سحر کی نکلنے لگی فال ہے
لگائی پرندوں نے چوپال ہے
دسمبر کا دن آخری آ گیا
پڑا آج لمحوں کا پھر کال ہے
وہی جو کہ توڑا تھا پچھلے برس
وہی عہد میرا پھر اس سال ہے
وہی جو کہ تھا حال پچھلے برس
وہی حال اپنا پھر اس سال ہے
نئی کونپلیں پھر سے کھلنے لگیں
اترنے لگی پیڑ سے چھال ہے
نیا زہر پھر سے بنائے گا یہ
اترنے لگی سانپ کی کھال ہے
لپیٹے چلے اک بھنور میں مجھے
مرے سامنے یہ جو گھڑیال ہے
چلا شب کی بانہوں میں خورشید تو
ہوا شرم سے کس قدر لال ہے
یاور ماجد