ہر طور ہر لحاظ سے ہی مرگِ ہست ہو
ہو وہ شکستِ خواب یا خوابِ شکست ہو
لاؤ گگن سے چاندنی جیسی کوئی شراب
پی کر جسے یہ راندۂ ظلمات مست ہو
کرتے ہو ہر پہر ہی شب و روز کا طواف
تم وقت کے پجاری ہو، لمحہ پرست ہو
آؤ ناں پھر سے یاد کی گلیوں کی سیر کو
بارش کی کوئی شب ہو مہینہ اگست ہو
خالی اگر ہے جیب تو افسوس کچھ نہیں
اک سانحہ ہے دِل بھی اگر تنگ دست ہو
یاؔور کہیں یہ اَن کِھلے گل مجھ سے بار بار
قوسِ قزح کے آنے کا کچھ بندوبست ہو
یاور ماجد