کیا جبر کی سنائیں تو کیا اختیار کی
ہر بار ہم نے اپنی سی کوشش ہزار کی
تھی ہم سفر بس ایک ہی میری تمام عمر
چبھتی رہی ہے پاؤں میں جو نوک خار کی
عمریں گزار بیٹھا ہوں دیتے ہوئے حساب
خواہش رُپہلے پیار کی جو سنگسار کی
شعر و سُخن کی وادی کا آوارہ میں ہرن
مجھ کو ہے سنگلاخ یہ رہ روزگار کی
بادل دھوئیں کے، چیخیں، تڑپتوں کی سسکیاں
شہرِ اماں میں کاہے کو پھیلی انارکی
دیکھے جہاں خزاں میں ادھڑتے ہوئے درخت
میں نے بھی اپنی گدڑی وہیں تار تار کی
مقروض زندگی تھی کبھی ان کے نام کی
ہر سانس اب تو لیتے ہیں یاؔور ادھار کی
یاور ماجد