پَو پھٹے جب مَوج میں آئے گی دھوپ
ہر روش پر گُل کتر جائے گی دھوپ
صُبح ہونے کی اَسیرو دیر ہے!
روزنِ زنداں میں در آئے گی دھوپ
سر بہ خم ہو جائیں گے اصنامِ شب،
چڑھتے سُورج کی خبر لائے گی دھوپ
کُہر میں لپٹے ہوئے اجسام پر
ایک زرّیں شال بُن جائے گی دھوپ
اُونگھتی تَنہائیوں کے کان میں
نغمگی کا شہد ٹپکائے گی دھوپ
تا بہ کَے اختر شماری، اے شکیبؔ
بُجھتے تاروں کو نگل جائے گی دھوپ
شکیب جلالی