تنہائیوں کی رات میں پلتا ہوا سُکُوت
لمحوں کو اوڑھے پہلو بدلتا ہوا سکُوت
دن بَھر کی شورشوں کی دُرشتی کو توڑ کر
غازہ گگن کے گال پہ ملتا ہوا سکوت
پھر چُپ خزاں کی رات میں پتوں کے شور سے
کانوں کے پاس آن کے ٹلتا ہوا سکوت
ان برف باریوں میں ہواؤں کی سائیں سائیں
دِل کے فلک پہ جمتا پگھلتا ہوا سکُوت
طوفاں کے بعد اُجڑتی نکھرتی سیاہ رات
لمحہ بہ لمحہ گرتا سنبھلتا ہوا سکُوت
ویراں کھنڈر میں روح سی ماتم کُناں کوئی
دِل کے اُجاڑ گھر میں ٹہلتا ہوا سکُوت
شعر و سُخن کا شور بھی یاوؔر ہوا عذاب
لاؤ صدا کے پھول مسلتا ہوا سکُوت
یاور ماجد