یہی سحر تھی
یہی پرندے،
انہی درختوں
پہ بیٹھے نغمے۔۔ سنا رہے تھے
یہی وہ دُھن تھی
جو گا رہے تھے
صبا سے اٹھکیلیوں میں مصروف
نرم پتے مری ہی غزلیں سنا رہے تھے
وہی سحر ہے
وہی پرندے
انہی درختوں پہ بیٹھے
کل والی دھن ابھی بھی سنا رہے ہیں
وہی شجر ہیں
وہی ہیں پتے
وہی ہیں اٹھکیلیاں صبا کی
مگر!!
یہ سب کچھ ہی کل کی صبح سے مختلف ہے
کہ آج تیری حسین دھڑکن کا ایک نغمہ
مری سماعت پہ منکشف ہے
یاور ماجد