وہ آندھیاں اُڑیں سارے شجر ہی ٹوٹ گئے

پڑاؤ تھا جہاں اپنا وہ گھر ہی ٹوٹ گئے
وہ آندھیاں اُڑیں سارے شجر ہی ٹوٹ گئے
پسِ خموشیِ لب دِل میں تھے کئی طوفاں
نہ آئے ساحلوں تک، بحر پر ہی ٹوٹ گئے
تو زورِ بازو سے کرنی شکایتیں کیسی
جب اپنے تیر و سنان و تبر ہی ٹوٹ گئے
معانی شعر میں ہم جوڑ بھی نہ پائے تھے
کہ سارے لفظوں کے زیرو زبر ہی ٹوٹ گئے
ابھی تو حوصلہ اُڑنے کا تھا مگر یاؔور
نظر میں آئی جو منزل تو پر ہی ٹوٹ گئے
یاور ماجد

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s