تھامے کرن کو، کُود کے شب کے پہاڑ سے
توڑو گگن کہ چاندنی ٹپکے دراڑ سے
پھر تیرگی زمین پہ جھانکے پئے شکار
چندا کی اوٹ سے کبھی تاروں کی باڑ سے
اوڑھیں زمیں نے شب کے اندھیروں کی چادریں
ویراں ہوئیں فضائیں تو رستے اُجاڑ سے
کب روشنی ہے روشنی گر تیرگی نہ ہو
ہر نظم کا وجود ہے قائم بگاڑ سے
ظلمت کدے میں شب کے سحر آ کے مڑ گئی
چپکی ہوئی ہیں دستکیں اب تک کواڑ سے
وصلِ سحر بلائے گا یاؔور کبھی مجھے
جھانکے گا آفتاب شعاعوں کی آڑ سے
یاور ماجد