یہ ہلالِ عید ہے قوسِ افق پر ضَو فگن
نیلگوں خیمے میں یا بیٹھی ہے کوئی سیم تَن
پُر تکلّف موڑ ہو جس طرح، جُوے شیر میں
یا ذرا خم آگیا ہو شاہدِ تنویر میں
مانگ ہو افشاں کی جیسے سنگِ مرمر کی کماں
جیسے انگشتِ سلیماں پر انگوٹھی کا نشاں
جس طرح برقاب خنجر، جیسے چاندی کی کٹار
یا کسی معصوم دوشیزہ کے سینے کا اُبھار
اس قدر نازک ادا جیسے کلائی حُور کی
اس قدر شفاف جیسے قاش ہو بِلُّور کی
نُورِ پیغامِ مسرّت ہر کرن سے ضَوفشاں
مطلعِ انوارِ عشرت ہیں زمین و آسماں
جس کو دیکھو آج اسی کو اشتیاقِ دید ہے
کوئی البیلی دُلھن ہے یا ہلالِ عید ہے
شکیب جلالی