گُلوں میں حُسن‘ شگوفوں میں بانکپن ہو گا
وہ وقت دُور نہیں جب چمن چمن ہو گا
جہاں پہ آج بگولوں کا رقص جاری ہے
وہیں پہ سایہِ شمشاد و نسترن ہو گا
فضائیں زرد لَبادے اُتار پھینکیں گی
عروسِ وقت کا زَرکار پیرہن ہو گا
نسیمِ صبح کے جھونکے جواب دہ ہو ں گے
کسی کلی کا بھی ماتھا جو پُر شکن ہو گا
نئے اصول نئی منزلیں تراشیں گے
یہ قافلہ مہ و انجم میں خیمہ زَن ہو گا
بڑے سُکون سے تعمیرِ زندگی ہو گی
کہیں یزید‘ نہ آزر‘ نہ اہرمن ہو گا
بُتانِ عصر کے خالق کو باخبر کردو
نئے زمانے کا ہر فرد بُت شکن ہو گا
دُکھے دلوں کی خراشیں جو کرسکے محسوس
اک ایسا صاحبِ دل صدرِ انجمن ہو گا
ہمارا دَور مساوات لے کے آئے گا
ہمارے دَور میں ہر آدمی مگن ہو گا
شکیب جلالی