جسم و جاں پر ہے دھوپ کا پہرا
اور کپڑوں کا رنگ بھی گہرا
اس کے چہرے کے نور کا دیدار
دائرہ بن کے آنکھ میں ٹھہرا
اور اک یاد ہم سے روٹھ گئی
اور اک زخم ہو گیا گہرا
موت پر احتجاج کر کوئی!
رسیاں توڑ، بادباں لہرا
ساحلوں پر تھیں سیپیاں یاؔور
اور تم چھانتے رہے صحرا
یاور ماجد