فضا میں گرد ہے اور آسماں پر زرد چادر ہے
صدا اندر صدا اِک خوف بستا ہے
تخیّل در تخیّل سہم سے سمٹی ہوئی سوچیں
حرارت کا حوالہ ڈھونڈنے کو ہر شکم کی آگ رقصاں ہے
سمندر سے اٹھے طوفان ساحل بستیوں کو کھا رہے ہیں
ہوا کے سنسنانے کی صدا کا ساز بھی نوحے سنانے لگ پڑا ہے
ہوس اور حرص کی بڑھتی نمی نے ہر نِجَس پیکر نفس کو
جو یہ زنگ آلود سا اِک رنگ بخشا ہے
وہ ہر چہرے سے ظاہر ہے!
مرے پنچھی!
تمھارے ان پروں پر یہ سفیدی دودھ جیسی ہے
اسے میلا نہ ہونے دو!
کہیں خوشبوؤں میں بستے گلابی گلستاں کی راہ کو جاؤ
خدا کے دہر کو دیکھو!
نہ تم اس شہر کو دیکھو!
یاور ماجد