کیوں میرے دردِ دل کا مُداوا کرے کوئی

وعدوں کو اپنے کس لیے ایفا کرے کوئی
کیوں میرے دردِ دل کا مُداوا کرے کوئی
کس طرح ان کے جَور کا شِکوہ کرے کوئی
توہینِ عشق کیسے گوارا کرے کوئی
پہلو ہزار عیش کے نکلیں گے رنج میں
یہ شرط ہے کہ رنج گوارا کرے کوئی
اے چشمِ شوق یاد بھی ہے داستانِ طُور
جلووں کا ان سے کیسے تقاضا کرے کوئی
اپنی حدوں سے آج گزرتا ہے ذوقِ دید
اب ہو سکے، شکیبؔ، تو پروا کرے کوئی
شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s