گزرتے موسم کی اِک سحر بھی
نہ بھول پاؤں گا بھول کر بھی
نہیں اکیلے ہو تم سفر میں
فلک پہ دیکھو ہے اِک قمر بھی
پھریں گے آنکھوں کے آگے چہرے
تو یاد آئیں گے بام و در بھی
طویل ہوتا ہی جا رہا ہے
یہ جلتا صحرا بھی یہ سفر بھی
پھریں گے ہر سو مرے فسانے
ترے نگر بھی، مرے نگر بھی
جو مسکراہٹ بکھیرتے ہیں
وہ دِل میں رکھتے ہیں اِک شرر بھی
ترے ہی در پر ہمیش رہتا
جو ہوتی یاؔور پہ اِک نظر بھی
یاور ماجد