اتنا احساسِ کمتری کب تک
خود سے ہی اپنی ہم سری کب تک
چپ خزاؤں میں ٹوٹے پتوں کی
مرتی آواز گونجتی کب تک
بے رخی کا نہیں ہے کوئی گلہ
پر یہ نظروں کی یک رخی کب تک
درد کا پل ہے یا ہے ایک صدی
اور گزرے گی یہ صدی کب تک
کوئی دریا تو آئے رستے میں
بہتی جائے گی یہ ندی کب تک
اب تو چند ایک سانس باقی ہیں
اور وہ چند ایک بھی کب تک
مدرسے میں سخن کے سب استاد
ایک یاؔور ہی مبتدی!! کب تک؟
یاور ماجد