زخمی آوازیں، وہی الفاظ دہرائے ہوئے
پھر وہی سوچوں کے گھاؤ، شور زخمائے ہوئے
مسخ کر دیتے ہیں انساں کا شعور!
رحمت یزداں ملے جو انتہائے شوق سے
جگمگا اٹھتی ہے قسمت بن کے نورِ کوہِ طور
تتلیاں خوابوں کی، مٹھی میں اگر آ جائیں تو
رنگ پھیلیں سوچ کے روزن سے آتی دھوپ میں
لیکن ایسی انتہائے شوق بھی،
دسترس نا دسترس کے درد سے
دِل کو تڑپاتی رہے
سلسلے ٹوٹیں تو پھر کب جڑ سکیں
جاتے پنچھی کب گھروں کو مڑ سکیں
یاد کا ققنس مگر زندہ رہے
آگ میں جل کر ملے پھر زِندگی
خاک میں مل کر جلے پھر زِندگی
منجمد ہو جائیں سب برفیلے طوفانوں کے بیچ
اور لمحے میں بدل جائے کبھی سارا سماں
فرطِ قحطِ نم کبھی جنگل کے جنگل دے اجاڑ
اور کبھی بارش نہ تھم پائے اجڑ جائے جہاں!
وقت کی چکّی میں زندہ بے یقینی ہی رہے
یہ تسلسل خواب کا جاری رہے
یاور ماجد