نہ پورا چاند گھٹ جائے، اسی لمحے! ابھی تھم جا
کہاں جاتی ہے اس رفتار سے، اے روشنی! تھم جا
عذابِ جاں بنی ہے تیری ٹک ٹک اے گھڑی! تھم جا
مرے حلقوم پر چلتی ہوئی میٹھی چھری! تھم جا
مجھے کچھ سانس لینے دے، مجھے کچھ سانس لینے دے
مری آوارگی تھم جا! مری آوارگی تھم جا
کسی دریا سے ہو کر بحر میں مٹ جائے گی آخر
اسی وادی میں بہتی رہ، اری پیاری ندی! تھم جا
امر کرنے کو ہے دیکھو کرن کو بوند پانی کی
یہ لمحہ پھر نہیں آنا، یہیں پر روشنی! تھم جا
اسی امید پر چلتا رہا انجان رستوں پر
کوئی مجھ کو پکارے گا کہ تھم جا۔۔ اجنبی، تھم جا
یہ گردش شش جہت کی تو کبھی تھمتی نہیں یاؔور
تو پھر اے گردشِ دوراں ذرا تو ہی کبھی تھم جا!
یاور ماجد