دُھند ایسی دِل پہ چھائی ہے کہ چھٹتی ہی نہیں

 
وہم کی کالی گھٹا نظروں سے ہٹتی ہی نہیں
دُھند ایسی دِل پہ چھائی ہے کہ چھٹتی ہی نہیں
آنکھ بھر ہی آسماں ہے دِل کی دُنیا کا مگر
اتنی وسعت ہے کہ نظروں میں سمٹتی ہی نہیں
ہے دِلِ عابد کی ہر اٹھتی صدا میں انتشار
جائے گنبد میں نظر کے تو پلٹتی ہی نہیں
صبح کے ہر در سے اژدر یاس کا لپٹا ملے
رات اس مارِ سیہ کے ساتھ کٹتی ہی نہیں
میَں لُڑھکتا ہی چلوں کون و مکاں کی کھائی میں
ایسی گردش شش جہت کی ہے کہ گھٹتی ہی نہیں
میَں ہوں یاؔور اپنی فطرت میں اُجالوں کا سفیر
دُھول مجھ سے دشتِ ظلمت کی لپٹتی ہی نہیں
یاور ماجد

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s