روح سے پوچھو کہ آخر کون سی مشکل میں ہے؟
وزن تو تھوڑا سا ہی اب جسم کی اس سِل میں ہے
پیتا جائے، پیتا ہی جائے ہے ہر اک لہر کو
تشنگی ہی تشنگی لیکن لبِ ساحل میں ہے
تیری یادوں کا خزینہ دل میں ہے رکھا ہوا
اور اک مارِ سیہ بیٹھا ہوا اس بِل میں ہے
آنسوؤں سے چیر لیں گے آئی جب کوئی کرن
اک دھنک رنگوں بھری اپنے بھی مستقبل میں ہے
ایک مرکز، ایک میں اور عمر بھر کی گردشیں
فاصلہ اک مستقل راہی میں اور منزل میں ہے
لغو ہے لفظوں کا فن، لیکن ہم اس کا کیا کریں
’’یہ جو اک لذّت ہماری سعیِ بے حاصل میں ہے‘‘
یاور ماجد