درونِ گردشِ دوراں ٹھہر کے دیکھتے ہیں

کسی سے ہو نہ سکا جو، وہ کر کے دیکھتے ہیں
درونِ گردشِ دوراں ٹھہر کے دیکھتے ہیں
پرندے میرے گلستاں کو ڈر کے دیکھتے ہیں
بُریدہ بازو وہ جب ہر شجر کے دیکھتے ہیں
یہ مدّ و جذر مرے دل کا تیری دید سے ہے
قمر کو جیسے سمندر بپھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ایک جہاں رفتگاں کی منزل ہے
وہ چل بسا، تو اسے آؤ مر کے دیکھتے ہیں
حیات کیا ہے؟ پہر دو پہر کا میلہ ہے
تماشے آؤ پہر دو پہر کے دیکھتے ہیں
بسر کیا ہے ہمیں جس حیات نے اب تک
اسی حیات کو اب ہم بسر کے دیکھتے ہیں
نہ آسمان ملا ہم کو آنکھ بھر یاؔور
اسی لیے ہم اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
یاور ماجد

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s