ دِل ہی فقط رَہگُذَر میں رکھتا ہُوں
میں چَشم و گوش بھی دیوار و دَر میں رکھتا ہُوں
تمام رات ہیں اُس کی شکایتیں خُود سے
پھِر اُس کو اپنی دُعائے سحر میں رکھتا ہُوں
وہ کھویا رہتا ہے آرائشِ جمال میں جب
میں آئینے کو مُسَلسَل نَظَر میں رَکھتا ہُوں
ضامن جعفری

اَزَل سے سب مکرّر ہو رَہا ہے

نہ جانے کہہ دِیا ہے عشق نے کیا
کہ حُسن آپے سے باہر ہو رَہا ہے
حواس و ہوش سے کہہ دو کہ جائیں
حسابِ دل برابر ہو رَہا ہے
اَبَد ممکن ہے لائے کچھ تغیّر
اَزَل سے سب مکرّر ہو رَہا ہے
ضامن جعفری

کُچھ مِری فِکر بھی ہے خوں میں شَرابور بہت

نَفسِ لَوّامہ تُو چُپ کیوں ہے مَچا شور بہت
نَفسِ اَمّارا ہُوا جاتا ہے مُنہ زور بہت
حَرفِ حَق گوشِ سَماعَت سے ہُوا ہے محروم
چَشمِ بینا بھی نَظَر آئی مجھے کور بہت
دیتا رہتا ہے دِلاسا مُجھے یُوں میرا ضَمیِر
آرزوئیں تَو مِری بھی ہیں لَبِ گور بہت
خُونِ دِل بھی ہے مِرے اَشکِ رَواں میں ضامِنؔ
کُچھ مِری فِکر بھی ہے خوں میں شَرابور بہت
ضامن جعفری

خَموشی بولَے تَو پھِر بے تَکان بولتی ہے

نَسَب چھُپاتا ہے جَب کوئی کَم نَسَب اَپنا
رَگوں میں بہتے لہُو کی زبان بولتی ہے
یہ شور ہی ہے جو تھَک کَر خَموش ہوجائے
خَموشی بولَے تَو پھِر بے تَکان بولتی ہے
ضامن جعفری

گُمان ہوتا ہے جِس جا وہیں نہیں ہوتی

میں ہر نَظَر سے زمانے کی خوب واقف ہُوں
کرے جو رُوح میں گھر وہ کہیں نہیں ہوتی
کَہاں کَہاں میں گیا ہُوں تَلاشِ اُلفَت میں
گُمان ہوتا ہے جِس جا وہیں نہیں ہوتی
ضامن جعفری

شاید کوئی کَمال تِرے سَنگِ دَر میں ہے

مَنظَر میں کچھ ہے یا مِرے حُسنِ نَظَر میں ہے
یا کچھ نہیں ہے جو ہے تِری رہگُزَر میں ہے
سَمجھا رَہے ہیں لوگ مِرے دِل کو بار بار
سُنتا کوئی نہیں ہے کہ سَودا تَو سَر میں ہے
سَر پھوڑنے کو آتے ہیں سَب دُور دُور سے
شاید کوئی کَمال تِرے سَنگِ دَر میں ہے
ضامن جعفری

معلوم ہو مجھے بھی کہ کیا کچھ اَثَر میں ہے

منزل میں وہ کہاں ہے مزہ جو سَفَر میں ہے
آنکھیں کُھلیِں تَو زیست کاحاصل نَظَر میں ہے
طوفان کر رہا تھا مِرے عزم کا طواف
دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھَنوَر میں ہے
اسبابِ کائنات کا منکر نہیں ہُوں میں
پِھر کیوں کَشِش شَجَر سے زیادہ ثَمَر میں ہے
ضامنؔ! مری دعاؤں کی قیمت بھی کم نہیں
معلوم ہو مجھے بھی کہ کیا کچھ اَثَر میں ہے
ضامن جعفری

ہوش و خِرَد کے سارے حوالوں سے دشمنی

منزل کی آرزو ہے، تَو راہوں سے دشمنی
تعبیر کی تلاش ہے، خوابوں سے دشمنی
بھٹکوگے روز و شب، رہ و منزل کی چاہ میں
سورج سے تم کو لاگ، چراغوں سے دشمنی
رائے نہ مشورہ کوئی، ایسا بھی کیا شباب
مہنگی پڑے گی، چاہنے والوں سے دشمنی
دَورِ جنوں نواز میں ضامنؔ! ہے لازمی
ہوش و خِرَد کے سارے حوالوں سے دشمنی
ضامن جعفری

خامشی حُسن کی عادت کے سِواِ کچھ بھی نہیں

مثلِ آئینہ مجھے دیکھ! تردّد کیا ہے؟
چشمِ آئینہ میں حیرت کے سِوا کچھ بھی نہیں !
روح، فریاد کُناں ہے تَو سبب ہے اِس کا
قید خانے میں اذیّت کے سِوا کچھ بھی نہیں
وہ توجہ ہو تغافل ہو تبسّم ہو کہ اشک
اُس کا ہر رُوپ محبت کے سِوا کچھ بھی نہیں
اُن کے اسلوبِ نظر سے یہ عیاں ہے ضامنؔ
خامشی حُسن کی عادت کے سِواِ کچھ بھی نہیں
ضامن جعفری

فنا کی قید سے پابندیِ اَزَل سے نکل

مثالِ شُتر نہ بیٹھا رِہ شُتر کیِنہ لیے
تُو کام عَقل سے لے بندشِ عَقَل سے نکل
گر عَقلِ کُل ہے تَو ہر چیز کو اَبَد کر لے
فنا کی قید سے پابندیِ اَزَل سے نکل
ضامن جعفری

دارالبَقا بَنانے کو معمار چاہیے

مانا کہ ظُلم و جَبر سے اِنکار چاہیے
اِنکار کے لیے بھی تَو کِردار چاہیے
کَھلتا ہے چَشمِ ظُلم کو بہتا ہُوا لہو
زَخموں کو کُچھ سَلیقَہِ اِظہار چاہیے
دارِ فَنا کو، کھود کے ہَر ایک بیخ و بُن
دارالبَقا بَنانے کو معمار چاہیے
ضامن جعفری

مرے اشعار میں اپنے معانی ڈالنے والو

لرزتی ہے سراپا روحِ قرطاس و قلم تم سے
اَدَب کے خون سے نفسوں کو اپنے پالنے والو
تمہیں کس نے دیا یہ حق؟ بھلا تم کون ہوتے ہو؟
مرے اشعار میں اپنے معانی ڈالنے والو
ضامن جعفری

تَسکیِنِ نَظَر تَو ہو گی مَگَر داغَوں کو نُمایاں کَر دیں گے

گَر یہ ہے رَوِش وہ جَب چاہیں گے آئیں گے احساں کَر دَیں گے
اَپنی بھی اَنا ہے ہَم اِظہارِ تَنگیِ داماں کَر دَیں گے
کَے بار خَیال آیا بَیٹھیَں اَوراقِ پَریشاں کو لے کَر
اِک خَوف سا دِل میں بیٹھا ہے اَوراق پَریشاں کَر دَیں گے
اے خواہِشِ دِل چَل دیکھ آئیں پھِر محفِلِ جاناں کے مَنظَر
تَسکیِنِ نَظَر تَو ہو گی مَگَر داغَوں کو نُمایاں کَر دیں گے
ضامن جعفری