دھیرے دھیرے گررہی تھیں نخلِ شب سے چاندنی کی پتّیاں
بہتے بہتے اَبر کا ٹکڑا کہیں سے آگیا تھا درمیاں
مِلتے مِلتے رہ گئی تھیں مخملیں سبزے پہ دو پرچھائیاں
جس طرح سپنے کے جُھولے سے کوئی اندھے کنویں میں جاگرے
ناگہاں کَجلا گئے تھے شرمگیں آنکھوں کے نُورانی دِیے
جس طرح شورِ جَرَس سے کوئی واماندہ مسافر چونک اُٹھے
یک بیک گھبرا کے وہ نکلی تھی میرے بازوؤں کی قید سے
لب سُلگتے رہ گئے تھے ‘ چِھن گیا تھا جام بھی
اور میری بے بسی پر ہنس پڑی تھی چاندنی
آج تک احساس کی چلمن سے الجھا ہے یہ مبہم سا سوال
اُس نے آخر کیوں بُنا تھا بہکی نظروں سے حَسیں چاہت کا جال؟
شکیب جلالی