ہم مگر ترسے، ۔۔۔ اور ہم تر سے

گو کہ بادل تو ٹوٹ کر بر سے
ہم مگر ترسے، ۔۔۔ اور ہم تر سے
ہم غریبوں کی کون تیاری؟
وا کیا در، نکل پڑے گھر سے
کچھ تحرک تو ہو فضاؤں میں
ہو صبا سے بھلے، ہو صَرصَر سے
ہم لڑھکتے چلے گئے پھر تو
کھائی ٹھوکر جو ایک پتھر سے
کیسے کیسے پہاڑ کاٹ دیے
اور وہ بھی اس ایک پیکر سے
ایک سورج فلک پہ ہوتا تھا
کیوں حذف ہو گیا وہ منظر سے
اپنا تقدیر پر یقیں ہی نہیں
پھر گلہ کیا کریں مقدر سے
اپنے مرکز کو ڈھونڈنے کے لیے
چھن گئے دائرے ہی محور سے
طے کیا تھا سفر جو ماجدؔ نے
کیا کبھی ہو سکے گا یاؔور سے
یاور ماجد
 

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s