پڑاؤ تھا جہاں اپنا وہ گھر ہی ٹوٹ گئے
وہ آندھیاں اُڑیں سارے شجر ہی ٹوٹ گئے
پسِ خموشیِ لب دِل میں تھے کئی طوفاں
نہ آئے ساحلوں تک، بحر پر ہی ٹوٹ گئے
تو زورِ بازو سے کرنی شکایتیں کیسی
جب اپنے تیر و سنان و تبر ہی ٹوٹ گئے
معانی شعر میں ہم جوڑ بھی نہ پائے تھے
کہ سارے لفظوں کے زیرو زبر ہی ٹوٹ گئے
ابھی تو حوصلہ اُڑنے کا تھا مگر یاؔور
نظر میں آئی جو منزل تو پر ہی ٹوٹ گئے
یاور ماجد