ہم نے گرا دیا جسے اپنی نگاہ سے

کم تر نہ جانیں لوگ اسے مہر و ماہ سے
ہم نے گرا دیا جسے اپنی نگاہ سے
جن کے لیے زبان بھی احسان مند ہے
میں نے کچھ ایسے کام لیے ہیں نگاہ سے
ہمراہ اپنے رونقِ محفل لیے ہوئے
وہ کون جا رہا ہے تری جشن گاہ سے!
تعظیم، یہ مقامِ ادب ہے، خرد نواز!
تم بات کر رہے ہو محبت پناہ سے
حُسنِ حیاپسند کو دیکھا ہے بے نقاب
شرما رہے ہیں آج ہم اپنی نگاہ سے
مستی سی چھا رہی ہے فضائے حیات پر
کوئی شراب گھول رہا ہے نگاہ سے
اک شعلہِ جمال سے نظریں پگھل گئیں
ہم تشنہ کام آئے تری جلوہ گاہ سے
ویسی ہی کچھ حَسین سزا دیجیے حضور
جیسا حَسین جُرم ہوا ہے نگاہ سے
کہنے کو اب بھی خاک نشیں ہے یہ دل مگر
تاروں کو چھو لیا ہے محبت کی راہ سے
اب تو شکیبؔ! رکھ لو بھرم زعمِ حُسن کا
جلوے اُلجھ رہے ہیں تمھاری نگاہ سے
شکیب جلالی

تبصرہ کریں