اندھیرے پہلے تو گلشن میں بو گئی وہ شام
پھر اُس کے بعد کہیں جا کے سو گئی وہ شام
وہ اس کے ہونٹ، وہ رخسار اور وہ چہرہ
نظر سے محو ہوئے اور کھو گئی وہ شام
وہ جس میں سُرخیِ رُو، تیری سُرخیِ رُو تھی
نجانے کون گلستان کو گئی وہ شام
طلوع روز ہی ہوتا تھا، پھر نہیں لوٹا
نجانے کیوں مرا سورج ڈبو گئی وہ شام
انہیں گزار کے کچھ ساعتوں کے دھاگے سے
فلک پہ کیسے ستارے پرو گئی وہ شام
ہر ایک پل ہے مجھے یاد ہمرہی کا تری
حسابِ عمر سے پھر کیسے کھو گئی وہ شام
کشید کر کے شفق میری آنکھوں سے کل شب
بہ سقفِ یاد کہیں ثبت ہو گئی وہ شام
گئے، گئے، جو سمے لوٹ کب سکے یاوؔر
’’گئی وہ شام‘‘ یہ کہتے رہو!! ’’گئی وہ شام‘‘
یاور ماجد