ہم گردشِ ایّام سے گھبرائے ہوئے ہیں

دورِ سحر و شام سے گھبرائے ہوئے ہیں
ہم گردشِ ایّام سے گھبرائے ہوئے ہیں
پابستہِ زنجیر تو رُک رُک کے چلیں گے
دشواریِ ہرگام سے گھبرائے ہوئے ہیں
اُمّیدِ چراغاں ہے نہ اُمّیدِ سَحر ہے
زندانی سرِ شام سے گھبرائے ہوئے ہیں
نآ کردہ خطاؤں کا بھی اقرار نہ کرلیں
بے باکیِ الزام سے گھبرائے ہوئے ہیں
ساقی کوئی ہنگامہِ نوخیز بپا کر
ہم شغلِ مے و جام سے گھبرائے ہوئے ہیں
کانٹوں کا بیاں اور ہے، کلیوں کی صدا اور
اُلجھے ہوئے پیغام سے گھبرائے ہوئے ہیں
کُچھ لوگ ہیں مرعوب، شکیبؔ آپ کے فن سے
کچھ لوگ فقط نام سے گھبرائے ہوئے ہیں
شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s