ہونٹوں پہ آتے آتے کئی بار رہ گئے
کتنے خیال تشنۂ اظہار رہ گئے
بے ساحلی بھی بحرِ جنوں کی عجیب ہے
ہوش و خرد کے نقش افق پار رہ گئے
گل چُن کے لے گئے ہو تم اب کے بہار بھی
مجھ باغباں کے پاس فقط خار رہ گئے
تم خود سے ماورا ہوئے اپنی تلاش میں
اور ہم کہ خود سے برسرِ پیکار رہ گئے
توڑا جو آئنہ تو ہزاروں میں بٹ گیا
ہر عکس میں مگر ترے آثار رہ گئے
یاؔور جو شاعری کا بھنور چھوڑ کر چلا
کتنے ہی دائرے سرِ پرکار رہ گئے
یاور ماجد