مجھے بے شک انھی محدود دنیاؤں میں رہنا ہے
مگر یہ ایک چکّر جو مرے پاؤں میں رہنا ہے
سکوتِ بحر کو جب تک نہ پا جائیں مسافت میں
عجب بے چینیوں کا شور دریاؤں میں رہنا ہے
کڑی دھوپوں کا سہنا، لُو میں جلنا بھی ضروری ہے
شجر وہ کیا پھلیں پھولیں جنھیں چھاؤں میں رہنا ہے
کڑکتی دھوپ ساری خود مجھے سہنی ہے سینے پر
بھلا برگد نے بھی بولو کبھی چھاؤں میں رہنا ہے
جو تنہا چھوڑ کر خود کو زمانے کے ہوئے ہم تو
لیے اک اجنبی صورت، شناساؤں میں رہنا ہے
یاور ماجد