جب حیاتِ رفتنی تیری نہیں

فکر کیا کرتا ہے تو آئند کی؟
جب حیاتِ رفتنی تیری نہیں
خود کو ننگا حرصِ شہرت میں کیا
بھر بھی حالت دیدنی تیری نہیں
جا اتار اب جسم کی یہ کینچلی!
روح کی یہ اوڑھنی تیری نہیں
دوسروں سے کیا نبھا پائے گا تو
اپنی تک خود سے بنی تیری نہیں
تیر بھی تیرا کماں بھی ہے تری
تیر پر لیکن انی! تیری نہیں
تو بھی سرقہ باز نکلا! ہائے ہائے
چاند تیری روشنی تیری نہیں
غصے میں یاؔور نہ کر تو شاعری
لہجے کی یہ سنسنی تیری نہیں
یاور ماجد

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s