پتّھر مارو، دَار پہ کھینچو، مَرنے سے انکار نہیں
یہ بھی سُن لو حق کی آخر جیت ہی ہو گی، ہار نہیں
اپنے خونِ جگر سے ہَم نے کُچھ ایسی گُل کاری کی
سب نے کہا یہ تختہِ گُل ہے، زِنداں کی دیوار نہیں
سُوکھی بیلیں، داغی کلیاں، زخمی تارے، روگی چاند
ایک ہی سب کا حال ہے یارو، کون یہاں بیمار نہیں
اَب بھی اثر ہے فصلِ خزاں کا، باغ کے بُوٹے بُوٹے پر
دیکھو تو بے رنگ ہیں کلیاں ، سونگھو تو مہکار نہیں
باغ کا نقشہ بدلو یا پھر چھین لو ہم سے تابِ نظر!
سب کچھ دیکھیں ، کچھ نہ کہیں ہم !اس کے لیے تیار نہیں
طوفاں طوفاں گھوم چکے ہم ساحل ساحل دیکھ آئے
مرنا جینا کھیل ہے یارو، کھیل کوئی دشوار نہیں
زلزلو جاگو، آندھیو آؤ، آج اپنی سی کر دیکھو
کوہِ گراں ہیں اپنی جگہ پر، ریت کی ہم دیوار نہیں
شکیب جلالی