یہ ایک رنج تو رہنا ہے لازمی مجھ کو
ملی ہے فرط میں یاؔور تری کمی مجھ کو
دعا یہی ہے مری زندگی کے صحرا میں
ہرا ہمیشہ رکھے آنکھ کی نمی مجھ کو
یہ خود سے جنگ تو گویا مری سرشت میں ہے
عدو کی ورنہ کہاں تھی کوئی کمی مجھ کو
ہمیشگی یہ ترے ہجر کی بتاتی ہے
خوشی ملے گی کبھی کوئی دائمی مجھ کو
مرے خیال کے روزن میں بیٹھی اک کوئل
سنا تی رہتی ہے دُھن ایک ماتمی مجھ کو
عجیب شخص ہے یاؔور کہے ہے صر صر سے
کبھی عطا ہو سحر کوئی شبنمی مجھ کو
یاور ماجد