ہزار راتوں کی بات چھوڑو
کہ ہم تو صدیوں سے اِک تصوّر کو جسم دینے کو رو رہے ہیں!
ہمارے دِل میں جو بے نہایت سی آرزو ہے
یہ جستجو ہے
جسے ابھی تک نجانے کتنی ہی حسرتیں ہیں
مگر وہ لمحہ!
کہ جب سبھی خواہشیں سنور کر،
بس ایک حسرت کے برف پیکر
میں ڈھل کے ماتم کا رنگ اوڑھیں!
تو ایک عالم پہ زنگ چھوڑیں!
بہار خوابوں کے گلستاں سے ہمیں بلائے!
خزاں نہ جائے!
یاور ماجد