میرے پہلو سے درد لپٹے ہیں
اور مری روح ہے بہ نوک خار
جس طرف جاؤں روک لے مجھ کو
ایک بے در، مہیب سی دیوار
دِل کے صحرا سے کر گئے ہجرت
خواب کے سب پرند افق کے پار
دِل کے ارمان ہیں سبھی گھائل
جاں بہ لب ہیں جو تشنۂ اظہار
’’اے شہنشاہِ آسماں اورنگ
اے جہاندارِ آفتاب آثار‘‘
تیری آزاد ان فضاؤں میں
گھٹ گئی روح خون میں ہے فشار
اے شہنشاہ، بانیِ تقدیر
اے جہاندار، مالک و مختار
گر تری ہو رضا جو تو چاہے
جلتے صحراؤں میں کھلیں گلزار
ہو نگاہِ کرم ادھر بھی ایک
ہو عطا مجھ کو ایک تختۂ دار
یاور ماجد